ہم نے یہ قران نازل کیا اور ہم ہی محافظ ہیں اس دعویٔ خالق حقیقی کے چودہ سو سال گزرنے کے بعد اس کی حفاظت کی ناقابل انکار شہادت برمنگھم کے نسخے کے کاربن ٹیسٹ سے پتا چلی۔ یہ نسخہ دور نبوی 568 سے 645 کے درمیان کا ہے یعنی یہ دور نبوی کا ہے۔
جولائی ۲۰۲۲میں برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی کی ایک لائبریری سے ملنے والے قرآن پاک کے قدیم ترین نسخے کے منظرعام پرآنے کی خبر نے اس وقت ایک تہلکہ مچا دیا تھا جب پتا چلا کہ قرآن کا یہ حصہ اب تک دستیاب قرآن پاک کے پرانے نسخوں میں سب سے قدیم ہے۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق قرآن پاک کے اسی پرانے نسخے کے بارے میں کچھ مزید تحقیقات کی گئی ہیں جن سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچی ہے کہ مذکورہ قرآنی نسخہ نہ صرف سب سے پرانا ہے بلکہ اسے ممکنہ طور پر خود دور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم یا پہلے خلیفۂ راشد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں مرتب کیا گیا تھا۔
برمنگھم یونیورسٹی کی جانب سے کیے جانے والے ریڈیو کاربن ٹیسٹ سے قرآن پاک کے نسخے میں استعمال کی گئی جلد کی عمر کا پتا چلایا گیا تو معلوم ہوا تھا کہ یہ جلد 1370 برس یا اس سے بھی پہلے کی ہے۔ دبئی میں قائم تحقیقات اسلامی کے ادارہ’’محمد بن راشد آل مکتوم فاؤنڈیشن‘‘ سے وابستہ اسلامی اسکالر جمال بن حویرب نے بھی اپنی تحقیق میں پایا کہ قرآن کریم کا مذکورہ نسخہ 1370 برس سے پہلے یعنی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں تحریر کیا گیا ہے۔
دبئی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بن حویرب نے ’’بی بی سی‘‘ ریڈیو کی جانب سے کیے گئے اس دعوے کو درست قرار دیا جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مذکورہ قرآنی نسخہ اسلامی تحقیقات کے باب میں قرآن کی سب سے پرانی دستاویز قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسے ممکنہ طور پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مرتب کیا گیا۔ اسے ’اصل القرآن‘ کہنا بجا نہ ہو گا کہ قرآن کا جو پرانا حصہ ملا ہے وہ موجودہ قرآنی نسخوں سے حرف بہ حرف یکسانیت رکھتا ہے۔ دستیاب ہونے والے پرانے نسخے کو بجا طور پر قرآنی تحقیقات کے باب میں ایک انقلابی قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔
قرآن کریم کا یہ نسخہ بھیڑ یا بکری کی کھال پر تحریر کیا گیا ہے۔ کاربن ریڈیو ٹیسٹ سے 95.4 فی صد یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بھیڑ یا بکری کی کھال 568ء سے 645ء کے درمیان اتاری گئی تھی۔ سیرت نبوی کی کتب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت 23 اپریل 571ء بتائی جاتی ہے اور بعث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا آغاز سنہ 610 اور وصال رسول 632ء میں مدینہ منورہ میں ہے۔ ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ جس جانور کی کھال پر قرآن پاک کا یہ نسخہ لکھا گیا وہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں موجود تھا۔
برمنگھم یونیورسٹی میں قدیم اسلامی اور مسیحی مخطوطات کے ماہر پروفیسر ڈیود ٹامس کہتے ہیں کہ قرآن پاک کا یہ نسخہ ہمیں نبی اکرم آخر الزماں صلی للہ علیہ وسلم کے دور کے بہت قریب لے جاتا ہے۔ حجازی رسم الخط میں لکھے اس قدیم قرآنی نسخے نے قرآن پاک کے بارے میں بہت سے شکوک وشبہات کو ختم کر دیا ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ قرآن پاک جیسا کہ نبی کے دور میں تھا ایسا ہی چودہ سوسال بعد آج بھی اصل حالت میں موجود ہے اور اس میں کسی قسم کی تحریف نہیں کی گئی ہے۔
پروفیسر ٹامس کہتے ہیں کہ اس نسخے کے کاتب کوئی صحابی رسول ہیں ۔ جس دور میں قرآن کا یہ نسخہ لکھا گیا اس دور میں قرآن اگرچہ کسی مربوط کتابی شکل میں نہیں تھا ۔ کچھ حصہ کھجور کی چھال ، کچھ جانوروں کی کھال اوراونٹوں کی ہڈیوں پر لکھا گیا تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم 632 ء میں رفیق اعلیٰ سے جا ملے جب کہ اس نسخے کی تحریر کی آخری تاریخ 645 عیسوی کی ہے، یعنی آپ کے وصال کے صرف 13 برس بعد اسے لکھا گیا۔
برمنگھم یونیورسٹی میں ملنے والے قرآن کریم کے صفحات 1370 سال پرانے ہیں اور یہ ایک زمانے میں مصر میں فسطاط میں واقع دُنیا کی قدیم ترین مسجد عمر بن عاص میں رکھے ہوئے تھے۔
ماہرین کو یہ یقین ہے کہ یہ صفحات پیرس میں فرانس کی نیشنل لائبریری ’ببلیوتھک نیشونال دی فرانس‘ میں رکھے قرآن شریف کے صفحات سے ملتے ہیں۔
لائبریری اس بارے میں قرآن کے تاریخ دان اور کالج دی فرانس میں معلم فرانسوا دریچو کا حوالہ دیتی ہے جنھوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برمنگھم میں ملنے والے صفحات اور پیرس کی لائبریری میں رکھے ہوئے صفحات قرآن شریف کے ایک ہی نسخے کے ہیں۔
برمنگھم یونیورسٹی کی دستاویزت میں قرآن شریف کے صفحات تلاش کرنے والے محقق البا فدیلی کا بھی یہی کہنا ہے کہ پیرس اور برمنگھم یونیورسٹی میں موجود صفحات ایک ہی نسخے کے ہیں۔
پیرس کی لائبریری میں رکھے ہوئے صفحات کے بارے میں علم ہے کہ یہ فسطاط میں مسجد عمر بن عاص کے قرآن شریف کے نسخے کے ہیں۔
پیرس کی لائبریری کے صفحات انیسویں صدی کے اوائل میں نپولین کی فوج کے مصر پر قبضے کے دوران وہاں تعینات وائس کونسل ایسلین دی چرول یورپ لائے تھے۔
پروفیسردریچو کا کہنا ہے کہ ایسلین دی چرول کی بیوہ نے یہ نسخہ اور کچھ اور قدیم دستاویزات برٹش لائبریری کو سنہ 1820 میں فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن یہ پیرس کی نیشنل لائبریری کو مل گئے اور جب سے اب تک یہ وہیں محفوظ ہیں۔
اسی دوران کچھ حصے نکال لیے گئے جو بعد میں فروخت کر دیے گئے۔ قیاس یہی ہے کہ متعدد بار فروخت ہونے کے بعد یہ صفحات ایک عراقی پادری ’ایلفاس منگانا‘ کے ہاتھ آئے۔ وہ مشرق وسطی میں نوادرات اکٹھا کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ جایا کرتے تھے ان کا خرچہ برطانیہ کا کیڈبری خاندان اٹھاتا تھا۔پروفیسر دریچو کا کہنا ہے کہ اس بات کے کوئی سرکاری شواہد موجود نہیں لیکن اس طرح منگانا کو فسطاط کے خزینے کی چند دستاویزات ملی ہوں گی۔ منگانا کو انہی گراں قدر علمی خدمات کے عوض ’لیجن آف آنر‘ کا اعزاز دیا گیا۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org