شبِ براءَت میں عبادت و ریاضت اور توبہ و استغفار
مولانا محمد ساجد رضا مصباحی
رب ذوالجلال نے امت محمدیہ کو خصوصی عظمتوں کی حامل کئی نورانی راتیں عطافرمائی ہیں جن میں عبادت وریاضت بخشش ومغفرت کا ذریعہ اور دنیوی واخروی سعادتوں کے حصول کا باعث ہے ، ان نورانی راتوں میں پندرہویں شعبان کی رات کو خاص اہمیت حاصل ہے، اس شب کو ’’ شب براءت ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس مبارک شب میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں اور برکتوں کا نزول فرماتا ہے، خداے تعالیٰ ملائکۂ کرام کی جماعتوں کو دنیا میں بھیجتاہے ، اس لیے اس مبارک رات میں قرآن پاک کی تلاوت کرنی چاہیے، نوافل پڑھنا چاہیے ، اپنے گناہوں سےتائب ہو کربارگاہ خدا وندی میں صدق دل سے توبہ واستغفار کرناچاہیے۔
شب براءت کی فضیلت واہمیت:
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہےکہ رسول اللہ نے فرمایا :
إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا و صوموا نہارھا فإن اللہ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی سماء الدنیا فیقول ألا مَن مستغفرلی فاغفر لہ ألا من مسترزق فأرزقہ ألامبتلی فاعا فیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر۔] ابن ماجہ ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان[
ترجمہ: جب شب برات آئے تو دن کو روزہ رکھو اور رات کو عبادت میں مشغول رہو کہ اللہ تعالیٰ غروب آفتاب کے وقت سے ہی آسمان دنیا پر تجلی خاص فرماتا ہے اور فرمان الہی ہو تا ہے خبردار !ہے کوئی مغفرت طلب کر نے والا کہ میں اسے بخش دوں، خبردار ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق عطا فرماؤ ں، خبردار! ہے کوئی بیمار ی سے صحت چاہنے والا کہ اسے میں شفا بخشوں، خبردار ہے کوئی ایسا ایسا،یہ ندا طلوع فجر تک ہوتی رہتی ہے۔
شب براءت کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں، لہذا جملہ دینی و دنیاوی مقاصد پر مشتمل دعائیں اس مبارک شب میں ضرور مانگنی چاہیے۔
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:
خمس لیال لاترد فیھن الدعا، لیلۃ الجمعۃ وأول لیلۃ من رجب ولیلۃ النصف من شعبان ولیلتی العیدین۔[ مصنف عبدالرزاق،ج:۴،ص:۳۱۷]
اعلیٰ حضرت امام احمدرضا بریلوی قدس سرہ حاشیہ أحسن الوعا لآداب الدعا میں دعاؤں کی اجابت ومقبولیت اوقات بیان کرتے ہوئے فر مایا:
’’ رجب کی چاند رات ، شب برات ، شب عید الفطر، شب عید الاضحیٰ‘‘۔ پھر آپ نے یہ حدیث پاک نقل فر مائی :
عن أبی أمامۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم : خمس لیال لاترد فیھن الدعوۃ أول لیلۃ من رجب ولیلۃ النصف من شعبان ولیلۃ الجمعۃ ولیلۃ الفطر ولیلۃ النحر ۔[ احسن الوعا لآداب الدعا مع حاشیہ ذیل المدعا، ص:۱۵ مطبوعہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور ۱۹۹۴]
حضرت ابو امامہ باہلی سے روایت ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا :پانچ راتیں ہیں کہ ان میں دعا رد نہیں کی جاتی، رجب کی پہلی رات ، شعبان کی پندرہویں رات ، جمعہ کی رات ،عید الفطر کی رات ، بقرعید کی رات ۔
شب برات کی عبادات وظائف:
شب برات کی عبادات و طائف میں سے یہ ہے کہ خداے پاک کی تسبیح کریں، وظیفہ کریں،جن کے ذمے قضا نمازیں ہوں وہ اپنی قضا نمازیں اداکریں کہ جب تک قضا نمازیں ذمے ہوں نوافل قبول نہیں ہوتے ،قرآن پاک کی تلاوت کریں۔ اس رات کوخود بھی کثرت سے اعمال صالح کریں اور گاؤں محلے کے بڑے ،بچے، بوڑھے جوان سب کو تنبیہ کردیں کہ تسبیح و تہلیل میں رات گزاریں، خاص طور سے اپنے خاندان والے ،اپنے اہل و عیال سےاوراپنے بچوں کو اس رات میں عبادات کے ذریعہ شب بیداری کی تاکید کریں، فاتحہ و ایصال ثواب کریں اور اپنےگناہوں سے تائب ہوکر ندامت و شرمندگی کے ساتھ بارگاہ خدا میں رو کر ،گڑ گڑا کے اپنے لیے اور سب کے لیے بخشش کی دعا کریں۔حقو ق العباد ذمے ہو تو اس کی ادائیگی کی حتی االامکان کوشش کریں ، کسی دل دکھایا یا کسی پر زیادتی کی ہو تو اس کے معافی طلب کریں ۔
مصنف بہار شریعت صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی قدس سرہ فر ماتے ہیں :
’’ جن دوشخصوں کے مابین دنیوی عداوت ہو تو اس رات کے آنے سے پہلے انہیں چاہیے کہ ہر ایک دوسرے سے مل جائے اور ہر ایک دوسرے کی خطا معاف کر دے تاکہ مغفرتِ الہی انہیں بھی شامل ہو ، انھیں احادیث کی بناپر یہاں بریلی میں اعلیٰ حضرت قبلہ مد ظلہ الاقدس نے یہ طریقہ مقرر فر مایا ہے کہ ۱۴؍ شعبان المعظم کو رات آنے سے پہلے مسلمان آپس میں ملتے اور عفو تقصیر کراتے ہیں اور ہر جگہ کے مسلمان بھی ایساہی کریں تو نہایت انسب وبہتر ہے ۔
[ بہار شریعت ۵/۱۳۸]
شب براءت اور غریبوں کی غم گساری :
غربا ومساکین پر صدقات وخیرات ہر مہینہ ، ہر دن اور ہر لمحہ باعث اجر وثواب ہے ، لیکن خاص مواقع پر ان کی امداد واعانت مزید فضیلتوں کا باعث ہوتا ہے ،ہمارے دیا ر میں شب براءت کو ایک تہوار کے طور پر منایا جاتاہے ، قسم قسم کے کھانے تیار کیے جاتے ہیں ، حلوے پکائے جاتے ہیں، گھروں کی صفائی اور روشنی کا اہتمام ہوتا ہے، ایسے میں ہماری ذمے داری بنتی ہے کہ ہم اس موقع پر اپنےسماج کے غریب مسلمانوں کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھیں، حسب استطاعت ان کے لیے بھی اچھے کھانے کے انتظام کی کوشش کریں ، تحائف کی شکل میں ان کی مالی امداد کریں ، سماج کے چند غریبوں کو دعوت دے کر اپنے گھر اچھا کھا نا کھلادیں ، ان کے بال بچوں کے لیے کچھ مٹھائیاں ، حلوے اور دوسرے قسم کے کھانے کے سامان ضرور بھیج دیں ،اپنی کمائی کا کچھ حصہ غریب بیمار افراد کے علاج کے لیے پیش کردیں ، ہاسپیٹل میں جاکر غریب مریضوں کو پھل وغیرہ پیش کریں ، ان کی مزاج پرسی کریں ۔یقینا ہمارے ان اعمال سے نہ صرف یہ کہ ہمیں اللہ تعالیٰ بے پناہ اجر وثواب عطا فر مائے گا ، بلکہ ایک اچھا سماج ومعاشرہ بھی تشکیل پائے گا ۔
شب برات اور زیارت قبور وایصال ثواب :
یہ بات احادیث اور اقوال سلف سے ثابت ہے مسلمانوں کی روحیں ہر جمعہ کو رات اور دن میں اپنے اپنے گھروں کو آتی ہیں اور دروازے کے پاس کھڑے ہو کر درد ناک آواز میں پکار تی ہیں ، اے میرے گھر والو! اے میرے بچو! ہم پر صدقہ سے مہربانی کرو ، ہمیں یاد کرو ، ہماری غریبی میں ہم پر ترس کھاؤ۔
حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ایک روایت میں اس بات کی صراحت ہے کہ پندرہ شعبان کی رات میں بھی روحیں گھروں میں آتی ہیں اور اور اہل خانہ کو ایصال ثواب کے لیے پکارتی ہیں ۔
خزانۃ الروایات میں ہے :عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما إذا کان یوم عید أو یوم جمعۃ أو عاشوراء أولیلۃُ النصف من شعبان تاتی أرواح الأموات ویقومون علی أبواب بیوتھم فیقولون ھل من أحد یذکرنا ھل من أحد یذکرغربتنا۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے ک جب عید یا جمعہ یا عاشورے کا دن یا شب براءت ہوتی ہے ، اموات کی روحیں اپنے گھروں کے دروازوں پر کھڑی ہوتی اور کہتی ہیں ، ہے کوئی کہ ہمیں یاد کرے ، ہے کوئی کہ ہم پرترس کھائے ، ہے کوئی جو ہماری غربت کو یاددلائے ۔
لہذا شب براءت کے موقع پر اپنے مرحومین کے لیے ایصال ثواب کا خصوصی اہتمام کر نا چاہیے اور ان کی قبروں کی زیارت اور فاتحہ خوانی کے لیے بھی جانا چاہیے ، اس سےوہ خوش ہوتے ہیں اور انھیں انسیت حاصل ہو تی ہے۔قبروں کی زیارت کو جانا آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کی ہے اور اس کا حکم بھی دیا ہے، اُس کے فوائد و برکات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
حدیث شریف میں ہےحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزورھا فانہا تزھد فی الدنیا و تذکر الأخرۃ۔[سنن ابن ماجہ ، ص:۱۱۲]
ترجمہ: میں نے تم کوزیارت قبور سے منع کیا تھا، اب قبروں کی زیارت کرو ،اس لیے کہ وہ دنیا سے بے رغبت کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
جب کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان کی زیارت [قبر کی زیارت]پر پہنچتا ہے تو وہ اس سےانس حاصل کرتا ہے اور اس کی باتوں کا جواب دیتا ہے۔
شب برات کے غیر شرعی اعمال:
شب براءت کامعنی ہے چھٹکارے کی رات ،تو اس رات کو گناہوں سے دوررہ کر ذکر و تسبیح میں گزارنا چاہے، آج کل یہ رواج ہو گیا ہے کہ اس رات کو ہمارے جوان آتش بازی کرتے ہیں ،پھل جھڑی اورپٹاخےچھوڑتے ہیں،بائک اسٹنٹ کی مقابلہ آرائی کرتے ہیں ، ہمارے معاشرے کے نوجوان اس مبارک شب کا پاس ولحاظ نہیں رکھتے ، جس رات کو خداے تعالیٰ دعائیں خاص طور سے قبول فرماتا ہے۔ اس رات کو سونے، کھانے ،پینے اور اوباشیوں میں گزار دیتے ہیں۔
ذرا اس پہلو پر غور کریں کہ شور شرابا اور پٹاخوں کی شدید آواز سے اس مبارک شب میں قرآن کریم کی تلاوت کرنے والوں ،خدا کا ذکر کرنے والوں اور نماز پڑھنے والوں کے ذکر و عبادت میں کس درجہ خلل ہوتا ہے، خودتو ذکر وعبادت سے دور رہے، مگر جو اللہ کے بندے عبادت میں مصروف ہیں ان کو بھی خلل میں مبتلا کیا۔ پھر ہر سال جو سیکڑوں حادثات رونما ہوتے ہیں وہ ایک الگ مصیبت ہے ،کتنے مکانات جلتے ہیں اور کتنی دکانیں نذر آتش ہوتی ہیں، کتنے مالی نقصانات ہو تے ہیں اور کتنے بچے نوجوان جل کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں ۔ مال کا ضیاع ہو تا ہے،حالاں کہ ہمیں اپنے مال کی حفاظت کرنی چاہیے ، بے راہ روی پر آمادہ ہمارے نوجوان خدا کا خواف کریں، شب براءت جیسی مبارک رات میں فضول خرچی اور خرافات کے ذریعہ آخرت کی تباہی کا سامان نہ کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت پر گامزن فر مائے ۔ آمین
*******
فضائلِ شبِ براءت
از: محمد زاہد رضا، دھنباد، جامعہ اشرفیہ، مبارک پور
اللہ تبارک و تعالی نے انبیا و رسل، جن و انس،رات و دن اور دیگر مخلوقات کو پیدا فرمایا ہے اور ان میں بعض کو بعض پر فضیلت سے نوازا ہے،جیسے رسول انبیا سے افضل،حضور تمام انبیا و رسل سے افضل،صحابہ اولیا سے افضل،اولیا تمام انسانوں سے افضل، انسان تمام مخلوقات میں افضل،عالم جاہل سے افضل،مدینہ منورہ تمام شہروں میں افضل،بیر زمزم تمام کنوں سے افضل،رمضان تمام مہینوں میں افضل،جمعہ تمام ایام میں افضل، اسی طرح شب برأت اور شب قدر تمام راتوں میں افضل ہے۔
اللہ تعالی قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے:قسم اس روشن کتاب کی، بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا،اور بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں،اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام۔ (سورہ دخان، آیت،١،٢،٣،٤ ترجمہ کنزل الایمان)
اس آیت میں لیلۃ مبارکہ سے مراد شب قدر ہے یا شب برأت، تو جمہور اول کے قائل ہیں، کیوں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ہم نے اس کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں:آیت ”انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکہ“میں ”لیلۃ مبارکہ“ سے مراد شعبان کی پندرہویں رات ہے،نجات اور خلاصی کی رات ہے اور یہی قول حضرت عکرمہ کے سوا اکثر مفسرین کا ہے۔(غنیۃ الطالبین،ج اول،ص ١٨٩)
شب برأت کی وجہ تسمیہ:
شب برات کو شب برأت اس لیے کہتے ہیں کہ شب کے معنی رات اور برأت کے معنی بری ہونے اور قطع تعلق کرنے کے ہیں،اور اللہ کی رحمت سے بے شمار مسلمان اس شب کو جہنم سے نجات پاتے ہیں،اس لیے اس رات کو شب برأت کہتے ہیں۔
فضائل شب برأت :
شب برأت بڑی برکتوں اور رحمتوں والی رات ہے،اس لیے اس کے متعلق چند احادیث پیش ہیں۔
بخشش کی رات:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: کہ ایک رات میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گم پایا، تلاش بسیار کے بعد آپ جنت البقیع میں پائے گئے، میں نے عرض کیا: کہ حضور میں نے خیال کیا کہ شاید آپ دوسرے ازدواج کے پاس چلے گئے ہیں، آپ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالی شعبان کی پندرھویں شب آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ گنہ گاروں کو بخش دیتا ہے۔ (مشکوۃ شریف،ج اول،ص ١٠٥)
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلا شبہ اللہ تعالی شعبان کی پندرھویں رات ظہور فرماتا ہے اور مشرک و کینہ پرور شخص کے سوا تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے۔ (مشکوۃ شریف ج اول، ص ١٠٦)
حضرت مولاعلی رضی اللہ عنہ سے مروی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اللہ تعالی شعبان کی پندرھویں رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور مشرک، کینہ جو،رشتہ توڑنے والے اور زانی عورت کے علاوہ تمام مسلمانوں کو بخش دیتا ہے۔ (غنیۃ الطالبین،ج اول، ص ١٩٠)
نزول الٰہی اور نجات کی رات:
یہ حدیث بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب شعبان کی پندرھویں رات ہو تو اس میں عبادت کرو اور دن میں روزہ رکھو، اس لیے کہ اس رات کی خصوصیت یہ ہے کہ غروب آفتاب کے وقت اللہ تعالی آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور شام سے صبح تک یہ ندا دی جاتی ہے کہ ہے کوئی مغفرت مانگنے والا؟ جسے میں بخش دوں،ہے کوئی رزق مانگنے والا؟ جسے میں رزق دوں، ہے کوئی بیمار صحت مانگنے والا؟ جسے میں صحت دوں،کوئی ایسا ہے؟کوئی ایسا ہے؟فجر تک اسی طرح پکارا جاتا ہے۔ (ابن ماجہ،ج اول،ص ٤٤٤)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالی شعبان کی پندرھویں رات حضرت جبرئیل علیہ السلام کو جنت کی طرف بھیجتا ہے تاکہ وہ اسے یہ حکم پہنچا دیں کہ وہ آراستہ ہوجائے اور کہ دیں کہ اللہ تعالی نے اس رات میں آسمان کے ستاروں کی گنتی،دنیا کے دن اور رات کی تعداد، درختوں کے پتوں کی گنتی، پہاڑوں کے وزن کے برابر اور ریت کے ذروں کی گنتی کے برابر بندے دوزخ سے آزاد کر دیے ہیں۔ (ماثبت بالسنتہ اردو،ص٢٩١)
انتظام عالم کی رات :
حضرت عطا یسار نے فرمایا: شعبان کی پندرھویں رات سال بھر کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں،کوئی شخص سفر میں نکلتا ہے اس حال میں کہ اسے زندوں سے نکال کر مردوں میں درج کیا جا چکا ہوتا ہے،اور کوئی شادی کرتا ہے اس حال میں کہ وہ زندوں سے نکال کر مردوں میں درج کیا گیا ہوتا ہے۔(غنیۃ الطالبین،ج اول،ص ١٩١)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو جانتی ہے کہ یہ کون سی رات ہے؟میں نے عرض کیا!اس رات میں کیا خاص بات ہے،آپ نے فرمایا:اس رات میں ہر وہ شخص لکھا جاتا ہے جو اس سال میں پیدا ہونے والا ہے اور اس رات میں ہر مرنے والا لکھا جاتا ہے،اس رات میں لوگوں کا رزق اتارا جاتا ہے،اور اس رات میں ان کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ (غنیۃ الطالبین، ج اول ص ١٩١)
علامہ ابو الفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی حنفی بغدادی تحریر فرماتے ہیں: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ تمام امور کے فیصلے تو ”شب برأت“ میں ہوتے ہیں، لیکن جن فرشتوں کو ان کاموں کو انجام دینا ہوتا ہے ان کے سپرد ”لیلۃ القدر“ میں کیے جاتے ہیں۔ (روح المعانی،ص ٤٧١)
خیر و برکت والی رات :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی چار راتوں میں فجر کی اذان تک بے شمار برکتیں اور رحمتیں اتارتا ہے۔
عید الاضحیٰ کی رات، عید الفطر کی رات،نصف شعبان کی شب اور عرفہ کی رات۔ (غنیۃ الطالبین،ج اول،ص ١٨٩)
فرشتوں کی عیدیں:
جس طرح زمین میں مسلمانوں کی دو عیدیں ہوتی ہیں اسی طرح آسمان پر فرشتوں کی بھی دو عیدیں ہوتی ہیں،مسلمانوں کی عیدیں عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے روز ہوتی ہیں اور فرشتوں کی عیدیں شب برأت اور شب قدر میں ہوتی ہیں،ملائکہ کی عیدیں رات میں اس لیے ہوتی ہیں کہ وہ سوتے نہیں اور مسلمان چوں کہ سوتے ہیں اس لیے ان کی عیدیں دن میں ہوتی ہیں۔(غنیۃ الطالبین،ص ٤٤٩)
روزہ رکھنا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پندرھویں شعبان کا روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی جس سے اس شب کے روزے کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یا کسی اور سے فرمایا: کہ تم نے شعبان کے وسط میں رکھا ہے؟انھوں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا عید کے بعد رکھ لینا۔(صحیح مسلم،ج ١،ص ٣٨٦)
زیارت قبور:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت قبور کی بڑی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس سے موت کی یاد تازہ ہوتی ہے اور آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے،شب برأت میں زیارت قبور کا واضح مقصد یہ ہے کہ اس مبارک شب میں ہم اپنی موت کو یاد کریں تاکہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے میں آسانی ہو۔
سال بھر کے جادو سے حفاظت:
اگر شب برأت میں کوئی شخص سات پتے بیری(بیر کے پتے)کے پانی میں جوش دے کر اس پانی سے غسل کرے تو انشاء اللہ تمام سال وہ شخص جادو کے اثر سے محفوظ رہے گا۔(اسلامی زندگی، ص ١٣٤)
شب برأت میں عبادت کی فضیلت :
اس رات جو شخص اپنا وقت عبادت و ریاضت اور ذکر و اذکار میں صرف کرتا ہے تو اس کا اجر و ثواب تمام راتوں کی بہ نسبت بڑھا دیا جاتا ہے،اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو اس رات میں قیام کرنے اور ذکر و اذکار میں مشغول و مصروف رہنے کا حکم فرمایا ہے، ارشاد نبی کریم ہے: قوموا لیلھا و صوموا نھارھا.
ترجمہ۔شب برأت میں جاگ کر عبادت کرو اور دن میں روزہ رکھو۔(ابن ماجہ شریف،ص ١٠٠)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ جو پانچ راتوں میں شب بیداری کرے اس کے لیے جنت واجب ہے، انھیں میں ایک رات نصف شعبان کی پندرھویں رات ہے۔
(بہار شریعت،ج ٤،ص ١٠٥)
پیارے اسلامی بھائیوں! فضائل شب برأت کا ذکر ہو چکا ہے،اس لیے ہم سب کو چاہیے اس رات کو خواب غفلت،آتش بازی،عیب جوئی،موبائل بینی اور لہو و لعب میں نہ گزاریں، بل کہ اس رات کی فضیلت کو ملحوظ رکھتے ہوئے عبادت و ریاضت اور ذکر و اذکار کریں، اپنے مرحومين، کاروبار،اپنے گناہوں اور عالم اسلام کے مسلمانوں بالخصوص ہندوستانی مسلم بھائیوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے دعاے خیر کریں،اور اگر کسی مومن بھائی کا اپنے ہمسایہ،رشتہ دار اور دوست و احباب سے نوک جھوک ہوا ہو اور بات چیت بند ہو گئی ہو تو براے مہربانی شب برأت سے پہلے پہلے صلح کر لیں اور پات چیت شروع کر دیں ، اعمالِ صالحہ اسی وقت زیادہ مقبول پہوتے ہیں جب اس پر حقوق العباد باقی نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اچھے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔****
برکات و حسنات کی ایک حسین رات- شبِ براءت
از: غلام عبد القادر تیغی، کشی نگر
سال کے شب و روز میں پندرہویں شعبان کی مقدس رات ”شب برأت“اور پندرہواں دن بڑا بابرکت ہے اللہ رب العزت کا خاص فضل کرم ہے کہ اس نے ہمیں یہ بابرکت رات عطا فرمائی۔ یہ رات ہمارے ما بین آتی ہے اور چلی جاتی ہے لیکن کتنے ہی نااہل اور غافل ہیں جو اس رات کو کھیل کود، آتش بازی اور سو کر گزار دیتے ہیں۔ ہاں بڑے خوش نصیب اور نیک بخت ہیں وہ اللہ کے اطاعت شعار بندے جو اس رحمت بھری اور نور ونکہت میں ڈوبی ہوئی شب کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے اور اس میں اپنے مولائے کریم کو یاد کرتے ہیں۔ اور اس مقدس رات کو اپنے رب کو راضی کرنے میں بسر کرتے ہیں۔ اور اپنے گناہوں پر پشیماں و شرمندہ ہو کر مغفرت طلب کرتے ہوئے اس بابرکت رات کو گزارتے ہیں۔ مساکین کو کھانا کھلاتے، یتیم کو کپڑا پہناتے ، جس کو جس چیز کی ضرورت ہو اس کی حاجت کو رفع کرتے، اپنے احبا کو تحائف اور اپنے وہ بھائی جو اس دار فانی سے ملک خموشاں کو خیرآباد کر گئے ان کےلیے فاتحہ، شیرنی، نذرونیاز، کا اہتمام کرتے ہیں اور باضابطہ طور پر جماعت در جماعت شہر خموشاں کو جاکر اپنے ان بھائیوں کے لیے اللہ رب العزت سے دعائے مغفرت اور دار ابد کے لیے ایک حسین باغ کا لو لگاتے ہیں۔ یقیناً اس دار فانی سے کوچ کرنے والے ہمارے بھائی امداد و نصرت کے مستحق ہیں لہذا مبارک راتوں اور مقدس ایام میں اپنے ان بھائیوں کو ضرور یاد کرنا چاہیے
حدیث پاک میں آیا ہے :اگر تم میں کوئی اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہے تو پہنچائے۔(مسلم شریف/۲۲۳حدیث۵۶۹۱مسند امام محمد/۳۱۵)
جب کہ اس حدیث کو پڑھیں گے تو ہمیں سمجھ میں آئے گا کہ صدقہ تلاوت اور ذکر خیر کا ثواب اگر کسی مرحوم کو پہنچایا جائے تو پہنچتا ہے۔ اس موضوع پر کثیر تعداد میں احادیث مذکور ہیں۔
حدیث سے ثابت ہے کہ اس مبارک شب میں بنی کلب کی بکریوں کے بال سے زیادہ گنہگاروں کی اللہ بخشش فرماتا ہے۔
لیکن متعدد روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مغفرت و رحمت کی اس بابرکت رات میں چند ایسے بھی بد بخت ہیں جو بغیر توبہ کے معاف نہیں کیے جاتے اور وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہی رہتے ہیں۔ وہ یہ ہیں:
*مشرک *ماں باپ کا نافرمان *کاہن *نجومی* جادوگر *فال نکالنے والا*بدمذہب *قاتل *رشتہ کاٹنے والا *کینہ پرور*سود کھانے کا عادی*شرابی *باجا بجانے والا * گویا/فحش وفضول*کپڑا، تہبند،پاجامہ، کرتا، وغیرہ ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر تکبر کرنے والا*ناجائز ٹیکس وصول کرنےوالا*جلاد وغیرہ ۔
ان بڑے بڑے گناہوں کے مرتکبین کو چاہیے کہ اس برکت والی رات کے آنے سے پہلے یا خاص اس بابرکت رات میں ان گناہوں سے خدا کی بارگاہ میں سچی توبہ کریں اور آئندہ ان سے اجتناب کا پختہ عزم بھی کریں تبھی جاکر اس نور و نکہت میں ڈوبی ہوئی رات سے مستفیض ہوں گے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں سچی توبہ کرنے اور اس بابرکت رات سے مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org