محمد اعظم مصباحی مبارک پوری
نام و نسب:
آپ رضی اللہ عنہا کا نام حفصہ تھا۔سلسلہ نسب یوں ہے حفصہ بنت عمر بن خطّاب بن نفیل بن عبدالعزّیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرطہ بن زراح بن عدی بن کعب بن لُوَیْ۔آپ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں عدی کے ساتھ جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب مبارک سے مل جاتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا کی والدہ حضرت زینب بن مظعون رضی اللہ عنہا ہیں جو جلیل القدر صحابی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں۔
ولادت:
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کےاعلان نبوت سے تقریباً 5 سال قبل پیدا ہوئیں۔
نکاح : حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کاہجرت سے پہلے نکاح حضرت خنیس بن حذافہ سہمی نامی صحابی سے ہوا تھا اور ان ہی کے ساتھ انہوں نے مدینہ منورہ ہجرت کی تھی۔ حضرت خنیس غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے اور راجح قول کےمطابق بدر ہی میں ان کے کاری زخم آئے جن سے وہ جانبر نہیں ہو سکے تھے۔ اور کچھ ہی عرصہ کے بعد ان ہی زخموں کی وجہ سے شہادت پائی۔ حضرت خنیس کے انتقال کے بعد حضرت عمرکو اپنی بیٹی کی فکر ہوئی۔ یہ غزوہ بدر کے بعد کا زمانہ ہے۔ اسی موقع پر حضرت عثمان کی اہلیہ اور رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ کا انتقال ہوا تھا۔ حضرت عمرنے حضرت عثمان سے حضرت حفصہ کے نکاح کی پیشکش کی۔ انہوں نے غور کرنے کے لیے کچھ وقت مانگا۔ اور چند دن کے بعد معذرت کر دی۔ اس کے بعد حضرت عمرنے حضرت ابو بکرسے یہی پیش کش کی، مگر انہوں نے خاموشی اختیار کی اور کوئی جواب نہیں دیا۔ حضرت عمر کا بیان ہے کہ مجھے ان کی خاموشی حضرت عثمان سے زیادہ ناگواری گزری ، اس کے کچھ ہی عرصہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت حفصہ کے لیے پیام دیا، اور جب یہ نکاح ہو گیا تب حضرت ابو بکر حضرت عمرسے ملے اور کہا کہ میرا خیال ہے کہ جب تم نے مجھ سے حفصہ سے نکاح کی خواہش کی تھی، اور میں خاموش تھا تو تم اس سے رنجیدہ ہوئے تھے۔ اصل میں قصہ یہ ہے کہ مجھے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ خود رسول اللہ ﷺ کا ارادہ حفصہ کو اپنے نکاح میں لینے کا ہے۔ اور اسی وجہ سے میں نے تمہاری پیشکش کا کوئی جواب نہیں دیا تھا، میں یہ بھی مناسب نہیں سمجھتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو بات ابھی راز میں رکھی تھی، میں اس کو ظاہر کر دوں۔ اور اگر رسول اللہ ﷺ کا یہ ارادہ میرے علم میں نہ ہوتا تو میں ضرور تمہاری پیش کش قبول کر لیتا۔ یہ ساری تفصیلات صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت حفصہ کے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہیں۔
روایت حدیث:
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا بہت بڑی عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ و حدیث میں بھی ایک ممتاز درجہ رکھتی ہیں ۔ انھوں نے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم سے ساٹھ حدیثیں روایت کی ہیں جن میں سے پانچ حدیثیں بخاری شریف میں مذکور ہیں باقی احادیث دوسری کتب حدیث میں درج ہیں ۔
علم حدیث میں بہت سے صحابہ اور تابعین ان کے شاگردوں کی فہرست میں نظر آتے ہیں جن میں خود ان کے بھائی عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت مشہور ہیں ۔
فضل و کمال:
حضرت حفصہ حفصہ رضی اللہ عنہا بلندہمت اور سخاوت شعار خاتون ہیں ۔ حق گوئی حاضر جوابی اور فہم و فراست میں اپنے والد بزرگوار کا مزاج پایا تھا۔ اکثر روزہ سے رہا کرتی تھیں اور تلاوت قرآن مجید اور دوسری قسم کی عبادتوں میں مصروف رہا کرتی تھیں ۔ ان کے مزاج میں کچھ سختی تھی اسی لیے حضرت امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہروقت اس فکر میں رہتے تھے کہ کہیں ان کی کسی سخت کلامی سے حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی دل آزاری نہ ہو جائے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بار بار ان سے فرمایا کرتے تھے کہ اے حفصہ! تم کو جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے طلب کر لیا کرو، خبردار کبھی حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ و سلم سے کسی چیز کا تقاضا نہ کرنا ،نہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی کبھی دل آزاری کرنا ورنہ یاد رکھو کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم تم سے ناراض ہو گئے تو تم خدا کے غضب میں گرفتار ہو جاؤ گی۔کثرت صوم و صلوٰۃ کی پابند تھیں۔ ابن سعد نے ان کی عبادت کے متعلق لکھا ہے کہ حفصہ رضی اللہ عنہا صائم النہار اور قائم اللیل تھیں۔ دوسری روایت میں ہے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا انتقال کے وقت تک صائمہ تھیں۔ گوشہ نشینی اور پرہیز گاری کا یہ عالم تھا کہ اشد ضرورت کے بغیر کبھی گھر سے باہر قدم نہیں نکالا۔ زیادہ وقت عبادت میں گزارتیں، اگرچہ اس زمانے میں جب آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں داخل ہوئیں، بالکل جوان تھیں مگر آپ رضی اللہ عنہا میں بزرگوں جیسی سنجیدگی اور وقار تھا۔ زیادہ وقت تلاوت قرآن پاک میں صرف کرتیں اور آپ اس کی باریکیوں کو سمجھتیں، ان پر غور فرماتیں اور جو نقطہ سمجھ میں نہ آتا اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے وضاحت طلب کرتیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سخاوت کی دولت سے بھی مالا مال تھیں جو مال آتا اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرکے خوشی محسوس کرتیں یہاں تک کہ اپنی جائیداد بھی وفات کے وقت اللہ عزوجل کی راہ میں صدقہ کردیا ۔
حفاظتِ قرآن اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا:
قرآن پاک وقفے وقفے سے نازل ہوا تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مقدسہ کے دوران ہی اس بات کا اہتمام فرمادیا تھا کہ جو آیاتِ مبارکہ نازل ہوں، انھیں متعلقہ سورت میں شامل کرکے احاطہ تحریر میں لایا جائے۔ دوسرے کاتبانِ وحی کے علاوہ یہ ذمہ داری سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے بھی سپرد تھی کیوں کہ وہ لکھنا سیکھ چکی تھیں لہٰذا سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق نازل شدہ آیاتِ مبارکہ کو اپنے پاس موجود قرآنی نسخے میں درج کرلیتی تھیں۔ سیرت نگاروں کے کے مطابق رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی قرآن مجید کے تمام کتابت شدہ اجزا یکجا کرا کے اپنی زوجۂ طاہرہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس رکھوا دیے تھے جو تاحیات ان کے پاس رہے۔
معلمِ حکمت ودانش حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے پردہ فرما جانے کے بعد خلافت ابو بکر(رضی اللہ عنہ) کے دور میں نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کے فتنوں میں یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ قرآن مجید کی حفاظت کے حوالے سے کوئی کوتاہی نہ ہوجائے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مشورہ کر کے مختلف اوراقِ کتابت جمع کیے اور صحیح ترین نسخہ کی حفاظت کے لیے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا انتخاب ہوا۔ حضرت سیدنا عثمان غنی کے خلافت کے دور میں اسلام عرب سے نکل کر عجم تک پہنچ چکا تھا ۔عجمی مسلمانوں کے تلفظ ،طرز ادائیگی اور عربی سے ناواقفیت کی بنا پر ممکن تھا کہ لاشعوری طور پر اس کے لہجے میں فرق پڑجاتا اس لیے عہد عثمانی میں صحابہ کا ایک بورڈ اور کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے تحقیق و تصدیق سے کام لیتے ہوئے قرآن پاک باقاعدہ ایک کتابی شکل میں ترتیب دیا اور اس کام کے لیے وہی نسخہ بنیاد بنا جو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا۔ ان سے وہ نسخہ لے کر اس تحقیقی بورڈ کی حتمی رائے قائم کرکے سرکاری مہر کے ساتھ مختلف نسخے تیار کر دیے گئے اور سرکاری تصدیقی مہر کے ساتھ بلادِ اسلامیہ تک پہنچا دیے گئے۔ یوں قیامت تک کے لیے اس فتنے کا بچاؤ کا بہترین انتظام ہو گیا۔ یہ اعزاز بھی اُم المومنین حضرت سیدہ حفصہ بنت سیدنا عمر فاروق زوجہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حصے میں آیا۔
وفات:
شعبان ۴۵ھ میں مدینہ منورہ کے اندر ان کی وفات ہوئی اس وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کا زمانہ تھا اور مروان بن حکم مدینہ کا حاکم تھا۔ اسی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور کچھ دور تک ان کے جنازہ کو بھی اٹھایا پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ قبر تک جنازہ کو کاندھا دیے چلتے رہے۔ ان کے دو بھائی حضرت عبداﷲ بن عمر اور حضرت عاصم بن عمر رضی اﷲ عنہما اور ان کے تین بھتیجے حضرت سالم بن عبداﷲ و حضرت عبداﷲ بن عبداﷲ و حضرت حمزہ بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہم نے ان کو قبر میں اتارا اوریہ جنت البقیع میں دوسری ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے پہلومیں مدفون ہوئیں ۔ بوقت وفات ان کی عمر ساٹھ یا تریسٹھ برس کی تھی۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org