22 November, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia June 2023 Download:Click Here Views: 83927 Downloads: 1188

(3)-کیا فرماتے ہیں علماے دین ،آپ کے مسائل

سوال: قربانی کے جانور کو عیب و نقص  سے پاک ہونا چاہیے، اس سلسلے میں عرض ہے کہ عیب کس قدر ہو تو قربانی صحیح نہ ہوگی، مکمل بے عیب جانور تو کم دست یاب ہوتے ہیں، اس بارے میں احادیث نبویہ سے کیا رہنمائی ملتی ہے اور کتبِ فقہ میں کیا اس تعلق سے کوئی ضابطہ ہے جس کے پیشِ نظر جانوروں کے تعلق سے فیصلہ کرنا آسان ہو۔

جواب: بہتر تو یہی ہے کہ قربانی کا جانور ہر طرح کے عیب و نقص سے پاک ، فربہ و خوب صورت ہو، تاہم   کچھ معمولی سا عیب ہوتو  وہ معاف ہے شریعت کچھ حد تک اسے گوارا کرلیتی ہے لیکن عیب اگرزیادہ ہو تو شریعت اسے گوارا نہیں کرتی اور ایسے جانوروں کی قربانی صحیح نہیں ہوتی اس لیے قابلِ توجہ یہ ہے کہ وہ کون کون سے عیوب یا نقائص ہیں جو شریعت کی نگاہ میں ناقابل معافی ،یا قابل عفوہیں۔

احادیثِ نبویہ میں کچھ ایسے عیب دار جانوروں کا ذکر ہے جن کی قربانی صحیح نہیں ہوتی، فقہا نے بھی اپنی لسٹ میں ان جانوروں کو شمار کیا ہے اور بعض فقہا نے کہیں کہیں قربانی صحیح نہ ہونے کی علت بھی بیان فرمائی ہے۔ ہم یہاں ان سب کو سامنے رکھ کر تین ضابطے بیان کرتے ہیں  جن سے اس نوع کے مسائل بخوبی اجاگر ہو جائیں گے ، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

قربانی کے جانوروں میں دو طرح کے اعضا پائے جاتے ہیں :

♦کچھ اعضا وہ ہیں جو اعضائے مقصودہ سے ہیں ۔

♦اور کچھ اعضا وہ ہیں جو غیر مقصودہ سے  ہیں۔

 یوں  کچھ نہ کچھ فائدہ اِن اعضا کا بھی ہے،  مگر شرعاً وہ مقصود نہیں ہیں  جیسے سینگ، خُصیے، آلۂ تناسل، مثانہ وغیرہ، یہ  اعضائے  مقصودہ سے نہیں ،  سینگ تو زینت اور آرائش وغیرہ کے لیے ہے  لہذا سینگ اگر اوپر سے ٹوٹ جائے تویہ  عیب نہیں ہے، گو دیکھنے میں یہ  ہلکا پھلکا ساعیب محسوس ہوتا ہے مگر یہ  گوارا ہے کیوں کہ،  جو عیب نظر آرہا ہے وہ  عضو غیر مقصود میں ہے  لہذا اس کی قربانی صحیح ہوگی۔ لیکن اگر سینگ سر کے اندر جڑ سے ٹوٹی ہو،  گودے سے نکل آئی ہو تو یہ عیب ہے اس لیے نہیں کہ سینگ نکل آئی بلکہ اس لیے کہ سر جانور کے اعضائے مقصودہ میں سے ہے اور اس کے اندر گہرا زخم پیدا ہوگیااور وہ بھی ایک نہیں دو ،دو گہرے زخم پیدا ہوگئےاگر دونوں سینگیں ٹوٹی ہوں، سرکے اندرسے، تو عضو مقصود میں دو دو گہرے زخم پیدا ہوجانے کی وجہ سے اس کی قربانی ناجائز اور نادرست ہے یوں ہی جانور کا آلہ تناسل اور دونوں خصیے بھی اعضائے غیر مقصودہ سے ہیں، یہی حال مثانہ یعنی پیشاب کی تھیلی کا بھی ہے۔

 جانوروں سے مقصود دوچیزیں ہوتی ہیں دودھ اور  گوشت، ان کے مقاصد عامہ میں یہی دوچیزیں ہیں ، کچھ جانور ایسے ہیں جن سے سواری بھی مقصود ہوتی ہے جیسے ’’اونٹ‘‘اس  سےسواری بھی مقصود ہے ،گوشت بھی مقصود ہے اور دودھ بھی مقصود ہے۔ اور چھوٹے جانوروں سے دودھ اور گوشت مقصود ہے ،ان سےسواری نہیں مقصود ہے۔

 اس تشریح کے پیش نظر  آپ اعضا کے بارے میں فیصلہ کرسکتے ہیں کہ  کون سا عضو اعضاے مقصودہ سے ہے  اور کون سا غیر مقصودہ سے ۔ سینگ اس سے نہ گوشت ملتا ہے،  نہ دودھ ملتا ہے،  نہ اس پر سواری ہوسکتی ہےلہذا عضو غیر مقصود ہےاور اسں سے براہ راست یا بالواسطہ کوئی تعاون بھی نہیں ملتا ہے اس لیے بھی یہ عضو غیر مقصود ہے،دونوں خصیے اور  نر جانور کا آلہ تناسل اور مثانہ یہ بھی  ان تینوں میں سے کسی کام کے نہیں،بلکہ  ان کو کھانا مکروہ تحریمی وناجائز ہے،اس لیے یہ  عضو مقصود سے نہیں ہیں، دودھ ان سے حاصل نہیں ہوسکتا، سواری ان پر  ہونہیں سکتی اور کھانا ان کا جائز نہیں۔  تو واضح ہوگیا کہ یہ تینوں  اعضا بھی اعضاے غیر مقصودہ سے ہیں، لہذا اگر نر جانور کے دونوں خصیے نکال دیے جائیں  تو یہ عیب نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اس کا عضو تناسل بھی کاٹ دیا گیا ہوتو یہ عیب نہیں ہے، ایک عضو ہی پورا فوت ہوگیا، بلکہ دو اعضا فوت ہوگئے  بلکہ ایک ساتھ تین تین اعضا فوت ہورہے ہیں مگر شریعت اسے معمولی سا بھی عیب نہیں قرار دیتی ہے کیوں کہ یہ  اعضائے مقصودہ سے نہیں ہیں نہ ان کو کھا سکتے ہو،  نہ پی سکتے ہونہ ان پر سواری کرسکتے ہو ۔ اس لیے ان کے نہ  رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتاایسے جانورکی قربانی صحیح ودرست ہے  اس کے برخلاف جو اعضا مقصود ہیں کہ وہ براہ راست کھائے  یا پیے جاتے ہیں  یا بالواسطہ  کھانے پینے یا سواری کے کام آتے ہیں تو ایسے سارے اعضا، اعضاے مقصودہ ہیں ۔

دوسرا ضابطہ: اعضاے مقصودہ میں سے اگر کسی عضو کی منفعت بیماری یا عیب کی وجہ سے بالکل فوت ہوجائے،  ختم ہوجائے تو اس کی قربانی نہیں ہوگی، مثلا جانور کا ایک پاؤں کٹ کر الگ ہوجائے تو اس کی قربانی نہیں ہوگی کہ یہ سواری کے لیے براہ راست مقصود ہے اور چرنے کے لیے ،پانی پینے کے لیے بواسطہ مقصود ہے تو یہ کھانے میں بھی، پینے میں بھی، سواری میں بھی براہ راست یا بالواسطہ مقصود ہے، اس کی منفعت بالکل فوت ہوگئی لہذا ایسے جانور کی قربانی نہیں ہوگی یا فرض کیجئے کہ  جانور کے پاؤں میں کوئی ایسی بیماری پیدا ہوگئی کہ اس پاؤں سے وہ چلنے کے لائق نہ رہا یعنی لنگڑاہوگیاتین پاؤں سے چلتا ہے اور چوتھا پاؤں زمین پر نہیں رکھتا ہے تو اس پاؤں کی منفعت جو مقصود تھی فوت ہوگئی، لہذا اس کی بھی قربانی نہیں ہوگی، کہ عضو مقصود کی منفعت مقصودہ فوت ہوگئی۔ ایک آنکھ پھوٹ جائے  تو اس کی قربانی نہیں ہوگی کیوں کہ اس آنکھ کی جو منفعت مقصودہ ہے وہ فوت ہوگئی ۔ آنکھ سے اگرچہ براہ راست دودھ نہیں ملتا، کھانا نہیں ملتا ، اس پر سواری نہیں ہو سکتی مگر بالواسطہ یہ آنکھ تینوں کے لیے ممد ومعاون ہے۔ جانور اندھا ہوجائے یا پاگل ہوجائے تو اس کی بھی قربانی صحیح نہیں ہے ،پاگل ہوگیا تو اس کے دماغ کی منفعتِ مقصودہ فوت ہوگئی۔ بہرا ہوگیا تو کانوں کی منفعت مقصودہ فوت ہوگئی، اس طرح سے شریعت نے جتنے عیوب گنائے ہیں ان پر ایک ایک کرکے آپ نظر ڈالتے جائیے تو آپ پر ایک ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی جائے گی کہ اس وجہ سے اس کی قربانی ناجائز ہے اور اس وجہ سے جائز ہے ۔ اب اس ضابطہ کی روشنی میں   بہارِ شریعت میں اس نوع کے مسائل پڑھ لیجیے ،آپ کو سب کچھ سمجھ میں آ جائے گاانشاء اللہ تعالیٰ۔ کہ اعضائےمقصودہ کے منافعِ مقصودہ فوت ہورہے ہیں لہذا قربانی نہیں ہوگی۔

تیسرا ضابطہ:کچھ اعضا ایسے ہیں جن میں ایک تہائی سے زیادہ فوت ہوجائے تب بھی شریعت ایسے جانور کی قربانی کو صحیح نہیں مانتی ہے مثلا بکری ہے،  بھیڑ ہے ان کے دوتھن ہوتے ہیں ایک تھن کسی بھی وجہ سے  خشک ہوگیا ،اس  سے دودھ نہیں آتا یا پہلے ہی سے پیدائشی طور پر خشک ہے تو اس کی قربانی نہیں ہوگی کہ اس عضو کی جو منفعت مقصودہ ہے وہ ایک تہائی سے زیادہ فوت ہوگئی لہذا اس کی قربانی نہیں ہوگی، یہاں دودھ دونوں  تھنوں سے مقصود ہوتا ہے تو ان میں سے ایک کے خشک ہونے سے عیب ایک تہائی سے زیادہ ہوگیا تو وہ عیب کثیر ہےلہٰذا  قربانی نہیں ہوگی۔ بڑے جانور جیسے اونٹنی اور بھینس میں چار لر ہوتی ہیں، ان میں ایک لر اگر خشک ہوجائے تو ان کی قربانی صحیح ہوگی، کیوں کہ چار میں ایک تھن کے خشک ہونے سے ایک تہائی سے کم ہی خشک ہوا ہے۔ اور اگر دو لر خشک ہو جائیں یا  دولر فوت ہو جائیں تو اس کی قربانی نہیں ہوگی کیوں کہ دولر خشک ہونے سے  ایک تہائی سے زیادہ منفعت فوت ہو گئی ۔

میرے عزیز طلبہ! اگر یہ بات آپ نے سمجھ لی ہے تو آپ اطمینان رکھیں کہ قربانی کے جانوروں کے عیوب ونقائص کے تعلق سےاب  آپ بہارشریعت، عالمگیری، شامی، شرح وقایہ، فتاویٰ قاضی خاں، وغیرہ کے مباحث پڑھیں گے، تو ان شاء اللہ آپ پر ہر چیز عیاں ہوتی چلی جائے گی۔  واللہ تعالیٰ اعلم۔

مفتی اشرفیہ محمد نظام الدین کے قلم سے

سوال:  کان اور دُم اعضاے مقصودہ سے ہیں یا نہیں؟

جواب: کان اور دُم دونوں اعضاے مقصودہ سے ہیں کہ شرعاً ان کا کھانا حلال ہے— کان کی جو ہیئت اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے وہ سننے کے لیے ضروری ہے اس ہیئت پر نہ ہو تو کان صحیح طور پر نہ آوازوں کو سنے، اور نہ ہی مخلوط آوازوں میں امتیاز کرسکے، جانور سنتا ہے اپنے مالک کی آواز پر دوڑا ہوا چلا آتا ہے، اور کسی دشمن جانور کی آواز کو سنتا ہے تو بھاگ جاتا ہے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے، اس کا مالک بلاتا ہے تو اسے چارہ کھلائے گا ،اس کی خدمت کرے گا، اس کی حفاظت کرے گا، اور کوئی  دشمن جانور اس کو آواز دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس پر حملہ آور ہوگا اور اس کو نیست ونابود کردے گا،تو ایک آواز اس کو نیست ونابود کرنے کے لیے ہوتی ہے جس کو وہ اپنے کانوں سے سنتا ہے اگر وہ نہ سنے تو تباہ ہوجائے گا اور تینوں مقاصد میں سے کسی مقصد کے لائق نہ رہے گااور سنے گا تو اپنے کو اس سے بچا لے گا اور اس طرح وہ  تینوں مقاصد کے لائق رہے گااس لحاظ سے کان  بالواسطہ منافع مقصودہ سے ہےاور اسے کھانا حلال ہے۔ ۔دُم کی ساخت پر نظر ڈالیے تو وہ ریڑھ کی ہڈی سے مربوط  معلوم ہوتی ہے اور ریڑھ کی ہڈی سواری کے لیے ناگزیر ہے اور یہ ہڈی یوں بھی جانور کی صحت کے لیے لازم ہے اور بڑے جانوروں میں یہ  دُم موذی کیڑے مکوڑوں سے حفاظت کاآلہ ہے تو دُم بعض جانوروں میں بالواسطہ اور بعض میں براہ راست عضو مقصود ہے  ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved