مبارک حسین مصباحی
افضل البشر بعد الانبیا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اولین خلیفۂ راشد ہیں۔ سر کار صلی اللہ تعالیٰ علیہ سلم نے آپ کا اسم گرامی عبد الہ منتخب فرمایا، آپ کے القاب عتیق و صدیق ہیں۔ آپ کے والد ماجد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ ہے۔ آپ کی والدہ کا نام سلمیٰ ہے اور کنیت ام الخیر ہے ۔ آپ کا سلسلۂ نسب ساتویں پشت میں مرہ بن کعب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نسب شریف سے مل جاتا ہے۔ آپ واقعہ فیل کے تقریباً ڈھائی سال بعد مکہ شریف میں پیدا ہوئے ۔
آپ کا اسلام قبول کرنا :زمانۂ جاہلیت میں حضرت ابو بکر صدیق کا شمار قریش کے رؤسا میں ہوتا تھا اور قریش حضرت ابو بکر سے بہت الفت اور محبت رکھتے تھے ، حضرت حسان بن ثابت ، حضرت ابن عباس، حضرت عمرو بن عنبسہ، ابراہیم، اور علما کی ایک جماعت کا یہ نظریہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلےاسلام قبول کیا ۔حضرت عبید اللہ بن حصین تمیمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” میں نے جس شخص پر بھی اسلام پیش کیا اس نے اس میں شک ، تردد اور غور و فکر کیا ، البتہ ابوبکر پر جب اسلام پیش کیا تو انھوں نے اس میں تردد نہیں کیا ، حضرت ابو بکر صدیق بیان کرتے ہیں کہ میں ایک معبوث ہونے والے نبی کے متعلق سنتا رہتا تھا ، میں نے ورقہ بن نوفل سے اس کے بارے میں پوچھا ۔انھوں نے کہا وہ نبی عرب کے متوسط نسب سے مبعوث ہو گا اور مجھے متوسط نسب کا علم تھا ۔جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو میں آپ پر ایمان لے آیا اور آپ کی تصدیق کی۔
آپ بلند اخلاق، پاکیزہ مزاج اور خدمت خلق کا حیرت انگیز جذبہ رکھتے تھے ۔ آپ کے ایمان لانے کے تعلق سے جمہور کا اس پر اتفاق ہے آپ مردوں میں سب سے پہلے اسلام میں داخل ہوئے۔
سید نا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آقا کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تمام صحابہ سے زیادہ محبت فرماتے تھے۔ آپ شجاعت اور سخاوت میں بھی اپنی مثال آپ ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی ظاہری حیات کے آخر میں ملک شام کی جانب جیش اسامہ روانہ فرمایا تھا ، یہ لشکر ابھی مدینہ منورہ کے قریب مقام ذی خشب میں پہنچا تھا کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ظاہری دنیا سے پردہ فرما گئے۔ وہ ایک قیامت خیز ماحول تھا ، مدینہ منورہ کے اطراف میں کمزور ایمان والے اور منافق مرتد ہونے لگے ، صحابۂ کرام جمع ہوکر آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے آپ اس لشکر کو واپس بلا لیجیے مگر آپ محبت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیکر اور عزم و استقلال کے پہاڑتھے ۔ آپ نے فرمایا : اس لشکر کو ہمارے پیغمبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے روانہ کیا ہے ، آپ کے فیصلے کے خلاف کچھ کرنا تو بڑی بات ہے میں کچھ سوچ بھی نہیں سکتا ۔آپ کے ارشاد گرامی کے جملے یہ تھے :” اگر پرند میری بوٹیاں نوچ کر کھائیں ،یہ تو گوارا مگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مرضی میں اپنی رائے دینا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے روانہ کیے ہوئے لشکر کو واپس بلانا مجھے گوارا نہیں۔
آپ کے اس فیصلے نے معاندین اور منافقین کے حوصلے پست کر دیے، اب ان پر ظاہر ہو گیا کہ اسلامی سلطنت کو نقصان پہنچانا اب اتنا ہی مشکل ہے،خلافت راشدہ پر ایسی بلند ہمت شخصیت جلوہ فرما ہے جو واقعی تاجدار مدینہ کی نیابت کا حق ادا کر سکتی ہے۔
آپ کی غزوات میں شرکت: حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرےاور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے فرمایا: تم میں سے ایک کے ساتھ جبرئیل ہیں اور دوسرے کے ساتھ میکائیل اور اسرافیل ہیں ، یہ عظیم فرشتے جنگ میں حاضر ہیں۔
امام محمد بن سعد نے کہا ہے کہ حضرت ابو بکر ، بدر، احد،خندق ، حدیبیہ اور تمام مشاہد میں رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک میں سب سے بڑا جھنڈا حضر ابو بکر کو دیا، اس جھنڈے کا رنگ سیاہ تھا، جنگ خیبر میں رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر کو سووسق طعام دیا، جنگ احد اور جنگ حنین میں جب بعض صحابہ کے قدم اکھڑ گئے تھے اور وہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے ان دونوں جنگوں میں حضرت ابو بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ، تمام اہل سیرت اور مؤرخین کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت ابو بکر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔
(علامہ محمد بن محمد شیبانی ابن الاثیر جزری متوفیٰ ۶۳۰ھ، اسد الغابہ، ج:۳، ص:۲۱۱، ۲۱۲، مطبوعہ انتشارات اسماعیلیان، تہران)
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت: حافظ ابن عبد البر مالکی لکھتے ہیں :
جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اسی روز سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی گئی ، پھر اس کے ایک دن بعد (منگل کے روز) عام بیعت کی گئی۔ حضرت سعد بن عبادہ، قبیلہ خزرج کے چند لوگوں اور قریش کی ایک جماعت نے بیعت نہیں کی ، پھر حضرت سعد کے علاوہ باقی سب نے بیعت کرلی، ایک قول یہ ہے کہ اس دن تمام قریش نے بیعت کر لی تھی ۔ایک قول یہ ہے کہ قریش میں سے حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت طلحہ ، حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہم نے ابتداءً بیعت نہیں کی تھی بعد میں بیعت کر لی۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت علی نے حیات فاطمہ رضی اللہ عنہا میں بیعت نہیں کی اور پھر بیعت کر لی ، پھر ہمیشہ ان کے احکام کو سنا اور اطاعت کی ، ان کی تعریف کر تے رہے اور ان کے فضائل بیان کرتے رہے ۔ابو عبیدہ بن حکم بن حجل بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا جو شخص مجھے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر پر فضیلت دے گا میں اس کو وہ سزا دوں گا جو مفتری (جھوٹے ) کو سزا دی جاتی ہے۔
وصال پر ملا: حضرت ابو بکر پیر کے دن بائیس جمادی الثانیہ تیرہ ہجری کو فوت ہو گئے، حضرت ابوبکر نے وصیت کی تھی کہ انھیں ان کی زوجہ اسما بنت عمیس غسل دیں ، و انھوں نے غسل دیا، حضرت عمر بن الخطاب نے نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت طلحہ ، حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہم ان کی قبر میں اتر ے، انھیں رات کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے جوار میں دفن کیا گیا، اس پر اتفاق ہے کہ وفات کے وقت ان کی عمر تریسٹھ سال تھی اور خلافت کا عرصہ گزار کر ان کی عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے مساوی ہو گئی ۔ (حافظ ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البر متوفی ۴۶۳ھ، استیعاب علیٰ ہامش الاصابہ، ج:۳، ص:۲۵۶، ۲۵۷، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت)
اب ذیل میں جامع صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، باب من فضائل ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اکثر حدیثیں پیش کرتے ہیں:
(۱)حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، قَالَ عَبْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا وَقَالَ الآخَرَانِ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلاَلٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ، حَدَّثَهُ قَالَ نَظَرْتُ إِلَى أَقْدَامِ الْمُشْرِكِينَ عَلَى رُءُوسِنَا وَنَحْنُ فِي الْغَارِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ نَظَرَ إِلَى قَدَمَيْهِ أَبْصَرَنَا تَحْتَ قَدَمَيْهِ فَقَالَ "يَا أَبَا بَكْرٍ مَا ظَنُّكَ بِاثْنَيْنِ اللہُ ثَالِثُهُمَا" .
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس وقت ہم غار میں تھے میں نے اپنے سروں کی جانب مشرکین کے قدم دیکھے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر ان میں سے کسی نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا ، رسوں اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو بکر ! تمہارا ان دو کے بار ے میں کیا گمان ہے جن میں کا تیسرا اللہ ہے۔
(۲)حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي، النَّضْرِ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صلى الله عليه وسلم جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ " عَبْدٌ خَيَّرَهُ اللہُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ زَهْرَةَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ " . فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ وَبَكَى فَقَالَ فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا . قَالَ فَكَانَ رَسُولُ اللہِ صلى الله عليه وسلم هُوَ الْمُخَيَّرُ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا بِهِ . وَقَالَ رَسُولُ اللہِ صلى الله عليه وسلم " إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَىَّ فِي مَالِهِ وَصُحْبَتِهِ أَبُو بَكْرٍ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلاً وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الإِسْلاَمِ لاَ تُبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ خَوْخَةٌ إِلاَّ خَوْخَةَ أَبِي بَكْرٍ " .
ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر رونق افروز ہوئے اور فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو یہ اختیار دیا کہ دہ دنیا کی نعمتیں لے یا اللہ کے پاس رہے ، اس بندے نے اللہ کے پاس رہنا اختیار کر لیا، یہ سن کر حضرت ابو بکر روئے اور خوب روئے، اور کہا ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، حضرت ابو سعید نے کہا جس شخص کو اختیار دیا گیا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، اور حضرت ابوبکر ہم سب سے زیادہ علم والے تھے ، اور رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے مال اور محبت کے لحاظ سے مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے ابو بکر ہیں ، اور اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو خلیل بناتا ، لیکن اسلام کی اخوت قائم ہے اور ابوبکر کی (مسجد کی طرف کھلنے والی) کھڑکی کے علاوہ سب کھڑکیاں بند کر دی جائیں ۔
(۳)حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ عُبَيْدِ، بْنِ حُنَيْنٍ وَبُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ خَطَبَ رَسُولُ اللہِ صلى الله عليه وسلم النَّاسَ يَوْمًا . بِمِثْلِ حَدِيثِ مَالِكٍ .
ترجمہ:ابو سعید خدری نے کہا کہ ایک دن رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا ، اس کے بعد حسب سابق حدیث ہے۔
(۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، بْنِ رَجَاءٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ أَبِي الْهُذَيْلِ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ، اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ " لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلاً وَلَكِنَّهُ أَخِي وَصَاحِبِي وَقَدِ اتَّخَذَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلاً " .
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں کسی شخص کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو خلیل بناتا لیکن وہ میرے (دینی) بھائی اور صاحب ہیں، اور اللہ عزوجل نے تمہارے صاحب کو خلیل بنایا ہے۔
(۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَابْنُ، بَشَّارٍ - وَاللَّفْظُ لاِبْنِ الْمُثَنَّى - قَالاَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ، بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ " لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِي أَحَدًا خَلِيلاً لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ " .
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا۔
(۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَابْنُ، بَشَّارٍ قَالاَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنِي سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، -ح- وَحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَيْسٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي، مُلَيْكَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صلى الله عليه وسلم " لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً لاَتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ خَلِيلاً " .
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابن ابی قحافہ کو خلیل بناتا ۔
(۷) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا وَقَالَ الآخَرَانِ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ وَاصِلِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي، الْهُذَيْلِ عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ خَلِيلاً لاَتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ خَلِيلاً وَلَكِنْ صَاحِبُكُمْ خَلِيلُ اللہِ " .
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر میں اہل زمین میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابن ابی قحافہ کو خلیل بناتا، لیکن تمہارےصاحب (یعنی حضور ) اللہ کے خلیل ہیں ۔
(۸) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ، ح وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ، إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، ح وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، كُلُّهُمْ عَنِ الأَعْمَشِ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَأَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ - وَاللَّفْظُ لَهُمَا - قَالاَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صلى الله عليه وسلم " أَلاَ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَى كُلِّ خِلٍّ مِنْ خِلِّهِ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلاً إِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللہِ " .
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو ! میں ہر خلیل کی خلت سے بری ہوتا ہوں، اور اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو خلیل بناتا ، تمہارے صاحب اللہ کےخلیل ہیں۔
(۹) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صلى الله عليه وسلم بَعَثَهُ عَلَى جَيْشِ ذَاتِ السَّلاَسِلِ فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ أَىُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ " عَائِشَةُ " . قُلْتُ مِنَ الرِّجَالِ قَالَ " أَبُوهَا " . قُلْتُ ثُمَّ مَنْ قَالَ " عُمَرُ " . فَعَدَّ رِجَالاً .
ترجمہ: حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں لشکر ذات السلاسل میں سالا ر بنا کر بھیجا، میں آپ کے پاس آیا اور کہا آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا: عائشہ ! میں نے کہا اور مردوں میں ! آپ نے فرمایا ان کے والد ، میں نے کہا پھر کون ہے ؟ آپ نے فرمایا عمر،پھر انھوں نے کئی نام لیے۔
(۱۰) وَحَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ أَبِي عُمَيْسٍ، ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، - وَاللَّفْظُ لَهُ - أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَيْسٍ، عَنِ ابْنِ، أَبِي مُلَيْكَةَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ، وَسُئِلَتْ، مَنْ كَانَ رَسُولُ اللہِ صلى الله عليه وسلم مُسْتَخْلِفًا لَوِ اسْتَخْلَفَهُ قَالَتْ أَبُو بَكْرٍ . فَقِيلَ لَهَا ثُمَّ مَنْ بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ عُمَرُ . ثُمَّ قِيلَ لَهَا مَنْ بَعْدَ عُمَرَ قَالَتْ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ . ثُمَّ انْتَهَتْ إِلَى هَذَا .
ترجمہ:ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا اگر رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کسی کو خلیفہ بناتے تو کس کو خلیفہ بناتے ؟ حضرت عائشہ نے کہا ، حضرت ابو بکر کو ، حضرت عائشہ سے پوچھا گیا حضرت ابوبکر کے بعد حضور کس کو خلیفہ بناتے ؟ انھوں نے کہا حضرت عمر کو۔ کہا گیا کہ حضرت عمر کے بعد حضور کسی کو خلیفہ بناتے ؟ حضرت عائشہ نے کہا حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو ، اس کے بعد حضرت عائشہ خاموش ہوگئیں۔
(۱۱) حَدَّثَنِي عَبَّادُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ، بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ امْرَأَةً، سَأَلَتْ رَسُولَ اللہِ صلى الله عليه وسلم شَيْئًا فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ أَرَأَيْتَ إِنْ جِئْتُ فَلَمْ أَجِدْكَ قَالَ أَبِي كَأَنَّهَا تَعْنِي الْمَوْتَ . قَالَ " فَإِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ " .
ترجمہ: حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا، آپ نے فرمایا : پھر آنا ، اس نے کہا یارسول اللہ یہ بتلائیں کہ اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں ، حضرت جبیر بن مطعم نے کہا ؛اس کی مراد موت تھی ، آپ نے فرمایا : اگر تم مجھے نہ پاؤ تو پھر ابو بکر کے پاس آنا ۔
(۱۲) وَحَدَّثَنِيهِ حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، أَنَّ أَبَاهُ، جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللہِ صلى الله عليه وسلم فَكَلَّمَتْهُ فِي شَىْءٍ فَأَمَرَهَا بِأَمْرٍ . بِمِثْلِ حَدِيثِ عَبَّادِ بْنِ مُوسَى .
ترجمہ:حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور اس نے آپ سے کسی مسئلہ میں گفتگو کی آپ نے اس کو پھر آنے کا حکم دیا، اس کے بعد حسب سابق حدیث ہے۔
(۱۳) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ صلى الله عليه وسلم فِي مَرَضِهِ " ادْعِي لِي أَبَا بَكْرٍ وَأَخَاكِ حَتَّى أَكْتُبَ كِتَابًا فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَمَنَّى مُتَمَنٍّ وَيَقُولَ قَائِلٌ أَنَا أَوْلَى . وَيَأْبَى اللہُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلاَّ أَبَا بَكْرٍ " .
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کر تی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا : اپنے باپ ابو بکر اور اپنے بھائی کو میرے پاس بلاؤ تا کہ میں ان کے متعلق ایک مکتوب لکھ دوں، کیونکہ مجھے یہ خوف ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے گا اور کہنے والا کہے گا کہ میں خلافت کا زیادہ حق دار ہوں اور اللہ تعالیٰ اور تمام مسلمان ابو بکر کے سوا ہر ایک کی خلافت کا انکار کر دیں گے۔(جاری)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org