22 November, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Jan 2023 Download:Click Here Views: 79501 Downloads: 1245

(13)-عقیدت مندیاں

از:مبارک حسین مصباحی

میں قصبہ شاہ آباد ضلع رام پور کا باشندہ ہوں، پورب میں بریلی شریف ہےاور دکھن میں بدایوں شریف ، دونوں کا فاصلہ ہمارے یہاں سے کوئی تریسٹھ چونسٹھ کلو میٹر ہوگا۔ ہمارے علاقے میں بدایوں شریف کے بڑے سرکار ، ان کے برادرِ خورد چھوٹے سرکار اور ان کی ہمشیرہ بنو بوا کے مزارات خاصے معروف ہیں۔ یہ روحانی آستانے روحانی شفا خانے دور دور تک جانے جاتے  ہیں ۔ یہاں بھی خواتین وحضرات اپنے علاجوں کے لیے بے حال رہتے ہیں، مریضوں پر حاضریاں ہوتی ہیں اور تاریخیں پڑتی رہتی ہیں، مرد و خواتین جلد ہی شفایاب بھی ہو جاتے ہیں۔

بہر کیف بدایوں شریف مدینۃ الاولیا ہے، بے شمار مقامی اور بیرونی بزرگوں کے مزارات ہیں، آپ کو معلوم ہونا چاہیے محبوب الٰہی حضرت شیخ نظام الدین اولیا جن کا مزار اقدس دہلی کی سر زمین پر شہرۂ آفاق ہے، آپ کی جاے ولادت بھی یہی شہر ہے ، آپ کی دینی تعلیم اور روحانی تربیت گاہ بھی یہیں ہے۔ آپ کی والدہ کا مزار تو دہلی میں ہے، مگر والد بزرگوار کا مرقدِ نور بدایوں میں ہے۔ بدایوں شریف بے شمار اولیا، علما اور فضلا کی جاے ولادت ہے۔ بڑے بڑے شعرا اور ادبا یہاں جلوہ گر ہوتے رہے ہیں۔ قرطاس و قلم کے ماہرین بھی اسی سر زمین سے اٹھے ہیں اورکج کلاہانِ سیاست بھی، مسلم دورِحکومت میں حکمرانوں کی مسندیں بھی اسی شہر میں سجتی تھیں۔

”خلیفۂ ثالث امیر المؤمنین ذوالنورین حضرت سیدنا عثمان بن عفان ﷛کے صاحب زادے حضرت سیدنا ابو سعید آبان ﷛کی پشت میں سے ایک بزرگ چھٹی صدی کے اواخر میں قطب الدین ایبک کی فوج کے ہمراہ ہندوستان تشریف لائے ، جن کا نام حضرت قاضی دانیال قطری تھا۔ سلطان شمس الدین التمش کی خواہش پر آپ کو بدایوں بلا کر یہاں کی مسند قضا سونپی گئی اور پھر آپ حکومت شمسی کے قاضی القضاۃ مقرر ہوئے ۔ علوم ظاہر و باطن میں کمال حاصل تھا اور حضرت خواجہ عثمان ہارونی سے بیعت وخلافت پائی تھی ۔ تقریباً ۶۱۸ھ میں وفات پائی اور بدایوں میں ہی مدفون ہوئے۔ آپ کے بعد پھر آپ کی اولاد نے ضلع بدایوں کی منصب قضا کو تو اتر کے ساتھ سنبھالا اور دین حنیف کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔

(تاج دارِ اہلِ سنت، ص؛39)

موجودہ صاحبِ سجادہ حضرت علامہ شیخ عبد الغنی محمد عطیف میاں قادری کا سلسلہ نسب ۲۱واسطوں کے بعد حضرت قاضی دانیال قطری اور ۳۶واسطوں کے بعد امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان بن عفان ﷛سے جا کر ملتا ہے۔

سیدنا عثمان بن عفان ﷛ کی برکت سے ، حیا اور سخاوت کا موروثی جذبہ اس خانقاہ کے ہر فرد کے رگ و ریشے میں خون بن کر دوڑ رہا ہے ۔

قریب دو سو برس قبل کی بات ہے، افضل العبید حضرت شاہ عین الحق مولانا عبد المجید عثمانی (وصال: ۲۹؍ رمضان ۱۱۷۷ھ) کا زمانہ آیا، جب درسی علوم و فنون سے فارغ ہوئے تو دماغ معقولات سے آسمان کی بلندی پر تھا، آپ نے ارسطو کی منطق اور فارابی کا فلسفہ پڑھا تھا۔ آپ مرشد کی تلاش میں مارہرہ پہنچے تو دیکھ کر فرمایا کہ اونچی دوکان ہے، پھیکا پکوان ہے۔ یہ کہہ کر واپس چل پڑے، بدایوں کے معروف آستانہ ”بڑے سرکار“ میں آکر قیام کیا اور رات میں سو گئے، خواب میں دیکھا کہ حضور غوثِ اعظم کا دربار لگا ہوا ہے۔ ایک طرف حضور اچھے میاں مارہروی بیٹھے ہوئے ہیں، دوسری طرف حضرت بابا فرید الدین گنج شکر جلوہ گر ہیں۔ حضور غوثِ اعظم نے بابا فرید الدین کو کچھ اشارہ کیا، وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور شاہ عبد المجید کا ہاتھ پکڑ کر حضور اچھے میاں کے ہاتھ میں دے دیا، اس کے بعد آپ  بیدار ہو گئے اور سیدھے مارہرہ مطہرہ کی جانب روانہ ہو گئے، حضور اچھے میاں کے قدموں پر گر گئے، آپ ان ہی کے دستِ مبارک پر بیعت ہوئے، رشتۂ غلامی ایسا باندھا کہ آج تک اولاد میں بھی یہی رشتۂ غلامی باقی ہے۔

یہاں قابلِ ذکر رخ یہ ہے کہ عصری علوم و فنون سے انسان بظاہر بلند تو ہوتا ہے مگر روحانیت کی سرشاری سے دور رہتا ہے اور جب اپنے دماغ سے معقولات کا خمار اتار دیتا ہے تو عشق و عرفان کی تابندگی دل کے آئینے میں اترنے لگتی ہے۔ حضرت شاہ عین الحق عبد المجید عثمانی قادری کی زندگی کا یہ  رخ اس کی زندہ مثال ہے۔ حضور اچھے میاں کے ہاتھ پر بیعت ہونے کا اشارہ حضور غوثِ اعظم نے دیا اور بابا فرید الدین نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر مارہروی بزرگ کے ہاتھ میں دے دیا۔ ایسا مضبوط رشتہ جڑا کہ اپنا گھر بھول گئے اور زیادہ اوقات مارہرہ میں گزرنے لگے۔ حضور اچھے میاں جب تک ظاہری حیات میں باقی رہے وہ وہ اپنے روز و شب اپنے آقا کی غلامی میں میں پڑے رہے۔

شمسِ مارہرہ ابو الفضل آل احمد حضور اچھے میاں قادری برکاتی مارہروی کے ایسے شیدائی ہوئے کہ مرشدِ برحق کی خانقاہ میں جاروب کشی کرتے رہے، تیس پینتیس برس کا زمانہ کوئی معمولی نہیں ہوتا۔مرشدِ گرامی فرماتے آپ بدایوں شریف چلے جائیں، دو چار دن گزار کر پھر مارہرہ کی برکاتی خانقاہ کی دربانی کرنے واپس آجاتے، انھیں خوب معلوم تھا کہ اس در کا بھکاری غوثِ اعظم ﷛ نے بنایا ہے، جن کے اشارۂ ابرو سے عرفان و تصوف کی منزلیں ملتی ہیں۔ حضور شمسِ مارہرہ کے آپ سب سےمحبوب خلیفہ اور محرمِ اسرار تھے ، آپ کو پیر خانے کے شہزادگان کے لیے تدریسی خدمت سپرد کی گئی ، خاتم الاکابر سیدنا شاہ آل رسول مارہروی قسسہ اور حضرت سیدنا شاہ غلام محی الدین امیر عالم مارہروی قدس سرہ آپ کے نام ور تلامذہ میں ہیں۔

حضور شمسِ مارہرہ قدس سرہ کی حیات [۱۲۳۵ھ] تک حضرت شاہ عین الحق قادری بدایونی نے کسی کو داخلِ سلسلہ نہیں کیا، مرشد کے وصال کے بعد مارہرہ میں آپ کا دل نہیں لگا تو ۱۲۳۵ھ میں آپ نے خانقاہ قادریہ بدایوں شریف کی بنیاد ڈالی۔

”اکمل التاریخ“ میں ”آثارِ احمدی“ کے حوالے سے ہے:

 ”شمسِ مارہرہ اکثر فرمایا کرتےتھے کہ مولوی عبدالمجید مقام ہَل مِنۡ مَزِیۡد پر ہیں اور ان جیسا کوئی دوسرا خادم صادق اور یار موافق نہیں “ یہ ارشاد بھی ہے :” درویش باید که ظاہرش چوں ابی حنیفه باشد و باطنش چوں منصور و ایں معنی بجز مولوی عبدالمجید در دیگرے ندیده ام“ ترجمہ: درویش کو چاہیے کہ اس کا ظاہر ابی حنیفہ کی طرح ہو اور باطن منصور کی طرح اور یہ معنی سواے مولوی عبد المجید کے کسی اور میں میں نے نہیں دیکھا۔ “ (اکمل التاریخ، ص:۹۸، ۹۹)

”شاہ عین الحق عبدالمجید بدایونی قدس سرہ کے بارے میں حضور شمس مارہرہ قدس سرہ کا یہ فرمان عالی شان حد تواتر کو پہنچا ہوا ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سلطان المشائخ حضرت محبوب الٰہی فرمایا کرتے تھے کہ اگر بروز حشر خدا نے مجھ سے پوچھا کہ نظام الدین دنیا سے میرے لیے کیا تحفہ لائے ہو تو میں امیر خسرو کو پیش کر دوں گا کہ اے پروردگار تیری بارگاہ میں یہ تحفہ لایا ہوں، اسی طرح اگر فقیر سے سوال کیا گیا تو فقیر مولوی عبدالمجید بدایونی کو بارگاہ خداوندی میں پیش کر دے گا۔ “(ص:۴۶)

۱۲ دسمبر ۲۰۲۲ء عرسِ قادری بدایوں شریف میں تھا، حضرت مولانا نفیس احمد مصباحی، حضرت مولانا صدر الوریٰ قادری مدعو تھے احقر مبارک حسین مصباحی عفی عنہ بھی بحیثیت خادم حاضر ہوا، خانقاہ کے نظم و نسق اور حسنِ اہتمام نے حد درجہ متاثر کیا، اوقات کی  پابندی، باجماعت نمازوں کے اہتمام نے گرویدہ بنایا، منظوم روحانی مجلس میں شرکت کی سعادت حاصل کی، اس کے بعد سرکار ﷺ کے تین موئے شریف ، مولا علی ﷛ اور حضرت غوثِ اعظم ﷛ کے دیگر تبرکات کی زیارت کرنے کا شرف حاصل کیا۔تاجدارِ اہلِ سنت شیخ عبد الحمید محمد سالم قادری عثمانی کا وصال ہو چکا ہے ، آپ کے فیوض و برکات کے قادری بادل آج بھی خانقاہ قادریہ بدایوں پر رم جھم برس رہے ہیں، فرزندِ کبیر محبِ مکرم حضرت علامہ شیخ اسید الحق قادری بدایونی قریب چالیس برس کی عمر میں بغدادِ مقدس میں جامِ شہادت نوش فرما چکے ہیں، وہ اپنی خوش بختی سے سرکار غوثِ اعظم کی دیوار کے سائے میں ابدی نیند سو گئے ہیں، ہم نے بھی بارگاہِ سرکار سیدنا غوثِ اعظم ﷛ میں حاضری کی سعادت حاصل کی ہے، اس وقت خانقاہ قادریہ بدایوں شریف کے زیب سجادہ مخلص و مکرم جانشین تاج دارِ اہلِ سنت حضرت علامہ شاہ شیخ عبد الغنی محمد عطیف میاں قادری دامت برکاتہم  العالیہ ہیں، آپ کے برادرِ صغیر حضرت مولانا شاہ فضل رسول محمد عزام میاں قادری عرس کے سارے اہتمام فرماتے ہیں۔ دار العلوم قادریہ بدایوں شریف قدیم تاریخی ادارہ ہے، اس کے نظم و نسق پر خصوصی نگاہ رکھنے والی شخصیت خلیفۂ تاجدارِ اہلِ سنت حضرت  شیخ حافظ عبد القیوم قادری ہیں  دار العلوم کے اساتذہ اور طلبہ بھی علوم و معارف کی منزلیں طے کر رہے ہیں صاحبِ سجادہ کی سرپرستی میں، محبِ گرامی ڈاکٹر ارشاد عالم نعمانی فکر و قلم کی دنیا آباد کیے ہوئے ہیں ۔ اس عرس میں ۶۲۷ صفحات پر مشتمل ”تاجدارِ اہلِ سنت“ . کتاب کا رسمِ اجرا حضور تاج دارِ مارہرہ رفیق ملت سید شاہ نجیب حیدر قادری برکاتی دامت برکاتہم العالیہ نے فرمایا، اس کتاب پر اظہارخیال ہم پر فرض ہے

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved