22 November, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Jan 2023 Download:Click Here Views: 79689 Downloads: 1247

(16)-زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

از:ابوالحسنات محمد ممتاز عالم مصباحی

استاذالعلماوالفقہا،نمونہ اسلاف، تلمیذحضورحافظ ملت،اسرار ملت، ماہرعلوم فنون، حاوی فروع واصول حضرت علامہ الشا ہ اسرار احمد عزیزی مصباحی قدس سرہ العزیز اپنے اہل وعیال اورعزیزواقارب کےساتھ ہزاروں تلامذہ کوروتابلکتاچھوڑکر اپنے مالک حقیقی جل وعلی سے جاملے۔انالله وانا اليه راجعون.

  اللہ عزوجل نے اپنے حبیب پاک صاحب لولاک ﷺ کے طفیل استاذ گرامی کوبہت سی خوبیوں سے نوازہ تھا۔فقہ،اصول فقہ، تفسیر،اصول تفسیر،حدیث،اصول حدیث،منطق،فلسفہ اور علم کلام وغیرہ قریباً  تمام تر  مروجہ علوم وفنون میں آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی۔

      ان محاسن وکمالات کے ساتھ ساتھ وہ حددرجہ سادہ مزاج اور اصول پسند بھی تھے۔سردی ہوکہ گرمی یاپھربرسات ہرموسم میں روزانہ صلاةوسلام کی گھنٹی سے پہلے پہلےجامعہ تشریف لے آتےاور چھٹی بعد تشریف لے جاتے۔مبارک پور کے جوار میں واقع موضع لوہرا کے آپ متوطن تھے،اس لیے روزانہ آنے جانے کامعول شریف تھا۔تعلیم تعلم میں تساہلی کوسخت ناپسند فرماتے تھے۔میں نے کبھی آپ کو درس گاہ میں ہنستے اور غیر ضروری بات کرتے نہیں دیکھا۔یہ بھی آپ کی اصول پسندی کا حصہ تھا۔

  سادگی کے باوجود آپ کی شخصیت میں بہت زیادہ رعب ودبدبہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ آپ طلبہ واساتذہ میں ”بابا“ کے نام سے مشہور تھے۔اعدادیہ ہوکہ دورہ حدیث ،کسی بھی درجے کے کسی طالب علم کو آپ سے نگاہ ملاکر بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔

     آپ کا انداز تدریس بھی سادہ مگر انتہائی عمدہ تھا۔آسان الفاظ اور مختصر تقریر کے ذریعہ مشکل سے مشکل سبق کو اپنے طلبہ کے ذہن میں اتار دینے کافن آپ خوب جانتے تھے۔

   آپ کی درس گاہ فیض سے تربیت یافتہ طلبہ کی تعداد ہزاردوہزار نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔جوآج نہ صرف یہ کہ وطن عزیز ہندوستان ، بلکہ امریکہ ، برطانیہ، افریقہ ، کناڈا، عمان، سعودی عرب، دوبئی، قطر، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اورسری لنکاوغیرہ بہت سے ملکوں میں اپنے اپنے ذوق کے مطابق دین متین کی بیش بہاخدمات انجام دینے میں سرگرم عمل ہیں۔

    مجھ کم علم اور ہیچ مداں کو اس بات پر بے انتہافخر ہے کہ میں استاذ گرامی کاادنی شاگرد ہوں،میں نے آپ سے درس نظامیہ کی دو  مشکل ترین اور مشہور کتابیں نخبۃ الفکر اور سراجی پڑھنے کاشرف حاصل کیا ہے۔ فالحمد للہ علي ذلك.

  آپ نے ابتداتادورہ حدیث پوری تعلیم جامعہ اشرفیہ میں حاصل کی ،یہاں تک کہ 1386ھ 1966ءمیں علماو مشائخ کے ہاتھوں دستار فضیلت سے نوازے گئے۔تکمیل تعلیم کے بعد اپنے استاذ گرامی حضور حافظ ملت قدس سرہ العزیز کے حکم کے مطابق مادرعلمی میں ہی تدریسی خدمات انجام دینے میں مصروف ہوگئے ،جس کاسلسلۃ الذہب ریٹائرمنٹ 2010ءتک جاری رہا۔گویاآپ نے اپنی پوری زندگی مادرعلمی کی خدمت کے لیے وقف کردی تھی۔

  آپ کو قطب الارشاد استاذالاساتذہ ،جلالۃ العلم، حافظ ملت حضرت علامہ الشاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی ثم مبارک پوری علیہ الرحمۃ والرضوان بانی و سربراہ اعلیٰ جامعہ اشرفیہ سے شرف تلمذ حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت و ارادت کابھی شرف حاصل تھا۔

   آپ کے علمی مقام ومرتبہ کا اندازہ لگانے کے لیے اتنا جان لینا ہی کافی ہوگاکہ صدرالعلما، حضرت علامہ محمد احمد مصباحی دام ظلہ ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ، مبلغ اسلام  حضرت علامہ عبد المبین نعمانی قبلہ دام ظلہ مہتم  دارلعلوم قادریہ،چریاکورٹ،مئو اور سراج الفقہا محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین رضوی، مصباحی قبلہ دام ظلہ۔شیخ الحدیث وصدرشعبہ افتا جامعہ اشرفیہ جیسی عبقری شخصیات آپ کے تلامذہ میں شامل ہیں۔

 آپ کا وصال پرملال یقیناًجماعت اہل سنت خاص طور پر جامعہ اشرفیہ کے لیے ناقابل تلافی خسارہ ہے۔اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مولی کریم اپنے حبیب رؤف ورحیم علیہ الصلوة والتسلیم کے طفیل استاذگرامی کے تمام تر گناہ کبیرہ و صغیرہ کو معاف فر ما کر ان کے درجات کو بلند سے بلند تر فرمائے،ان کو پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور جامعہ اشرفیہ کو ان کا نعم البدل نصیب کرے۔آمین

ایک روشن چراغ تھا نہ رہا

دلِ بے تاب تری یاد سے پاتا ہے سکوں

زندگی تیرے تصور سے سنور جاتی ہے

نہیں معلوم اس چمنستانِ عالم میں کتنے پرندے چہچہائے اور اڑ گئے، لیکن بعض کی میٹھی آوازیں آج بھی کانوں میں رس گھول رہی ہیں۔ دل ان کی یاد میں تڑپ اٹھتا ہے ، آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور بے ساختہ زبان سے یہ شعر نکل پڑتا ہے ؂

کون اس باغ سے اے بادِ صبا جاتا ہے

رنگ رخسار سے پھولوں کے اڑا جاتا ہے

ایسی ہی کچھ بات درس و تدریس کے شہسوار ، رہبرِ اسلام، امیر العلما، مظہر علومِ حافظِ ملت ، باباے اشرفیہ سیدی سندی استاذی علامہ الحاج اسرار احمد  مصباحی قدس سرہ کی شخصیت جامع کمالات اور منبعِ فیوضات تھی، آپ بے پناہ ذہین و بلا کے حاضر جواب ، جید عالم، بلند قامت، گندمی رنگ، عریض سینہ، کشادہ پیشانی، مضبوط بدن، صاحبِ وقار اور پر جلال شخصیت کے مالک تھے۔ علامہ موصوف کہنہ مشق، قابل اور زندہ دل صوفی منش انسان تھے۔ آپ میں سادگی، بے لوث پیار و محبت ، بزرگوں سے عقیدت، حبِ رسول ﷺ اور خدا ترسی کا جذبہ بہت تھا، ان کا پر نور چہرہ ، دلکش مسکراہٹ، سراپا جمال شخصیت مثالی نمونہ تھی۔

آپ نے حضور حافظِ ملت علیہ الرحمہ کے دستِ فیض اقدس پر بیعت کی ، آپ کے وصال سے دنیاے اہل سنت کو انتہائی صدمہ پہنچا ہے، جس کی تلافی طویل عرصہ تک ناممکن ہے۔ دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے آپ نے جس قدر خدمات سر انجام دی ہیں وہ محتاجِ بیان نہیں ، درس و تدریس کے ذریعہ سیکڑوں نہیں ہزاروں طالبانِ دین اسلام نے آپ سے فیض حاصل کیا ۔ آپ شبِ چہار شنبہ ٹھیک ۲ بجے ۲۹ نومبر ۲۰۲۲ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ رجعون.

آپ کا جنازہ آبائی قبرستان لوہرا لایا گیا، ۳۰؍ نومبر بعد نمازِ ظہر فضیلت مآب عزیز ملت پیر طریقت حضرت علامہ الحاج الشاہ عبد الحفیظ صاحب قبلہ مد ظلہ العالی، سربراہِ اعلیٰ الجامعۃ الاشرفیہ و سجادہ نشین حضور حافظِ ملت قدس سرہ العزیز نے نمازِ جنازہ پڑھائی، جس میں لوگوں کی کثیر تعداد شریک تھی۔ لوہرا قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، مولا تعالیٰ آپ کو جوارِ رحمت میں جگہ اور پس ماندگان کو صبر جمیل و اجر جزیل عطا فرمائے۔ آمین۔

جوارِ رحمتِ یزداں میں ان کی روح شاداں ہو

لحد کی خاک کا اک ایک ذرہ ماہِ تاباں ہو

غم زدہ: رئیس احمد عزیزی مصباحی ادروی

مرکزی شہر،ہ بلی، کرناٹک

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved