22 November, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia May2023 Download:Click Here Views: 63003 Downloads: 845

(2)-امہات المومنین کے فضائل قرآنی آیات کی روشنی میں

مولانا محمد حبیب اللہ بیگ ازہری

نبی کریم رؤف رحیم علیہ افضل الصلاۃ والسلام کی ازواج مطہرات کی شان بہت بلند ہے، آپ صحابیات میں نمایاں مقام رکھتی ہیں، اور طبقہ نسواں میں سب سے افضل شمار کی جاتی ہیں، قرآن کریم میں ازواج مطہرات کے فضائل ومناقب، اور ان سے متعلقہ احکام و واقعات مختلف سورتوں میں بیان کیے گئے ہیں، ہم اپنے اس مقالے میں سورہ احزاب کی روشنی میں حضرات ازواج مطہرات کے ساتھ فضائل ومناقب تفصیل کے ساتھ رقم کر تے ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔

 ازواج مطہرات امہات المومنین ہیں :

 ازواج مطہرات، مسلمانوں کی مائیں ہیں، ارشاد باری ہے:

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ-                       [الأحزاب: ٦]

یعنی نبی مسلمانوں کے لیے ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں، اور ان کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں۔

اس آیت میں دو باتیں بتائی گئیں ہیں، ایک تنفیذ احکام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیارات وتصرفات۔ دوسرے ازواج مطہرات کا مقام ومرتبہ۔

کسی بھی دینی یا دنیاوی حکم کے نفاذ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل اختیارات وتصرفات حاصل ہیں، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کا حکم دیں، یا کسی چیز سے منع فرمادیں، اور نفس اس کے بجائے کسی دوسری چیز کی خواہش کرے، والدین یا اہل خانہ منع کرے، حالات سازگار نہ ہوں، یا کسی بھی طرح کے عوارض در پیش ہوں، بہر صورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کی جائے گی، اور امر ونہی کی شکل میں جو بھی حکم صادر ہو اس کی بجا آوری لازم اور ضروری ہوگی، کیوں کہ کسی مسلمان کو اپنی جان پر جتنا اختیار ہوسکتا ہے اس سے زیادہ اختیار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امت مسلمہ کی جانوں پر حاصل ہے، فرمایا:

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ

نبی مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ مالک ہیں۔

 لہٰذا نبی کے حکم کے بالمقابل نفس، طبیعت، والدین، خاندان اور ماحول کی بات نہیں مانی جائے گی، کیوں کہ نبی کا حکم رشد وہدایت پر مبنی ہوتا ہے، اور فلاح و نجات کا ضامن ہوتا ہے، جب کہ خواہش نفس گمراہی کی طرف لے جاتی ہے، اور دنیا و آخرت میں بربادی کا سبب بن جاتی ہے، اسی لیے نبی کا حکم بہر صورت واجب العمل ہوگا۔

اس آیت مبارکہ میں دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں، فرمایا:

وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ-  

یعنی نبی کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں۔

اس آیت کے تحت تفسیر ابو السعود میں ہے:

مُنَزَّلاتٌ مَنزِلَةَ الأُمَّهاتِ في التَّحْرِيمِ، واسْتِحْقاقِ التَّعْظِيمِ، وأمّا فِيما عَدا ذَلِكَ فَهُنَّ كالأجْنَبِيّاتِ.

تفسیر نسفی میں ہے:

في تَحْرِيمِ نِكاحِهِنَّ، ووُجُوبِ تَعْظِيمِهِنَّ، وهُنَّ فِيما وراءَ ذَلِكَ كالإرْثِ ونَحْوِهِ، كالأجْنَبِيّاتِ، ولِهَذا لَمْ يَتَعَدَّ التَحْرِيمُ إلى بَناتِهِنَّ۔

اسی کے مثل دیگر مستند تفاسیر میں ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ازواج مطہرات دو چیزوں میں ماؤں کے مثل ہیں، ایک تعظیم وتکریم میں، دوسرے حرمت نکاح میں، ان کے علاوہ باقی سارے معاملات میں اجنبی خواتین کے حکم میں ہوں گی، لہٰذا ازواج مطہرات کی بیٹیاں مسلمانوں کی بہنیں نہیں ہوں گی، ان سے عام مسلمانوں کو نکاح کی اجازت ہوگی۔ ازواج مطہرات کے بھائی، بہن مسلمانوں کے مامو، خالہ نہیں ہوں گے۔ ازواج مطہرات کا ترکہ غیر صلبی اولاد میں تقسیم نہیں ہوگا۔

اس آیت کے تحت تفسیر تبیان القرآن میں ہے:

 اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کو یہ شرف عطا کیا کہ ان کو مومنین کی مائیں قرار دیا، یعنی ان کی تعظیم اور ان کی بزرگی اور ان کا ادب اور احترام مسلمانوں پر اس طرح لازم ہے جس طرح اپنی ماؤں کا ادب و احترام لازم ہوتا ہے، اور جس طرح ماں محرم ہے اور اس سے نکاح حرام ہے اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج سے نکاح کرنا امت پر حرام ہے، قرآن مجید میں ہے:

وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًاؕ

[الأحزاب: ٥٣]

اور نہ تمھارے لیے یہ جائز ہے کہ نبی کے بعد کبھی بھی ان کی بیویوں سے نکاح کرو۔

اور باقی معاملات میں ازواج مطہرات اجنبی عورتوں کی مثل ہیں، اسی لیے ان سے خلوت میں ملنا، ان کے ساتھ سفر کرنا، بلا ضرورت شرعی ان سے باتیں کرنا اور ان کے چہروں کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے، قرآن مجید میں ہے:

وَإِذَا سَأَلۡتُمُوهُنَّ مَتَـٰعًا فَسۡـَٔلُوهُنَّ مِن وَرَاۤءِ حِجَابٍۚ.

اور جب تم نبی کی ازواج سے سوال کرو تو پردے کے پیچھے سے سوال کرو۔ انتهى كلامه

لہذا ازواج طاہرات حرمت نکاح کے باب میں ماؤں کے مثل ہوں گی، اور سگی ماں سے زیادہ ان  تعظیم وتکریم ضروری ہوگی، باقی سارے معاملات میں مثلاً خلوت، کلام، حجاب، اور وراثت  وغیرہ امور میں اجنبی عورتوں کے مثل ہوں گی۔

ازواج مطہرات کے لیے اجر عظیم ہے :

قرآن کریم نے حضرات ازواج مطہرات کے لیے اجر عظیم کی بشارت سنائی ہے، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا۔وَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۔

 [الأحزاب: ٢٨-٢٩]

اس آیت کا ترجمہ یا مفہوم سمجھنے سے پہلے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے، کتب تفاسیر کے مطابق اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرات ازواج طاہرات نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور عمدہ ملبوسات، نفقے میں فراخی یا کسی دنیاوی ضرورت کی خواہش ظاہر کی، تو کمال زہد اور عیش و تنعم سے حد درجہ بے اعتنائی کے باعث ان نفوس طاہرہ کی فرمائش خاطر اقدس پر گراں گزری، آپ نے اپنے ازواج مطہرات سے علاحدگی کا فیصلہ کرلیا، اس وقت قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیات نازل ہوئیں، اور اللہ رب العزت نے آپ سے فرمایا کہ آپ اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی زیبائش چاہتے ہو تو آؤ میں تمھیں کچھ مال دے دوں اور احسن طریقے پر چھوڑ دوں، اور اگر تم اللہ، اس کے رسول اور دار آخرت کو پسند کرتے ہو تو اللہ نے تم میں حسن سلوک کرنے والی بیبیوں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔

ان آیات بینات کے نزول کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات سے مخاطب ہوئے، اور فرمایا کہ اگر تم دنیا کو اختیار کرنا چاہو تو اختیار کرلو، میں تمھیں دولت دے کر بہتر طریقے پر رخصت کردوں گا، اور اگر مجھے اختیار کرنا چاہو تو میں تمھیں اپنے نکاح میں بر قرار رکھوں گا، اس وقت حضرات ازواج مطہرات نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض صحبت کو اختیار کیا اور آپ کی خدمت وناز برداری کو ترجیح دی۔

قرآن کریم نے انھی نفوس قدسیہ کے بارے میں فرمایا کہ جو بیبیاں اللہ ورسول کی رضا جوئی کو سب پر مقدم رکھتی ہیں، دنیا کے مقابلے میں آخرت کو اختیار کرتی ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حسن سلوک کو اپنے لیے سرمایہ افتخار اور ذریعہ نجات سمجھتی ہیں ان کے لیے اجر عظیم ہے، اور وہ اجر عظیم یہ ہے کہ جنت الفردوس میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہیں گی، اور وہاں کی دائمی نعمتوں سے سرفراز ہوتی رہیں گی۔ 

ازواج مطہرات کو دوہرا ثواب دیا جائے گا:

ازواج مطہرات کا اجر وثواب دیگر خواتین کے مقابلے میں دو گنا ہوگا، ارشاد باری ہے:

وَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَاۤ اَجْرَهَا مَرَّتَیْنِۙ-وَ اَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِیْمًا۔

 [الأحزاب: ٣١]

اور تم میں جو اللہ ورسول کی اطاعت کرے، اور نیک کام کرے ہم اسے دوہرا اجر عطا کریں گے، اور ہم نے اس کے لیے عزت کی روزی تیار کر رکھی ہے۔

اس آیت کریمہ کے مطابق حضرات ازواج مطہرات کو ان کے نیک اعمال پر دوہرا ثواب دیا جائے گا، یعنی کسی بھی نیکی پر عامۃ الناس کو دس نیکیاں ملتی ہیں تو ازواج مطہرات کو بیس نیکیاں ملیں گی، علاوہ ازیں آخرت میں ان کے لیے جنت الفردوس کی ابدی نعمتیں ہوں گے اور وہاں عزت کی روزی عطا کی جائے گی، یہ بارگاہ الہٰی میں ان کی وجاہت و مقبولیت کی دلیل ہے، اور یہ سب کچھ حضور اقدس کے فیض صحبت کی برکت اور آپ کی بے لوث خدمت کا صلہ ہے۔

وہ ہیں اللہ والے جو تجھے والی کہیں اپنا

کہ تو اللہ والا ہے ترا اللہ والی ہے

 ازواج مطہرات جیسی کوئی خاتون نہیں:

کوئی بھی خاتون فضل وکمال میں ازواج مطہرات کا ہم پلہ نہیں ہوسکتی، ارشاد باری ہے:

یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ

[الأحزاب: ٣٢]

اے ازواج نبی! اگر تم اللہ سے ڈرتی رہو تو تم کسی عورت کی طرح نہیں ہوسکتیں۔

یعنی فضل وکمال میں کوئی عورت ازواج مطہرات کے ہم پلہ نہیں ہوسکتی، کیوں کہ فضیلت کا معیار دو چیزیں ہیں، ایک اللہ کی معرفت اور خشیت، دوسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت اور محبت، اور حضرات ازواج مطہرات کو یہ دونوں کمالات بر وجہ اتم حاصل ہیں، اسی لیے وہ تمام خواتین میں افضل اور سب پر فائق ہیں۔

کتب سیرت وطبقات میں حضرات ازواج مطہرات کے علم وفضل، تدبر وبصیرت، عبادت وریاضت، زہد وورع، فکر آخرت، دنیا سے بے رغبتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طاعت و خدمت اور ان کے لیے اخلاص ووفاداری، صحابیات کے ساتھ ہم دردی اور خیرخواہی، اور اسلام کے لیے قربانی اور جاں نثاری کے واقعات پڑھنے کے بعد ہر منصف مزاج شخص یہی کہے گا کہ جو مقام ومرتبہ ازواج مطہرات کا ہے اس میں کوئی بھی خاتون آپ کا ہم پلہ اور مماثل نہیں ہوسکتی۔

 اہل بیت کی اولین مصداق ازواج مطہرات:

 حضرات ازواج مطہرات، اہل بیت کی اولین مصداق ہیں، ارشاد باری ہے:

اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا۔[الأحزاب: ٣٣]

اے نبی کے گھر والو! اللہ تم سے ہر ناپاکی کو دور کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ تمھیں خوب ستھرا کردے۔

اس آیت کریمہ میں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہیں، اور حضرات ازواج مطہرات ہی اس کے اولین مخاطب اور صحیح مصداق ہیں، اس لیے کہ سیاق وسباق میں ازواج مطہرات کا ذکر ہے، پورا مضمون امہات المؤمنین سے متعلق ہے، اس سے پہلی آیات میں یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ کہہ کر ازواج نبی کو مخاطب کیا گیا، بعد کی آیت میں وَٱذۡكُرۡنَ  کہہ کر انھیں ذکر الہی کی تعلیم دی گئی، تو ظاہر ہے کہ جب اگلی پچھلی آیات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجات سے خطاب ہے تو درمیان میں أَهۡلَ ٱلۡبَیۡتِ سے مراد ازواج مطہرات ہی ہوں گے، اس کے علاوہ آیت اہل بیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے رجس کو دور کرکے مکمل طور پر ستھرا کرنا چاہتا ہے، اور یہ مضمون سابقہ آیات میں بیان کیے گئے واقعہ اور اس کے بعد نازل ہونے والی تنبیہ سے پورے طور پر ہم اہنگ ہے، اسی لیے اس آیت میں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہی ہوں گے، البتہ اہل بیت کا مفہوم بہت وسیع ہے، یا اس کے اور دوسرے مصادیق بھی ہیں جس کی بنیاد پر حضرت علی، سیدہ فاطمہ، اور حضرات حسنین کریمین کو اہل بیت کہا جاتا ہے۔

اس آیت کریمہ میں رب کائنات نے ازواج مطہرات کو اہل بیت کہہ کر مخاطب کیا، پھر ان سے فرمایا کہ تمھارا رب تمھیں ہر طرح کے مذموم اور قابل گرفت اعمال سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے، اور یہ بھی چاہتا ہے کہ تمھارے ظاہر وباطن کو پاک کرکے مکمل طور پر ستھرا کردے۔

یہ وہ اعزاز ہے جس میں اہل بیت کا کوئی شریک وسہیم نہیں ہوسکتا، اللہ جس کو عفت وطہارت عطا کردے اس کی عظمت ورفعت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ اللہ جس کی عفت وطہارت کا ذمہ لے لے اس کا وقار کوئی مجروح نہیں کرسکتا۔ اس صریح ارشاد کے ہوتے ہوئے اگر کوئی ازواج مطہرات اور اہل بیت کی عزت وکرامت پر انگشت نمائی کرتا ہے تو وہ بجا طور پر قرآن کریم کا منکر، اہل بیت کا گستاخ اور حق وصداقت سے کوسوں دور ہے۔

 ازواج مطہرات سے نکاح حرام:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی  وفات ظاہری کے بعد ان کی ازواج طاہرات سے نکاح حرام قطعی ہے، ارشاد باری ہے:

وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًاؕ-    اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا۔ اِنْ تُبْدُوْا شَیْــٴًـا اَوْ تُخْفُوْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۔

[الأحزاب: ٥٣-٥٤]

اور تمھیں اس بات کی اجازت  نہیں کہ رسول اللہ کو ایذا دو، اور نہ اس بات کی اجازت ہے کہ ان کے بعد ان کی بیبیوں سے نکاح کرو، بے شک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے۔ اور اگر تم اپنے دل میں کوئی بات چھپاؤ یا ظاہر کردو تو اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔

ان آیات مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کما حقہ تعظیم کرنے اور انھیں کسی بھی طرح کی تکلیف دینے سے باز رہنے کی تعلیم دی گئی ہے، اور بطور خاص اس امر سے آگاہ کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن خواتین کو زوجیت کا شرف بخشا ان سے نکاح نہ کرو، کیوں کہ وہ دنیا و آخرت میں آپ کی زوجیت میں رہیں گی، اور آپ سے نسبت کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے ماں کے درجے میں ہوں گی، لہٰذا وفات اقدس کے بعد ان سے نکاح ایسے ہی حرام ہوگا جیسے سگی ماں سے حرام ہوتا ہے، مزید فرمایا کہ اس حکم کو معمولی نہ سمجھو، بلکہ ہمیشہ اس سلسلے میں محتاط رہو، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینا اور ان کے بعد ان کی بیبیوں سے نکاح کے بارے میں سوچنا اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے، اور اگر کوئی نکاح کا ارادہ ظاہر کردے، یا دل میں چھپائے رکھے، اور لوگوں سے بیان نہ کرے دونوں صورتوں میں وہ اللہ کی گرفت بچ نہیں سکتا، کیوں کہ اللہ کو ہر شے کا علم ہے، اور وہ اپنے محبوب کی عزت وناموس کے معاملے میں کسی بھی طرح کی تساہلی پسند نہیں فرماتا۔

 ازواج مطہرات کا مسکن کاشانہ نبوت ہے:

عورت عدت کے دوران شوہر اول ہی سے منسوب ہوتی ہے، اسی لیے وہ اپنے شوہر ہی کے گھر میں رہے گی، اور اسی کے نفقہ پر گزارا کرے گی، لیکن جب عدت پوری ہوجائے تو پورے طور پر شوہر اول سے علاحدہ ہوجاتی ہے، اور دوسرے شوہر کے لیے حلال ہوجاتی ہے، اسی لیے اب اسے شوہر اول کے گھر میں رہنے کی اجازت نہیں ہوگی، لیکن ازواج مطہرات کی شان ہی نرالی ہے، وہ دنیا و آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حریم عفت میں رہیں گی، اسی لیے نہ ان کے لیے عدت ہے، نہ انھیں اپنا گھر چھوڑنے کی اجازت ہے، فرمایا:

وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِیْنَ الزَّكٰوةَ وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-

[الأحزاب: ٣٣]

اور تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو، اور قدیم جاہلیت کی بے پردگی کی طرح بے پردہ نہ رہو، نماز قائم کرو، زکات ادا کرو، اور اللہ ورسول کی اطاعت کرو۔

اس آیت مبارکہ میں ازواج مطہرات کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کاشانہ نبوت میں ٹھہری رہیں، وہیں سکونت اختیار کریں، اور بے پردگی سے احتراز کریں۔ حضرات ازواج مطہرات تا دم اخیر اس حکم پر عمل پیرا رہیں، بلا ضرورت کبھی گھر سے باہر نہیں نکلیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عطا کردہ حجروں میں رہ کر تبلیغ دین اور اشاعت علم کا فریضہ انجام دیتی رہیں۔

یہ حضرات امہاتُ المومنین رضی اللہ عنہن کے وہ فضائل ومناقب ہیں جو ان کے درمیان مشترک ہیں، جن کی بنیاد پر وہ صبح قیامت تک آنے والے ہر مسلمان کے لیے سگی ماؤں سے زیادہ قابل تعظیم اور لائق تکریم قرار پاتی ہیں، اللہ رب العزت ہمیں امہاتُ المومنین کی سچی محبت عطا فرمائے، اور ہمیں حشر کے دن صحابہ واہل بیت کے ساتھ اٹھائے، آمین یارب العالمین۔

اہل اسلام کی مادران شفیق

بانوان طہارت پہ لاکھوں سلام

جن میں روح القدس بے اجازت نہ جائیں

ان سرادق کی عصمت پہ لاکھوں سلام

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved