تبصرہ نگار: مبارك حسین مصباحی
نام کتاب : کلامِ اسد
مصنف: حافظ اسد اللہ اشرفی مبارک پوری
مرتب: محمد شمیم شافی برکاتی سکریکوئیاوی
صفحات: 232
سنہ اشاعت: ۱۴۴۴ھ/۲۰۲۳ء
ناشر: المکتبۃ الازہریہ، بستی (یو پی)
ان کی چوکھٹ پہ اسد دل کی سنی جاتی ہے
مسئلہ کچھ نہیں اس جا تری بینائی کا
اس وقت ہمارے پیش نظر مجموعہ سخن ” کلام اسد“ ہے۔ مبارکپور کے عظیم شاعر و ناقد مہتاب پیامی نےیہ گلدستہ ہمیں پیش کیا۔ اندرونی ٹائٹل پر رقم ہے ”ماہنامہ اشرفیہ - محمد عاصم بن اسد اللہ اشر فی— 3 فروری ۲۰۲۳ء، شاعر محترم المقام حافظ اسد اللہ اشر فی مبارک پوری ہیں ،مقامِ مسرت ہے کہ آپ نازش طریقت حضرت سرکار کلاں مفتی سید محمد مختار اشرف اشرفی جیلانی قدس سرہ کے بابرکت دامن سے وابستہ ہیں ۔ آپ پورہ صوفی مبار ک پور کے باشندے ہیں، روحانی علاج و معالجہ میں اپنی ایک مثال ہیں۔ آپ سے بعض اہل علم بھی استفادہ کرتے رہے ہیں۔ چند افراد لکھتے ہیں کہ آپ کی قیام گاہ پر صبح سے شام تک مریضوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ ہو سکتا ہے ہماری ملاقات ہوئی ہومگر بروقت یاد نہیں آ رہا ہے ۔
آپ کی ولادت غالباً 1955 میں ہوئی، سات برس کی عمر میں چیچک کی و با آئی آپ بھی متاثر ہوئے اور دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے، تقریباً ڈیڑھ برس کی عمر میں والدہ ماجدہ داغ مفارقت دے گئیں، گیارہ برس کی عمر میں والد ماجد جناب محمد سعید بھی دار فانی سے دائمی جدائی کرگئے، مشکلات سے گزرتے ہوئے دیگر اہل خانہ کی تربیت میں زندگی گزارنے لگے ۔ 1970 ء میں محلے کے جناب حافظ اکبر صاحب کی درس گاہ میں قرآن عظیم پڑھنے گئے اور قریب دس برس میں مکمل حافظ قرآن ہوگئے ۔ آپ نیک دل اور پاکیزہ فکر و خیال کے حامل ہیں تصوف اور عملیات کی جانب فکری رجحان ہے۔ مرشدِ گرامی حضور سرکار کلاں کے اشارے پر آپ جناب محی الدین اشر فی (م:1987ء) سے روحانی استفادہ کرتے رہے ان کے بعد جناب طفیل احمد اشرفی (م: 2000 ء) سے تعویذات اور عملیات میں بصیرت حاصل کی۔
شعر و سخن کے حوالے سےمحترم حافظ اسد اللہ اشرفی کے تحریری بیان کی تلخیص پیش خدمت ہے:
”بینائی سے محرومی کے سبب با وجود شوق کے کوئی تعلیم حاصل نہ کر سکا سواے حفظ قرآن کے مگر بچپن سے ہی اہل علم کی مجالس میں بیٹھنا اٹھنا ، خانقاہ میں آنا جانا،حضور سر کار کلاں کی حکمت بھری باتیں سننا مشغلہ رہا، میرے چچا حضرت مولانا عبد القادر مصباحی جو ایک اچھے شاعر بھی تھے ان کی صحبت میں بیٹھنا ان سے متعدد شعرا کا کلام سننا، اور استاد گرامی حضرت محی الدین صاحب جو صوفیانہ اشعار کے کثیر ذخیرے کے حافظ بھی تھے ان سے بزرگوں کے کلام سننا معمول رہا۔ اکثر میں ان سے حضرت غلام حسین اشرفی خاکی کے کلام بڑے شوق سے سنا کرتا تھا۔ جس کے سبب شاعری کا ذوق پروان چڑھتا رہا۔ ایک دن میرے اکلوتے فرزند محمد عاصم نے بچوں کی نعت خوانی کے لیے انجمن بنائی اور مجھ سے نعتیہ کلام لکھنے کا مطالبہ کیا۔ میں نے اپنے انداز میں دو چار شعر اس کی دلجوئی کی خاطر لکھوا دیا۔ اسی دوران مشہور شاعر جناب افتخار صاحب ملت لوہیا وی میرے اشعار کو دیکھ کر ان کو درست کیا ،اور میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس راہ میں قدم بڑھانے کا مشورہ دیا۔“(ص:۱۴، ۱۵)
شعر و سخن میں عروضی قدروں کا اہتمام ضروری ہوتا ہے، خیر یہ تو بنیادی چیز ہے ، کتنے ہی شعرا فنِ عروض سے ناواقفی کے باوجود شعر و سخن میں انفرادیت رکھتے ہیں، لفظوں کا اہتمام ، تشبیہات کی رنگینی، لب و لہجے کا بانکپن سب کچھ کسی قدر رہتا ہے۔ آپ کی اس کتاب میں فن سے کم مگرذوق و جذبہ کی فراوانی نظر آتی ہے۔ ہم ذیل میں چند حمدیہ اشعار نقل کرتے ہیں
کوئی زمانے میں ہمدرد و غم گسار نہیں
ترے سوا کوئی دنیا میں کردگار نہیں
کریم موسم گل سے تو آشنائی دے
خزاں رسیدہ چمن واقف بہار نہیں
جو پیروی ترے احکام کی نہیں کرتا
ذلیل و خوار ہے اس کا کہیں وقار نہیں
جو شاد کام نہیں پی کے بادۂ وحدت
نظر میں اہل نظر کی وہ بادہ خوار نہیں
چند نعتیہ اشعار بھی ملاحظہ فرمائیے:
رکھو بسا کے دل میں محبت رسول کی
ہر موڑ پر پڑے گی ضرورت رسول کی
لیا موجِ تلاطم میں جو نامِ مصطفیٰ میں نے
صدا یہ غیب سے آئی سفینہ پار ہونے دو
کیے جاؤ جہاں تک ہو سکے ذکرِ شہِ والا
ضیاے معرفت سے قلب پر انوار ہونے دو
جب زمانے میں ہوا کوثر کے ساقی کا ظہور
نور کی بارش ہوئی لبریز ساغر ہو گیا
جب اسدؔ مہرِ رسالت ہو گیا جلوہ فگن
مٹ گئیں تاریکیاں عالم منور ہو گیا
رسولِ پاک کی الفت بشر کو کام آتی ہے
رضاے ربِ اکبر کا لیے پیغام آتی ہے
بسر ہو ان کے کوچے میں حیاتِ مستعار اپنی
دعا لب پر ہمیشہ ہر گھڑی ہر گام آتی ہے
تمام عمر درود و سلام میں گزرے
دعا ہے رب سے کہ ایسی زبان مل جائے
ضیاے شمعِ رسالت سے جو مزین ہو
حیات ایسی مجھے بے گمان مل جائے
ہر دم رکھو نصیب بنانے کی آرزو
یعنی درِ رسول پہ جانے کی آرزو
طیبہ میں آپ آئے تو انصار نے کہا
پوری ہوئی نگاہ بچھانے کی آرزو
مرا کام چلتا ہے ان کی عطا سے
دوعالم منور ہے جن کی عطا سے
تعلق ہے میرا شہِ انبیا سے
دوعالم منور ہے جن کی عطا سے
آپ مختار ہیں، یاں بندۂ لاچار ہوں میں
آپ کی چشمِ عنایت کا طلبگار ہوں میں
پیش نظر کتاب ” کلامِ اسد“232 صفحات پر مشتمل ہے ۔ 51صفحات پر اہل علم کے تاثرات ہیں باقی حمدیں ، نعتیں اور منقبتیں ہیں مرتب فاضلِ اشرفیہ حضرت مولانا محمد شمیم شافیؔ سیکریکوئیانوی ہیں ۔ موصوف سنجیدہ، نیک سیرت اور بلند اخلاق ہیں۔ باصلاحیت ہیں اور نظم و نثر پر نظر رکھتے ہیں، سردست آپ مدرسہ صدر العلوم گونڈہ کے پرنسپل ہیں ۔ آپ نے متعدد مقامات پر تدریسی کارگزاریاں انجام دی ہیں۔ آپ تقریباً چار برس تک ضلع اننت ناگ میں کشمیر کے معروف شہید ڈاکٹر قاضی نثار احمد علیہ الرحمہ [شہادت ۱۹؍ ۲۰ جون ۱۹۹۴ء کی درمیانی شب]کے ادارے ادارہ تحقیقات اسلامی کے صدر المدرسین کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ ۱۹۹۶ء کی بات ہے قاضی شہید کے برادرِ نسبتی جناب شبیر عبد اللہ کشمیری سے ایشین گیسٹ ہاؤس جامع مسجد دہلی میں ملاقات ہوئی حضرت ڈاکٹر قاضی نثار احمد شہید کی کتاب”صلوٰۃ النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم“ برائے اشاعت لائے تھے، آپ نے اصرار کر کے اس پر چند صفحات ہم سے لیے تھے جو بفضلہٖ تعالیٰ کتاب میں شامل ہیں۔ حضرت شہید کے فرزند ارجمند برادرم ابو یاسر کشمیری برسوں پہلے جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں زیر تعلیم تھے ۔ ہم بھی شاید دو یا تین بار اداره تحقیقات اسلامی اننت ناگ کشمیر بحیثیت خطیب حاضر ہو چکے ہیں۔ ایک بار حضرت مولانا محمد شمیم شافی مدظلہ العالی سے بھی شرف نیاز حاصل ہوا تھا ۔ ماشاء اللہ آپ نے پیشِ نظر کتاب کو بڑے سلیقے سے مرتب کیا ہے موصوف خود شاعر اور اچھے عالم ہیں اس لیے شرعی نزاکتوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ کتاب کو مقبول فرمائے اور شاعر و مرتب کو ڈھیر ساری جزاؤں سےسرفراز فرمائے ،آمین۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org