کیا شیئر مارکیٹ کے جواز کا کوئی حکم ہے؟
السلام علیکم، حضور !اس طرح کے چند ویڈیوز ہمارے سنی مفتیان کرام اور علماے کرام کے یوٹیوب پر موجود ہیں جن سے عوام کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ایسے توشیئر مارکیٹ نا جائز ہے مگر کیا اس میں کوئی جواز کا پہلو نکل سکتا ہے ؟
الجواب:بسم الله الرحمن الرحيم
حامداو مصليا و مسلما
عدم جواز کی وجہ سود ہے اور شیئر بازار میں کاروبار سے ممانعت کی اصل بنیاد بھی یہی ہے ۔ ورنہ یہ تو سب جانتے ہیں کہ مال، حرام ہو مثلاً خنزیر یا خمر یا مردار ہو تو اس کا کاروبار مسلمان کے لیے حرام ہے اور مال حلال ہو مثلاً بکری، شربت یا مذبوح مرغ وغیرہ ہو تو اس کا کاروبار حلال ہے ، ساری دنیا میں مسلمانوں کا عمل اس پر ہے اور یہ سب کو معلوم بھی ہے ، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
شیئر کمپنی تین طرح کے معاملات کے پہیے پر گردش کرتی ہے:
•ایکوٹی شیئر • پریفرینس شیئر •قرض تمسکات
ان میں پریفرینس شیئر اور قرض تمسکات تو سودی ہی ہوتے ہیں کہ ان معاملات کی بنیاد میں سود داخل ہے ، اور ایکوٹی شیئر میں سود تو نہیں ہوتا، لیکن اس کے شیئر ہولڈرس جو کمپنی کے مالکان ہوتے ہیں وہ قرض تمسکات والوں اور پریفر نیس شیئر داروں کے سود اپنے ملازمین کے ذریعہ ادا کرتے ہیں اور یہ بلاشبہ حرام ہے، اس لیے ہم اس سے بچنے کا حکم دیتے ہیں ، اور جب تک سود سے یہ آلودگی پائی جائے گی حرمت کا حکم بر قرار رہے گا جیسا کہ کتاب و سنت کے نصوص میں اس کا ذکر واضح الفاظ میں ہے۔
ایسا نہیں کہ متاعِ خرید و فروخت کی وجہ سے اس سے بچنے کا حکم ہو، وہ تو سب جانتے ہیں کہ متاع حرام ہے تو معاملہ حرام ہے اور متاع حلال ہے تو معاملہ حلال ہے، مثلاً چاول، آٹا، دال، سبزی وغیرہ حلال اشیا کا کاروبار اصالۃً جائز ہے تو وہ جائز ہی ہے ، وہ کیوں حرام ہو گا اور کوئی بھی صاحب علم اسے کیوں حرام کہے گا، کیا جب کوئی محقق وقت بتائے گاتب دنیا اسے حلال سمجھے گی، مطلقاً ممنوع ہونے کی اصل وجہ وہ ہے جو او پر بیان ہوئی۔ اس میں میری نگاہ میں جواز کا کوئی گوشہ نہیں۔
اگر کوئی صاحب علم اس میں جواز کا کوئی گوشہ بتائیں، یا یہ واضح فرمائیں کہ کمپنی کا طریق کار بدل کر اسے سود کی آلودگی سے پاک کر دیا گیا ہے تو ضرور ایکوٹی شیئر کے جواز کا حکم ہو گا جب کہ متاع حلال ہو مگر ہمیں اب تک ان دونوں باتوں سے آگاہی نہیں ہو سکی، ممکن ہے کسی صاحب اطلاع کو معلوم ہو۔ واللہ تعالی اعلم۔
شیئر مارکیٹ میں انویسٹ کرنا کیسا ہے؟
کیا فرماتے ہیں علماے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ : شیئر مارکیٹ میں انویسٹ کرنا کیسا ہے ؟ جائز ہے یا نا جائز ہے ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب رقم فرمائیں ، اور عنداللہ ماجور ہوں ۔
الجواب الملفوظ:بسم الله الرحمن الرحيم
شیئر مارکیٹ میں روپئے انویسٹ کرنا نا جائز ہے اور حکم شرعی یہی ہے کہ اس میں تجارت سے ، شرکت سے، پارٹنر شپ سے بچا جائے؟ کیوں کہ اس میں سود سے آلودہ ہونا پڑتا ہے اور سود سے آلودہ ہونا ،سود دینا ، لینا یہ ناجائز ہے ۔ تحقیق و تفصیل میری کتاب ” شیئر بازار کے مسائل“ میں ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم
شیئر مارکیٹ سے متعلق ایک شبہ اور اس کا ازالہ؟
کیا فرماتے ہیں علماے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ میرے ذہن میں شیئر مارکیٹ کے تعلق سے ایک شبہ ہے کہ جو کمپنی کے مالکان ہیں جیسے بینکوں سے سودی معاملات جائز ہیں جن کمپنی کے مالکان غیر مسلم ہیں تو ان بینکوں سے سود جائز ہے ۔ اسی طرح جو کمپنی ہے ٹاٹا وغیرہ ان کمپنیوں کے مالکان عام طور سے غیر مسلم ہوتے ہیں تو جب ان کمپنیوں کے مالکان غیر مسلم ہیں تو ان کے ساتھ شیئر کرنا، ان کے شیئر خریدنا اور نفع لینا غیر مسلم سے تو یہ بھی جائز ہونا چاہیے، ہماری عقل وہاں تک نہیں پہنچ رہی ہے تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ مسلم اور کافر کے درمیان ربا اور سود ہے نہیں تو پھر شیئر مارکیٹ میں یہ ناجائز سود کو معیار بنا کر کے قرار دیا گیا ہے اس کی وضاحت فرما دیں۔ کرم ہو گیا۔
الجواب الملفوظ:بسم الله الرحمن الرحيم
بینک میں جو لوگ روپئے جمع کرتے ہیں وہ بینک کے مالک نہیں ہوتے وہ بینک کے کھاتے دار ہوتے ہیں۔ بینک کا مالک کوئی اور ہوتا ہے تو کھاتے دار کا حکم الگ ہے ۔ شیئردار کا حکم الگ ہے ۔ کھاتے دار بینک کا مالک نہیں ہوتا اور شیئر دارمالک ہوتا ہے، یہ ہے دونوں میں فرق ۔شیئردار جب کمپنی کا مالک ہے تو جہاں ہزاروں اس میں غیر مسلم ہیں وہاں ہزاروں یا کم از کم سیکڑوں مسلم بھی ہیں اور یہ سب کی سب اپنے ترجیح حصص والوں کو سود دیتے ہیں اور پریفرینس شیئر والے مسلم بھی ہو سکتے ہیں تو اس کا حاصل ہوا کہ مسلم نے مسلم کو سود دیا اور مسلم مسلم کو سود دے یہ جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے ۔ لیکن بینک والے مسئلہ میں ایسا کبھی لازم نہیں آتا ہے کہ مسلم نے مسلم کو سود دیا کیوں کہ یہاں مالک نہیں ہے یہ تو صرف کھاتے دار ہے ۔ یہ دائن ہے اور بینک مدیون ہے اور شیئر والے مسئلہ میں دائن اور مدیون کی بات نہیں ہے۔ مگر ایکوٹی شیئر والے سب کی سب کمپنی کے اصل مالکان ہیں جن میں مسلم بھی ہیں اور غیر مسلم بھی۔ اب پریفرنس شیئر جو لوگ لیں گے جو اپنی حقیقت کے لحاظ سے سود اور قرض کا معاملہ ہے ان میں بھی مسلم و غیر مسلم ہوں گے تو پھر وہی لازم آئے گا کہ مسلم نے مسلم کو سو د دیا۔ مسلم نے مسلم سے سود لیا تو مسلمان کا مسلمان سے سود دینا لینا حرام و گناہ ہے تو یہ فرق ہے کھاتے داروں میں اور شیئر داروں میں۔
واللہ تعالٰی اعلم
عقیدۂ نبوت سے متعلق ایک مسئلہ
کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ :
ایک مقرر صاحب نے دوران تقریر اس طرح کے الفاظ کہے ہیں کہ کچھ انبیا پیدائشی نبی ہوتے ہیں جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور کچھ انبیا ایسے ہوتے جن کو بعد میں نبوت ملی جسے حضرت یوشع بن نون کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت کرتے رہے پھر ان کو نبوت عطا ہوئی ،پس جب مطالعہ کیا تو قرآن پاک میں جو میثاق کی آیت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیا کے نبی ہونے کا ذکر ہے۔
قرآن حکیم میں ہے:وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ. تو اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ تمام انبیا پہلے ہی نبی ہوتے ہیں ، پیدائشی نبی ہوتے ہیں، البتہ اعلانِ نبوت الگ الگ وقت پر ہوا ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پہلے ہی اعلانِ نبوت فرما دیا تھا ۔ اور قرآن حکیم میں ہے: اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ.اس آیت سے پتہ چلتا ہے۔
لیکن یہاں ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی: قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا تھا : وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْ○هٰرُوْنَ اَخِی○۔تو ان کی دعا اللہ تعالی نے قبول فرمائی تھی ، اللہ فرماتا ہے : وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا۔ تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کبھی کبھی کچھ انبیا کو بعد میں نبوت عطا کی گئی ہے۔ تو کیا اسی طرح ہے یا تمام انبیا پیدائشی نبی ہوتے ہیں ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمادیں ۔
الجواب الملفوظ:بسم الله الرحمن الرحيم
حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور حضرت سیدنا ہارون علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اعلانِ نبوت کا حکم ہوا ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کی نبوت کسبی ہے ۔ یہ اپنی جگہ پر حق ہے کہ نبوت وہبی ہے اور ولایت بھی وہبی ہے جس پر آپ کی نقل کردہ آیت کر یمہ” وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ “ گواہ ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ ہم نے ان کو ہبہ کیا تو ” وَهَبْنَا “کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ نبوت وہبی ہے ، کسبی نہیں ہے ۔ اور ” مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ “فرمایا ” اپنی رحمت سے ہم نے ایسا کیا“۔ یہ نہیں ہے کہ” من دعاء موسیٰ“ اس طرح کا کوئی لفظ نہیں کہا گیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے یا موسیٰ علیہ السلام کے عرض کرنے سے نہیں، ”مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ “فرمایا ۔
موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی یہ اپنی جگہ پر حق ہے مگر اللہ نے جو نبوت عطا فرمائی حضرت سید نا ہارون علیہ السلام کو یہ محض اللہ کے فضل و رحمت سے ہے، یہاں کسب کو کوئی دخل نہیں ہے ۔ وہ علمِ الٰہی میں پہلے ہی سے نبی تھے، جیسا کہ تمام انبیاے کرام ومرسلینِ عظام علیہم الصلوات والتسلیمات علمِ الٰہی میں پہلے ہی سے نبی اور رسول تھے مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس کا علم نہیں تھا۔ اس لئے انہوں نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کو قبول فرمایا اور جو اللہ کے پہلے سے نبی تھے تو اللہ نے ان کی نبوت کو ظاہر فرما دیا ، ان کی نبوت کو ظاہر کر دینا جو پہلے سے علم الٰہی میں تھا، اسی اظہار کا نام قبول ہو گیا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ” وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ “ فرمایا کہ سب کچھ اللہ کی رحمت سے ہوا۔ اور قبول دعا کا مطلب صرف اتنا ہےکہ اللہ تعالی کے علم میں وہ پہلے سے نبی تھے مگر اس کا اظہار نہیں ہوا تھا۔ آپ نے قبولیت دعا کے طور پر ان کی نبوت کا اظہار فرما یا ۔
حضرت یوشع بن نون علیہ الصلوٰۃ والسلام کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ حضرت سیدنا موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت کی برکت سے ان کو نبوت نہیں ملی ہے۔ نبوت کسبی نہیں ہے بلکہ وہ بھی اللہ کی رحمت عالیہ اور اس کا فضل ہے ۔ مزید مذکورہ آیات کی تفسیر آپ تحقیق کے طور پردیکھ سکتے ہیں۔
یہ اپنی جگہ مسلّمات میں سے ہے کہ انبیا کی نبوت ، مرسلین عظام کی رسالت اور اولیاءاللہ کی ولایت یہ سب وہبی ہیں، ان میں سے کوئی کسبی نہیں ہے، ہاں بظاہر کہیں مجاہده نظر آتا ہے کہ اولیاء اللہ مجاہدہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو ولایت عطا فرماتا ہے ۔ لیکن مجاہدہ سبب نہیں ہے اور یہ کسب نہیں ہے ولایت کے لیے۔ بس یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ راضی ہو تا ہے اور اپنے فضل خاص سے انھیں ولایت دے دیتا ہے۔
انبیاے کرام کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے اپنی رحمت سے نبوت دے دیتا ہے اس میں کسی کے بھی کسب کا دخل نہیں ہے ۔
واللہ تعالٰی اعلم
اللہ تعالیٰ حاکمِ حقیقی ہے۔ اللہ حاضر کہنا کیسا ہے؟
اللہ نے موجودہ کافروں کو گزشتہ کافروں پر قیاس فرمایا۔ تفسیر ہود ۱۱؍ آیت:۱۰۹۔مفتی احمد یار خاں نعیمی۔ (صحیح ہے)
اللہ حاضر، یہ کہنا درست ہے؟ کیا اسماے حسنیٰ میں حاضر کا لفظ آیا ہے؟
الجواب: بسم الله الرحمن الرحيم
(1) ان الحكم الا لله (القرآن الحکیم ) حاکم محض اللہ ہے۔
جب حاکم حقیقی اللہ ہے تو وہ جو چاہے حکم جاری کرے وہاں قیاس کا گزر نہیں، قیاس تو بندے کرتے ہیں اور انھیں مسکوت عنہ کا حکم معلوم کرنے کے لیے اس کی حاجت پیش آتی ہے البتہ بندوں کی تعلیم و تفہیم کے لیے وہ امثال و تشبیہات ذکر کرتا ہے ، یہ اس کا قیاس نہیں بلکہ بندوں کو عبرت دلانے اور سمجھانے اور جو حکم معلوم نہ ہو اس کو مشبہ ومشبہ بہ کے ذریعے سمجھنےکے لیے رہنمائی ہے۔ اصول فقہ میں قیاس کا جو مفہوم معروف ہے اس کا اس کی بارگاہ میں کیا گزر ۔
میرے پاس تفسیر نعیمی نہیں ہے اور علالت کی وجہ سے مدرسہ جانا بھی کم ہوتا ہے اس لیے تفسیر نعیمی کی عبارت میرے پیش نظر نہیں آسکی تو میں اس کا حکم کیا لکھوں جب کبھی اس طرح کا سوال کرنا ہو تو پوری عبارت حوالے کے ساتھ بھیجنی چاہیے۔ واللہ تعالی اعلم۔
(۲) اللہ عزوجل کو حاضر و ناظر کہنا مناسب نہیں اس کی جگہ اللہ تعالیٰ کو شہید و بصیر سے یاد کرنا چاہیے، یہ دونوں اسماے حسنیٰ سے ہیں اور حاضر و ناظر اسماے حسنی سے نہیں ۔ اس بارے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے اپنے ایک مختصر فتوے میں بڑی جامع بات کہی ہے جو بجاے خود قول فیصل بھی ہے ، اسے ملاحظہ کریں امام موصوف فرماتے ہیں:
اللہ عزو جل شہید و بصیر ہے اسے حاضر و ناظر نہ کہنا چاہیے، یہاں تک کہ بعض علما نے اس پر تکفیر کا خیال فرمایا اور اکابر کو اس کی نفی کی حاجت ہوئی، مجموعہ علامہ ابن وہبان میں ہے، ویا حاضروناظر لیس بکفر، جو ایسا کہتا ہے خطا کرتا ہے بچنا چاہیے، و اللہ تعالی اعلم ۔ (فتاوی رضویہ، ج: ۶، ص: ۱۵۷، کتاب السیر، سنی دارالاشاعت ) ۔ واللہ تعالی اعلم۔
مسجد کا پیسہ عید گاہ میں لگانا کیسا ہے؟
کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ :
مسجد کے لیے دو لاکھ اکٹھا ہیں اور مسجد میں کوئی کام نہیں ہے تو کیا مسجد کا پیسہ عید گاہ میں ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے؟ یعنی عید گاہ میں لگایا جاسکتا ہے کہ نہیں ؟
الجواب الملفوظ:بسم الله الرحمن الرحیم
مسجد کا پیسہ عید گاہ میں لگانا جائز نہیں ہے نہ تو قرض کے طور پر اور نہ ہی ہبہ و تملیک کے طور پر ۔شامی وغیرہ میں یہ جزئیہ موجود ہے:
لا یجوز نقله ولا نقل مالہ الی مسجد آخر .
مسجد کا سامان اوراس کا مال دوسری مسجد میں منتقل کرنا جائز نہیں، تو عید گاہ میں منتقل کرنا بدرجۂ اولیٰ نا جائز ہوگا ۔
عالمگیری وغیرہ میں یہ جزئیہ موجود ہے، کہ مسجد کی چٹائی عید گاہ کو عاریت کے طور پر دینا جائز نہیں ہے۔ عاریت کا مطلب کہ عید گاہ میں لے کر گئے ، بچھائے، نماز پڑھی پھر مسجد کو واپس کر دیا ۔یہ جائز نہیں ہے۔ تو مسجد کا دولا کھ روپیہ عید گاہ کو دے دینا یہ بدرجۂ اولیٰ ناجائز و گناہ ہے ۔ اس سے بچا جائے۔ واللہ تعالٰی اعلم
پھٹے ہوئے کپڑے پہن کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
کچھ لوگ پھٹے ہوئے پاجامہ ( پینٹ) وغیرہ پہنتے ہیں اور اس طرح کے کپڑے پہن کر نماز پڑھتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟
الجواب:بسم الله الرحمن الرحيم
نماز میں اعضاے عورت کا چھپانا فرض ہے۔ یہ کل نو اعضا ہیں جن کی تفصیل عن قریب آرہی ہے۔
جن اعضا کا چھپانا فرض ہے ان میں کوئی عضو چو تھائی سے کم کھل گیا تو نماز ہو جائے گی اور اگر چوتھائی عضو تین بار سبحان اللہ کہنے کی مقدار کھلا رہا تو نماز نہیں ہوگی اور اگر قصدً ا کھولا تو تھوڑی دیر کھلے رہنے سے بھی نماز نہیں ہوگی۔ بہار شریعت کے درج ذیل مسائل سے یہ احکام عیاں ہوتے ہیں:
”مسئلہ ۲۶: جن اعضا کا ستر فرض ہے، ان میں کوئی عضو چوتھائی سے کم کھل گیا، نماز ہوگئی اور اگر چوتھائی عضو کھل گیا اور فورًا چھپا لیا، جب بھی ہوگئی اور اگر بقدر ایک رکن یعنی تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کے کھلا رہا، یا بالقصد کھولا، اگرچہ فوراً چھپا لیا، نماز جاتی رہی۔
(عالمگیری، ردالمختار)
مسئلہ ۲۷: اگر نماز شروع کرتے وقت عضو کی چوتھائی کھلی ہے ، یعنی اسی حالت پر اللہ اکبر کہہ لیا، تو نماز منعقد ہی نہ ہوئی۔(رد المحتار)
مسئلہ ۲۸: اگر چند اعضا میں کچھ کچھ کھلا رہا کہ ہر ایک اس عضو کی چوتھائی سے کم ہے، مگر مجموعہ ان کا اُن کھلے ہوئے اعضا میں جو سب سے چھوٹا ہے، اس کی چوتھائی کی برابر ہے، نماز نہ ہوئی، مثلاً عورت کے کان کانواں حصہ اور پنڈلی کا نواں حصہ کھلا رہا تومجموعہ دونوں کا کان کی چوتھائی کی قدر ضرور ہے، نماز جاتی رہی۔ (عالمگیری، ردالمختار)“
اعضاے عورت کی تفصیل بہار شریعت میں اس طرح ہے:
مرد میں اعضاے عورت نو ہیں ، آٹھ علامہ ابراہیم حلبی و علامہ شامی و علامه طحطاوی و غیر ہم نے گنے ۔ (1) ذکر مع اپنے سب اجزا، حشفہ و قصبہ و قلفہ کے ۔ (۲) انثیین یہ دونوں مل کر ایک عضو ہیں، ان میں فقط ایک کی چوتھائی کھلنا مفسد نماز نہیں ۔ (۳) دبر یعنی پاخانہ کا مقام۔ (۴ ، ۵) ہر ایک سرین جدا عورت ہے۔ (۶، ۷) ہرران جدا عورت ہے ۔ چڈھے سے گھٹنے تک ران ہے۔ گھٹنا بھی اس میں داخل ہے، الگ عضو نہیں ، تو اگر پورا گھٹنا بلکہ دونوں کھل جائیں نماز ہو جائے گی کہ دونوں مل کر بھی ایک ران کی چوتھائی کو نہیں پہنچتے ۔(۸) ناف کے نیچے سے ، عضو تناسل کی جڑ تک اور اس کے سیدھ میں پشت اور دونوں کروٹوں کی جانب، سب مل کر ایک عورت ہے۔
اعلیٰ حضرت مجدد مأۃ حاضرہ نے یہ تحقیق فرمائی کہ (۹) دبر وانثیین کے درمیان کی جگہ بھی ، ایک مستقل عورت ہے اوران اعضا کا شمار اور ان کے تمام احکام کو چار شعروں میں جمع فرمایا۔
ستر عورت بمرد نہ عضواست |
از تہِ ناف تا تہِ زانو |
ہر چہ ربعش بقدر رکن کشود |
یا کشودی دمے نماز مجو |
ذکر وانثیین و حلقہ پس |
دوسرین ہر فخذ بہ زانوئے او |
ظاہرً افصل انثیین و دبر |
باقی زیر ناف از ہر سو |
(بہار شریعت حصہ سوم ) ۔ واللہ تعالی اعلم
نماز کے وقت کمایا گیا مال حرام ہے یا نہیں؟
کیا فرماتے ہیں علماے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ جس نے نماز کے وقت کما یا تو نماز کے وقت کمانا حرام ہو گا یا نہیں ہوگا ، اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟شریعت میں ہے یا نہیں کہ نماز کے وقت کمائے گا وہ حرام ہوگا یا نہیں ہو گا؟
الجواب الملفوظ:بسم الله الرحمن الرحیم
نماز کے وقت میں نماز چھوڑ دینا، جماعت چھوڑ دینا یہ حرام و ناجائز و گناہ ہے اور نماز سے ، جماعت سے غافل ہو کر م اس سے دور ہو کر، تجارت میں مشغول رہنا نا جائز ہے، یعنی یہ فعل اور یہ کام نا جائز ہے لیکن مال پاک ہے جب کہ وہ بجاے خود پاک ہو تو رزق ناپاک نہیں ہے وہ حلال ہے اور طیب ہے ،وہ جائز ہے ،اور جو کام کیا نماز کے وقت میں ، نماز چھوڑ دی ، یہاں تک کہ وہ وقت چلا گیا یا جماعت چھوڑ دی یہاں تک کہ جماعت چھوٹ گئی یہ حرام اور گناہ ہے ،اس سے تو بہ کرنا اور آئندہ احتراز ضروری ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
اوراق مقدسہ کو ریزہ ریزہ کر کے کاغذ وغیرہ بنانے کا حکم
کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیانِ شرع
اس مسئلہ کے بارے میں کہ مقدس اوراق میں ضعیف قرآن کریم اور احادیث مقدسہ اور دیگر مقدس اوراق اور کتب کو ایک مشین کے ذریعے کاٹ کر ریزہ ریزہ کر کے گودہ بناتے ہیں اور پھر کاغذ یا گتّا بنا کر بیچتے ہیں۔آپ رہنمائی فرما ئیں کہ ایسا کرنا کیسا ہے؟کیا گتّا و چپل کے ڈبے ، گارمنٹس کے ڈبے وغیرہ میں استعمال ہوسکتا ہے، رہنمائی فرما ئیں ۔
الجواب : بسم الله الرحمن الرحيم
(۱) قرآن مقدس کے اوراق کو پارہ پارہ کرنا جائز نہیں اور نہ ہی انھیں جلانا جائز ، اوراق تھوڑے ہوں تو تعویذ بنا کر بچوں میں تقسیم کر دیا جائے ، زیادہ ہوں تو پاک جگہ پر مسلم میت کی طرح دفن کیا جائے۔
اتقان میں ہے :
(فرع) اذا احتيج الى تعطيل بعض اوراق المصحف البلاء ونحوه فلا يجوز تمزيقها لما فيه من تقطيع الحروف وتفرقة الكلم، وفي ذلك ازراء بالمكتوب، كذا قاله الحليمي. (الاتقان في علوم القرآن، ج:۲، ص: ۲۲۱ ، فصل فی آداب كتابته)
واللہ تعالیٰ اعلم
(۲) مصحف شریف کے سوا دوسرے اور اق و کتب کا حکم کچھ ہلکا ہے، چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے :
قواعد بغدادی و ابجد اور سب کتب غیر منتفع بہا ماوراے مصحف کریم کو جلا دینا بعد محو اسماے باری عزاسمہ اور اسماے رسل و ملائکہ صلی اللہ تعالیٰ علیہم وسلم اجمعین کے جائز ہے كما في الدر المختار: الكتب التي لا ينتفع بها محى عنها اسم الله وملئكته ورسله ويحرق الباقى. (فتاوی رضویہ، ج: ۹، ص: ۲۹، کتاب الخطر والا باحتر، رضا اکیڈمی)
جن اوراق اور مضامین کا حاجت کی وجہ سے احراق جائز ہے ان اوراق و مضامین کی بوجہ حاجت مشین کے ذریعے تمزیق بھی جائز ہونی چاہیے کہ احراق اور تمزیق دونوں کا حکم ایک ہے بس یہ لحاظ رہے کہ اللہ عز وجل، انبیاے کرام ومرسلین عظام اور فرشتوں کے اسما الگ کر لیے گئے ہوں، جنھیں تعویذ بنا سکتے ہیں، یا مصحف شریف کے ساتھ دفن کر سکتے ہیں ۔ ہمیں كتب علما کے ذریعے جو معلومات فراہم ہو سکیں وہ یہی ہیں ۔ واللہ تعالی اعلم
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org