21 November, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia May2023 Download:Click Here Views: 62803 Downloads: 834

(6)-اسلام میں قربانی کا تصور

محسن رضا ضیائی

عیدالاضحیٰ اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے مومنوں کے لیے ایک بیش قیمتی تحفہ ہے ۔یہ ہر سال اپنی آن بان اورشان کے ساتھ بے پناہ انعامات و اکرامات لے کروارد ہوتی ہے،اور بندوں کے اندر ایثار و قربانی اوراطاعت و فرمابرداری جیسے جذبات و احساسات پیدا کرکے رخصت ہوتی ہے۔ ساتھ میں سنت ِابراہیمی کی یاد بھی تازہ کراتی ہے، جو آپ نے اپنے لخت ِجگر نورِنظر فرزندِدلبند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو رضاے الٰہی کی خاطر قربانی کے لیے پیش کیا تھا۔رب تعالیٰ کو آپ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کے اسے ہر سال کے لیے ہر صاحب مال پر قیامت تک کے لیے واجب وضروری قرار دے دیا۔اس واقعے کے بعد سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر جانوروں کی قربانی پیش کرنا خاص عبادت میں شامل وداخل ہو گیا۔اسی لیے اسے حضور ﷺ کے امتیوں کے لیے بھی باقی رکھا گیا اور اسے شعائر اسلام میں شمار کیا گیا۔اس واقعہ کو ہوئے ہزاروں ہزار سال گزرگئے ،لیکن آج تک اس کو ایک تازہ واقعے کے طور پر یاد کیاجاتاہے، جو مسلمانوں کے اندر ایثاروقربانی ،خلوص وللہیت اور تقویٰ و پرہیزگاری جیسے جذبات کو جاں گزیں کردیتا ہے ۔مسلمان سال میں ایک بار دسویں ذی الحجہ کوعیدالاضحیٰ مناتے ہیں،جس کاخاص مقصد رضاے اِلٰہی، سنت ابراہیمی اورتقویٰ و پرہیزگاری ہے۔اسی طرح یہ عیدآپسی اختلاف و انتشار کوختم کرنے کا بھی ایک اہم پیغام دیتی ہے ۔تمام ظاہری وباطنی جرائم ومعاصی سے پچنے اور ان کے انسداد کی  دعوتِ فکربھی پیش کرتی ہے۔

اگر اسے مختلف زاویۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو دراصل یہ اپنے رب کا شکرو احسان بجالانے کی عید ہے ،تکبیر و تہلیل کی گونجوں سے رب کو منانے کی عید ہے اورراہِ خدا میں اپنا مال و متاع اورجانوروں کی قربانی پیش کرنے کی عید ہے۔اس عید کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اسے تین دنوں تک منانا مشروع ہے ۔ اس کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس کے مخصوص ومقررہ ایام میں مخصوص جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے۔

    قربانی ایک ایسا عمل ہے جو ابتداے آفرینش سے لے کر آج تک مختلف طور طریقوں ،فکروں اور عقیدوں کی بنیاد پر ہوتاچلا آرہا ہے ۔ ہر زمانے میں اسے ایک محبوب و پسندیدہ عمل سمجھاگیااور مذہبی عبادت کے طور پر کیا گیاہے۔ہرمذہب و ملت میں اس کاتصور ملتا ہے ۔آج بھی دنیا کے بیشتر مذاہب میں اس کے قدیم اقداروروایات باقی ہیں، جسے کسی خاص موقع ،یا مذہبی تہوار پرمختلف اور علاحدہ طریقوں سے عمل میں لایا جاتا ہے  لیکن ان کے برخلاف اسلام میں اس کا تصور تخلیق انسانیت کے بعد سے ہی ملتاہے ، چناں چہ قرآن عظیم میں فرمایاگیا :اور انہیں پڑھ کر سناؤ آدم کے دوبیٹوں کی خبرجب انہوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تو ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی‘‘۔ (پارہ ۶،آیت ۲۷)

اسی طرح قرآن عظیم اور دیگر مقامات پر’’لفظ ِقربان ‘‘وارد ہوا ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کا تصور اسلام میں بہت قدیم ہے۔

قربانی کا معنی:’’قربانی‘‘ یہ لفظ قرب سے بنا ہے اور عربی میں ’’قرب ‘‘کا معنیٰ ہے :’’قریب ہونااورنزدیک ہوناہے۔چوں کہ قربانی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی نزدیکی طلب کی جاتی ہے اسی لیے اسے قربانی کہا جا تا ہے ۔اردو زبان میں قربانی کا معنیٰ ہے حلال ذبیحہ جس کو خاص عیدالاضحیٰ کے موقع پر اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو۔

قربانی قربِ خداوندی کا ذریعہ : قربانی دراصل تقرب ِخداوندی روح ِایمان کی تازگی اور تواضع و انکساری کا ایک مرغوب ومحبوب عمل ہے ، جسے کرلینے کے بعد انسان کے اندر گوناگوں ظاہری و باطنی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ،جس کی بنیاد پر وہ اپنے رب کے قرب خاص میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو جا تا ہے ، اور اس کے ذریعہ تزکیۂ نفس،تصفیۂ قلب اور تمام جلی و خفی معاصی وجرائم سے احتراز و اجتناب کرتے ہوئے اپنے رب کا مقرب و محبوب بن جاتا ہے۔یوں توانسان کواپنے خالق و مالک کا انتہائی مقرب ومحبوب بننے کے لیے بے شمار مشکل گزار گھاٹیوں، مرحلوں اور منزلوں سے ہوکر گزرنا پڑتاہے۔ ان گنت مصائب وآلام،مشکلات وصعوبات اورابتلا وآزما ئش سے دوچار ہونا پڑتا ہے ،اپنی ہر محبوب اور قیمتی چیزیں قربان کرنی پڑتی ہیں ۔ اتنی ساری کھٹنائیوں اور مشکلوں سے گزرنے کے بعد بندہ اپنے رب کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب اور اپنے مقصد میں بارواں ہوتاہے۔لیکن اس کے مقابلے میں جو شرعی قربانی کا اسلام میں عمل و تصور ہے وہ نہایت ہی آسان ہے ،جس میں عبادت و اطاعت،محبت و فنائیت اورخلوص و للہیت کا جذبہ کارفرما ہے ۔اس میں اس قدرکٹھنائیوں اور پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے،جو اور دیگر قربانیوں میں کرنا پڑتا ہے،اس میں بس تقویٰ اور پرہیز گاری  کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے ۔چناں چہ اللہ پاک کا ارشاد ہے : ’’ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے‘‘۔

(سورہ حج، آیت ۳۸)

اس آیت کریمہ کے شان نزو ل میں علامہ شیخ اسماعیل حقی علیہ الرحمۃ اپنی تفسیر ’’روح البیان‘‘میں لکھتے ہیں :

’’اہل جاہلیت کی عادت تھی کہ وہ قربانی کے جانوروں کے خون سے کعبہ معظمہ کو لت پت کرتے اور گوشت کے ٹکڑے بناکر کعبہ شریف کے اردگردرکھ دیتے ۔ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اس طرح سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوجاتاہے۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس سے روکا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہرگز نہیں پہنچتے ،ہاں اس کے ہاںاس کی رضا پہنچتی ہے‘‘۔

اسی طرح اللہ کے پیارے رسول ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نہ تمہارے جسموں اورنہ تمہاری صورتوں کی طرف نظرِ رحمت فرماتاہے،بلکہ تمہارے اعمال اوردلوں کی طرف نظرِ رحمت فرماتا ہے۔ ‘‘(ریاض الصالحین)

دوسرے مقام پر حضرت امام احمدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:’’ افضل قربانی وہ جو بہ اعتبار قیمت اعلیٰ ہو اور خوب فربہ ہو‘‘۔

مذکورہ آیت و حدیث کی روشنی میں یہ ظاہر و عیاں ہوگیا کہ قربانی محض جانوروں کو راہ خدا میں ذبح کرنے کا نام نہیں بلکہ اخلاص وللہیت، تقویٰ و پرہیزگاری اور حسنِ نیت کا نام ہے۔ اگر جانور وں کوان مذکورہ بالافرامین پر عمل پیرا ہوکر ذبح کیاجائے تو وہ بارگاہ خداوندی میں مقبولیت کی سند رکھتے ہیں۔ لیکن ان اگران چیزوں سے پرے ہوکر کیا جائے تووہ محض نام و نمود،عزت و شہرت اور تصنع و ریاکاری کاایک عمل ہے ،جو اللہ تعالیٰ کو ہرگزپسند نہیں۔

قربانی کرنے کی فضیلت:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کے دن انسان کے اعمال میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ خون بہانا ہے اور بے شک وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ،بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوجاتا ہے تو اسے دل کی بھلائی کے ساتھ کرو۔(مشکوٰۃ)

ایک اور روایت میں ہے کہ:’’ اللہ کے پیارے رسول ﷺ سے صحابۂ کرام نے دریافت کیا کہ یہ قربانی کیا ہے ؟آپ نے فرمایا تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ،صحابۂ عظام نے پھر پوچھا کیا اس میں ہمارے لیے اجروثواب ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا : ہربال کے بدلے میں نیکی ملے گی‘‘۔(ترمذی)

قربانی کے بے شمار فضائل کتبِ احادیث میں مذکور ہیں ،جن سے قربانی کی فضیلت و اہمیت کاپتہ چلتا ہے۔ ان کتبِ حدیث کی طرف رجوع کیاجائے، جن کامطالعہ معلومات میں اضافے کا باعث ثابت ہوگا۔

قربانی کا وقت:قربانی کا وقت تین دن ہے۔دسویں گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ تک،جو دسویں کی طلوع آفتاب سے شروع ہوکر بارہویں کے غروب آفتاب تک باقی رہتا ہے۔اس میں افضل پہلا دن ہے ،اس کے بعد دوسرا اور پھرتیسرا دن ۔ان ایام میں کسی بھی دن قربانی کرسکتے ہیں ۔

  ایام تشریق و تکبیر:اسی طرح عیدلاضحیٰ کے دنوں میں کیاجانے والا عمل تکبیر تشریق بھی ہے۔در مختار کے حوالے سے اردو مسائل میں انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھنے والی کتاب ’’بہارِ شریعت‘‘ میں’’ تنویرالابصار‘‘ کے حوالے سے ہے :نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک ہرنمازفرض پنج گانہ کے بعد جو جماعت مستحبہ کے ساتھ ادا کی گئی ،ایک بار تکبیربلند آواز سے کہنا واجب ہے اور تین بار افضل اسے تکبیر تشریق کہتے ہیں۔وہ یہ ہے:

اَللہُ اَکْبَر اَللہُ اَکْبَر لَااِلٰہَ اِلاَاللہُ وَاللہُ اَکْبَراَللہُ اَکْبَر وَ للہِ الْحَمْد (تنویر الابصار،کتاب الصلوٰۃ،باب العیدین،ج۳،ص۷۱)

قربانی کے ایام میں ضرورت مندوں کا خیال رکھنا:

عیدالاضحیٰ بار بار ہمیں اس جانب متوجہ کراتی ہے کہ اپنے ان خوشیوں کے ایام میں غریبوں، فقیروں ، مسکینوں ،یتیموں، پڑوسیوں ، ہمسائیوں اور رشتہ داروںکا بھی خوب خیال رکھیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس خوشی سے محروم رہ جائیں،لہذا اپنی ان خوشیوں میں انہیں بھی برابر کا شریک کریں۔اسی لیے علماے کرام نے بعض آثار کی بنیادپر یہ فرمایا ہے کہ ؛اگر گوشت کے تین حصے کرلیے جائیں تو بہتر ہے۔ایک حصہ اپنے لیے، دوسرا رشتہ داروں کے لیے اور تیرا حصہ غربا و مساکین کے لیے ۔

آج کل ہمارے سماج میں یہ رواج عام ہوگیا ہے کہ قربانی کے گوشت کی خوب ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے،اور کئی کئی دنوں تک  فریج میں رکھ کر اسے کھایا جاتاہے۔حالاں کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ پہلے معاشرے کے غربا و فقرا کے درمیان گوشت تقسیم کریں پھر جو بچ رہاہے ، اسے اپنے لیے رکھ چھوڑیں۔ یقیناًہمارے اس طرح کے نیک عمل سے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوش نودی حاصل ہوگی اور ساتھ ہی ساتھ ضرورت مندوں کی دل جوئی بھی ہوجائے گی۔ لہذاعیدالاضحیٰ کے ایام میں غربا و فقرا کا خیال رکھیں ،  اپنے جانوروں کی قربانی کے گوشت سے ان کی مدد کریں۔یاد رکھیں کہ حدیث پاک میں غریبوں اور فقیروں کی حاجت روائی کرنے کو جہاد اور عبادت قرار دیا گیاہے

 

چناں چہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: بیواوں اور مسکینوں کی خبر گیری کرنے والا ، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ۔(راویِ حدیث کہتے ہیں کہ ) میرا گمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ اس عبادت کرنے والے کی طرح ہے ، جو سست نہیں ہوتا اور اس روزے دار کی طرح ہے ، جو ناغہ نہیں کرتا ہے۔(بخاری: ۵۳۵۳ )

لہذا اہل خیرو صاحب ثروت افرادکو اس جانب از حد توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ غریب و نادار لوگ بھی اس خوشی سے کسی حد تک محروم نہ رہ سکیں۔

پیغامِ عیدالاضحیٰ:عیدالاضحیٰ سال میں ایک بار آتی ہے اور مومنوں کے دلوں پر سیکڑوں قربانیوں اور یادوں کا دلکش نقش چھوڑجاتی ہے۔اس کے حسین و پر بہار موقع پر اپنے اعمال وافعال کے ذریعہ رب تعالیٰ کی رضا جوئی و خوشنودی اور قربت و نزیکی حاصل کریں،حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم سنت پر مکمل طورپر عمل کریں اور ان کے فرزند عزیز حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایثار و قربانی جیسا جذبہ وحوصلہ اپنے اندر جاں گزیں کریں۔ اپنے خوشی ومسرت کے ایام میں سب کایکساں اوربرابر خیال رکھیں۔ اسی طرح اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کریں ، اپنے اندر سے کبر و ا نا نیت اور بغض و عداوت کے عفریت کو باہر نکال پھینکیں۔در اصل قربا نی اسی کا نام ہے ۔

ہماری ذمہ داریاں:عیدالاضحیٰ کی عن قریب آمد ہونے والی ہے۔ابھی سے جانوروں کی خریدوفروخت کا سلسلہ شروع ہوگیاہے۔ گرچہ عید الاضحیٰ کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔لیکن مسلمانوں کو ابھی سے ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ چند سالوں سے بقرعید کے موقع پر شرپسند عناصر اپنی شرانگیزی اور فتنہ خیزی سے ملک کے پُر امن ماحول کو خراب کرنے کی نارواکوششیں کررہے ہیں۔ خاص طور پر قربانی کے جانوروں کو لے کر مارپیٹ اور قتل و فساد کی فضا ہموار کرکے مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی مذموم حرکتیں انجام دے رہے ہیں۔لہذا مسلمانوں کو اپنی طرف سے کوئی ایسا کام نہیں کرنا ہے جس سے ان شرپسند عناصر کو کوئی موقع ہاتھ لگے اور حالات خراب اور کشیدہ ہوں۔ بلکہ غیر مسلم علاقوں میںجانوروں کی قربانی سے احتراز اور جانوروں کی کھال کھلے عام ان علاقوں سے لے کرگزرنے سے بھی بچیں۔جن جانوروں پر حکومت کی طرف سے پابندی عائد ہے ، ان سے بھی گریز کریں اور قانون شکنی کی زد میں آنے سے  بچیں۔یہ چند احتیاطی تدابیر اور اقدامات ماحول کو پر امن بنائے رکھنے اور شر پسند عناصر کو ان کے مذموم عزائم میں ناکام بنانے کے لیے معاون ثابت ہوسکتے ہیں

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved