27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Feb 2023 Download:Click Here Views: 34765 Downloads: 1269

(12)-فرزندانِ اشرفیہ بحیثیت مدیران

صدر الاسلام مصباحی (ایم اے)

مالک کا ئنات عزوجل کا فرمان عالیشان ہے، ان الدين عند الله الإسلام، خدا کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہے۔ اسی لیے  اس نے اس کی تبلیغ و اشاعت کے لیے  بے شمار پیغمبروں کو دنیا میں مبعوث فرمایا اور ہر ایک نے اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔ ان میں سب سے آخری پیغمبر اور زمین پر خدا کے سب سے بڑےنائب خلیفہ محمد رسول اللہ ﷺ ہیں جنھوں نے اپنی تبلیغی سرگرمیوں سے اسلام کی تبلیغ کی۔ اور قرآن نے آپ کے تعلق سے اعلان فرمایا کہ ” مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ “

اللہ تعالی نے آپ کو ختم نبوت کے منصب پر فائز کیا۔ نبی آخر الز ماںﷺ نے فرمایا،” العلماء ورثة الأنبياء“ ۔لہذاامت محمدیہ کے علما ہی آخری رسول ﷺ کے علمی وارث ٹھہرے۔

حقیقی وراثت کا فلسفہ یہ ہے کہ وارث جس بنا پر وراثت کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے، اس کے تقاضوں کو پورا کرے۔ حقائق اور پیغامات کا ارسال و ترسیل یوں ہی مذہبی اصول و فروع اور شرعی دستور و قوانین کی وضاحت، اور ان کی درست تعبیر و تشریح کی ترویج و اشاعت بھی ان تقاضوں میں شامل ہے اور مذہبی رسائل و جرائد اور دیگر ابلاغی یا ترسیلی اسباب و وسائل کو مذہبی ،شرعی ، قومی و ملی اور دیگر اہم دینی و دنیوی مسائل کے لیے  استعمال کرنے والے حضرات کو خاص اصطلاح میں ”صحافی“ کہتے ہیں۔ آئندہ ہم خاص ادارتی نقطۂ نظر سے گفتگو کریں گے کیوں کہ ہماری گفتگو کا محور”فرزندان اشرفيه بحيثيت مدير“ جونہایت ہی جامعیت کا متقاضی ہے، تا ہم مرادتک رسائی کے لیے  ہمیں چند تدریجی مراحل سے گزرنا ہوگا۔

میدان صحافت میں فرزندان اشرافیہ نے متعدد رسائل و مجلّات اور اخبار کے ذریعہ ہردور میں نمایاں خدمات انجام دیں ۔ فرزندان اشرفی کی ادارت میں نکلنے والے چند رسائل میگزین اور اخبار درج ذیل ہیں:

(۱)- ماہنامہ اسلام بنارس۔ مولانا قاری محمد عثمانی مصباحی۔

(۲)- پندرہ روز و جام کوثر کلکتہ، ماہنامہ جام نور کلکتہ، ماہنامہ رفاقت پٹنہ۔ علامہ ارشدالقادری مصباحی

(۳)- ماہنانہ فیض الرسول براؤں شریف ،مولانا صابر القادری نسیم بستوی مصباحی ، مولانا محمد احمد مصباحی مبارک پوری۔

 (۴)- ماہنامه المیزان ممبئی ۔ مولانا سید محمد جیلانی اشرفی مصباحی کچھوچھوی۔

(۵)- ماہنامہ نمائندہ الٰہ آباد۔ مولانا سید شمیم گوہرمصباحی ۔

(6) ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور ۔مولانا بدرالقادری ، مولانا سید شمیم گوہر مصباحی، مولانا قاری محمد یحییٰ اعظمی، مولانا عبد المبین نعمانی، مولانا مبارک حسین مصباحی۔

 (۷)- ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی ۔مولا نا نسیم بستوی مصباحی۔

 (۸)- پندرہ روز ہ شان ملت پٹنہ۔ قاری محمد عثمان اعظمی مصباحی۔

(۹)- پندرہ روز ہ ریاض عقیدت کونچ ، جالون - مولانا اسلم بستوی مصباحی۔

(۱۰)- سالنامه المصباح مبارک پور۔ مولانا سید اصغر امام قادری مصباحی۔

(11)- سہ ماہی احساسات سکٹھی مبارک پور۔ مولانا محمد احمد مصباحی مبارک پوری۔

(۱۲)- ماہنامہ رضائے مصطفی بریلی۔ مولانا محمد حنیف خاں رضوی مصباحی۔

 (۱۳)- ماہنامہ جامِ شہود،کلکتہ۔ مولانا سید رکن الد ین اصدق۔

(۱۴)- ماہنامہ سنی آواز، ناگ پور۔مولانا محمد حسینی مصباحی۔

(۱۵)- وائس آف اسلام ،۔مولانا بدرالقادری ، ہالینڈ ۔

 (16) -حجاز ، لندن ۔ مولانا قمر الز ماں اعظمی۔

 (17)- حجاز جدید، دہلی۔ مولانا یٰسین اختر مصبا حی۔

(۱۸)- ماہنامہ کنز الایمان دہلی ۔ مولانا یٰسین اختر مصبا حی۔

(۱۹)- ماہنامہ ملت کا ترجمان جام نور، دہلی ۔ خوشتر نورانی

(۲۰)- ماہ نور دہلی۔ مولانا قمراشرفی مصباحی، مولانانیاز احمد مصباحی  ، مولانا افضل مصباحی ۔

(۲۱)- اردو روزنامہ راشٹریہ سہارا ، دہلی ۔ مولانا افضل مصباحی ( نائب مدیر )۔

 (۲۲) سہ ماہی امجدیہ مولانا فیضان مصطفیٰ مصباحی  ، مولا نا ممتاز مصباحی ۔

 (۲۳)- سہ ماہی پیام نظامی ۔ مولانا ذکی اللہ مصباحی ( نائب مدیر)

(۲۴)-ہفت روزہ مسلم ٹائمز۔ مولانا مقبول احمد مصباحی ممبئی۔

(۲۵)-ماہ نامہ سیارگان۔ مولانا غلام جابر شمس مصباحی، ممبئی۔

(۲۶)سنی دعوت اسلامی۔ مولانا زبیر احمد مصباحی ممبئی۔

(۲۷)-ضیاء الحبیب  ، اڑیسہ۔ مولانا محمد حنیف مصباحی

(۲۸)-ماہ نامہ اہلِ سنت، جمدا شاہی۔ مولانا فروغ احمد اعظمی مصباحی

چند اہم فرزندان اشرفیہ کی ادارت پر ایک جائزہ:

علامہ ارشد القادری مصباحی:

 علامہ ارشد القادری کی کثیر الجہات شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ، وہ ایک بلند پایہ مصنف کے ساتھ ایک کا میا ب صحافی بھی تھے۔ آپ کا صحافتی شعور پختہ تھا۔ آپ ایک ذمہ دار صحافی کی حیثیت سے ایک عرصے تک مذہبی اور سماجی صحافتی خدمات انجام دیتے رہے۔ آپ کی ادارت میں درج ذیل رسالے شائع ہوئے۔

(1) جام کوثر ( پندرہ روزہ کلکتہ)، (۲) جام نور (ماہنامہ ) کلکتہ (۳) شان ملت ( پندرہ روزہ ، پٹنہ) (۴) رفاقت ( ماہنامہ ) پٹنہ۔

”جام نو رکلکتہ“ کوفکر اسلامی کا ترجمان بنانے کی سمت میں آپ نے جدید ذہن وفکر اور عوامی طبیعتوں کے تقاضوں کا بہت لحاظ رکھا ۔ چنانچہ آپ نے ”جام نور“ میں بزبان حکایت ایک خوبصورت کالم کا سلسلہ شروع کیا۔ جس کے بعد اس کی بڑی مقبولیت و پزیرائی ہوئی۔ اس عہد کے بزرگوں کا بیان ہے کہ وہ اس کالم کو پڑھ کر رونے لگتے اور بعض اوقات تو پھوٹ پھوٹ کر روتے۔آپ نے اس کالم سے مسلمانوں کے قلبی تصفیہ کا جو عملی کام کیا اور اپنے اسلاف سے ان کے سینے میں جوعقیدت ڈال دی اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

ہندوستان میں فکری انقلاب پیدا کرنے والوں کی فہرست میں آپ کا نام نمایاں ہے۔ آپ  نے ذہنوں کی تطہیر اور ان کی تربیت وتہذیب میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا خوبصورت مظاہرہ فرمایا۔ جام کوثر ، جام نور، اور رفاقت کی ادارت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ نے اپنے قلم کو فکر اسلام کی اشاعت میں مصروف رکھا۔ مسلمانوں کے ذہنوں کی تعمیر وترقی کے لیے  آپ نے قلم کا مستقل استعمال کیا۔

جام نور کی رگوں میں خون فراہم کرنے میں علامہ ارشد القادری نے جو قربانیاں دی ہیں وہ یقیناً ان کی بے لوث اور مخلصانہ جد و جہد کا آئینہ ہیں ۔ جام نور کے ذریعہ آپ نے جہاں دوسرے مسائل پر قلم اٹھایا وہیں اردو زبان و ادب میں اپنی بات مخالفین سے اچھی طرح کہنے کی تحریک چلائی ۔ آپ نے مسلمانوں کے اندر اسلامی فکر بیدار کرنے کے لیے  اپنی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ آپ نے مسلم سماج کے سلگتے ہوئے مسائل کو بھی اپنا موضوع سخن بنایا اور ان موضوعات پر جو کچھ بھی لکھا اس کو اپنے اعتبار سے بھر پور نبھانے کی کوشش کی۔

علامہ یٰسین اختر مصباحی:موجودہ علماے اہل سنت اور قائدین ملت کے درمیان ایک اعتدال پر ست متوازن فکر صحافی ومفکر علامہ یٰسین اختر مصباحی کا نام میدان صحافت میں محتاج تعارف نہیں ہے۔ بلند فکری ، سنجیدہ مزاجی، مسلم مسائل سے باخبری اور ہر ممکن عملی پیش رفت وغیرہ یہ آپ کی شخصیت کے خاص اوصاف ہیں ۔ دشمنان اسلام کے اعتراضات کی جواب دہی ، اور جماعتی مسائل میں دردمندی، یہ چیز یں ان کی زندگی کا ایک مکمل باب ہیں۔

آپ مسلمانوں کے عالمی وملکی مسائل پر نظررکھنے والے حساس اور مستقبل شناس صحافی ہیں۔ آپ نے اپنے فکرو قلم سے امت مسلمہ میں نئی نسل کی ذہنی و شعوری تربیت کا انقلابی کارنامہ انجام دیا ہے۔ سیاست و صحافت، سیرت وسوانح اور ملت وسماج کی رہنمائی سے متعلق آپ کے مقالات و مضامین متعدد ماہ ناموں اور اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں۔

آپ نے اپنی ادارت کے ذریعہ اہل سنت کے تعارف و فروغ میں بھی اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔

۱۹۸۸ء میں آپ نے ہندوستان کی راج دھانی دہلی سے ماہنامہ ”حجاز جدید“ نکالنا شروع کیا جو مسلکی مسائل پر فکر انگیز مضامین شائع کرتا رہا، اس کے ساتھ دین و سنیت کے فروغ میں بھی اس کا کردار اہم ہے ۔بعد میں حضرت مولانا کو نامساعد حالات پیش آنے کے سبب یہ رسالہ بند کرنا پڑا۔ یہ رسالہ اپنے وقت میں بڑا معیاری تسلیم کیا جاتا تھا، اس کے بند ہوجانے سے اہل علم اور قارئین کو بے حد افسوس ہوا، درمیان میں کچھ سالوں کے خلا کے بعد ماہنامہ ”کنز الایمان“ دہلی کے مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے اسلامی صحافت کی نمائندگی فرمارہے ہیں ۔ ان کے اداریے میں دین و مذہب ، علم و ادب ، ثقافت و سیاست اور مذہبی صحافت کے ابھرتے ہوئے مسائل کا تجزیہ ہوتا ہے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والے اعتراضات کے اطمینان بخش جوابات اور مسلمانوں کے درپیش سماجی، سیاس، ملی اور تعلیمی مسائل کی نشاندہی قابل مطالعہ اور فکر انگیز ہوتی ہے اور اس قسم کے دوسرے موضوعات پر آپ کی تحریریں کچھ غیر مسلم سیکولر ازم مخالف شر پسند عناصر جیسے و شو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور آر ایس ایس کی طرف سے ملک وملت کے لیے  اٹھنے والے خطرات کی نشان دہی بھی وقتاً فوقتاًکرتے رہتے ہیں، آپ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپ نے علماے اہل سنت کی فکری اور تنظیمی صلاحیتوں کو بیدار کیا اور نئی نسل کے اند رتحریر و صحافت کا شوق پیدا کیا اور اس کی آبیاری کے لیے دارالقلم کی بنیاد ڈالی۔

حجاز جد ید میں شائع چند اداریوں کے عناوین:

(۱) مسلم قیادت کے لیے  لمحۂ فکریہ (۲) جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی (۳) تحریک خلافت سے تحر یک بابری مسجد تک (۴) ہندوستانی سیاست وصحافت پر ایک نظر (۵) بدایوں سے بھاگل پور (۶) یونیفارم سول کوڈ کی تیاری (۷) تحفظ بابری مسجد کی سرگرم جدو جہد (۸) سومنات سے اجودھیا تک(9) اجودھیا عبادت بل کا خیر مقدم

ان کے منتخب فکر انگیز اداریے جنہوں نے ماہنامہ ”کنزالایمان“ کوز ینت بخشی (ایک طائرانہ نظر):

(1) اسلام کے خلاف بین الاقوامی دہشت گردی(۲) بابری مسجد کے ڈھانچے اور ملبہ پر رقص ابلیس(۳) وحید الدین خاں اور بندے ماترم(2) عالم اسلام پر امریکی و برطانوی یلغار(۵) جن سنگھ سے بھاجپا تک(۶) عربی مدارس پرسنگھ پریوار کاشب خون(۷) مسلم قیادت کے لیے  دور کا آغاز(8) ملی اور سیاسی مسائل میں اعتدال کی راہ(9) وزارتی گروپ کی رپورٹ اور مدارس اسلامیہ(۱۰) قرآن اور جہاد کے خلاف شر انگیز مہم (۱۱) آزادی کے بعد مسلم سیاسی رجحان اور مسلم قیادت۔

آپ کے اداریوں کی اہم خصوصیات میں سے یہ ہے کہ وہ حالات حاضرہ کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کا لب ولہجہ کافی متوازن اور سنجیدہ ہے۔

مولا نا مبارک حسین مصباحی:مولا نا مبارک حسین مصباحی  اہل سنت کے متحرک و فعال عالم دین ہیں ، متانت فکر اور لطافت ذوق سے مزین ہیں ، اہل سنت کی قابل افتخار مرکزی درس گاہ الجامعۃ الاشرفیہ کے مدرس ہونے کے بعد طویل عرصے سے مشہور دینی و علمی رسالہ ماہنامہ اشرفیہ کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ آپ ایک حساس سنجیدہ قلم کار ہیں جن کے خیالات صالح اور تعمیری ہیں۔ اپنی دیگر مصروفیت کے باوجود منصب ادارت کے فرائض بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں ۔ ان کے دور ادارت میں کئی  اہم نمبر نکل چکے ہیں ۔ جن کی مختصر فہرست اس طرح ہے:

صدرالشریعہ نمبر 1985ء، پیغمبر اعظم نمبر ۱۹۹۲ء، انوار حافظ ملت نمبر 1992 ، تعلیمی کنونشن نمبر 1996، سلطان الہند غریب نواز نمبر 1998، جشن شارح بخاری نمبر 2000، فقیہ اعظم ہند تمبر 2000، انھوں نے کچھ خصوصی شمارے بھی نکالے جیسے سید العلما اور احسن العلما کی حیات و خدمات پر مشتمل ” سیدین نمبر“جو ۱۳۳۲ صفحات پرمشتمل ہے ۔

چند اہم اداریے جو کتابی شکل میں بھی شائع ہوئے :

(1) افتراق بین المسلمین کے اسباب(۲) جادۂ حق وصداقت (۳) برصغیر میں افتراق بین مسلمین کا آغاز وارتقا (۴) بگڑتے حال بدلتے چہرے(۵) وحید الدین خاں سے دو باتیں۔

یہ پانچوں اداریے حذف و اضافے کے بعد یکجا بنا ”بر صغیر میں افتراق بین المسلمین کے اسباب“ کتابی صورت میں شائع ہوئے ، اب تک پانچ ایڈیشن انڈیا سے اور چار ایڈیشن مرکزی مجلس رضا لاہور پاکستان سے شائع ہو کر مفت تقسیم ہوئے۔

 ان اداریوں کے ذریعہ انھوں نے قارئین اشرفیہ کے لیے  افتراق بین مسلمین کا ایک منصفانه تاریخی جائزہ پیش کیا۔ اس کی ابتدا اور ارتقا پر روشنی ڈالی ، حق و باطل کے درمیان پورے استدلال کے ساتھ خط امتیاز پیدا کرنے کی اچھی کوشش کی۔ مولانا وحید الدین خان کے پراسرار بظاہر معقول نظریہ کا پردہ فاش کیا،نظریاتی جنگ کے بھیانک نتائج سے قارئین کو آگاہ کیا۔ ۴۸۰ صفحات پر مشتمل یہ وقیع  کتاب ”شہرِ خموشاں کے چراغ“ ہے ۔ اس میں قرین پچاس شخصیات کے وصال کے غم زدہ مواقع پر تعزیتی تحریریں ہیں۔ ان میں کچھ مختصر اور کچھ طویل نگارشات ہیں، زبان و بیان میں بھی منفرد انداز ہے۔ آپ کی ادارت میں ماہنامہ اشرفیہ کا معیار مزید بلند ہوتا جارہا ہے، طباعت، ڈیزائنگ اور کمپوزنگ میں بھی نکھار آیاہے، اسی کے ساتھ مضامین میں بھی تنوع ہے، مذہبی رسالوں میں اس کا اپنا منفرد مقام ہے۔ گو کہ اس میں عموماً مذہبی موضوعات ہی اٹھائے جاتے ہیں لیکن حسب ضرورت سیاسی ، سماجی اور ملی مسائل پر بھی گفتگو کی جاتی ہے۔

فرزندان اشرفی کی نئی نسل کی ادارتی سرگرمیاں:

یہ زمینی حقیقت ہے کہ کام کام کو سکھاتا ہے اور طبعی صلاحیت دوسروں کو اپنامحتاج بناتی ہے، نیز بتدریج عملی مراحل بڑے اہم مراتب کے ضامن ہوا کرتے ہیں، اس حقیقت سے میل کھاتی ان نوجوان فرزندان اشرافیہ کی نوجوان ادارتی سرگرمیاں بھی ہیں جو ان دنوں مختلف ماہناموں اور سہ ماہیوں یا اخبارات میں ادارتی تعاون کا فریضہ اس طرح انجام دے رہے ہیں کہ آئندہ ان کے تعاون لینے کے مواقع بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

مولاناا فضل مصباحی: ہماری جماعت میں ایک نمایاں نام مولانا افضل حسین مصباحی  کا ہے۔ ۱۹۹۷ء میں امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد انہوں نے دہلی کا رخ کیا اور اولاً جامعہ حضرت نظام الدین اولیا کا دو سالہ تخصص کا کورس مکمل کر کے عصری تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے بعد دیلی یونیورسٹی سے ایم اے اور ایم فل کیا۔

افضل مصباحی  صاحب نے ایشیا کی عظیم یونیورسٹی جے این یو سے صحافت کا کورس”ایڈوانس ڈپلومہ ان ماس میڈیا“ کیا ، یہ پہلے مصباحی  ہیں جنھوں نے با ضابطہ عصری تعلیمی ادارے سے صحافت کا کورس کر کے میدان صحافت میں قدم رکھا۔ کسی مذہبی رسالے کا مدیر ہونا نسبتاً آسان ہے لیکن یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ کا مقابلہ کر کے کسی اخبار میں ایک صحافی کی حیثیت سے جگہ پانا انتہائی مشکل ہے۔

آپ پہلے مصباحی ہیں جو شمالی ہندوستان کے معروف ترین اردو اخبار روز نامہ راشٹریہ سہارا میں نائب مدیر (Sub Editor) کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں ۔ اس سے قبل یہی کہا جا تا تھا کہ اخبارات میں اپنے حضرات نظر نہیں آتے لیکن افضل مصباحی  نے اس جمود کو توڑا اور اخبار میں سب ایڈیٹرکی حیثیت سے جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کی۔

اس درمیان میں انھوں نے چھوٹی بڑی تمام ذمہ داریوں کو پورا کیا ۔ ایک زمانے تک ”آئینۂ عالم“ بین الاقوامی صفحہ کے انچارج رہے اور کچھ دونوں ادارتی صفحہ کا کا م بھی سنبھالا۔ اس کے علا وہ قومی ، بین الاقوامی کھیل کود اور دیگر تمام طرح کے امور کو انجام دیا ۔ مذہبی معاملے پر بھی انہوں نے اخبار کے دفتر میں اہم کام کیے۔ اعلیٰ حضرت نمبر، خواجہ غریب نوازنمبر، عید میلادالنبی نمبر وغیرہ نکالنے میں ان کا اہم رول رہا ہے۔

روزنامہ راشٹریہ سہارا کی اہم خصوصیت اس کا ہفتے میں ایک مرتبہ شائع ہونے والا ”دستاویز“ ہے جس میں قومی سطح پر پیدا شدہ مسائل میں اہم ترین موضوع ہوتا ہے اس پر خصوصی شمارہ شائع کیا جاتا ہے۔ چنانچه افضل مصباحی  صاحب اس کے مسلسل دوسال تک انچارج رہے ہیں۔ اس درمیان جتنے بھی شمارے شائع ہوئے اس میں شائع موادکی ادارت کا کام آپ ہی نے انجام دیا ہے۔

دستاویز کے ۱۵۰سے زاید شماروں میں ان کے اداریے شائع ہو چکے ہیں ۔ اس مدت میں انھوں نے تقریباً ہر میدان کے ماہرین سے خصوصی انٹرویو بھی لیا جو اپنے آپ میں ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے مختلف دینی و عصری موضوعات پر متعدد مضامین بھی قلم بند فرمائے۔

صحافت ہی کے موضوع پر انہوں نے ایک بڑا کام ایم فل کا مقالہ لکھ کر کے انجام دیا، ان کے ایم فل کے مقالے کا موضوع ہے اکیسویں صدی کے سیا سی ،سماجی اور تہذیبی صورتِ حال کا جائزہ روز نامہ راشٹریہ سہارا کے حوالے سے“ اس مقالے کا جب میں نے مطالعہ کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ اس میں صحافت کے موضوع پر وافر مواد موجود ہیں ۔ ان کا یہ مقالہ اکیسویں صدی کے ابتدائی تین برسوں کی مختصر تاریخ بھی ہے جس میں انھوں نے اپنے مقالے میں تقریباً ۲۰ صفحات پر مشتمل اخباری صحافت کی اہمیت و افادیت پر سیر حاصل بحث اور گفتگو کی ہے۔ امید کہ ان کا مقالہ عنقریب کتابی شکل میں شائع ہو کر اردو میں صحافت کے موضوع پر کتابوں کی قلت کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہو۔

۲۰۰۰ء سے 2006ءکےدرمیان سیاسی،سماجی اور تہذیبی موضوعات پر درجنوں مضامین تحریر کیے جو حالات حاضر کوسمجھنے میں کسی حد تک معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔

یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ موصوف صحافت ہی کے موضوع پر دہلی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کررہے ہیں ،موضوع ہے” آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو صحافت“۔موصوف نے مذہبی رسالہ ماہ نور کی ادارت کا بھی کام سنبھال لیا ہے حالیہ (مئی) شمارے میں ان کا مہمان اداریہ بھی مذکورہ رسالے میں شائع ہوا جس میں انھوں نے گجرات میں درگاہ کی شہادت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

موصوف ہماری جماعت میں انفرادی حیثیت کے حامل ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اسی طرح کچھ مصباحی برادران آگے آئیں تا کہ عصری روز ناموں میں ہماری نمائندگی ہو سکے۔

محمد ذیشان احمد مصباحی:مولانا ذیشان احمد مصباحی بھی ان نوجوان مصباحیوں میں شامل ہیں جوں ہی صحافت میں اپنی قلمی شراکت کا کام کر رہے ہیں ، یہ صوبہ بہار کے ضلع مغربی چمپارن سے تعلق رکھتے ہیں ،۲۰۰۴، جولائی میں جامعہ اشرفیہ سے فراغت ہوئی ، ز مانۂ طالب علمی سے ہی ان کے مضامین متعدد مذہبی رسالوں میں چھپتے تھے مگر فراغت کے بعد نومبر ۲۰۰۴ء میں ماہنامہ’’جام نور دہلی کے معاون مدیر کی ذمہ داریاں آپ نے سنبھال لیں ۔ آپ کے مزاج کے مطابق آپ کو قلمی پلیٹ فارم بھی مل گیا۔

آپ کی ابتدائی مدت ادرات آئندہ اکتوبر میں مکمل دو سال ہو جائے گی۔ اس عرصے میں ماہنامہ کا کوئی ایسا شمارہ نہیں گزرا جس میں کوئی آپ کا قابل قدر اور لائق مطالعہ مضمون شاملِ اشاعت نہ ہوا ہو۔ اکثر آپ حالات حاضرہ پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔

غلام مدثر رضوی مصباحی:یہ ۲۰۰۴ء جولائی میں جامعہ اشرفیہ سے فراغت کے بعد جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء دہلی میں زیرتعلیم ہیں ۔ انھوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیتی عمل کے طور پر ابتدا سے ہی ماہنامہ ماہ نور کے معاون مدیر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا۔ ابتدا میں ماہ نور کے مستقل کالم ”کون ہیں کیا ہیں“کے مستقل کالم نگار تھے۔ تاحال وہ اس کے معاون مدیر ہیں۔عام طور سے نہیں بلکہ آپ کے تقریبا سبھی مضامین تحقیقی اور پر مواد ہوتے ہیں ، حوالہ جات، اقتباسات اور شواہدات سے مزین ہوا کرتے ہیں۔

مولانا نیاز احمد مصباحی :مولا نیاز احمد مصباحی  ۲۰۰۴ء، جولائی میں جامعہ اشرفیہ سے فراغت کے بعد دار التصنيف والتاليف المجمع الاسلامی“زیر تربیت رہے، پھر 2006ء میں ماہنامہ ماہ نور کے نائب مدیر کی حیثیت سے مقرر ہوئے ۔ تاحال وہ اسی عہدے پر فائز ہیں، اب تک اچھا تجربہ ہو چکا ہے قلم اور فکر دونوں نوجوان ہیں، اس لیے  باتیں بھی نئی نئی ہی نکلتی ہیں، ہر ماہ مخصوص موضوع کے تحت جوخاص کالم ہے اس میں ان کا کوئی نہ کوئی اچھا مضمون ضرور چھپتا ہے۔

مولانا ذکی اللہ مصباحی: ان کا تعلق صوبہ جھارکھنڈ کے ضلع ہزاری باغ سے ہے ۲0۰۰ء میں الجامعة الاشرفیہ مبارک پور سے فارغ ہوئے اس کے بعد درجۂ تخصص فی الادب والدعوه جامعہ حضرت نظام الدین اولیا  دہلی سے مکمل کرنے کے بعداب مذکورہ مدرسے میں ہی تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ان کا شمارنو جوان قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ متعدد رسائل و مجلّات سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ ”سہ ماہی پیام نظامی‘‘ لہر ولی سنت کبیر نگر کے نائب مدیر ہیں ۔ اور عربی اخبارات کے تراجم

 ماہنامہ جام نور، ماہنامہ ماہ نور“ دہلی کو مسلسل نوازتے آرہے ہیں ۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا میں ان کے شائع شدہ مضامین کی ایک لمبی فہرست ہے۔ تنقیدی مزاج رکھنے کے ساتھ ساتھ وقت کے تقاضوں اور ملّی ضرورتوں کا پاس ولحاظ کرتے ہوئے اپنے آراء کا اظہار کرتے ہیں۔

اپنی بات:یہاں پر جو کچھ لکھا گیا ہے فضلاے اشرفیہ کی ادارتی خدمات کی ایک مدھ سی جھلک ہے، سچائی یہ ہے کہ ہم نے اپنے موضوع کا کما حقہ حق ادا نہیں کیا ہے۔ اپنی مصروفیتوں کے ہجوم میں بھی جو بن پڑا عاجلانہ قلم بند کر دیا جس سے بہر حال فضلاے اشرفیہ کی صحافتی خدمات پر روشنی پڑتی ہے لیکن اب تک موجودہ رسالے یا میگزین کے حوالے سے ہماری جماعت میں جو کام ہوا ہے وہ دینی سطح تک محدود ہے ۔ لیکن اب تقاضاے زمانہ کا لحاظ کرتے ہوئے اگر دیکھا جائے توفی الوقت ہمیں ہر میدان میں قدم رکھنے کی ضرورت ہے خواہ وہ مذہبی ہو یا سیاسی، سماجی ہو یا معاشرتی ملکی ہو یا ملی۔ لہٰذا فرزندان اشرفیہ سے بالخصوص اور جملہ مسلمانوں سے بالعموم یہ گذارش ہے کہ وہ سائنس وٹیکنالوجی ، تعلیم، سیاست، سماج، تجارت،اقتصادیت اور خارجہ پالیسی ہر میدان میں اپنے آرا اور خیالات کی اشاعت کرائیں۔ اور اپنی آواز اردو اخبارات کے ساتھ ساتھ ہندی، انگریزی ،عربی ، اخبارات تک بھی پہنچائیں تا کہ بین الاقوامی طور پر ان کی آواز ملک و بیرون ملک  میں ہر چہار جانب ہو سکے

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved