مفتی نظام الدین صدر شعبہ افتا
فٹ بال، مارشل آرٹ کھیل وغیرہ کا کیا حکم ہے؟
فٹ بال ، مارشل آرٹ (حربی فنون یا رزمی فنون) والی بال، بیڈ منٹن اور پی ٹی، کیا طلبہ کو ان کھیلوں کو کھیلنے کی شرعی طور پر اجازت ہے؟کھیل کے بارے میں علما کیا فرماتے ہیں ۔
الجواب:صحت بہتر رہے، اس قصد سے فٹ بال وغیرہ کھیل جسمانی ورزش میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ طلبہ کے ناف سے گھٹنے تک اعضا چھپے رہیں، ورزش کے دوران بھی نہ کھلیں، معاوضہ کے لیے اور تفاخر کے طور پر مقابلہ نہ ہو اور نہ ہی نماز باجماعت اس کے باعث فوت ہو۔
ان شرائط کی رعایت ہو تو یہ کھیل حقیقت میں حفظان صحت کا طریقہ ہے اور جائز امور کھیل کا نام رکھ دینے سے ناجائز نہ ہوں گے جیسے شربت حلال ہے تو وہ کوئی نامناسب نام دینے سے ناجائز نہ ہوگا۔
کھیل اسلام میں ناجائز ہے اس کو لہو و لعب بھی کہتے ہیں کیوں کہ بندہ کھیل کے لیے نہیں پیدا کیا گیا اسی لیے لایعنی کاموں سے بچنے کا بھی حکم ہے۔ البتہ تین کھیل کی اسلام نے اجازت دی ہے:
(۱) اپنی بیوی کے ساتھ تفریح (۲) گھوڑے کو سدھانا
(۳) تیر اندازی کی مشق
کیوں کہ یہ تینوں نام کے کھیل ہیں مگر حقیقت میں بڑی حکمتوں اور مصالح کا سرچشمہ ہیں مثلا بیوی کے ساتھ تفریح اور کھیل کود نسل انسانی کے وجود اور بقا کا ذریعہ ہے اور بقیہ دونوں نسل انسانی کے تحفظ و بقا اور راحت و آسائش کے ذریعہ ہیں تو اگر کوئی کھیل ایسا ہو جو بظاہر کھیل ہو مگر وہ حفظان صحت کا معیار ہو تو اس حکمت اور مصلحت کی بنیاد پر اس کی اجازت ہوگی۔ ہم اس بارے میں سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کی حدیث اور فقہاے کرام کے کچھ ارشادات پیش کرتے ہیں۔
فی الدرالمختار: کرہ کل لھو لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کل لھو المسلم حرام الا ثلاثہ ملا عبتہ باھلہ وتادیبہ لفرسہ و مناضلتہ بقوسہ اھ۔
(الدرالمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع)
وفی رد المحتار: فی الجواھر: قد جاء الا ثر فی رخصتہ المصارعۃ لتحصیل القدرۃ دون التلھّی فانہ مکروہ اھ والظاھر ان یقال مثل ذٰلك فی تادیب الفرس والمناضلۃ بالقوس اھ۔(ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ / فصل فی البیع، داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۵۳ و ۲۵۸)
وفیہ عن القھستانی عن الملتقط: من لعب بالصولجان یرید الفروسیۃ یجوز اھ۔(ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ / فصل فی البیع، داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۵۸)
وفی الدر: المصارعۃ لیست ببدعۃ الا للتلھی فتکرہ۔ برجندی۔
(الدرالمختار کتاب الحظروالاباحۃ / فصل فی البیع )
حدیث نبوی اور ارشادات فقہا سے بخوبی عیاں ہوتا ہے کہ کھیل سے مقصود جب کوئی اہم مصلحت ہو تو شرعًا اس کی اجازت ہوتی ہے۔
اس شرح و بیان سے یہ بات بھی واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ سوال میں فٹ بال وغیرہ جن پانچ کھیلوں کا ذکر ہے وہ حفظان صحت کے لیے خاص ورزش کی نیت سے کھیلے جائیں تو جائز و درست ہیں۔
البتہ یہ اجازت چند شرائط سے مشروط ہے۔
(۱)کھیلنے اور کھلانے والوں کی نیت جسمانی ورزش اور حفظان صحت ہو۔
(۲)مقابلہ و معاوضہ و تفاخر کے طور پر نہ ہو کہ اس میں ہار جیت ہو اور کھیلنے والوں کو کچھ معاوضہ یا انعام دینا مشروط یا عرفا معلوم ہو۔
(۳)ناف سے لے کر گھٹنے تک اچھی طرح لباس میں چھپا ہو کھیلنے میں کوئی عضو ظاہر نہ ہو۔
(۴) نماز اورجماعت نہ چھوٹنے پائے۔ ان چاروں شرطوں کی پابندی کی جائے تو یہ کھیل حکمت و مصلحت ہیں، لہذا جائز ہیں اور ان کی پابندی نہ کی جائے تو وہ کھیل واقعی کھیل ہیں حکمت و مصلحت نہیں لہذا ممانعت ہوگی۔ واللہ تعالی اعلم۔
پرانی مسجد کو راستہ بنانا کیسا ہے؟
کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک گاؤں میں مسلمانوں نے ایک چھوٹی سی مسجد بنائی اور اس میں نمازوں کا سلسلہ شروع کر دیا کم و بیش دس سال سے مسجد قائم ہے۔ گاؤں والوں نے مسجد کی توسیع کا ارادہ کیا اور مسجد کے بغل میں کچھ جگہ مزید خریدی اور نئی والی جگہ میں مسجد تعمیر کی۔ اور جو پرانی مسجد تھی جس میں پہلے نماز ہوتی تھی اس جگہ کو اب اس طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں کہ اس کو صحن بنادیا جائے تا کہ نمازی اسی پر انی والی مسجد سے گذر کر نئی والی مسجد میں نماز کے لیے جائیں تو کیا گاؤں والوں کا پرانی مسجد والی جگہ جس میں کم و بیش دس سال سے نماز ہوتی رہی اس کو چھوڑ کر دوسری جگہ مسجد بنانا جائز ہے؟ نیز پرانی مسجد والی جگہ کو صحن اور راستے کے طور پر استعمال کرنا کیسا ا مزید یہ کہ پر انی والی مسجد کو نئی مسجد میں کس طرح شامل کریں جس سے پرانی مسجد ویران بھی نہ ہو اور نئی مسجد میں نماز بھی ہوتی رہے۔ براہ کرم رہنمائی فرما کر عند اللہ ثواب کے حق دار بنیں۔
الجواب: مسجد کو عام راستہ بنانا جائز نہیں ، اس لیے مسلمان راستے کے واسطے الگ سے زمین حاصل کر لیں یا خرید لیں۔ اور پرانی مسجد کو یوں آباد رکھیں کہ یہ پوری مسجد نئی مسجد سے ملا کر شمال، جنوب میں صفیں دراز کر لیں اور پورے حصے میں نماز پڑھیں ۔ وہ حصہ قیامت تک کے لیے مسجد ہے اور وہ بھی بلندی میں آسمان کے کنارے تک، لہذا اس کی بے حرمتی سے بچنا واجب و لازم ہے۔
پرانی مسجد کو یوں چھوڑ دینا کہ اس میں نماز پڑھنا موقوف ہو جائے اور بس نئی مسجد کے راستے کے طور پر اس کا استعمال ہو حرام و گناہ ہے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسْجِدَ اللهِ أنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا -(القرآن الحكيم سورة البقرة: ٢، الآية: ١١٤)
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ کی مسجدوں کو رو کے ان میں نام خدا لیے جانے سے ۔ اور ان کی ویرانی میں کوشش کرے۔
لہذا پرانی مسجد کو ہرگز ہر گز عام راستے کے طور پر نہ استعمال کیا جائے۔
ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اس کو مسجد باقی رکھیں ، نئی مسجد کے ساتھ اسے جوڑ دیں اور اس حصے میں نمازوں کی صف شمالا جنوبا لمبی ہو۔ پھر جیسے مسجد میں نمازی ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے آتے ہیں اسی طور پر اس میں بھی جا اور آسکتے ہیں۔ پرانی مسجد قیامت تک کے لیے مسجد ہے اور زمین کے نیچے سے لے کر آسمان تک مسجد ہے، اسے ختم نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی عام گزر گاہ بنایا جاسکتا ہے جس میں جنبی اور حائض وغیرہ کو چلنے کی اجازت ہوتی ہے ، نہ ہی وہاں جنازے کی نماز پڑھی جا سکتی ہے کہ مسجد کے اندر یہ کام حرام و گناہ ہیں۔ یوں ہی وہاں جوتے چپل پہن کر جانا بھی ممنوع و بے ادبی ہے۔
در مختار میں ہے: و كره تحريما (الوطء فوقه، والبول والتغوط) لأنه مسجد إلى عنان السماء (واتخاذه طريقا بغير عذر) وصرح في القنية: بفسقه باعتياده (وإدخال نجاسة فيه) وعليه (فلا يجوز الاستصباح بدهن نجس فيه) ولا تطيينه بنجس (ولا البول) والفصد (فيه ولو في إناء) ويحرم إدخال صبيان ومجانين حيث غلب تنجيسهم وإلا فيكره. (الدر المختار، كتاب الصلاة، مطلب في احكام المسجد)
رد المحتار میں ہے:(قوله: إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي.
(قوله واتخاذه طريقا) في التعبير بالاتخاذ إيماء إلى أنه لا يفسق بمرة أو مرتين، ولذا عبر في القنية بالاعتياد نهر .
وفي القنية: دخل المسجد فلما توسطه ندم، قيل يخرج من باب غير الذي قصده، وقيل يصلي ثم يتخير في الخروج، وقيل إن كان محدثا يخرج من حيث دخل إعداما لما جنى اھ.
(قوله بغير عذر) فلو بعذر جاز.
في الفتاوى الهندية : لا يدخل المسجد من على بدنه نجاسة۔ (رد المحتار، کتاب الصلاة، مطلب في احكام المسجد) واللہ تعالیٰ اعلم
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org