22 November, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Jan 2023 Download:Click Here Views: 79827 Downloads: 1247

(15)-نعتیں

دل ہو محوِ وجد اور لب پر ترانہ آپ كا

جس کو آجائے زہے قسمت بُلاوا آپ کا

ہوگا یہ اس کے لیے انمول تمغہ آپ کا

بانٹتاہے صبح کو چہرہ اجالا آپ کا

رات ہو جائے کرے جب گیسو سایہ آپ کا

دنیا میں ہے جس نے بھی اپنایا اسوہ آپ کا

ہوگا وہ محشر میں کیسے رسوا بندہ آپ کا

انگلیوں پر رقص کرتا ہے فلک کا ماہ تاب

واہ کیا ہی خوب ہے نوری کھلونا آپ کا

ملکیت میں آپ کی ہے دو جہاں کی سروری

پیٹ پر پتھر، چٹائی ہے بچھونا آپ کا

حسن کی خیرات ماہ و مہر مانگیں روز و شب

ہاں وہی یکتا خدائی میں ہے تلوا آپ کا

کوچۂ سرکار کے لعل و گہر کو چھوڑیے

آئینہ سورج کو دکھلاتا ہے ذرہ آپ کا

جاں کنی کے وقت میرے خیرِ ایماں کے لیے

عشق سے لبریز ہو دل لب پہ نغمہ آپ کا

یا رسول اللہ در پر ہو مری جب حاضری

دل ہو محوِ وجد اور لب پر ترانہ آپ کا

صرف اتنی التجا ہے اس گھڑی نکلے یہ دم

ہو نظر کے سامنے جب آستانہ آپ کا

جب خدا کرتا ہے خود قرآں میں مدحت آپ کی

کیا وصیؔ لکھ پائے کوئی وصف آقا آپ کا

وصیؔ واجدی مکرانی، سرلاہی، نیپال

معراجِ بندگی

اسرا کی رات رب سے ملنے کی یہ گھڑی ہے جبریل کے لبوں پر پیغام ایزدی ہے

سدرہ پہ جا کے بولے جبریل مصطفی سے

 بس اے حضور میری سرحد یہ آخری ہے سدرہ ہے اُن کے پیچھے، قوسین ان کے آگے گویا کہ دیکھی بھالی ہر اک ڈگر ملی ہے

عرش بریں کا سر ہے ، میرے نبی کا تلوا

تم ہی بتاؤ ایسی رفعت کسے ملی ہے

 قِف يَا مُحَمَّدَ انَّ رَبَّ يُصَلِّي سُن کر

 حیران ہیں فرشتے کیا رتبۂ نبی ہے

 ان کو دنیٰ کے بدلے رب نے دیا تدلیٰ

 قربت کی اُن کے دل میں ٹھنڈک اتر گئی ہے

 قوسین پر کمال قرب و وصال دیکھو

دوری بھی ہے تو کتنی سمجھو کمان سی ہے

 پہنچا نہیں وہاں تک جز مصطفےٰ کوئی بھی

 معراج مصطفےٰ کی معراجِ بندگی ہے

 کیا کیا انہیں دکھایا، کیا کیا انھیں بتایا

 سمجھے گا یہ بشر کیا جب ذہن میں کجی ہے

 اُن کے لیے رُکا ہے آبِ وضو کا دھارا

رفتار وقت کی بھی اُن کے لیے تھمی ہے

بو بکر اور عمر کا، عثمان اور علی کا

معراجِ مصطفیٰ پر ایمان دائمی ہے

قرآں میں دیکھتا ہوں معراج کے مناظر

مہتابؔ میرے لب پر صَلُّوا عَلَی النَّبِی ہے

مہتاب پیامی

وہ نہیں تو جہاں کا نور نہیں

 

وہ نہ سمجھے جنھیں شعور نہیں

ذات سرکار ہم سے دور نہیں

ہیں نبی تو جہاں چمکتا ہے

 وہ نہیں تو جہاں کا نور نہیں

 پھر نہ ہوتی یہ کائنات عیاں

 ہوتا اُن کا اگر ظہور نہیں

 عشق ہے آمد رسول پہ خوش

 کینہ و بغض کو سرور نہیں

 رب کو دیکھیں وہ جب جہاں چاہیں

 ”لن تراني“ وكوہِ طور نہیں

 مانگتے جاؤ ملتا جائے گا

 لب پہ لاتے نہیں حضور” نہیں“

 گر نہ تھامو گے دامن سرکار

 بحر عصیاں سے پھر عبور نہیں

 رب سے مانگو نبی کے صدقے

 میں ورنہ کہہ دے گا وہ غفور” نہیں“

 خاک پاے نبی کے سامنے کچھ

لعل و یاقوت وکوہ نور نہیں

 گر نہ ہوتا فریدیؔ ! ان کا کرم

نعت کی ہوتیں یہ سطور نہیں

سلمان رضافریدی صدیقی مصباحی

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved