کیا فرماتے ہیں مفتیانِ دین
از: مفتی محمد نظام الدین رضوی
پیر کا مرید یا شاگرد کا استاد سے مسائل میں اختلاف
سوال : کیا شاگرد اپنے استاد سے، مرید اپنے پیر سے مسائل میں اختلاف کر سکتا ہے ؟
جواب: ادب کے ساتھ فروعی مسائل میں اختلاف ہو سکتا ہے اور یہ فقہا کے در میان شائع ذائع ہے اور مذاہب اربعہ کی فقہی کتابوں میں اس کے بے شمار شواہد موجود ہیں۔
قرآن پاک کی یہ آیت کریمہ آپ نے بار بار پڑھی ہوگی :
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰئِكَةِ اِنِّي جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيفَة.(النساء، آیت:۱۱۵)
یعنی اللہ نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ تو فرشتے تو معصوم ہیں انھیں کہہ دینا چاہیے تھا۔ آمنا و سلمنا مگر انھوں نے یہ نہ کہا۔
قرآن کہتا ہے:قالُوا اَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ.
پروردگار تو زمین میں ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو زمین میں فساد بر پا کرے گا اور خوں ریزی کرے گا حالاں کہ ہم لوگ تیری حمد کے ساتھ تسبیح اور پاکی بیان کرتے ہیں۔
اگر ادب کے ساتھ فرشتے اللہ کی بارگاہ میں اپنی بات عرض کر سکتے ہیں تو شاگر داستاد کی بارگاہ میں اور مرید پیر کی بارگاہ میں بھی عرض کر سکتا ہے اور اس کے سیکڑوں نظائر موجود ہیں۔
حضور سیدی غوث پاک رضی اللہ عنہ سے اعلیٰ حضرت بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ حضور غوث پاک کا فقہی مذہب کیا ہے ؟ ہمارا ایک مقالہ شائع ہو چکا ہے ”اہل سنت کی آواز“ میں۔ میں نے اس میں تحقیق کر کے بتا دیا ہے کہ ابتدا میں وہ حنبلی مذہب رکھتے تھے اور بعد میں جب ولایت عظمی اور قطبیت کبریٰ کے منصب پر فائز ہو گئے تو خود ہی وہ مجتہد ہو گئے اور اپنے اجتہاد پر عمل کرتے تھے۔ اب آپ لوگ بتائیں کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان نے حضور غوث پاک کے مذہب پر بھی عمل کیا، یا امام احمد بن حنبل کے مذہب پر عمل کیا اور ان کی تقلید کی ؟ آپ کا جواب یہی ہو گا کہ کبھی نہیں۔
فقہی امور میں وہ تابع اور مقلد ہیں سراج الامہ امام اعظم ابوحنیفہ کے۔ تو تعبیر کے فرق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ادب کے ساتھ اپنے پیر سے ایک قسم کا اختلاف ہی تو ہے کہ حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کا فقہی مذہب کچھ اور ، اور ان کے بالواسطہ مرید خاص اور عاشق کا فقہی مذہب کچھ اور ۔ اصطلاح میں اس کو اختلاف نہ کہیں گے، مگر فرق تو ہے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان کامذہب کچھ اور ہےاور حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کا مذہب کچھ اور ہے۔
فقہاے مجتہدین میں امام اعظم رضی اللہ عنہ سے بڑ کوئی فقیہ نہیں ہے۔ امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تمام فقہا فقہ میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے محتاج ہیں۔ آپ کے تلامذہ امام ابو یوسف، امام محمد، امام حسن بن زیاد، امام زفر ، امام فضیل وغیرہ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین، یہ سب آپ سے کثیر مسائل میں اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ اچھا یہ بھی ایک اتفاق ہے ہم لوگ حنفی ہیں خود اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں ہم حنفی ہیں یوسفی اور محمدی نہیں ہیں۔ فتاوی رضویہ جلد اول کے حاشیہ میں یہ لکھا ہے۔ مگر ان سب کے باوجود کثیر مسائل میں ہمارے فقہا اور اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ نے امام یوسف اور امام محمد کے مسلک کو ترجیح دی ہے ۔ تو یہ استاذ اور شاگر دہی کا تو مسئلہ ہے تو ادب کے ساتھ سب کچھ ہو سکتا ہے اور ہوتا رہا ہے تو ہم لوگ بھی ان کے نقش قدم پر چل سکتے ہیں۔ اور حق یہ ہے کہ یہ سب کچھ بظاہر اختلاف کی ایک صورت ہے ورنہ حقیقت میں کچھ بھی اختلاف نہیں یہ ایک دقیق بحث ہے۔ ہم یہاں صرف یہی بتانا چاہتے ہیں کہ بظاہر جس کو لوگ اختلاف کہتے اور اختلاف سمجھتے ہیں اس طرح کا اختلاف آج کے دور میں بھی بالغ نظر فقہا کر سکتے ہیں جس کے بے شمار نظائر کتب فقہ میں موجود ہیں۔واللہ تعالیٰ اعلم
ایک شعر کی توضیح
سوال:اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی کا سید نا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی منقبت میں ایک شعر ہے:
الوہیت ہی احمد نے نہ پائی نبوت ہی سے تو عاطل ہے یا غوث
اس کے حصر سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کو نبوت کے سوا سارےدرجات حاصل ہیں۔ اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب: ”الوہیت ہی احمد نے نہ پائی “ یعنی سر کار ابد قرار احمد مختار علیہ الصلوٰة والسلام خدا و معبود نہیں ہیں اور حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ نبی اور رسول نہیں ہیں۔ باقی دوسرے مراتب آپ کو حاصل ہیں۔ اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے اس کی مزید وضاحت اس کے بعد والےشعر میں کر دی ہے ، واقعہ یہ ہے کہ :
ایک ہی شعر میں بہت سے معانی سمونا بھی کبھی بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے ، اس لیے دو، بلکہ بسا اوقات تین ، تین اشعار میں مسائل کو بیان کیا جاتا ہے۔ اب وہ بعد والا شعر سینے
اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
صحابیت ہوئی پھر تابعیت بس آگے قادری منزل ہے یا غوث
یہاں پر اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ اس کی وضاحت کر دی ہے کہ سارے فضائل سے مراد کیا ہیں وہ صحابیت اور تابعیت کے بعد کے فضائل ہیں۔ شریعت طاہرہ کی تین اصطلاحات ہیں: صحابیت ، تابعیت، ولایت۔ قرآن حکیم میں ہے:
والسّٰبِقُوۡنَ الْاَوَّلُوۡنَ مِنَ الْمُهٰجِرِينَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوۡهُمْ بِاِحْسَانٍ.
اس آیت میں مہاجر و انصار صحابہ پھر ان کے تابعین کا ذکر ہے اور احادیث نبویہ توفضائل صحابہ میں کثیر ہیں اور تابعین کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
صحابی کے عنوان سے سرکار اقدس کے فیض یافتہ مومنین کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اور تابعین کے عنوان سے صحابہ کے فیض یافتہ مومنین کا ذکر کیا جاتا ہے یہ تو مستقل اصطلاحات ہیں۔
ایک تیسری اصطلاح ہے”ولایت“، اس کا ذکر بھی کتاب و سنت میں متعدد مقامات پرہے ۔مثلاً ارشاد باری ہے:
اَلَا اِنَّ اَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
اور ولایت کے بھی ادنی ، اوسط، اعلیٰ کئی مراتب ہیں۔ اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ نبی نہیں ہو سکتے کہ حضور خاتم الانبیا کے بعد یہ ممکن نہیں ، اس کے بعد سب سے اونچا مرتبہ صحابیت کا ہے پھر تابعیت کا، جو عہد نبوی اور عہد صحابہ کے خوش نصیب مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے۔ اس کے بعد سب سے اونچا مرتبہ ولایت کا ہے اور یا غوث پاک آپ ولایت کے سب سے اونچے منصب پر فائز ہیں۔ اس کو آپ اس حیثیت سے سمجھ سکتے ہیں کہ صحابیت ایک اختیاری امر ہے کہ آدمی مشرف بہ اسلام ہو کر سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرلے ، تابعیت بھی اختیاری امر ہے کہ مشرف بہ اسلام ہو کر صحابہ کی صحبت اختیار کرلے۔ یہ اختیار کی چیز ہے مگر نبوت کسبی نہیں وہبی ہے اور ولایت بھی کسبی نہیں وہبی ہے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جو یہ فرمایا: ” نبوت ہی سے تو عاطل ہے یا غوث “ تو یہ اس حیثیت سے فرمایا کہ وہبی امور میں، غیر کسبی اور غیر اختیاری امور میں نبوت کے بعد جو جو مقام ہے وہ مقام ولایت ہے اور ولایت میں حضور غوث پاک ہی کارتبہ سب سے اونچا ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم
امام پہلی منزل پر امامت کر رہا ہے تو کیا نچلی منزل والوں کی نماز ہوگی یا نہیں؟
سوال : اگر امام صاحب مسجد کی پہلی منزل میں امامت کر رہے ہیں، تو جو لوگ نچلی منزل میں ان کی اقتدا کر رہے ہیں ان کی نماز ہو جائے گی کہ نہیں ؟
جواب: اگر امام اوپر کی منزل میں امامت کر رہا ہے اور کچھ لوگ نیچے کی منزل میں اس کی اقتدا کر رہے ہیں تو اقتدا صحیح ہے، ہاں جب اوپر کی منزل بھر جائے تب لوگ نیچے کی منزل میں اقتدا کریں تاکہ صفوں کا تسلسل باقی رہے ، ہاں بلا عذر شرعی مسجد کی چھت پرنہیں جانا چاہیے۔
عذر شرعی کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً نچلی منزل میں مرمت و صفائی ہو رہی ہے اس لیے امام نچلی منزل چھوڑ کر اوپر کی منزل پر امامت کر رہا ہے تو حرج نہیں۔ لیکن ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے صرف ہوا خوری وغیرہ کی راحت کے لیے اوپر جاکر امامت کر رہا ہے ، تو یہ مکروہ ہے۔ واللہ تعالی اعلم
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org