27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia June 2023 Download:Click Here Views: 19769 Downloads: 842

(8)-انگلینڈ کی یونیورسٹیوں میں رضویات اکیڈمک تحقیقات کا مطالعاتی منظر نامہ

ابو الحسن محمد یاسر رضا باندوی

امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی آفاقی شخصیت نہ صرف برصغیر میں اہل حق کی ترجمان ہے بلکہ بیرونی ممالک میں بھی سواد اعظم اہل سنت وجماعت کے علامتی نشان کے طور پر جانی پہچانی جاتی ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ پوری دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ پر متعدد مقالات اکیڈمک سطح پر جمع کر کے،  ایم فل اور پی ایچ ڈی جیسی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کی جاچکی ہیں۔ پچھلے پانچ سال میں زمینی سطح پر سروے کرنے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اس عرصہ میں تحقیقی رجحانات میں کچھ کمی ضرور آئی ہے اور ساتھ ہی اسی عرصہ میں تحقیق کے معیار کو اونچا اُٹھانے کے لیے، برصغیر ہند و پاک نے یو جی سی اور ایچ ای سی کے ذریعہ نئے معیاری اصول بنائے ہیں ، جس کی پابندی اکیڈمک سطح پر ڈگری حاصل کرنے کے لیے لازمی ہوتی ہے ، پھر بھی اس دور پر آشوب میں کچھ جیالے ایسے بھی ہیں جو اس محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں، یعنی ایسا محسوس ہو رہا ہو کہ ان کی منزلِ عشق ، ان کو یہی صدادے رہی ہو کہ :

انہی پتھروں پر چل کر اگر آ سکو تو آؤ

مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

 اس عزم کے مسافر محققین کو اپنے مقالے کا عنوان جمع کرنے اور اسے منظور کرانے کے لیے بھی، بہت ساری دشوار گزار راہوں سے گزرنا پڑتا ہے کیونکہ مذکورہ تقاضوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ عنوان ایسا جمع کریں کہ بالکل تشنہ لب ہو، جس پر پہلے کسی بھی زبان میں کسی بھی جہت پر کام نہ ہوا ہو ۔ جس کے پیش نظر رضویات کے میدان میں ایسا عنوان متعین کرنا ہی جوے شیر نکالنا ہے کیونکہ اس میدان میں کثرت سے پی ایچ ڈی ہو چکی ہیں ۔ پھر اس پر دستخط کروانے کے لیے مصیبت یہ ہے کہ کوئی عدل پسند پروفیسرڈھونڈا جائے کیونکہ امام احمد رضا کی مخالفت اور حسد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جس کی بنیادی وجہ علمی اور مذہبی نہیں بلکہ سراسر فرقہ وارانه و تاجرانہ معلوم ہوتی ہے کہ سب کچھ جان لینے کے بعد بھی ، اس ذہن کے پروفیسر حضرات ،فکر رضا کے حوالے سے، ان گوشوں پر کام نہیں کرنے دیتے، جن کی روشنی کی وجہ سے، ان کے اپنے نام نہاد اکابرین کا چراغ ٹمٹمانے لگے ، یعنی امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے علمی اور قلمی خدمات سے واقفیت ہونے کے باوجود بھی،اس طفلانہ تعصب وعناد والے خوف نے ، ان کی نام نہاد سیکولر کہی جانے والی عقلوں پر ، دبیز پردے ڈال دیے ہیں۔ رقابت اور عصبیت اچھے اچھوں کو بے بصر کر دیتی ہے اور اُس پست سطح پر لے آتی ہے جہاں خود متعصب و عنید اپنے آپ کو اپنے ضمیر کے سامنے نادم وشر م سار محسوس کرتا ہے۔ اور جواہل علم ان کے بہکاوے میں آکر غلط نظریہ بنائے ہوئے ہیں ان سے ہونے والی مصیبتوں کا تو ذکر ہی نہیں :

اک طرف اعداے دیں ایک طرف حاسدیں

بندہ ہے تنہا شہا، تم پہ کروڑوں درود

 ان تمام تر صعوبتوں کے باوجود، ان عزیمت پسند مسافروں کا تحقیقی سفر جاری ہے ۔ اگر کچھ راہ کسی ایک ملک میں ہموار ہوئی بھی ہے تو صرف وہیں رضویات پر ٹھیک ٹھاک کام ہو سکا ہے بقیہ دیگر ملکوں میں ان پریشانیوں کےسبب کم ہی کام ہوا ہے ۔

 متعدد محققین نے راقم سے رابطہ کر کے کنز الایمان ریسرچ ہیلپ ڈیسک کے ذریعہ، قلمی امداد اور دیگر مطبوعہ و غیر مطبوعہ مواد بھی حاصل کیے ہیں اور بعض حضرات نے خود بریلی شریف آ کر ہماری ریسرچ لائبریری کی شیلف میں موجود اکیڈمک تھیسس میں سے، اپنے متعلقہ موضوع کی تھیسس کو پڑھ کر، سکون بھی حاصل کیاہے۔ مگر جب تک ہمارا یہ تعیناتی دائرہ بڑا نہ ہو تب تک ان مسافروں کو ہم سے اس طرح کی معمولی راحت ہی مل سکے گی حق تو ادا تب ہوگا جب، تحقیق کا سفر جاری رکھنے والے ان مسافروں کی راہ عزیمت میں ، اس طرح کی کئی سبیلیں لگی ہوں، جس کے چھاؤں میں وہ جامِ سکون نوش کر سکیں۔ خاص کر مدارس کے طلبہ جوان تقاضوں سے کم واقفیت رکھتے ہیں۔ ان کے لیے الگ سے انتظام ہونا اور ان کا اس کی اہمیت کو سمجھنا بھی اشد ضروری ہے

رضویات کے حوالے سے کراچی کا ادارہ تحقیقات امام احمد رضا بین الاقوامی سطح پر ریسرچ اسکالرز کی جس انداز میں حوصلہ افزائی اور معاونت کر رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بین الاقوامی سطح پر رضویات میں کام کرنے کے لیے پانچ زبانوں اردو، ہندی، عربی ، فارسی اور انگریزی کی انفرادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جن کی مدد سے پانچوں بر اعظموں میں رضویات پر مفید تحقیقات کے ذریعہ اس اکیڈمک رفتار کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ ان پانچوں زبانوں میں رضویات کے موضوع پر سب سے زیادہ کام جس زبان میں ہوا ہے، وہ اُردو ہے، جو برصغیر ہند و پاک میں سب سے زیادہ لکھی پڑھی بولی اور سمجھی جاتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس زبان میں دلچسپی رکھنے والے حضرات کی تعداد برصغیر میں ہی دن بدن کم ہو رہی ہے پھر بیرونی ممالک سے کیاگلہ  کیا جائے ۔ اسی طرح ہندی اور فارسی کا حال ہے جو اپنے اپنے محدود علاقائی سرحدوں میں مقید ہونے کی راہ پر گامزن ہیں لیکن عربی زبان نے وہ مقام حاصل کیا ہے کہ اسلامی ممالک میں آج بھی اہل زبان و قلم کی پسند بنی ہوئی ہے، مگر اس فکر کی ضمن میں انگریزی کو جو مقبولیت بین الاقوامی سطح پر حاصل ہوئی ہے وہ ان سب سے منفر د ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو لیکن سچ یہی ہے کہ انگریزی ایک ایسی واحد آفاقی زبان بن چکی ہے جو پوری دنیا کے عرض وطول میں یکساں مقبولیت کے باعث آج بولی ، پڑھی لکھی اور سمجھی جارہی ہے لہذا ضرورت یہ محسوس ہوتی ہے کہ انگریزی میں بھی کچھ کام رفتار پکڑے۔ جس کے لیے انگریزی زبان کا قدیم ادبی و ثقافتی مرکز کہے جانے والے انگلینڈ کی خشک سال زمین میں رضویات پر کام کچھ ہونا ضروری تھا۔ جس کے لیے انگلینڈ میں رضوی علما و مشائخ نے ، دیگر اکابرین اہل سنت کے ساتھ مل کر، تحریکیں چلائیں،ادارے قائم کیے، مساجد بنوائیں۔ اب اگر باقی تھا تو اکیڈمک کام، وہ بھی یونیورسٹیوں کے اندر اور وہ بھی انگریزی زبان میں ۔ مذکورہ فکر کی ضمن میں یہ علاقہ سنگلاخ اس لیے تھا کہ یہاں ان عصری اداروں میں، نصرانیوں کے بیچ اسلامیات کے نام سے شعبہ جات قائم کرنا، ایک مشکل امر تھا مگر اس راہ میں بھی کوششیں کی گئیں اور قلیل کامیابی بھی حاصل ہوئی۔معلوم ہو کہ یو کے دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کا تعلیمی معیار دنیا میں سب سے اعلیٰ ہے ۔ CEOWORLD میگزین کی حالیہ ۲۰۲۲؛ کے تازہ رپورٹ کے مطابق یو کے کا تعلیمی اشاریہ 78.2 فیصد اور روزگار کے مواقع کے اعتبار سے روزگاری اشاریہ 69.79 فیصد درج کیا گیا ہے۔ جو کہ امریکہ سے بھی زیادہ ہے ،حالانکہ یونیورسٹی رینکنگ کے معاملے میں اس امریکہ کی میسا چسیٹ یونیورسٹی اول بنی ہوئی ہے جبکہ یوکے کی آکسفورڈ اب بھی دوسرے نمبر پر ہے۔ ان تمام علمی و تجزیاتی مقابلوں سے قطع نظر ، اگر رضویات پر انگریزی زبان میں ہو رہے اور ہو چکے اکیڈمک کام کا اجمالی خاکہ، معیار تعلیم کے اشاریہ کوملحوظ رکھتے ہوئے ترتیب وار طریقے سے تیار کریں تو اس طرح کی فہرست وجود میں آئے گی :

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


 

اس فہرست سے بھی یہی معلوم ہو رہا ہے کہ یو کے (امریکہ ) میں واقع نیو یارک کی کولمبیا یو نیورسٹی میں جو اعلیٰ حضرت پر کام ہوا ہے، اس کی معیاری حیثیت ہے ۔ جو اس فہرست میں سب سے ممتاز ہے۔ اس اعتبار سے یہ لگ رہا ہے کہ امریکہ کی مذکورہ دونوں یعنی میسا چسیٹ یونیورسٹی اور کولمبیا یونیورسٹی کا معیار US کی تمام یونیورسٹیوں کے معیار سے اعلیٰ ہے۔ لیکن اگر ان معیاری یونیورسٹیوں کی پوری فہرست پر نظر کریں تو معلوم ہوگا کہ یو کے میں معیاری یونیورسٹیوں کی کل تعداد کافی زیادہ ہے۔ اگر موجودہ یو کے کی سرحدوں کو نظرانداز کر دیں پھر بھی صرف انگلینڈ والے حصے میں اب تک کل ایک سو چھ سے زائد ایسی یو نیورسٹیز موجود ہیں جو معیار کے معاملے میں دنیا کی ممتاز یو نیورسٹیاں ہیں ، جن کا مرکز لندن بنایا گیا اور فقط لندن میں ہی اٹھارہ سے زائد معیاری یونیورسٹی موجود ہیں ۔ مختلف سرکاری و غیر سرکاری تجزیاتی و تجرباتی دستاویزات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں کی یونیورسٹیوں کو ان کے علمی معیار کی بنا پر دنیا بھر کے تمام عصری اداروں پر فوقیت حاصل ہے (US) کے چند اداروں کو چھوڑ کر) ، انہیں تمام مذکورہ وغیر مذکورہ معیار کی قدروں پر کھرا اُترنے اور فکر رضا کی عالمی شناخت کو اکیڈمک سطح پر مزید مضبوط کرنے کے لیے، یہ ضروری ہو گیا تھا کہ رضویات پر تحقیق، دنیا کے ٹاپ اکیڈمک اداروں میں ہو، جس سے یہ موضوع عالمی سطح پر نہ صرف مقبول ہو بلکہ ایک اکیڈمک سبجیکٹ کے طور پر کل عالم میں سرکاری سطح پر بھی متعارف ہو جائے ۔ اسی ضمن میں نیو یارک میں واقع کولمبیا یونیورسٹی سے سال ۱۹۹۰ء میں ڈاکٹر اوشا سانیال کے ذریعہ اس عزم کی شروعات ہوئی، جنہوں نے تاریخ کے شعبے میں با قاعدہ داخلہ لے کر اعلیٰ حضرت پر اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی اور اسی کی بنیاد پر ماہر تاریخ کے طور پر متعارف ہو گئیں۔ کیونکہ یہ کولمبیا یو نیورسٹی تعلیمی رینک میں دنیا کے چھٹے نمبر میں شمار کی جاتی ہے ، اس اعتبار سے رضویات اکیڈمک دنیا کی چھٹی منزل پر تو فائز ہوا، مگر یہ تو US کا علاقہ ہے،جو دنیا کی ٹاپ یونیورسٹیوں کی کثرت کے معاملے میں UK اور اس میں موجود خطہ انگلینڈ سے کچھ پیچھے ہے اس لیے انگلینڈ کے اس بڑے اکیڈمک حلقے میں یہی کام ہونا ضروری تھا۔ جس کے لیے برصغیر ہندو پاک کے اسکالرز نے بہت کوششیں کیں لیکن کچھ کو ہی کامیابی حاصل ہوسکی ۔ راقم نے بذات خود اس منزل کے کچھ محققین سے رابطہ کیا اور رضویات پر بریلی شریف سے آن لائن نشر ہونے والی چوتھی سالانہ پنج لسانی اکیڈمک کا نفرنس میں اپنی اپنی تحقیق کا تعارف پیش کرنے کے لیے مدعو کیا ۔ اس دعوت پر متعدد اسکالرز نے عرس رضوی کے موقع پر بتاریخ ۳  اکتوبر ۲۰۲۱ کو اپنی آن لائن حاضری درج کرائی ۔ ان حضرات میں سے انگلینڈ کی دو الگ الگ یونیورسٹیوں سے منسلک دو اسکالرز بھی موجود تھے ، جن کے عناوین کی اکیڈمک تفصیل پہلے ہی فہرست میں درج کی جا چکی ہے، اس کا نفرنس میں شرکت کر کے ان حضرات نے نہ صرف اپنی جاری تحقیق حالیہ وحاضرہ کا علمی تعارف پیش کیا بلکہ اس کے متعلق چند غیر مطبوعه قلمی نوادرات بھی پیش کیے ، اس مقالے میں انہیں حضرات کی ان تحقیقات کی مختصر منظر کشی کرنے کی کوشش کی ہے:

پہلی تحقیق: ٹائمز آف ہائر ایجوکیشن کے حالیہ ۲۰۲۲ کے سروے کے مطابق انگلینڈ کی لیڈس یونیورسٹی کا نام World University Ranking میں 69 ویں نمبر پر آتا ہے۔ یہاں سے ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والوں کو بعض دیگر اداروں کے، پی ایچ ڈی ڈاکٹرز پر بھی فوقیت دی جاتی ہے۔ اس یونیورسٹی میں محمد علی نعیمی نے ڈاکٹر مصطفی ٰشیخ صاحب کی نگرانی میں، اپنے ایم اے کے مقالے میں ترجمہ کنز الایمان کے متعلق انگریزی زبان میں کام کیا۔ جس میں ان کو شیخ اسرار الحق جیسے عالم کی رہنمائی بھی ملی ۔ معلوم ہو کہ اس انگریزی زبان میں مذکورہ عنوان پر اکیڈمک سطح پر یونیورسٹی میں کوئی خاص کام نہیں ہوا ، ہاں زیادہ تر اُردو زبان میں اس عنوان پر با قاعدہ اکیڈمک مقالے لکھے گئے ہیں ۔ اردو زبان کی مقبولیت و ترجیحات کے پس پردہ ایم اے کے لیے، لیڈس یونیورسٹی انگلینڈ میں جمع کیے گئے اس مقالے کو، بیشتر اردو داں حضرات نے ،صرف اس لیے نہیں پڑھا کہ ان کے گمان میں اُردو کے مختلف مقالے گردش کر رہے تھے ۔ راقم نے بھی اُردوداں کی حیثیت سے یہی سوچا کہ ان کا یہ مقالہ بھی، ڈاکٹر مسعود احمد اور پروفیسر مجید اللہ قادری صاحب کے نکات کا ترجمہ ہی ہوگا۔ یا پھر اس عنوان پر لکھے گئے پروفیسر دلاور صاحب کے مختلف مضامین کی انگریزی میں عکاسی کر کے لکھ دیے گئے ہوں گے ۔ علاوہ ازیں یہ بھی غالب گمان تھا کہ ان مذکورہ محققین کے اردو میں لکھے وہی concept گھما پھرا کر انگریزی میں لکھے گئے ہوں گے ۔ مستزاد یہ کہ ابھی ابھی انگریزی زبان میں اسی عنوان پر دوسری تھیسس پڑھ کر فارغ ہوا تھا، جس کو دارالہدی یونیورسٹی کیرلا کے ہونہار طالب علم احتشام اللہ نے ایم فل مقالے کے طور پر ۲۰۱۹ میں جمع کیا تھا اور اس میں بھی کوئی خاطرخواہ تخلیقی نکات نظر نہیں آئے ۔ جس کی وجہ سے محمد علی نعیمی صاحب کا مذکورہ ایم اے مقالہ پڑھنے کا بھی جی نہیں چاہا۔ جب اہل ذوق سے بہت تعریفیں سنیں تب جا کر دوبارہ اس طرف توجہ مبذول ہوئی ، اور پھر جب پڑھنے کا اتفاق ہواتب جا کر معلوم ہوا کہ میرا گمان فقط گمان تھا، حقیقت نہیں ۔ جس کی وجہ سے فقیر مطلوبہ علمی چاشنی سے کافی وقت تک محروم رہا، اور ساتھ ہی یہ بھی سیکھنے کو ملا کہ ضروری نہیں کہ ہر جام میں مطلوبہ مزہ مل جائے ۔ کتابوں کے جنگل میں بہت مشکل سے ہی مطلوبہ خواہش پوری ہوتی ہے، جس کے لیے ہر کتاب کو محنت سے کھنگالنا ضروری ہوتا ہے ۔ اس مطالعہ میں راقم کو جو بھی نکات نو پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملاوہ درج ذیل ہیں:

تراجم قرآن میں فقط متن کا لفظی ترجمہ پیش کرنے کے بجائے علماے متقدمین و حدیث مبارکہ کی پیش کردہ قرآنی تفاسیر کو ذہن وفکر میں رکھنا ضروری ہوتا ہے اور اس تحقیقی مقالے میں محقق کے پیش کردہ تمام علمی وتخلیقی نکات نو کو پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ترجمہ کنز الایمان میں مترجم مولانا شاہ امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذہن وفکر میں یہ سب نکات بدرجہ اتم موجود تھے جس کا فکری عکس اس ترجمہ میں نمودار ہوا ہے۔

قرآن شریف کا ترجمہ کرنے کے لیے صرف دونوں زبانوں کا جان لینا کافی نہیں بلکہ عشق وادب دونوں کو ملحوظ رکھنا بے حد ضروری ہے تا کہ بارگاہ خدا ورسول میں ذرہ برابر بھی گستاخی کا احتمال نہ ہو۔ اس بات کو انگریزی ادب میں سمجھانے کے لیے محققین نے کنز الایمان اردو سے کیے گئے دیگر انگریزی تراجم جیسے مولانا عاقب فرید قادری وغیر ہم کے تراجم کی مثال دے کر انگریزی داں حضرات کی تشویش کو دور کیا ہے۔

متعدد مقامات پر محقق نے ترجمہ کنز الایمان کے نہ صرف اعلیٰ علمی وادبی مقام کی توثیق کی ہے بلکہ ایسے تخلیقی نکات بھی پیش کیے ہیں کہ ترجمہ کنز الایمان کے منفر دفقہی مقام کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس تھیسس میں تراجم قرآن کا جو تقابلی جائزہ لیا گیا ہے، اس میں جو نئے نکات زیر بحث لائے گئے ہیں، ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جن پر اردو کے محققین نے بہت کم تبصرہ کیا ہے۔

بنا کسی کا نام لیے الیاس گھمن جیسے مختلف مخالفین کا اپنے اکابر علما کے انداز میں رد بلیغ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر مولوی امام علی قاسمی راے پوری کے اعتراض کا رد کرنے کے لیے تاج الشریعہ کی تصنیف ” دفاع کنز الایمان“ کے نکات کو جدید انداز میں پیش کیا ہے ۔ جمیل الرحمٰن کے بے جا اعتراضات کی علمی سرکوبی کے لیے، خاندانِ اعلیٰ حضرت کے ایک فرد نواسہ مفتی اعظم مولانا فواد رضا متعلم مظہر اسلام کے مقالے بعنوان ” انوار کنز الایمان علی جواب جمیل الرحمن“ کے نکات پیش کر دیے ہیں۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ تحقیق کی ابتدا میں Literature Survey کے ذریعہ مضبوط علمی مطالعہ محنت کے ساتھ کیا گیا ہے۔

قرآن شریف کے اردو تراجم کے تقابلی جائزہ پر،انگریزی میں مقالہ لکھنے والے اکیڈمک قلم کاروں پرضرب لگاتے ہوئے ، ان سے سوال کیا ہے کہ انہوں نے کس وجہ سے اپنے مقالوں میں ترجمہ کنز الایمان کا نام تک نہیں لیا اور پھر محقق نے خود ہی واضح کیا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ علمی ومذہبی نہیں بلکہ سراسر فرقہ وارانہ و تعصبانہ ہے۔

دوسری تحقیق :یہ تحقیق بھی مذکورہ محقق ڈاکٹرمحمد علی نعیمی نے اسی لیڈس یونیورسٹی کے اکیڈمک ماحول میں کی۔ جس میں ڈاکٹر مصطفیٰ شیخ کی نگرانی اور شیخ اسرار الحق کی رہنمائی کے علاوہ ہندو پاک کے متعدد مصنفین و مختلف علمی مجالس سے قلمی تعاون اور علمی مواد بھی ملا۔ جس کی بنیاد پر آپ اپنا پی ایچ ڈی مقالہ جمع کرنے میں کامیاب ہوئے اور ابھی حال ہی میں ( فروری ۲۰۲۲ میں ) آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا گیا۔ اس منفرد مقالے میں محقق نے ، نام نہاد مسلمانوں کی، بدعنوانی سے، اختلاف رائے کے ذریعہ انتشار کی کوششوں کی علمی سرکوبی کی ہے۔ محقق نے بھولے بھالے مسلمانوں کے بیچ امام احمد رضا کے تحریری نقوش کے متعلق بد عنوانی اور اختلاف رائے پیدا کرنے والی تمام اکیڈمک سازشوں کا قلعہ قمع کرنے کے مقصد حسنہ کے تحت اس کام کو شروع کیا تھا جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔  موصوف زیادہ تر انہیں عناوین کو زیر بحث لاتے ہیں جو انگریزی زبان کی ضرورت و مقبولیت اور ادبی شناخت کے مطابق تشنہ لب ہیں اور اُمت مسلمہ کو جن کے متعلق گمراہ کرنے کی منظم سازش ہو رہی ہے، جیسا کہ آپ کی پچھلی تحقیق سے واضح ہے اور اس تحقیق میں تونکات اتنے زیادہ نظر آئے کہ ان کو اس مختصر مقالے میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہاں چند ایک نکات جو راقم کو سمجھ آئےیہاں نقل کیے جاتے ہیں:

اس تحقیق میں مقالہ نگار نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ امام احمد رضا کے موقف کو سمجھنے کے لیے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ان کے نظریات کیا تھے اور وہ فتویٰ دیتے وقت کن باتوں کو شامل حال رکھتے تھے اور اُن کے نظریات کا اثر ، برصغیر کے مسلمانوں پر کتنا ہے؟ جس سے امام احمد رضا کے تحریری نقوش کے متعلق، بدعنوانی اور اختلاف راے پیدا کرنے والی تمام اکیڈمک سازشوں کی جڑ پر حملہ ہو۔ امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃاللہ علیہ کے خلاف عالمی سطح پر جاری اکیڈمک پروپیگنڈے کا ایک غیر جانب دارانہ جائزہ لے کر، یہ ثابت کیا ہے کہ برصغیر میں آپ کے نظریہ پر عمل کرنے والے حضرات کا عقیدہ کوئی اپنا ایجاد کردہ نیا عقیدہ نہیں ہے بلکہ سلف صالحین کے ذریعہ پہنچایا گیا، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ واہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین والا عقیدہ ہے۔ بس اس کے افکار و نظریات و معمولات کی تجدید ، امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ، اپنے قلم حق رقم سے اس صدی میں کر دی ہے تا کہ عوام و خواص سب کواستقامت نصیب ہو۔

عالم اسلام کے وہ مماملک جہاں ان اکیڈمک شر پسندوں نے، اہل سنت کے علما و مشائخ کو ، اپنی غلط بیانی و سوچی سمجھی سازش بدعنوانی کے ذریعہ اختلاف راے پیدا کرکے بدظن کرنے کی کوشش کی ہے، وہاں بھی اس تحقیق کو پہنچایا گیا ہے ۔ خاص کر اس تحقیقی مقالے میں موجود ان نکات پر نشان لگا کر، مذکورہ علما کی بارگاہ میں پیش کیے گئے ہیں، جن کے ذریعہ ہر عوام وخواص کا ذہنی انتشار ختم ہو ساتھ ہی مذکورہ سازش پر سے بھی پردہ اُٹھ جائے ۔

امام احمد رضا نے تحقیقی وعلمی دلائل کے ساتھ، اہانت رسول کرنے والوں پر شرعی گرفت کی ہے۔ جو آپ کے جمع کردہ فتاوی حسام الحرمین میں اور آپ کے رسالہ تمہید ایمان میں خاص طور پر درج ہے، جس کو بنیاد بنا کر اس محقق نے اپنے اس پی ایچ ڈی مقالے میں، ان لوگوں کے پرو پیگنڈہ کا رد بلیغ کیا ہے، جنھوں نے صرف تعصب و عناد کی بنیاد پر امام کے ان تحریری نقوش کی غلط تصویر پیش کر کے اپنے گروگھنٹالوں کے اس نا قابل معافی جرم کو چھپانے کے لیے اکیڈمک طور پر اپنی تحریروں میں راہ فرار اختیار کی ہے یعنی موضوع سے ہٹ کر باتیں تحریر کی ہیں۔

عالمی سطح پر امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے مخالفین نے اپنی تقیہ بازی سے عالم اسلام میں بالعموم اور عالم عرب میں بالخصوص، امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف افواہوں کا بازار گرم کر کے جو سازشوں کا جال بنا ہے، اُس کی سرکوبی کے لیے محقق نے اپنی تحقیق میں جن بنیادی باتوں پر زور دیاہے وہ واقعی لائق تحسین ہیں۔

تیسری تحقیق حالیہ ٹائمز آف ایرایجوکشن کے ۲۰۲۲ء کے سروے کے مطابق انگلینڈ کی رائل ہولیوڈ یو نیورسٹی آف لندن کا نام World University Ranking میں 235 ویں نمبر پر آتا ہے۔ یہاں کا اپنا ایک الگ معیار ہے۔ مختلف اداروں سے الگ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے Academic Relations دیگر اداروں کے مقابلے میں زیادہ وسیع ہیں۔ اسی لیے یہاں تعاوناتی وتعیناتی تحقیقی مواقع زیادہ ہیں۔ یہی بات اس یو نیورسٹی کو دیگر سےممتاز کرتی ہے ۔اس یونیورسٹی سے ڈاکٹر یٹ کر رہے جناب ضیغم سرفراز نے اپنے پی ایچ ڈی مقالے کے لیے ایک منفرد المثال موضوع کا انتخاب کیا ہے جو نہ صرف آپ کے شعبہ تاریخ کے اعتبار سے اہم ہے بلکہ رضویات کی ترویج و اشاعت کے مرکزی حصہ کا ایک اہم جز ہے۔ یہ موضوع اتنا اہم ہے کہ آپ کو ایک کے بجائے دو نگران کی سر پرستی میں کام کرنے کا موقع ملا ہے ۔ یہ دونوں نگران حضرات ثقافتی ادب میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ، برصغیر ہند و پاک کی اسلامی تاریخ کے بڑے محقق ہیں۔ یہ تحقیق امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی تجدیدی تحریک کے اُس حصہ پر کی جارہی ہے، جو پاکستان میں فکر رضا کی ترجمانی کرتی ہے اس مقصد کے حصول کے لیے محقق نے امام احمد رضا کے مقامی نائب یعنی محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد رضوی رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ دو مرکزی اداروں یعنی مرکزی دار العلوم جامعہ رضویہ مظہر اسلام اور مرکزی سنی رضوی مسجد کو موضوع بحث بنایا ہے جو کہ آج بھی خانقاہ عالیہ محدث اعظم لائل پور کے ذریعہ فکر رضا کی ترجمانی کر رہے ہیں ۔ علاوہ ازیں برصغیر میں محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے متعد د خلفاء کی خدمات کے ذریعہ نہ صرف ہندو پاک میں بلکہ کل عالم اسلام میں مسلک رضا کی ترویج و اشاعت کا باب بھی اس میں شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ معلوم ہو کہ ابھی یہ تحقیق مکمل ہونے میں چند سال اور لگ جائیں گے ۔ اسی لیے اس کا مکمل مطالعاتی منظر نامہ پیش کر پانا ممکن نہیں ہے مگر پھر بھی راقم الحروف کو محقق سے جو بھی تحریری مواد ملا یا انٹرنیٹ پر جو باتیں ہوئیں یا پھر ہماری آن لائن چوتھی سالانہ اکیڈمک کانفرنس ( بتاریخ ۳ / اکتوبر ۲۰۲۱ ) میں آن لائن حاضر ہو کر محقق نے جو بتایا، اُن تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، مندرجہ ذیل نکاتپیش کیے جاتے ہیں:

موجودہ فیصل آباد المعروف لائل پور اس وقت مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کرنے کی وجہ سے ایک گھنی مسلم آبادی والے اور خوشحال شہر کے طور پر اُبھر رہاتھا، جس کی بنیاد پر اس شہر کی آبادی کا ذریعہ معاش، زراعت سے بدل کر تجارت ہو گیا اور اسی وجہ سے یہ خطہ یہاں کے تجارتی و مذہبی مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ، یہاں امام احمد رضا کی فکر کو فروغ ملا جس سے پورے ملک میں فکر رضا کو روشناس کرنے کا راستہ ہموار ہوا ، انہیں تمام تر وجوہات کے سبب محقق نے اپنی تحقیق کی case study کے لیے اس علاقے کا تعین کیا۔

یہاں کی متعد د مرکزی شخصیتوں کی تربیت اسی فکرکے عالمی مرکز یعنی مرکز اہل سنت بریلی شریف سے ہوئی اور بریلی شریف سے ہی اس علاقے لائل پور کو امام احمد رضا کی فکر کا نائب محمد سردار احمد رحمۃ اللہ علیہ کی شکل میں مل گیا اور ان کی علمی اور عملی کاوشوں سے زمینی سطح پر رضویات کے علم کو پورے ملک میں بلند کیا گیا ۔ انہیں ممتاز وجوہات کی بنا پر محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کاوشوں کو تحقیق کی case study کا علمی موضوع بنا کرکام شروع کیا گیا ہے۔

محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد کے تربیت یافتہ حضرات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جنہوں نے اپنی عملی کاوشوں سے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کی ترجمانی کی ہے، جس کی وجہ سے یہ تلامذہ اپنے اپنے علاقوں میں ممتاز ہوئے ہیں ۔ جو خود میں ایک دائمی تحریک بن کر اُبھرے ہیں ۔ آپ کے تلامذہ کا یہ دائرہ صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ خاص طور پر خاندانِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے متعد د شیوخ ، آپ کی ہی بارگاہ میں زانوئے ادب طے کر کے محقق و محدث کہلائے۔ جن میں ریحان ملت حضرت علامه ریحان رضا خان، امین شریعت حضرت علامہ مولانا مفتی سبطین رضا بریلوی ،صدر العلماء حضرت علامہ تحسین رضا محدث بریلوی رحمہم اللہ کا نام خاص ہے۔ جن کی اپنی ایک الگ مرکزی حیثیت ہے۔ علاوہ ازیں آپ کے عرب خلفا میں خاص طور پر مولانامحمد تیسیر دمشقی مخزومی مدرس جامع مسجددمشق، مولانا محمد علی حماة ملک شام ، مولانا حسین فہمی ترکی وغیرہ نے ، عرب ممالک میں فکر رضا کو مضبوط کیا ۔ انہیں خصوصیات کے پیش نظر اس تحقیق میں فروغ رضویات کے حوالے سے آپ کے تلامذہ کی مرکزی حیثیت پر الگ سے باب قائم کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں محدث اعظم ہند سید محمد کچھو چھوی کے تبلیغی اسفار اور مسلک رضا کی علمی خدمات کی تحریک جو موجودہ ہندوستان کے تناظر میں راقم الحروف کے زیر اہتمام جاری ہے، کو، ضیغم سرفراز صاحب کی اس تحقیق کے ساتھ ملا کرCollaborative Research کے ذریعہ، اجمالی طور پر پورے برصغیر یعنی ہندو پاک کے ضمن میں اس حوالے سے انگریزی زبان میں ایک تاریخی کام کرنے کا منصوبہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس طرح کے تمام تشنه لب و تحقیق طلب موضوعات پر، انگریزی زبان میں مزید کام ہوتا کہ ہمارے پیچھے آنے والے طلبا کے لیے، اکیڈمک را ہیں آسان ہوں ۔ اس راہ میں جو حضرات کام کر رہے ہیں، رب قدیر ان کے کام کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچائے اور جو حضرات کام کر چکے ہیں ان کو اپنے چھوٹوں کی مدد اور رہنمائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب مل کر کام کریں تا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے مزید اسلام و سنیت کی خدمت کا کام لے اور اسی ضمن میں لگ کر اکیڈمک سطح پر رضویات کو بھی متعارف کرانے کی سعادت نصیب ہو جائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved