مبارک حسین مصباحی
اس کائنات کا خالق ومربي اللہ تعالیٰ ہے۔ اس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، احسن تقوم کا شاہکار بنایا، عقل و شعور اور عشق و عرفان کی دولت سے سرفراز فرمایا، خودشناسی خداشناسی کی بنیاد ہے ”مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عرَفَ رَبَّهُ“ ۔مگرنفس پرستی خدا پرستی کی راہ میں سب سے بڑی دیوار بھی ہے۔ نفس پرستی کے صنم کو مسمار کیے بغیر کعبہ دل تجليات ربانی کا مرکز نہیں بن سکتا، عالم ارواح ہی میں انسان عرفان الٰہی کے جام سے سرشار ہو گیا تھا۔ خلعت بشری کی نمودسے پہلے ایک دل نوازصدا گونجی تھی”اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ“ - کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ ساری ارواح بیک آواز پکاراٹھیں’’بَلیٰ‘‘ کیوں نہیں بلاشب تو ہمارارب ہے، فطرت کا تقاضا ہے اپنے وعدے کووفا کیاجائے، اپنے خالق ومالک کا سجدہ کیا جائے ، اس کے ذکر وفکر سے محفلوں میں حرارت پیدا کی جائے ،کائنات دل اس کی محبت کے سوز و ساز سے آباد کی جائے ، نہاں خانۂ دل میں اس کی یاد کا چراغ روشن کیا جائے، عبادت وریاضت سے عروج عبدیت کی معراج حاصل کی جائے، ہاؤ ہو کی دل گداز ضربوں سے کائنات عالم میں توحید کا غلغلہ بلند کر دیا جائے ۔ یہی انسانی عظمتوں کی معراج ہے، اسی محبت کے سوز و ساز سے فرشیوں کاعرشیوں میں پرچم لہرارہا ہے۔ بقول ڈاکٹر اقبال
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تاره مه ِکامل نہ بن جائے
غار حراسے انوارالٰہی کا جو سلسلہ چلا تھا اس نے فاران کی چوٹی سے مہر نیم روز کی طرح پوری دنیا کو بقعۂ نور بنا دیا تھا، ناکام انسانیت کے لیے بس ایک ہی کامل اور آخری نسخۂ کیمیا تھا، روئے ارض پر گم گشتگانِ راہ کے لیے ایک ہی منارۂ ہدایت تھا ”قولوا لا اله الا اللہ تفلحوا“ از عان و یقین کی سب سے بلند چوٹی سے نعرۂ توحید بلند کرو بیمار دلوں کو شفا مل جائے گی ، دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس محسنِ حقیقی کی محبت کا دم بھرو، دنیا کی حرص وہوس حرف غلط کی طرح مٹ جائے گی۔ حقیقی محبت اس خالق و مالک ہی کے لیے زیب دیتی ہے۔ وفاشعار دل کا تقاضا یہی ہے جس کا کھایا جائے اس کا گایا جائے، انسان کی تخلیق کا مقصد ہی یہ ہے کہ بندہ اس کی اطاعت وفرماں برداری کرے، اس کی عبادت ومحبت میں ایساوارفتہ حال ہو جائے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ مظہر الٰہی کا شاہکار نظر آئے ، اپنی ذات کو بھی بحر ِمحبت میں ایسامستغرق کر دے کہ فنا فی اللہ کی منزل میں گم ہو جائے، بلکہ ایک منزل ایسی بھی آئے کہ اپنی گم شدگی کا احساس بھی فنا ہو جائے ۔ عالم اور کاروبار عالم کی محبت اس کے دل سے نکل جائے بلکہ اس کا وجود” اَلْحُبُّ فِي اللهِ وَالْبُغْضُ لِلّٰہِ “ کا پیکر جمال بن جائے ، محبت و عداوت کے ہر مرحلے میں رضاے الٰہی پیش نظر ہو، اللہ تعالیٰ سے محبت اور اللہ تعالیٰ ہی کے لیے محبت یہی ہے” توحیدفی المحبة“ ہے۔ اللہ سےمحبت کا دعویٰ کرنا اور اللہ والوں سے نفرت کرناروح محبت کے منافی ہے، اور اس کو توحید خالص کا نام دینا بدعت و گمراہی ہے۔ سچی محبت ہوتی ہے تو محبوب کے در کی خاک بھی اکسیر نظر آتی ہے محبوب کے محبوب کا تو عالم ہی دوبالا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ خود چاہتا ہے کہ اس کے محبوبوں سے محبت کی جائے بلکہ رسول کی اطاعت کو اپنی محبت کا معیارٹھہرایا ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:
”قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰه “
(آلِ عمران:۳۱)
ترجمہ:اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تمھیں دوست رکھے گا
اس آیت کریمہ کا تیور بتا رہا ہے کہ محبتِ الٰہی کا دعویٰ اطاعت مصطفیٰ کے بغیر باطل ہے اور اطاعت مصطفیٰ کے لیے محبت مصطفیٰ اولین شرط ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے کتنے پتے کی بات کہی ہے:
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
توحید فی المحبۃ کے نظریہ کوبھی عقل پرستوں نے اپنی فکر و دانش کا محور بنایا اور اس میں بھی جہالت و بدعقیدگی کے راستے سے بہت سی خرافات و بدعات داخل ہوگئیں، صدیوں کے دامن پر پھیلی ہوئی انبیاے کرام اور رسولان عظام کی دعوت و ارشاد کا بنیادی مقصد یہی تھاکہ انسان کی مقدس پیشانی کو خدا کی بارگاہ میں جھکا دیا جائے اور اس کے دل ودماغ میں محبت الٰہی کا صور پھونک دیا جائے، نبی آخر الزماں کی تشریف آوری کے بعداب سلسلۂ نبوت ختم ہو گیا لیکن وارثین ختم الرسل، مولاے کل ﷺکے نظریۂ توحید کو باقی رکھیں گے، تعلیمات الٰہی کی شعاعوں سے ویران دلوں کو جگمگاتے رہیں گے اور اندھیری رات کے مسافروں کو محبت الٰہی کی منزل پر پہنچاتے رہیں گے۔
آج کے عہد بلا خیز میں کسی نہ کسی طور پر مدارس اسلامیہ سے خانقاہوں تک اسی محبت الٰہی کا درس دیا جاتا ہے اور محراب و منبر سے مواعظ حسنہ کی محفلوں تک اسی منزل حق کے سوز و ساز کی نشاندہی کی جاتی ہے اور جو جماعت اپنی فکری کج روی اور گمراہ کن افکار سے محبت الٰہی کے حقیقی تقاضوں سے بے بہرہ ہوجائے گی تو اللہ تعالیٰ اس کے سر سے خلافت ارضی کا تاج زریں اتار کر دوسروں کو اس کا اہل بنا دے گا اور توحیدنی المحبۃ کا یہ سلسلۂ زریں قیامت تک اسی طرح جاری رہے گا اور ارباب معرفت کے قلوب میں محبت الٰہی یہ کی آگ اسی طرح بھڑکتی رہے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤۙ- “(المائدہ:۵۴)
ترجمہ: اے ایمان والو تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کا پیارا۔
توحید کی تعریف:
اب ہم اس تمہید کے بعد توحید کے چند گوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے” توحید فی المحبۃ “کے حقیقی نقطۂ نظر کی تفصیل سپردِ قلم کریں گے۔ ”توحید فی المحبۃ“ کا مطالعہ صرف ایک نظریے کے طور پر نہیں کرنا چاہیے ۔ بلکہ عملی اور فکری زندگی کو اس منزل قدس تک پہنچانے کا جذبۂ شوق ہمہ دم بیدار رہنا چاہیے ۔ ہمارے عہد میں معارف تصوف کو صرف ایک فن اور نظریہ کے اعتبار سے دیکھتے اور پڑھتے ہیں جب کہ یہ مکمل کرداروعمل کی چیز ہے، اس عوارف المعارف کے بحرِ نا پیدا کنار کا غواص ہی اس کے لعل و جواہر ساحل مرادتک لاسکتا ہے اور وہی اس کی حقیقی لذت سے آشنا ہوسکتا ہے ورنہ حیرت وارتیاب کے عالم میں ورق گردانی کا کچھ حاصل نہیں۔ مولیٰ تعالیٰ ہم سب کو اپنی محبت کے جام شیریں سے سیراب فرمائے اور صداے لب نغمۂ دل بن جائے۔ اب ہم ذیل میں توحید کے حوالے سے بحث کا آغاز کرتے ہیں۔
رسالہ قشیریہ میں ہے کہ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ سے کسی نے توحید کے متعلق سوال کیا تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا جس کو تم ایک قرار دے رہے ہو (مؤحد) کمال احدیت کے ہوتے ہوئے اس کی وحدانیت کی تحقیق کی وجہ سے اسے یکتا سمجھنا توحید ہے، بایں معنی کہ وہ ایسا واحد ہے جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ اسے کسی نے جنا،نہ اس کی کوئی ضد ہے اور نہ مثال اور نہ شبیہ ، یہ سب بغیر تکییف اور بغیر تصویر و تمثیل کے ہے، کوئی چیز اس جیسی نہیں اور وہ سمیع و بصیر ہے۔ جب عقل مندوں کی عقلیں توحید کے متعلق انتہاتک پہنچ جائیں تو ان کی انتہا حیرت پر ہوتی ہے۔“ (امام ابو القاسم عبد الکریم ہوازن قشیری، رسالہ قشیریہ، ص:۵۳۹، ۵۴۰، مطبوعہ ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، پاکستان)
حضرت جنید بغدادی مزید فرماتے ہیں:
”.توحید کے متعلق بہترین قول وہ ہے جو حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ پاک ہے وہ ذات جس نے مخلوق کو اپنے جاننے کی صرف ایک راہ بتائی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اس کی معرفت سے عاجز ہے۔“(ایضاً، ص:۵۴۱)
توحید کی جامع تعریف فکر وقلم کی گرفت سے بالاتر ہے اور زبان و بیان کی دل آویز تعبیریں اس کے مفہوم کی ادائیگی سے قاصر ہیں، طائران افکار کی پروازیں بھی منزل پر جا کر دم توڑ دیتی ہیں وہاں سے توحید کے عرفان کا عالم شروع ہوتا ہے بڑے بڑے ارباب علم و معرفت اس راہ میں حیران و در ماندہ نظر آتے ہیں۔
علامیر علی بن محمد (م ۱۱۵۸ھ) رقم طراز ہیں:
” التوحيد هو لغة جعل شئ واحدًا ۔ وفی عبارة العلماء اعتقاد وحدانية تعالى. وعند الصوفية معرفة وحدانية الثابتة له في الازل والابد وذلك بان لایحضر في شهوده غير الواحد جل جلاله كذا في مجمع السلوك. قال فی شرح القصيدة الفارضية : كل المقامات والاحوال بالنسبة الى التوحيد كالطرق والأسباب الموصلة إليه، وهو المقصد الاقصى الا علي وليس وراء للعباد قربة و حقيقة جلت عن ان يحيط بها فهم اويحوم حولها وهم، وتكلم كل طائفة فيه بعضهم بلسان العلم والعبارة، والبعض بلسان الذوق والاشارة، وماقدروه حق قدره، ومازاد بيانهم غير ستره“ . انتهی(علامہ محمد علی تھانوی حنفی، کشاف اصطلاح الفنون ۴/۳۱۰، دار الکتب العربیۃ، بیروت، لبنان)
ترجمہ:توحید کے لغوی معنی کسی چیز کو ایک قرار دینا ہے اور علما کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا عقیدہ رکھنا توحید ہے اور صوفیہ کے نزدیک توحیداس وحدانیت کی معرفت کا نام ہے جو اس کے لیے ازل اور ابد میں ثابت ہے۔ معرفت اس طرح کہ اس کے شہودمیں غیرواحد جل جلالہ کے کسی کا حضور نہ ہو۔ یہی تعریف ”مجمع السلوک“ میں ہے، اور قصیدہ فارضیہ میں ہے: توحید سے متعلق تمام احوال و مقامات اس تک پہنچانے والےطرق واسباب ہیں اور یہی بلند مقصد اور اعلیٰ مطلوب ہے اور اس کے علاوہ بندوں کے لیے قرب الٰہی کی کوئی منزل نہیں اور توحید کی حقیقت کا ادراک فہم و خیال سے بالاتر ہے۔ توحید کے موضوع پر ہر جماعت نے کلام کیا ہے کسی نےعلم وتعبیر کی زبان میں اور کسی نے ذوق و اشارہ کی زبان میں لیکن کما حقہ توحید کی تو ضیح نہ کر سکے بلکہ ان کی تعریف و توضیح سے اور زیادہ خفا پیدا ہو گیا۔“
توحید کے تعلق سے ارباب علم و دانش نے اپنے علم کے مطابق راے زنی کی، ارباب معرفت نے اس بحرنا پیدا کنار میں غوطہ زنی کی مگر سچی بات یہ ہے کہ جوں جوں آگے بڑھنے کی کوشش کی حیرتوں کی دنیا میں ڈوبتے ہی چلے گئے اور جوں جوں حقیقت کی پردہ کشائی کی گئی ہر منزل کی تہ میں مزید دبیز پردےنظر آئے۔ حضرت امام رازی تفسیر کبیر میں رقم طراز ہیں:
”و من ان ههنا حاله عجيبة ، فان العقل مادام يلتفت إلى الوحدة فهو بعد لم يصل الى عالم الوحدة، فاذا ترك الوحدة فقد وصل الوحدة ، عبرت عنه وهل يمكن التعبير عن ذلك ؟ فالحق انه لايمكن لانك متى عبرت عنہ فقد اخبر تعنه بامر اخر، والمخبر عنه غير المخبر به، فليس هناك توحید، ولو اخبرت عنه فهناك ذات مع السلب الخاص فلایکون توحيد هناك فاما اذا نظرت اليه من حيث انه هو، من غير ان يخبر عنه لا بالنفي ولا بالاثبات فهناك تحقق الوصول الى مبادی عالم التوحيد ، ثم الالتفات المذكور لايمكن التعبير عنه الا بقو له هو ، فلذلك عظم وقع هذه الكلمة عند الخائصين في بحار التوحيد انتهى“۔ (امام رازی ، تفسیر کبیر)
ترجمہ:یہاں عجیب وغریب صورت حال ہے کیونکہ عقل جب تک وحدت میں متوجہ رہتی ہے اس وقت عالم وحدت تک نہیں پہنچتی اور جب منزل وحدت چھوڑتی ہے تو وحدت تک پہنچتی ہے تو کیا اس کی تعبیرممکن ہے؟ حق یہی ہے کہ اس کی تعبیرممکن ہی نہیں اس لیے کہ آپ جب اس کی تعبیر کریں گے تو اس کے بارے میں کسی دوسرے لفظ سے خبر دیں گے اور جس کے بارے میں خبر دی جائے وہ اس لفظ کے سوا ہوگا جس کے ذر یعہ خبر دی جاری ہے تو یہاں توحید نہیں رہی اور اگر آپ اس کی خبر دیں گے تو وہاں سلب خاص کے ساتھ ایک ذات ہوگی تو بھی وہاں توحید نہیں رہی اور جب آپ اس کی جانب نظر کریں اس حیثیت سے کہ وہ وہ ہےنفی و اثبات کی قید کے ساتھ خبر سے قطع نظر تو اس وقت عالم توحید کے مبادی تک رسائی کاتحقق ہوگا ، پھر مذکورہ بالا التفات کی تعبیر صرف لفظ ”ھو“سے ممکن ہے اس لیے توحید کے سمندروں میں غواصی کرنے والوں کے نزدیک یہ کلمہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔“
مندرجہ بالا عبارتوں سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ توحید کی تعریف اور اس کی تعبیر وتشریح کتنا مشکل امر ہے۔ توحید اسلام کا بنیادی رکن ہے اس پر ایمان و اعتقاد کے بغیر کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا ہے اس لیے علماے کرام نے عقیدہ توحید پر روشنی ڈالی ہےتا کہ توحید پر اس کے مطابق اعتقاد رکھا جائے اور گمراہ فرقوں کے باطل عقیدہ توحید سے اجتناب کیا جا سکے۔ اب ہم ذیل میں عقیدہ توحید کی تشریح کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی ذات اور وحدانیت کی معرفت کا مدار دس اصولوں پر ہے:
(1) اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ موجود ہے (۲) ازلی ہے(۳) ابدی ہے (۴) جو ہر نہیں (۵) جسم نہیں (۶) عرض نہیں (۷) کسی جہت سے خصوصیت نہیں رکھتا (۸)کسی مکان پر ٹھہرا ہوا نہیں بلکہ عرش پر اپنی شان کے لائق مستوی ہے (9) آخرت میں اس کا دیدار ہوگا (۱۰) وہ بغیر شریک و بے مثل کے اکیلا ہے ... اور بقول امام ربانی مجدد الف ثانی اللہ تعالیٰ صفات کا ملہ رکھتا ہے جن میں سے حيات،علم، قدرت، اراده،سمع، بصر ، کلام اور تکوین بھی ہیں، یہ صفات ازلی اور قدیمی ہیں اور اللہ جل شانہ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں ۔ حوادث کے ساتھ تعلقات کا ہونا صفات کے قدیم ہونے میں خلل نہیں ڈالتا اورمتعلق کا حدوث ان صفات ازلیت کے لیے مانع نہیں ہے فلاسفہ نے اپنی بے وقوفی سے اور معتزلہ نے اپنی بے بصیرتی سے متعلق کے حدوث کو متعلق حدوث سے وابستہ کر دیا ہے اور وہ صفات کاملہ کی نفی کرتے ہیں اور خداتعالیٰ کو جزئیات کا جاننے والا نہیں سمجھتے کہ وہ تغیر ومستلزم ہے کہ جو حدوث کی علامت ہے،ان لوگوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ صفات ازلی ہوتی ہیں اور متعلقات حادثہ کے ساتھ صفات کا تعلق حادث ہوتا ہے۔ (مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی، مکتوبات امام ربانی اردو، دفتر دوم، ص:۶۲، ۶۳)
مدارج توحید:
حضرت امام ابوالقاسم عبد الکریم قشیری نے توحیدکی تین قسمیں تحریر کی ہیں:
(1)-”توحيد الحق للحق“ یعنی اللہ تعالیٰ کو واحد جاننا اور اوروں کو بتلانا کہ وہ واحد ہے۔
(۲)-”توحید الحق سبحانه للخلق“ یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ اس کا فلاں بندہ موحد ہے اور اللہ تعالیٰ بندے کی توحید کا خالق ہے۔
(۳)-”توحيد الخلق للحق سبحانه ‘‘ بایں معنی کہ بندے کو اس بات کا علم ہے کہ اللہ ایک ہے اور بندے کا حکم لگانا اور بتلانا کہ اللہ ایک ہے۔
اس تیسری قسم کے متعلق حضرت ذوالنون مصری نے فرمایا:
”توحید یہ ہے کہ تو جانے کہ اشیا میں اللہ تعالیٰ کی قدرت جاری وساری ہے مگر طبیعت کے طور پر نہیں (بلکہ اختیار کے طور پر ) اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اشیا کو پیدا کرتا ہے تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کو کوئی کوشش یازور نہیں لگانا پڑتا ( بلکہ جو چاہا ہو گیا ہر چیز کی علت وسبب اس چیز کا بنانا ہے ،لیکن اللہ تعالیٰ کے کاموں کی کوئی علت نہیں اور تمہارے ذہن میں خواہ کسی چیز کا تصورآ جائے وہ اللہ تعالیٰ کا تصور نہیں ہوگا“۔(امام ابو القاسم عبد الکریم ہوازن قشیری، رسالہ قشیریہ، ص:۵۳۹، مطبوعہ ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، پاکستان)
حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین یحییٰ منیری قدس سرہ نے توحید کے چار درجے بڑی تفصیل سے رقم فرمائے ہیں۔ اب ہم ذیل میں ان کی تلخیص لکھتے ہیں:
پہلا درجہ: ایک گروہ فقط زبان سے بھی لا الہ الا اللہ کہتا ہے مگر دل سے رسالت و توحید کامنکر ہے ایسے لوگوں کو اسلام میں منافق کہا جاتا ہے۔
دوسرا درجہ :اس کی دو شاخیں ہیں ایک گروہ زبان سے بھی لا الہ الا اللہ کہتا ہے اور تقلید اً دل میں بھی اعتقاد رکھتا ہے کہ اللہ ایک ہی ہے کوئی اس کا شریک نہیں۔ اس گروہ کے لوگ عام مسلمانوں میں ہیں... دوسرا گروه زبان سے بھی لا الہ الا اللہ کہتا ہے اور دل میں یہی اعتقاد صحیح رکھتا ہے اور اپنے علم کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر سیکڑوں دلیلیں رکھتا ہے۔ اس گروہ کے لوگ علماے متکلمین یعنی علماے ظواہر کہلاتے ہیں۔
تیسرا درجہ : موحد مومن بہ اتباع پیر طریقت مجاہدہ و ریاضت میں مشغول ہے۔ رفتہ رفتہ اس نے یہ ترقی کی ہے کہ نور بصیرت دل میں پیدا ہو گیا ہے، اس نورسے اس کو اس کا مشاہدہ ہے کہ فاعل حقیقی وہی ایک ذات ہے سارا عالم گویا کٹھ پتلی کی طرح ہے کسی کو (حقیقی ) کوئی اختیارنہیں ہے۔ ایسا موحدکسی فعل کی نسبت کسی دوسرے کی طرف نہیں کرسکتا، کیونکہ وہ دیکھ رہا ہے کہ فاعل حقیقی کے سوا دوسرے کا فعل نہیں ہے۔
چوتھا درجہ: اذکار و اشغال اور ریاضت ومجاہدہ کے بعد سالک یہاں تک ترقی کرتا ہے کہ بعض اوقات شش جہت میں اللہ تعالیٰ کے سوا اسے کچھ نظر نہیں آتا،سالک کے دل پر تجلیات صفاتی کا ظہور اس شدت سے ہوتا ہے کہ ساری ہستیاں اس کی نظر میں گم ہو جاتی ہیں.... صوفیوں کے یہاں اس مقام کا نام ”الفنافی التوحید“ توحيد میں فنا ہو جانا ہے۔ اس مقام پر اگر شطحیات سالک سے سرزد ہوں گے تو اس کی خامی سمجھی جائے گی ،اس میں شک نہیں کہ خدا کی تجلی ہوجاتی ہے اور خدا اپنا جلوہ دکھاتا ہے گرانسان میں حلول نہیں کرتا اس مقام میں پہنچ کر سیکڑوں سالک پھسل کر گر چکے ہیں ،اس خوفناک جنگل سے جان سلامت لے جانا بغیر تائید غیبی اور عنایت ازلی ناممکن ہے اور مرشدکی مددبھی ضروری ہے۔
بہر کیف درجہ چہارم کی توحید میں سالکوں کے احوال مختلف ہوتے ہیں کسی پرہفتہ میں ایک ساعت کے لیے فنائیت طاری ہوتی ہے کسی پر ہر روز ایک ساعت یا دو ساعت اور کسی پر بیشتر اوقات عالم استغراق رہتا ہے۔
فنافی التوحید کے بعد ایک مرتبہ ہے جس کا نام ” الفناء عن الفناء “ہے اور یہ بھی چوتھے درجہ کا مرتبۂ کمال ہے،اس مرتبےمیں سالک کی حالت یہ ہوتی ہے کہ کمال استغراق کی وجہ سے اس کے احساس کو اپنی فنائیت کی خبر نہیں ہوتی اور نہ اس کی آگاہی باقی رہتی ہے کہ ہم فنا ہوئے، یہاں تک کہ جمالی اور جلالی کا فرق بھی نظرنہیں آتا ایک جنبش میں سب باتیں غائب ہو جاتی ہیں، کیونکہ کسی قسم کا علم باقی نہیں رہتا۔ اہلِ طریقت کے نزدیک تفرقہ کی دلیل ہے مقام عین الجمع اور جمع الجمع جب ہی حاصل ہوگا کہ سالک اپنے کو اورکل کائنات کو ظہورحق کے دریائے نور میں گم کردے اور اس کی بھی خبر نہ رکھے کہ گم کون ہوا۔
توحید وجودی علم کے درجہ میں ہو یا شہود کے ابتدائی درجہ سے انتہائی درجه تک پہنچے، ہر مرتبہ میں بندہ بندہ ہے خداخدا ہے، اس لیے ” انالحق وسبحانی ما اعظم شانه‘‘ وغیرہ کہنا اگر صدقِ حال نہ ہوتو خوداہل طریقت کے نزدیک یہ کلمات کفریہ ہیں اور جہاں صدق حال ہے بیشک وہاں کمال ایمان کی دلیل ہے۔(مخدوم جہاں، شرف الدین احمد یحییٰ منیری ، مکتوبات صدی، ص:۴۷ تا ۵۲)
توحید فی المحبۃ کے موضوع پر کچھ تحریر کرنے کے لیے توحید کے مفہوم پر بنیادی گفتگو کرنا ضروری تھا اب ہم محبت کے شیریں لفظ اور دل آویز مفہوم کی جانب بحث کا رخ موڑتے ہیں۔ لفظ محبت جیسے ہی پردۂ سماعت سے ٹکراتا ہے دل ودماغ کیف آگیں خوشبو سے مہک اٹھتے ہیں، جب مجازی محبت کے تصور کا یہ عالم ہے، توحقیقی محبت کا خلد بردوش مفہوم کتنا پرسوز اور دل نواز ہوگا ،عشق و عرفان کے اسی کیف بار ماحول میں اب ہم محبت کی جانب روے سخن کرتے ہیں تا کہ ”توحید فی المحبۃ“کے پرسوز تصور کے لیے دل کا دروازو پہلے ہی سے کھلا رہے۔
محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا
لفظ محبت کی لغوی تشریح:
لغوی تحقیق کے اعتبار سے لفظ محبت حبۃ سے نکلا ہے جس کے معنی بیج کے ہیں جس کو زمین میں بوتے ہیں پھر حبہ کو حببنا دیا، زندگی کی جڑ اسی میں ہے جس طرح روئیدگی یعنی اگنے کی استعداد تخم میں ہوتی ہے جب بیج مٹی میں مل کر چھپ جاتا ہے اس پر پانی برستا ہے، دھوپ لگتی ہے، جاڑوں کی ٹھنڈک اورگرمی کی تیزی اس پر پہنچتی ہے مگر وہ بدلتا نہیں جب اس کا موسم آتا ہے تو اگنے لگتا ہے۔ پھول پتیاں نکلتی ہیں ، پھل لاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جب محبت دل میں جگہ بنا لیتی ہے تو محبوب کی موجودگی اور جدائی ، بلا ومشقت اورلذت و آرام سے بدلتی نہیں۔
(مخدوم جہاں، شرف الدین احمد یحییٰ منیری ، مکتوبات صدی، ص:۳۲۷)
بعض صوفیاے کرام نے بھی لفظ محبت کے لغوی مفہوم سے بحث کی ہے۔ چند اقوال ذیل میں ملاحظ فرمائیے:
محبت اقوال صوفیا کی روشنی میں:
امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیری (۳۷۶-۴۶۵ھ) نے اپنی شہرہ آفاق کتاب رسالہ قشیریہ میں محبت کے مفہوم کے سلسلہ میں قریب چالیس اقوال ذکر کیے ہیں ہم ان میں سے چند یہاں نقل کرتے ہیں:
مندرجہ بالا اقوال کی روشنی میں یہ حقیقت بدر کامل کی طرح منور ہوگئی کہ محب کی نظر میں محبوب اور رضاے محبوب ہی اصل ہوتی ہے اس راہ کا ہر خار اس کی نظر میں پھول ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کا ہر لمحہ رضاے محبوب کے لیے وقف ہوتا ہے۔ محبت ایک ایساتخم ہے جس میں وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت ہوتی ہے۔ یعنی محبت صرف اللہ تعالی سے ہونا چاہیے اور اللہ تعالی ہی کے لیے ہر چیز سے محبت ہونا چاہیے، یہ وہ منزلِ شوق ہے جہاں زبان پر شکوہ نہیں آتا، رنج و غم اور بلا ومصیبت پر بھی محب سرشار نظر آتا ہے اور رضاے حق کے بغیر کائنات کی سلطانی بھی گردِراہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ جب بندہ محبت کی بھٹی میں جل کر کندن ہو جاتا ہے اور عبدیت کے بلند مقام پر فائز ہوجاتا ہے اس ارشادِ الٰہی کا پیکر بن جاتا ہے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۱۶۲(الانعام، آيت:۱۶۲)
ترجمہ: اے محبوب آپ فرما د یجیے، میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
ہماری گفتگو کا محور توحید فی المحبۃ ہے اس لیے اب ہم ذیل میں اس حوالے سے قرآنی ارشادات نقل کرتے ہیں:
توحید فی المحبۃ آئینۂ قرآن میں:
(1)- وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ-وَ لَوْ یَرَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَۙ-اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًاۙ-وَّ اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ۱۶۵
ترجمہ: اور کچھ لوگ اللہ کے سوا اور معبود بنالیتے ہیں کہ انہیں اللہ کی طرح محبوب رکھتے ہیں اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔ اور کیسی ہو اگر دیکھیں ظالم وہ وقت جب کہ عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے آئے گا اس لئے کہ سارا زور خدا کو ہے اور اس لئے کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔
(۲)- قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَیَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۳۱
(آلِ عمران:۳۱)
ترجمہ: اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرماں بردار ہوجاؤ اللہ تمھیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
(۳)- یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤۙ-اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ٘-یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىٕمٍؕ-ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۵۴(المائدہ:۵۴)
ترجمہ: اے ایمان والو تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کا پیارا مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے، اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔(جاری)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org