13 November, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia July 2023 Download:Click Here Views: 61461 Downloads: 1085

(1)-اخلاصِ عمل اور حسنِ نیت

اداریہ

اخلاصِ عمل اور حسنِ نیت

مبارک حسین مصباحی

 

ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی

یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

آج کی نشست میں ہم عمل میں اخلاص اور حسن نیت پر گفتگو کریں گے ، سچائی یہ ہے، مذہبِ اسلام میں اخلاص اور نیت کے حسن کو کلیدی کردار حاصل ہے ۔ مسئلہ صرف فرئض وواجبات کا نہیں بلکہ مستحبات میں بھی اسے امتیازی مقام حاصل ہے۔رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اللہ رب العزت تمہارے جسموں اور  صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ دلوں اور نیتوں کو دیکھتا ہے۔[صحیح مسلم، باب تحریم ظلم المسلم الخ، ج:۱، ص۸۱۱]

آقا کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : انما الاعمال بالنّیات وانما لكل امرء مانوى الخ آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے ہر انسان کے لیے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے ۔ آقائے کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے صحابی حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو یمن بھیجتے وقت ارشاد فرمایا: اخلص دينك يكفيك العمل القليل - اپنے دین میں اخلاص پیدا کرو تمھیں تھوڑا عمل بھی کافی ہوگا۔ [ المستدرک علی الصحیحین  ، كتاب الرقاق، الحدیث 6822 ، ج:۵۔، ص : 435 ]

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص لوگوں میں اپنےعمل کا چرچا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی [ ریا کاری ] لوگوں میں مشہور کر دے گا اور اس کو ذلیل ورسوا کر دے گا ۔

[ شعب الایمان ، باب فی اخلاص العمل للہ...الخ، الحدیث ۶۸۲۲، ج:۵، ص:۳۳۱]

اس تعلق سے آپ یہ آیت کریمہ ملاحظہ فرمائیے:

وقَالَ اللهُ تَعَالىٰ: لَنْ یَّنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلٰڪِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ ڪَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَڪُمْ لِتُڪَبِّرُوا اللهَ عَلٰى مَا ھَدٰڪُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ۝(الحج:۳۷)

اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کےخون ہاں  تمہاری پر ہیز گاری اس تک باریاب ہوتی ہے، یونہی ان کو تمہارے بس میں کردیا کہ تم اللہ کی بڑائی بولواس پر کہ تم کو ہدایت فرمائی۔ اور اے محبوب خوشخبری سناؤنیکی والوں کو۔

عہدِ جاہلیت میں کفار اپنی قربانیوں کے خون سے کعبہ معظمہ کی دیواروں کو آلودہ کرتے اور اس کو تقرب کا سبب جانتے تھے، اس موقع پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔

مندرجہ بالا آیت کی روشنی میں ہم سب کو غور کرنا چاہیے کہ عید قرباں کے موقع پر ہم لوگ جو کروڑوں اور لاکھوں کے جانور خریدتے ہیں ان کا مقصد نمائش اور ریاکاری ہوتا ہے۔ اللہ عز و جل دلوں کا حال جانتا ہے، اس کی بارگاہ میں نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کے خون  ’’ وَ لٰـڪِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْڪُمْ ‘‘[سوره حج:۳۷]ہاں  آپ كا تقویٰ اور پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک  پہنچتی ہے۔

قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

مَنْ ڪَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِیْ حَرْثِهٖۚ-   وَ مَنْ ڪَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِیْبٍ۝ (الشوریٰ:۲۰)

جو آخرت کی کھیتی چاہے ہم اس کے لیے اس کی کھیتی بڑھائیں اور جو دنیا کی کھیتی چاہے ہم اسے اس میں سے کچھ دیں گے اور آخرت میں اُس کا کچھ حصہ نہیں ۔

حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی  علیہ رحمۃ الحنان اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: ( جو آخرت کی کھیتی چاہے ) یعنی اللہ (عز وجل) کی رضا اور جناب مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خوشنودی چاہے ، ریا کے لیے اعمال نہ کرے ( ہم اس کی کھیتی بڑھائیں ) یعنی اسے زیادہ نیکیوں کی تو فیق دیں گے، نیک کام آسان کر دیں گے، اعمال کا ثواب بے حساب بخشیں گے ۔ (اور جو دنیا کی کھیتی چاہے ) کہ محض دنیا کمانے کے لیے نیکیاں کرے ، عزت وجاہ کے لیے عالم، حاجی بنے، غنیمت کے لیے غازی ، (ہم اسے اس میں سے کچھ دیں گے اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں ) کیوں کہ اس نے آخرت کے لیے عمل کیے ہی نہیں، معلوم ہوا کہ ریا کار ثواب سے محروم رہتا ہے مگر شرعاً اس کا عمل درست ہے، ریا کی نماز سے فرض ادا ہو جائے گا مگر ثواب نہ ملے گا ناس لیے فی الآخرۃ کی قید لگائی۔ (نور العرفان، ص ۷۷۳)

محسن انسانیت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے اگر تم میں سے کوئی شخص کسی ایسی سخت چٹان میں کوئی عمل کرے جس کا نہ تو کوئی دروازہ ہو اور نہ ہی روشندان ، تب بھی اس کا عمل ظاہرہو جائے گا اور جو ہونا ہے ہو کر رہے گا۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، مسند ابی سعید خدری، الحدیث : ۱۱۲۳۰، ج ۴، ص۵۷)

آقا کریم ﷺ کے اس فرمان کا واضح مقصد یہ ہے کہ عبادت کتنی بھی خفیہ جگہ کی جائے اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے اور وہ اپنی شانِ کریمی سےظاہر فرما دیتا ہے اور جو لوگ نام و نمود اور ریاکاری اور مکاری کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں رسوا فرما دیتا ہے ، آپ دنیا میں اولیاے کرام کے احوال دیکھیے ان کے مزاروں پر عشاق کی بھیڑ  مسلسل رہتی ہے اور ان کے وسیلے سے زائرین کی مرادیں بھی اللہ تعالیٰ پوری فرما دیتا ہے۔

قرآن پاک میں مخلص مؤمن کی مثال ان الفاظ کے ساتھ دی گئی ہے:

وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ ڪَمَثَلِ جَنَّةٍ ۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُڪُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ  -فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ-      وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۝ (البقرۃ:۲۶۵)

اور ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی رضا چاہنے میں خرچ کرتے ہیں اور اپنے دل جمانے کو اس باغ کی سی ہے جو بھوڑ(ریتیلی زمین) پر ہو اس پر زور کا پانی پڑا تو دُونے میوے لایا پھر اگر زور کا مینھ اسے نہ پہنچے تو اوس کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔

حضرت صدر الا فاضل سید نا مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی خزائن العرفان میں اس کے تحت لکھتے ہیں کہ:

” یہ مؤمن مخلص کے اعمال کی ایک مثال ہے کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین کا باغ ہر حال میں خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو یا زیادہ! ایسے ہی با اخلاص مؤمن کا صدقہ اور انفاق خواہ کم ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا ہے اور وہ تمہاری نیت اور اخلاص کو جانتا ہے۔

انسان کے مخلص ہونے کے تعلق سے اسلافِ کرام رحمہ اللہ تعالیٰ علیہم کے چند اقوال ہیں، ذیل میں ایک ملاحظہ ہوں:

” حضرت سید نا یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے سوال ہوا کہ انسان کب مخلص ہوتا ہے؟ فرمایا: جب شیر خوار بچہ کی طرح اُس کی عادت ہو۔ شیر خوار بچہ کی کوئی تعریف کرے تو اُسے اچھی نہیں لگتی اور مذمت کرے تو اُسے بری نہیں معلوم ہوتی ۔ جس طرح وہ اپنی تعریف و مذمت سے بے پرواہ ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان جب تعریف و مذمت کی پرواہ نہ کرے تو مخلص کہا جاسکتا ہے۔“ (اخلاق الصالحین مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، باب المدینہ کراچی)

امیر المومنین ابو حفص حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے تو جس کی ہجرت اللہ عز وجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہوگی تو اس کی ہجرت اللہ عز وجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ہی کے لیے ہے اور جس کی ہجرت دنیا پانے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہوگی تو اس کی ہجرت اسی کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی ۔ اس حدیث کی صحت پر اتفاق ہے۔

(صحیح بخاری ، باب کیف کان بذء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ج:1،ص:2،رقم:1۔)

حدیث میں ہے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

نية المؤمن خير من عمله رواه البيهقى عن انس والطبراني في الكبير عن سهل بن سعد رضى الله تعالى عنهما -(المعجم الکبیر مرویات سہل الساعدی، حدیث ۵۹۴۲ مطبوعه المكتبة الفيصلية بیروت ۶ / ۱۸۵)

مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے ۔ اسے بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا۔

اب آپ غور فرمائیں کہ نیت کی کتنی بڑی اہمیت ہے۔امام احمد رضا محدث بریلوی نے مسجد جانے کی چالیس نیتیں شمار کرائی ہیں ۔ ہم نےاختصار کے پیش نظر ان نیتوں کو حذف کر دیا ہے ، تفصیل کے لیے دیکھیے فتاویٰ رضویہ مخرجہ ج:۵۔تلخیص ملاحظہ فرمائیں۔

اور بیشک جو علم نیت جانتا ہے ایک ایک فعل کو اپنے لیے کئی کئی نیکیاں کر سکتا ہے مثلاً جب نماز کے لیے مسجد کو چلا اور صرف یہی قصد ہے کہ نماز پڑھوں گا تو بے شک اس کا یہ چلنا محمود، ہر قدم پر ایک نیکی لکھیں گے اور دوسرے پر گناہ محو کریں  گے۔مگر عالم نیت اس ایک ہی فعل میں اتنی نیتیں کر سکتا ہے۔[ امام احمد رضا محدث بریلوی نے یہاں چالیس نیتیں شمار کرائی ہیں]۔

تو دیکھیے کہ جو ان ارادوں کے ساتھ گھر سے مسجد کو چلا وہ صرف حسنہ نماز کے لیے نہیں جاتا ان چالیس حسنات کے لیے جاتا ہے تو گویا اُس کا یہ چلنا چالیس طرف چلنا ہے اور ہر قدم چالیس قدم پہلے اگر ہر قدم ایک نیکی تھا اب چالیس نیکیاں ہوگا۔

اسی طرح قبر پر اذان دینے والے کو چاہیے کہ ان پندرہ نیتوں کا تفصیلی قصد کرے تا کہ ہر نیت پر جدا گانہ ثواب پائے اور ان کے ساتھ یہ بھی ارادہ کہ مجھے میت کے لیے دُعا کا حکم ہے اس کی اجابت کا سبب حاصل کرتا ہوں اور نیز اُس سے پہلے عمل صالح کی تقدیم چاہیے یہ ادب دعا بجالاتا ہوں۔الى غير ذلك مما يستخرجه العارف النبيل والله الهادى الى سواء السبیل (ان کے علاوہ دوسری نیتیں جن کو عارف اور عمدہ رائے استخراج کر سکتی ہے اللہ تعالی ہی سیدھی راہ دکھانے والا ہے  ) بہت لوگ اذان تو دیتے ہیں مگران منافع ونیات سے غافل ہیں وہ جو کچھ نیت کرتے ہیں اسی قدر پائیں گے۔

یہ چالیس نیتیں ہیں جن میں چھبیس علما نے ارشاد فرما ئیں اور چودہ ۱۴ فقیر نے بڑھا ئیں جن کے ہندسوں پرخطوط کھینچے ہیں۔ ۱۲ منہ

(فتاویٰ رضویہ، مخرجہ، ج:۵، ص:675، 676)

اب ذرا آپ نظر اٹھا کر رسولِ کریم ﷺ کی مکی زندگی ملاحظہ فرمائیں، ابھی اسلام ابتدائی دور سے گزر رہا تھا، دشمنوں نے اعلانِ نبوت کو نشانہ بنایا۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کو مکہ  شریف میں رہنا دشوار کر دیا، ان ظالموں نے دار الندوہ میں میٹنگ کی اور بہ اتفاق راے یہ طے کیا کہ آپ کو قید کر دیں ، قتل کر دیں یا شہر بدر کر دیں۔یہ ان ظالموں کی بد ترین سوچیں اور ناپاک تدبیریں تھیں، اللہ تعالیٰ اپنے پیارے محبوب کی حفاظت فرما رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرتِ مدینہ کا حکم دیا  اور آ پ اپنے محبوب ترین صحابی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لے کر مدینہ طیبہ ہجرت کر گئے۔قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت میں اس واقعہ کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:

 وَ اِذْ یَمْڪُرُ بِكَ الَّذِیْنَ ڪَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَؕ-     وَ یَمْڪُرُوْنَ وَ یَمْڪُرُ اللّٰهُؕ-     وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰڪِرِیْنَ۝ (الانفال:۲۰)

(اے محبوب یاد کیجیے ) جس وقت کفار آپ کے بارے میں یہ تدبیر کر رہے تھے کہ آپ کوقید کر دیں یا قتل کر دیں یا شہر بدر کر دیں یہ لوگ خفیہ تدبیر کر رہے تھے اور اللہ خفیہ تدبیر کر رہا تھا اوراللہ کی پوشیدہ تدبیر سب سے بہتر ہے۔

 اللہ تعالی کی خفیہ تدبیر کیا تھی؟ کس طرح اس نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی اور کفار کی ساری اسکیم کو کس طرح اس قادر قیوم نے تہس نہس فرما دیا۔

حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جس بے سرو سامانی کے ساتھ ہجرت فرمائی تھی اور صحابہ کرام جس کسمپری اور بے کسی کے عالم میں کچھ حبشہ، کچھ مدینہ چلے گئے تھے۔ ان حالات کے پیش نظر بھلا کسی کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ آسکتا تھا کہ یہ بے سر و سامان اور غریب الدیار مسلمانوں کا قافلہ ایک دن مدینہ سے اتنا طاقتور ہو کر نکلے گا کہ وہ کفار قریش کی ناقابل تسخیر عسکری طاقت کو تہس نہس کر ڈالے گا جس سے کافروں کی عظمت و شوکت کا چراغ گل ہو جائے گا اور مسلمانوں کی جان کے دشمن مٹھی بھر مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہلاک و برباد ہو جائیں گے۔ لیکن خداوند علام الغیوب کا محبوب دانا ے غیوب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہجرت سے ایک سال پہلے ہی قرآن پڑھ پڑھ کر اس خبر غیب کا اعلان کر رہا تھا کہ:

وَ اِنْ ڪَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَ اِذًا لَّا یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِیْلًا۝ (بنی اسرائیل ۷۶)

اور بے شک قریب تھا کہ وہ تمھیں اس زمینِ مکہ سے ڈگا دیں کہ تمھیں اس سے باہر کر دیں اور ایسا ہوتا تو وہ تمہارے پیچھے نہ ٹھہرتے مگر تھوڑا۔

چنانچہ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور ایک ہی سال کے بعد غزوہ ٔبدر میں مسلمانوں کی فتح مبین نے کفارقریش کے سرداروں کا خاتمہ کر دیا اور کفار مکہ کی لشکری طاقت کی جڑ کٹ گئی اور ان کی شان وشوکت کا جنازہ نکل گیا۔

حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے اس طرح ہجرت فرمائی تھی کہ رات کی تاریکی میں اپنے یار غار کے ساتھ نکل کر غار ثور میں رونق افروز رہے۔ آپ کی جان کے دشمنوں نے آپ کی تلاش میں سرزمین مکہ کے چپے چپے کو چھان مارا اور آپ ان دشمنوں کی نگاہوں سے چھپتے اور بچتے ہوئے غیر معروف راستوں سے مدینہ منورہ پہنچے۔ ان حالات میں بھلا کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ آسکتا تھا کہ رات کی تاریکی میں چھپ کر روتے ہوئے اپنے پیارے وطن مکہ کو خیر باد کہنے والا رسول بر حق ایک دن فاتح مکہ بن کر فاتحانہ جاہ وجلال کے ساتھ شہر مکہ میں اپنی فتح مبین کا پرچم لہرائے گا اور اس کے دشمنوں کی قاہر فوج اس کے سامنے قیدی بن کر دست بستہ سر جھکائے لرزہ براندم کھڑی ہو گی ۔ مگر نبی غیب واں نے قرآن کی زبان سے اس پیشین گوئی کا اعلان فرمایا کہ:

اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ۝ وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا۝ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُﳳ-اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۝ (سورہ نصر)

 جب اللہ کی مدد اور فتح (مکہ) آجائے اور لوگوں کو تم دیکھو کہ اللہ کے دین میں فوج فوج داخل ہوتے ہیں تو اپنے رب کی ثنا کرتے ہوئے اُس کی پاکی بولو اور اس سے بخشش چاہو بے شک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔

چنانچہ یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی کو ۸ ہجری میں مکہ فتح ہو گیا اور آپ فاتح مکہ ہونے کی حیثیت سے افواجِ الٰہی کے جاہ وجلال کے ساتھ مکہ مکرمہ کے اندر داخل ہوئے اور کعبۂ معظمہ میں داخل ہو کر آپ نے دو گانہ ادا فرمایا اور اہلِ عرب فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے۔ حالاں کہ اس سے قبل اکا دُ کا لوگ اسلام قبول کرتے تھے۔

آج پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے ،ملک اور عالمی سطح پرعام طور پر  مسلمانوں کا رہنا سہنا دو بھر کر دیا گیاہے ۔ کہیں ماب لنچنگ ہو رہی ہے۔ہزاروں مسلم لڑکیوں کو مرتد بنا کر غیر مسلموں سے شادیاں کی جا رہی ہیں اور بعد میں انھیں ظلم و ستم کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے ۔ کہیں آزادیِ اظہارِ راے کے نام پر قرآن سوزی ہو رہی ہے ، کہیں ہندو راشٹر بنانے کی کاوشیں ہو رہی ہیں، کہیں یکساں سول کوڈلانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ کہیں مسلمانوں کی جائدادوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ کہیں ان کے مکانوں، دکانوں اور فیکٹریوں پر بلڈوز ر  چلائے جا رہے ہیں۔ کہیں مساجد اور مدارس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔کہیں مسلم اسٹوڈینٹس لڑکیوں سے پردوں کو اتارا جا رہا ہے، کہیں مسلمانوں کی داڑھیوں کو زبردستی کاٹا جا رہا ہے، کہیں وندے ماترم اور جے شری رام کہلوانے کے لیے زدوکوب کیا جا رہا ہے، خدا جانے کتنے مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ تفصیل کا موقع نہیں ہم ان تمام موضوعات پر لکھتے رہے ہیں اور ان شاء اللہ تعالیٰ  آئندہ بھی لکھتے رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے اور اخلاص عمل اور حسن نیت کی سعادتوں سے سرفراز فرمائے۔ آپ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں کیا ان تمام مظالم کے پیچھے ہماری فکری آوارگیوں، آزادانہ روش اور ہماری بد عملیوں اور بد کرداریوں کے اثرات کا بھی  کچھ نہ کچھ دخل ضرور ہے۔ ہم سب کچھ بن سکتے ہیں مگر سچے پکے مسلمان بننے کے لیے تیار نہیں۔ اے کاش اللہ تعالیٰ ہماری فکروں کو صحیح سمتیں اور اعمال کے قبلوں کو درست فرما دے۔ آمین۔ 

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved