مبارک حسین مصباحی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ، نصلی علیٰ رسولہ الکریم
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
ہماری میز پر اس وقت ”تاریخ ہند کے گمشدہ اوراق“ ہیں۔ جو ہمارے دور ادارت میں ماہنامہ اشرفیہ مبارکپور اگست ۱۹۹۷ء سے دسمبر1997ء تک مسلسل پانچ قسطوں میں شائع ہوئے۔
اہل سنت و جماعت میں بہ زبان اردو تاریخی کتب کا سرمایہ بہت کم ہے۔ ہاں کچھ دیگر زبانوں سے تاریخی کتب کے اردو تراجم کیے گئے ہیں۔بے پناہ مبارکبادیوں کے مستحق ہیں، مفکر ملت حضرت مولانا محمد ادریس بستوی دامت برکاتہم العالیہ کہ آپ نے بڑی محنت سے خاک ہند کی تاریخ کے گم شدہ اوراق تلاش کیے، پیش نظر کتاب میں تاریخی ہند سے مراد قدیم ہندوستان ہے جس میں افغانستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش وغیرہ ہند میں شامل تھے ۔ قارئین نے اس سلسلے کو بہت پسند فرمایا، بعض وجوہات کے پیش نظر آپ نے یہ گم شدہ اوراق کی تاریخ ہند سے تلاش موقوف فرما دی، یہ ایک سچائی ہے کہ کسی وجہ سے جب ایک سلسلہ بند ہو جاتا ہے تو اس موضوع پر مزید لکھنا دشوار ہو جاتا ہے۔
بہرکیف تاریخ ہند کے حوالے سے یہ ایک گراں قدر سرمایہ ہے، آپ تاریخی سمندروں کی تہوں سے گم شدہ ہیرے تلاش کر ساحلوں پر لے آئے ، انھیں دیکھ کر جوہری ورطۂ حیرت میں ڈوبنے لگے، اپنے ہم جولیوں کو دیکھنے کی دعوت دینے لگے، آپ کو تاریخی حقائق پیش کرنے کا بھر پور سلیقہ آتا ہے، اسلوب سادہ اور موثر ہوتا ہے، تحریر میں جامعیت اور فنکاری ہوتی، کم لفظوں میں بات مکمل کر دینا، آپ کے قلم کی انفرادیت ہے۔ تحریر میں نہ بے جا تمہیدیں ہوتی ہیں اور نہ بلا ضرورت تبصروں کی طغیانی۔ آپ قارئین کے دماغی توازن کے مطابق دلائل و شواہد پیش کرنے کے عادی ہیں۔ اسی کا نام اعلیٰ بلاغت اور تحریر و نگارش کا کمال ہے۔ تاریخی باتیں پیش کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے مگر ان میں نکات آفرینی اور موقع و محل کے اعتدال کو برقرار رکھنا اس پر نورٌ علیٰ نور ہے ، یہ اور اس قسم کی بہت سی خصوصیات آپ کی تحریروں کا امتیاز اور مقبولیت کی ضمانت ہیں۔
ولادت سے فراغت تک:
آپ کی ولادت باسعادت قصبہ مہند اول ضلع بستی میں ایک اندازے کےمطابق ۱۹۴۱ء میں ہوئی، قصبے کے مدرسہ میں رسم بسم اللہ خوانی ادا کی گئی، ابتدائی کتابوں کے بعد مولانا محمد فاروق فیض آبادی سے اکتساب فیض فرمایا، فارسی کی گلستاں اور بوستاں خطیب البراہین حضرت مولانا صوفی نظام الدین محدث بستوی سے پڑھیں، ۱۹۵۲ء میں مدرسہ تدریس العلوم بسڈیلہ میں داخل ہوئے، وہاں حضرت مولانا اعجاز احمد مصباحی صدر المدرسین کے زیر سایہ کتب کا درس لیا، ۱۹۵۷ء میں دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں داخل ہوئے۔ یہاں حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی، فخر الاماثل حضرت مولانا محمد سلیمان بھاگلپوری، شمس العلما حضرت مولانا قاضی شمس الدین احمد جعفری جونپوری، فتاویٰ رضویہ کے مرتب حضرت مولانا حافظ عبد الرؤف بلیاوی وغیرہ سے علوم و فنون کی تکمیل فرمائی۔
تدریس اور انتظامی امور:
تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے کامیاب تجارت فرمائی، ۱۹۶۵ء میں دارالعلوم فیض الاسلام مہنداول میں آپ صدر مدرس کے عہدے پر فائز ہوئے۔ جون ۲۰۰۶ء میں آپ ریٹائرڈ ہوئے۔ مگر انتظامی امور آج بھی آپ کے ہاتھوں میں ہیں۔ ۱۹۸۱ء میں آپ جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے نائب ناظم منتخب ہوئے اور آج تک اپنے فضل و کمال کے ساتھ اس عظیم منصب پر سرفراز ہیں۔ جامعہ اشرفیہ کے مقدمات ہوں یا ٹیچر ایسوسی ایشن کے مسائل آپ اپنے تدبر اور حسنِ عمل سے تمام معاملات بہ خوبی انجام دے رہے ہیں۔ آپ کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ انتظامیہ کا کوئی فرد ہو یا اساتذہ میں سے کوئی اپنا مسئلہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہے۔ آپ پوری دلجمعی سے سماعت فرماتے ہیں ،پوری سنجیدگی کے ساتھ بروقت یا بعد میں حل فرمانے کی کوشش فرماتے ہیں۔ یہ امتیاز جن افراد میں ہوتا ہے وہ ہر طبقہ میں مقبول اور ہر دلعزیز ہوتے ہیں۔
منّو بابو سے جامعہ اشرفیہ مبارکپور کی ایک زمین کا تنازعہ تھا، انتظامیہ نے صلح کرنے کے لیے کاوشیں کیں مگر اسے اپنی دولت اور آفیسران سے تعلقات پر زعم تھا ۔حضرت مولانا محمد ادریس بستوی وغیرہ لگے اور منّو بابومقدمہ ہار گیا، حضرت کا فرمانا ہے کہ وہ لکھنؤ میں ایک مقام پر مل گیا تو ہاتھ جوڑ کر آداب کیا اور اس نے برملا اپنی شکست کا اظہار کیا، اب ہمارے مولانا نے فرمایا: اب تو صلح ہو جائے گی؟ اس نے بڑے دبتے ہوئے کہا ،ہاں مولانا صاحب! اب صلح ہو جائے گی، آگے صلح کا مسئلہ خطیب الہند حضرت مولانا عبید اللہ خاں اعظمی نے درمیان میں پڑ کر حل کرا دیا۔ اب اس زمین پر جامعہ اشرفیہ کی دو پر شکوہ بلڈنگیں دعوت نظارہ دے رہی ہیں تفصیل کا یہ موقع نہیں ،باقی خدمات کا آئندہ تذکرہ کیا جائے گا۔
تدبر و تفکر:
تدبر و تفکر اور سیاسی بصیرت میں بھی آپ طاق ہیں۔ جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے انتظامی امور ہوں یا اساتذہ کے مسائل، سب بڑی دانش مندی اور حسن تدبر سے حل فرما دیتے ہیں۔ سیاسی، ملی اور مذہبی معاملات پر جب آپ زبان کھولتے ہیں تو حاضرین بڑی توجہ سے سماعت فرماتے ہیں۔ بحث و مباحثے میں جب مدلل گفتگو فرماتے ہیں تو اچھے اچھوں کا ناطقہ بند کر دیتے ہیں۔ آپ نے اپنا ایک واقعہ ارشاد فرمایا ذیل میں ملاحظہ فرمائیے۔
ایک بار آپ بمبئی سے لکھنؤ تشریف لا رہے تھے، آپ کی بوگی میں چند آریا سماجی مذہبی گرو مل گئے، مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی، ان میں سے ایک مہاشےنے سوال کیا، مولانا صاحب! آپ یہ بتائیے کہ مسلمانوں کے پیغمبر شری ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پتر شری اسمٰعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری کیوں چلائی تھی۔ آپ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کا حکم تھا ،اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے آپ نے فرزند ارجمند حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلائی۔ ان لوگوں نے ہنستے ہوئے کہا مولانا صاحب آپ یہ بتائیے آپ کے اللہ تعالیٰ کی خوشی بیٹے کو ذبح کرنے سے حاصل ہوتی ہے کیا؟ گفتگو کے دوران کچھ دیگر ہندو نوجوان بھی وہاں متوجہ ہو چکے تھے۔
اب آپ نے ارشاد فرمایا: آپ لوگوں کے آریا سماجی مذہب میں یہ تو طے ہے کہ ساری مخلوقات کو آپ کے بھگوان نے بنایا ہے۔ جو کچھ ہوتا ہے اسی کے حکم کے مطابق ہوتا ہے۔ ہاں جی مولانا صاحب! اب آپ یہ بتائیے کہ جنگل کے شیر کو بھی آپ کے بھگوان نے بنایا ہے۔ جی مولانا صاحب! اور ہرن کو بھی جنگل میں اسی بھگوان نے پیدا کیا ہے۔ ہاں جی مولانا صاحب! حضرت نے ان دو بنیادوں پر اپنی اصل بات کو اٹھاتے ہوئے ارشاد فرمایا: کہ پھر یہ درندہ شیر ہرن پر حملہ کرتا ہے اور اسے چیر پھاڑ کر کھا جاتا ہے۔ اب آپ لوگ بتائیں جنگل میں جو یہ ظلم ہو رہا ہے اس کو آپ کا بھگوان جانتا ہے کہ نہیں ؟اگر واقعی جانتا ہے اور آپ کے عقیدے کے مطابق وہ روکنے پر بھی قادر ہے۔ تو آپ لوگ ہمیں یہ بتائیں کہ آپ کا بھگوان آپ لوگوں کے ماننے کے مطابق ظلم کرا رہا ہے؟
اب جو دیگر ہندو نوجوان بیٹھے تھے تالیاں بجاتے ہوئے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے اب بتائیے پنڈت جی، اب اپنے بھگوان کو ظلم کرنے سے بچائیے۔ اب ان آریا سماجی پنڈتوں پر ایسا سکوت طاری ہوا کہ ان کو ماننے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نظر نہیں آیا۔ حضرت نے اپنا یہ واقعہ سناتے ہوئے ارشاد فرمایا: اب ان پر ایک چپ ہزار چپ، انھیں بھی لکھنؤ تک پہنچنا تھا مگر اب اس کے بعد ہم سے کوئی بحث نہیں کی۔ حضرت نے مزید فرمایا کہ جو ٹرین میں اس وقت ہندو جوان تھے وہ ہمیں کبھی لکھنؤ میں دیکھ لیتے ہیں تو ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے باہم کہنے لگتے ہیں یہ وہی مولانا صاحب ہیں جنہوں نے آریا سماجی پنڈتوں کو جواب دیتے ہوئے لاجواب کر دیا تھا۔
یہ تو ایک مثال تھی آپ کی حیات و فکر میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ آپ ایک سنجیدہ شخصیت ہیں تاریخ اور مسائل تاریخ پر آپ گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ آپ مذہبی فکر اور سیاسی دانش ور ہیں۔ آپ میں حاضر جوابی کی صلاحیت بھی غضب کی ہے۔ آپ دوران مکالہ متأثر نہیں ہوتے، آپ اپنے مقابل کی بات انتہائی متانت اور سنجیدگی سے سنتے ہیں۔ حاضرین اعتراض سن کر ورطۂ حیرت میں ڈوبے رہتے ہیں مگر جب آپ جواب عنایت فرماتے ہیں تو معترض اور سامعین پر مکمل سکوت طاری ہو جاتا ہے۔ ہم نے آپ کی مذہبی، سیاسی، فکری اور تحریکی شخصیت کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ مختلف مقامات پر ساتھ میں رہنے اور آپ کی سرپرستی میں کام کرنے کے تجربات بھی کیے ہیں۔ ان تمام واقعات اور احوال کو تفصیل سے بیان کرنے کا وقت نہیں ورنہ ہم بتاتے کہ آپ کے وجود ناز کے نشیمن میں کتنی بجلیاں پوشیدہ ہیں۔ مشکل اوقات میں بھی آپ کے چہرے پر سنجیدگی اور وقار کا جلوہ رہتا ہے۔ بے چینی اور اضطراب کا کوئی رنگ نظر نہیں آتا۔ یہی آپ کی قابل قدر شخصیت کے نمایاں اوصاف ہیں۔ ایک قائد کے اندر انھیں اوصاف کا ہونا ضروری ہے۔
زبان و قلم کی بالادستی:
آپ کے اندر قلمی اور فکری صلاحیت بھی امتیازی ہے جب لکھنے کو جی چاہتا تو ماشاء اللہ تعالیٰ بیٹھے بٹھائے املا کرانا شروع فرما دیتے ہیں۔ کبھی کبھی راقم احقرمبارک حسین مصباحی سے ارشاد فرماتے ہیں آپ کوئی موضوع دیجیئے میں آج شام تک اسی موضوع پر لکھ کر دے دوں گا۔ بعض اوقات اگر ہم نے عرض کر دیا کہ حضرت کیا موضوع بتاؤں ؟ فرماتے ہیں جو چاہے موضوع دیجیے آج کچھ طبیعت لکھوانے کی طرف مائل ہے۔ اگر کوئی موضوع بتا دیا جاتا ہے تو یہ ارشاد نہیں فرماتے ہیں کہ آپ نے یہ کیا موضوع دے دیا بلکہ تھوڑی بہت دیر میں لکھنا شروع فرما دیتے ہیں۔ املا کراتے وقت کوئی غیر مناسب پہلو بیان نہیں فرماتے ہیں، بلکہ اپنے نپے تلے انداز میں انتہائی جامع اور مختصر املا کراتے ہیں۔ کبھی کبھی خود بھی تحریر فرما دیتے ہیں۔ آپ کی تحریروں میں وزن اور معنویت ہوتی ہے، شرعی اور سیاسی اصولوں پر مکمل نگاہ رکھتے ہیں۔ لفظوں کا استعمال بھی بہ قدرے ضرورت فرماتے ہیں۔ سیاسی، سماجی، دینی اور فکری موضوعات پر تو آپ مسلسل لکھتے رہتے ہیں۔ آپ کے درجنوں مضامین اور مقالات کمپوز شدہ ہمارے پیش نظر ہیں۔ کبھی کھبار آپ مذہبی اکابر بھی لکھتے لکھاتے ہیں۔ آپ کی تحریروں میں فکری دقیق گوشے ہوتے ہیں۔ بڑے بڑےخطیب، سیاسی قائدین او معروف قلم کار آپ کی تحریروں سے استفادہ کرتے ہیں۔
آپ اپنے مخصوص لب و لہجے کی خطیب ہیں۔ آپ کی تقریروں میں جامعیت ہوتی ہے۔ آپ کے خطبات پر مغز اور نکات آفریں ہوتے ہیں۔ اپنے ملک ہندوستان، نیپال اور دیگر مقامات پر آپ کو مدعو کیا جاتا ہے۔ بعض مقامات پر تو کوئی اورہو یا نہ ہو مگر آپ کی موجودگی لازمی ہوتی ہے۔ اہل علم، اہل سیاست، تاریخ داں اور باشعور علما آپ کی تقریروں کو بہت پسند فرماتے ہیں۔ عام شعلہ بار خطیبوں سے آپ کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ موقع اور محل کی مناسبت لازمی ہوتی ہے۔ یہی حال آپ کا سمیناروں اور مشاورتی نشستوں میں ہوتا ہے۔ فکر و خیال کی پاگیزگی، لفظوں کا بانکپن، لہجے کا نشیب و فراز خوب ہوتا ہے۔ آپ کی تقریروں میں خطیبانہ گھن گرج نہیں بلکہ معنویت اور سنجیدگی غالب ہوتی ہے۔ ہم نے آپ کے ساتھ کثیر جلسو، کانفرنسوں، سمیناروں اور سیاسی نشستوں میں شرکت کی ہے۔ بمبئی، پونے، بھیونڈی، شاہ آباد، رامپور، اعظم گڑھ، اندور، بنارس، لکھنؤ، براؤں شریف، بستی، خلیل آباد، کچھوچھا مقدسہ، گورکھپور، اور مبارکپور وغیرہ میں مختلف جہات سے آپ کے ساتھ رہے۔ فکر و تاریخ سے لبریز آپ کے نکات آفریں خطابات بھی سماعت کیے، معنی خیزمشوروں اور نتائج سے لبریز سیاسی خیالات سے استفادہ کیا اور آپ کے بیانات کے ساتھ تفصیلی یا مختصر رپورٹیں میڈیا کو جاری کیں۔
بابری مسجد کے تعلق سے ہائی کورٹ میں ایک ماہ سے زیادہ مباحثہ:
بابری مسجد کے تحفظ کے تعلق سے ہائی کورٹ میں بحث جاری تھی،کوئی مولانا ہندوستان بھر سے گواہی دینے کو تیار نہیں تھا تو محترم ظفریاب جیلانی ایڈوکیٹ نے کہا؛ مولانا صاحب اب کیا ہوگا؟ حضرت نے فرمایا کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟ تو انھوں نے کہا کہ آپ خود گواہی دے دیجیے۔ حضرت نے فرمایا: ٹھیک ہے ،انھوں نے ہائی کورٹ میں حضرت کا اسم گرامی پیش کر دیا۔ آپ کی گواہی بحیثیت عالم دین اور بحیثیت تاریخ داں شروع ہوئی ،آپ کی گواہی کا سلسلہ ایک ماہ چند دن تک جاری رہا۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ آخر میں دو سو وکلا جمع ہو جاتے تھے۔ مزید بر آں ایک درجن کے قریب ریٹائرڈ جج تھے، ان کے ساتھ ہائی کورٹ کے جج بھی تھے۔ دن بھر میں بہ مشکل دس سے پندرہ سوالات ہوتے۔ یہ وکلا اور جج باہم مشورہ کرتے اور پھر سوال کیا جاتا، حضرت فرماتے ہیں کہ آدھے منٹ میں سوال کا نقشہ الٹ جاتا تھا، یہ گواہی بنچ کے سامنے ہائی کورٹ میں ہوتی تھی، چونکہ ہائی کورٹ کا آرڈر ہوا تھا کہ سول جج کے سامنے یہ فائل نہیں جائے گی، ڈائرکٹ ہائی کورٹ کے ججوں کے سامنے ہی گواہی ہو جائے گی، اور اس میں پیش کار کے فرائض ایک سول جج ادا کریں گے، جو گورنمنٹ کی طرف سے آئیں گے، ایک سول جج ساری کاروائی بحیثیت پیش کار لکھ رہے تھے۔ لکھنؤ ہائی کورٹ میں یہ سوال و جواب تین ججوں کی موجودگی میں ہو رہے تھے، جن میں ایک مسلم اور دو غیر مسلم تھے۔ چند دنوں کے بعد ظفر یاب جیلانی ایڈوکیٹ نے کہا کہ آپ جو باتیں کہہ رہے ہیں ان کے حوالے کے بارے میں یہ وکلا کہہ رہے ہیں۔ آپ کی کچھ باتوں پر ندوۃ العلماکے کچھ علما کو بھی اعتراض ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو کسی بڑے ہوٹل میں ایک کمرہ بک کرا لیتا ہوں ،ان علما کو دعوت دیتا ہوں آپ بھی تشریف لے آئیے گا۔ حضرت نے ارشاد فرمایا :ہوٹل میں کمرہ بک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں خود ندوہ چلا جاؤں گا۔ وہیں بات ہو جائے گی، ظفریاب جیلانی نے فرمایا: یہ تو اور بھی اچھا ہے۔
گفتگو کا وقت طے ہوا حضرت مولانا محمد ادریس بستوی نے حضرت مفتی عبد الحکیم نوری کو ساتھ لے کر ندوہ تشریف لے گئے۔ آپ حضرات نے نمازِ عصر ادا فرمائی، اس کے بعد مفتی عتیق بستوی کے کمرے میں آپ حضرات کو لے جایا گیا، ان کے علما بھی وہیں آ گئے، نشست ہوئی، ان لوگوں نے آٹھ سوالات کیے اور سب کا جواب مولوی عتیق بستوی نے دیا اور حوالے بھی پیش کیے۔ ندوہ کی علما مطمئن ہو کر چلے گئے، حیرت کی بات یہ ہے کہ علماے ندوہ کے اعتراضات تھے اور ندوی مفتی نے ان کے اعتراضات کے مدلل جوابات بھی دے دیے، حضرت فرما رہے تھے کہ یہ تمام علماے کرام باہم گفت و شنید کر لیتے تو ہمارے ندوہ آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔اب کمرے میں مولوی عتیق بستوی اور یہ دونوں علما رہ گئے۔ باہم تعارف ہوا تو مولوی عتیق بستوی نے کہا، حضرت !میں تو آپ کے قصبے مہنداول کے قریب کا رہنے والا ہوں، حضرت نے فرمایا : مولانا! آپ نے کبھی ملاقات نہیں کی،سامان وغیرہ لینے آپ کے قصبے جاتا ہوں اور اپنے گاؤں واپس آ جاتا ہوں۔
حضرت بحیثیت عالم دین اور تاریخ داں گواہی دے رہے طے شدہ وکلا انھیں دونوں پہلوؤں سے سوالات کرتے تھے، ایک بار سوال کیا گیا کہ بابر کی قبر کہا ہے؟ تو آپ نے غور کیا کہ اس سوال کا کیا مطلب ہو سکتا ہے بات اسی وقت آپ کے ذہن میں آ گئی کہ یہ بابر کو ہندوستان دشمن ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت نے جواب دیا کہ بابر کی قبر کابل میں ہے مگر اس وقت پورا افغانستان بہ شمول کابل ہندوستان کا ایک صوبہ تھا۔ سائل نے کہا کہ مولانا صاحب یہ نہیں لکھا جائے گا !بس اتنا بولیے کہ کابل میں ہے قبر۔ حضرت نے فرمایا نہیں میں تو پوری بات بولوں گا، پھر جج صاحبان مباحثے میں شریک ہوئے، پھر ہمارے ظفریاب جیلانی ایڈوکیٹ کے استاذ اس وقت زندہ تھے اور وہاں موجود تھے وہ بھی کھڑے ہو گئے، وہ پورے ہائی کورٹ میں سروس کے میٹر پر یکتا تھے۔ خیر لکھا جائے یا نہ لکھا جائے کافی دیر کے بعد ججوں نے کہا بالکل لکھا جائے گا، تو سب کچھ حضرت مولانا کے بیان کے مطابق ہی لکھا گیا۔
ایک سوال یہ کیا گیا کہ بابری مسجد جسے آپ کہتے ہیں اس میں حوض نہیں ہے اور نماز وضو کے بعد ہوتی ہے۔ حضرت نے فرمایا ؛کہ گھر سے وضو بنا کر آنے میں تو اور زیادہ ثواب ہے، ہر قدم پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ بات ختم ہو گئی، حوض نہ ہونا کوئی علت نہیں۔
ایک سوال یہ کیا گیا کہ یہ مسجد وقف ہے؟ حضرت نے جواب دیا: ہاں !بالکل وقف ہے۔ پھر کہا گیا زبانی وقف کرنا ضروری ہے کیا؟ حضرت نے جواب دیا نہیں، آدمی نے اسے یوں ہی وقف کر دیا تو وقف ہو گئی اس کی کوئی دستاویز نہیں، حضرت نے فرمایا یہ گورنمنٹ کا انتظام ہے لکھنا لکھانا کوئی ضروری نہیں اگر کسی نے وقف علی اللہ یا وقف علی الاولاد کیا یہ کہنا کہ اس کی جانب سے وقف ہو گیا۔
ایک سوال یہ کیا گیا کہ بابری مسجد میں منارے نہیں تھے، حضرت نے فرمایا: ہاں! نہیں تھے، تو ان لوگوں نے کہا کہ صاحب یہ بغیر مینارے کی مسجد کیسی؟ حضرت نے ارشاد فرمایا: دنیا کی سب سے بڑی مسجد خانۂ کعبہ ہے اس میں تو آج بھی مینارے نہیں ہیں۔ اور ابھی جلد ہی سعودیہ عربیہ نے ایک مسجد پاکستان میں بنوائی ہے جو خیمے کی شکل میں ہے جہاں مینارے کا کوئی وجود نہیں ہے۔ حضرت نے فرمایا: کہ میں سب سے قدیم مسجد کی بات بھی بتائے دے رہا ہوں اور نئی مسجد کی بات بھی۔ یہ آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ مینارہ ہونا ضروری ہے بلکہ مینارے نہ بنائے جائیں تو اچھا ہے۔سائل وکیل نے کہا کہ یہ کیسے کہتے ہیں آپ؟ تو حضرت نے بطور حوالہ فتاوی رضویہ میں مولانا احمد رضا بریلوی نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ ”اپنی مسجدیں منڈی بناؤ“ اس کے بعد سائل نے پلٹ کر مارا ہاتھ کہ پھر کیوں آپ لوگ مینارے بناتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا: کہ شدت سے نہیں منع کیا ہے۔ اب اس بات کو انھوں نے سمجھاہی نہیں، وکیل لوگ عام طور سے اردو نہیں جانتے ہیں، ان میں ایک ہندو جج ہریانہ کا تھا، وہ واقعی بہت بڑا اردو داں تھا، اس نے کہا: بھائی کڑائی سے نہیں منع کیا ہے، بولا کہ: مولانا صاحب! ٹھیک ہے نہ؟ حضرت نے فرمایا بہت ٹھیک آپ نے ترجمہ کیا ہے۔ کیا یہی لکھا جائے نہ؟ آپ نے فرمایا: ہاں! یہی لکھ لیا جائے۔
آخری دن سارے جج آکر بیٹھ گئے ،ہائی کورٹ ہی بند ہو گئی تھی۔ اس دن بابر کے تعلق سے سوال کیا گیا : بابر کیسا تھا؟ کیا اس نے ہندوستان میں قتل و غارت گری کی؟ حضرت نے جواب دیا :کہ بابر کو ہم نے نہیں چتوڑ گڑھ کےراجہ رانا سانگا نے بہت اصرار کر کے بلایا تھا، اس کا قلعہ آج بھی چتوڑ گڑھ میں وسیع زمین میں پھیلا ہوا ہے، مقصد اس کا یہ تھا کہ یہاں کے راجاؤں کو اور بادشاہ ابراہیم لودھی کو مار کر ختم کر دے گا پھر چلا جائے گا۔ پھر پورے ملک کا میں اکیلا بادشاہ ہو جاؤں گا، اس کے اصرار پر بابر ۱۲ ہزار فوج لے کر ہندوستان آیا۔ توجہ کی بات یہ ہے کہ پانی پت کے میدان میں جنگ ہوئی اور بابر سے جو لوگ لڑنے گئے، وہ سب مسلمان تھے، ان میں ایک بھی ہندو نہیں تھا، ابراہیم لودھی کی حکومت پورے ہندوستان پر تھی، باقی راجہ لوگ اس کے تابع تھے، اس کو بلا کر یہ راجہ رانا سانگا تنہا بادشاہ بن جانا چاہتا تھا، ڈیڑھ لاکھ فوج بادشاہ ابراہیم لودھی کی پانی پت کے میدان میں کٹ گئی، یہ شہید ہونے والے مکمل مسلمان تھے۔ حضرت نے ہائی کورٹ میں اپنے بیان میں زور دے کر فرمایا: کہ ہندوستان کی حفاظت کے لیے ہم آگے بڑھے، یہاں غیر ملکی قبضے کو ختم کرنے کے لیے ہم آگے بڑھے، یہ بیان سن کر مخالف وکیل اتنے عاجز ہو گئے کہ کہنے لگے کہ اس سلسلۂ بیان کو بند کر دیں، کسی دوسرے موضوع پرآگے سوال کیا جاتا ہے، مگر ان ہی میں سے کسی نے کہا کہ نہیں مولانا اپنی تقریر پوری کریں، چاہے وہ کل تک چلائیں ۔آپ نے کیوں پوچھا ،اب آپ نے جب بابر کا نام لے لیا تو اس کے تعلق سے سب سنا جائے گا ،ہم لوگ بھلا کیسے روک سکتے ہیں۔ حضرت نے مزید اپنے بیان میں فرمایا : آپ لوگوں میں کوئی بابر کو روکنے کے لیے آگے نہیں بڑھا ۔ اے کاش آپ لوگوں نے بھی ساتھ دے دیا ہوتا۔ حضرت نے مزید فرمایا: کہ پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی شہید ہوا، ہار ہونے لگی تو اس کے مصاحبین نے کہا :کہ ہم آپ کو بحفاظت نکال کر لے جا سکتے ہیں۔ اس نے کہا کہ مر جانا قبول ہے،کل یہ کون سنےگا کہ ابراہیم لودھی میدان جنگ سے بھاگ گیا تھا۔ حضرت نے اپنے بیان میں فرمایا :کہ ہندو آئے نہیں، اس کے مقابلے میں۔ لڑے ہم ،مرے ہم، ہندوستان کی حفاظت کے لیے۔ بعد میں وکلا نے کہا کہ ہم اپنے اس سوال کو واپس لیتے ہیں ،مگر ججوں نے کہا نہیں اب تو مولانا صاحب پوری تقریر کریں گے، آپ کو سننا پڑےگا اور تحریر بھی کرنا پڑے گا۔ ہم نے حضرت مولانا محمد ادریس بستوی سے عرض کیا کہ حضرت یہ تمام حقائق کس کتاب میں ہیں، فرمایا: کہ ہر قدیم ہندوستانی تاریخ میں ہیں، تاریخ فرشتہ وغیرہ میں ہیں ،ہم نے عرض کیا: واقعی آپ کا تاریخی مطالعہ بہت وسیع ہے اللہ تعالیٰ آپ کا سایۂ کرم دراز فرمائے۔ آمین
وہ ہریانہ والا جج آخری دن حضرت کے پاس آیا اور کہا کہ آپ نے جن کتابوں کے حوالے سے یہ تمام باتیں کہی ہیں ان کتابوں کے نام لکھ دیجیے، میں تمام کتابیں اپنے لیے خریدوں گا۔ حضرت نے ۳۵ کتابوں کے نام نوٹ کر کے دے دیے اور کہا یہ تمام کتابین امین آباد لکھنؤ میں مل جائیں گی اگر کوئی کتاب نہ ملے تو آپ جیلانی صاحب سے کہہ دیجیے گا میں ان کے یہاں پہنچا دوں گا۔ یہ چند باتیں ہم نے حضرت مولانا محمد ادریس بستوی کی یادداشت کی بنیاد پر نوٹ کی ہیں، حضرت فرما رہے تھے کہ مکمل فائل محترم ظفریاب جیلانی ایڈوکیٹ کے پاس محفوظ ہے جو سو صفحات سے زیادہ ہے۔ انھوں نے بجاے خود اشاعت کے لیے فرمایا ہے۔ خدا کرے جلد اس کی ترتیب اور اشاعت کا اہتمام ہو جائے۔
۶ دسمبر ۱۹۹۲ء کو بابری مسجد شہید کر دی گئی، چند سال پہلے ہندوؤں کی عقیدت کی بنیاد پر ان کے حق میں فیصلہ بھی ہو گیا، بنام انصاف فیصلہ کرنے والے سپریم کورٹ کے جج کو دوسرے ہی دن پارلیمنٹ کی رکنیت دے کر ایم پی بھی بنا دیا گیا، مگر ہر چیز کا انصاف انسانوں کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں بھی ہے۔ ہم مسلمانوں کا یہ عقیدہ تھا اور آج بھی ہے کہ جو مسجد شرعی ہے اس کی زمین تحت الثریٰ سے لے کر آسمان تک مسجد ہی رہے گی، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بابری مسجد کے تحفظ کے لیے ہندوستانی مسلمانوں کی ہزاروں جانیں گئیں، کروڑوں کی مالیت تباہ و برباد ہوئی اور ان کے وقار و عزت کی تباہی کی تو قیمت طے کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔شہید کرانے والا لیڈر ایل کے ایڈوانی تھا، بعد میں اسے صرف ایک دن کی سزا سنائی گئی۔ ایک شاعر نے بڑی لگتی بات کہی ہے۔
ہزاروں قتل کے مجرم کو ایک دن کی سزا
خود اس سزا پہ تو مجرم بہت ہنسا ہوگا
گم شدہ اوراق کے اسرار و رموز:
اس وقت ہماری میز پر ” تاریخ ہند کے گمشدہ اوراق“ کی مختصر روداد ہے۔ یہ تو آپ حضرات بہ خوبی جانتے ہیں کہ ہم حضرت مصنف دامت برکاتہم العالیہ سے حد درجہ محبت کرتے ہیں اور آپ بھی ہم پر بے پناہ شفقت فرماتے ہیں۔ خیر ساری باتیں اپنی جگہ، ہم نے متعدد بار آپ سے عرض کیا کہ حضرت آپ کی کثیر تحریریں ماہناموں اور اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں ، ریڈیو اور ٹی وی پر بھی آپ کے بیانات نشر ہوتے رہتے ہیں۔ ماہنامہ اشرفیہ مبارکپور میں آپ کےگراں قدر مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ آپ کی یادگارتاریخی خدمت ”تاریخ ہند کے گمشدہ اوراق“ کی پہلی اشاعت ہم نے فخریہ طور پر کی۔ آپ کی تاریخ نویسی کا انداز انتہائی واضح اور حق نگاری کا آئینہ دار ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ہر بات لکھنے کی نہیں ہوتی ہے مگر کچھ بتانے اور کچھ چھپانے سے تاریخ نگاری کا حق ادا نہیں ہوتا، اشاعت کے دوران ہند اور بیرون ہند سے پزیرائی بھی خوب ہوئی، آپ اس خاص تاریخی گوشے کو کتابی صورت میں شائع فرما دیں ۔ اسی طرح اپنی دیگر گراں قدر تاریخی، سیاسی اور مذہبی تحریروں کو کتابی صورت میں جمع کرنے کی اجازت سے سرفراز فرما دیں۔ خیر قفل ٹوٹا خدا خدا کر کے، ماشاء اللہ تعالیٰ ”تاریخی ہند کے گمشدہ اوراق“ آپ کے ہاتھوں میں ہیں اور اکثر مضامین بھی کمپوز ہو چکے ہیں۔
حضرت مصنف کثیراوصاف و کمالات کی حامل شخصیت ہیں، آپ کے اندر سنجیدگی اور علمی توازن ہے۔ بلا ضرورت الفاظ کے استعمال اور بے جا اور بے محل تمہیدات سے سخت گریزاں رہتے ہیں آپ کی قلمی اور فکری نظر ہمیشہ مقصد پر رہتی ہے، آپ وقت کی قدر بہ خوبی جانتے ہیں۔ آپ کی نگاہ میں شرعی قوانین بھی رہتے اور ملکی و سماجی تقاضے بھی۔ چاپلوسی اور ملمع بازی سے بھی بڑی حد تک اجتناب فرماتے ہیں۔ جہاں غیروں کو ان کے اقوال و افعال پر شبہہ ہوتا ہے اسے بھی واضح طور پر بیان فرما دیتے ہیں اور اپنے موقف کی وضاحت کچھ اس انداز سے فرما دیتے ہیں کہ شبہہ کرنے والے ان کے حامی اور مؤید بن جاتے ہیں۔ تاریخ اسلام اور تاریخ ہند پر آپ کی نگاہ گہری رہتی ہے۔ سچ ہے کہ علمائے اہل سنت اور دانشوروں نے اردو زبان میں تاریخ نویسی پر توجہ کم کی ہے۔ دیگر زبانوں عربی، فارسی اور انگریزی وغیرہ میں کثیر سرمایہ ہے جسے بڑے سلیقے سے ہمارے اکابر نے جمع فرمایا ہے۔ مگر ایک بات ہمیشہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ قلم کار اور مصنف کا بھی اپنا ایک فکری رجحان ہوتا ہے۔ اس کے سامنے حقائق اگر مختلف سمتوں میں ہیں تو چونکہ قلم اس کے ہاتھ میں ہے وہ اپنے رجحان کی تائیدی عبارتیں نقل کرے گا اور بعض مقامات پر قطع وبرید کر کے اپنے مقصد کے تائیدی دلائل جمع کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ یہ تمام باتیں تصوراتی نہیں بلکہ زمینی حقائق پر مبنی ہیں۔
مسلمانوں میں انتشار اور اتحاد تاریخ ہند میں دونوں کے اثرات بار بار دیکھے گئے ہیں۔ ”لاہور پر ہندوؤں کا حملہ“ کے زیر عنوان حضرت مصنف نے تحریر فرمایا ہے۔ کوٹ قلعہ ہندوؤں کے قبضے میں آیا تو وہ ہندو راجہ جو شکست خوردہ ہو کر مسلمانوں کے خوف سے جنگلوں میں روپوش ہو گئے تھے وہ جنگلوں سے نکل کر اپنی اپنی راج دھانیوں میں پہنچے۔ اب ان کے حوصلے بلند ہو گئے انہوں نے از سرنو اپنی اپنی فوج کو منظم کیا اور تین بڑے راجہ باہم راضی ہو کر دس ہزار سواروں اور بے شمار پیادوں کو لے کر لاہور کی طرف بڑھے اور لاہور پہنچ کر راجاؤں نے شہر کا محاصرہ کر لیا“
اب آپ دوسری طرف دیکھیں کہ صوبہ پنجاب میں مسلم سیاسی ذمہ داران باہم منتشر تھے، انہوں نے چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنا لی تھیں، ان لوگوں نے امیر مودود کی قیادت کو ترک کر دیا تھا، حملہ آوروں کے دباؤ اور حالات کے شدید تقاضوں نے انھیں باہم متحد کر دیا، ان امیروں اور جاگیرداروں نے امیر مودود کی اطاعت قبول کر لی۔ پھر سب مل کر ملی حمیت اور جوش ایمانی سے مخالفین کے سامنے ڈٹ گئے۔ اور غیر مسلموں کو فرار ہونے کے لیے مجبور کر دیا، مسلمانوں کے اس اتحاد نے صوبہ پنجاب اور اس کے شہر لاہور کو بچا لیا، اس اتحاد اور فکری یکجہتی نے امت مسلمہ کو پیشتر مقامات پر کامیابی اور سرفرازی عطا کی۔
(۱) ۴۳۴ھ میں امیر مودود نے طخارستان پر فتح حاصل کی۔
(۲) ۴۳۵ھ میں ترکمانیوں نے غزنی پر حملہ کیا جسے امیر مودود نے پسپا کر دیا۔
(۳) ۴۳۶ھ میں امیر مودود نے طغرل حاجب کو ایک لشکر کاا امیر بنا کر سیستان بھیجا، طغرل حاجب نے وہاں دونوں امیر بھائیوں کی فوج کو شکست دی اور انھیں قیدی بنا کر غزنی لے آیا۔
(۴) ۴۳۷ھ میں سلجوقیوں نے پھر غزنی کی طرف پیش قدمی کی، امیر مودود نے انھیں آگے بڑھ کر تباہ و برباد کر دیا۔
(۵) ۴۳۸ھ میں امیر مودود نے امیر حاجب کو غور پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا، امیر صاحب نے قلعہ فتح .کر لیا اور والی قلعہ ابو علی کو گرفتار کر کے غور سے غزنی لایا گیا۔
مسلمانوں کے اتحاد اور فکری یکجہتی کے نتیجے میں امیر مودود نے بیرونی ہند بھی بڑی اہم اور تاریخی فتوحات حاصل کیں، بلا شبہہ حضور حافظ ملت کا یہ قول حق اور سچ ہے ”اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت ۔“
امیر مودود نے اپنی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے امیر طغرل کو ایک بڑے لشکر کا سردار بنا کر مکیا آباد روانہ کیا، وہاں پہنچ کر اس کے دماغ میں خودسری کابھوت سوار ہوا اور امیر مودود کی اطاعت سے منحرف ہو گیا، امیر مودود نے اس کی تفہیم و تادیب کے لیے اپنے طور پر کاوشیں کیں، مگر جب کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا تو علی بن خادم کو دس ہزار فوجیوں کے لشکر کا قائد بنا کر مکیاآباد بھیجا، طغرل تو لشکر کی خبر سے بدحواس ہو کر فرار ہو گیا مگر اس کے سردار گرفتار ہو کر غزنی آئے۔
تاریخ ہند کے گم شدہ اوراق کے اس رخ سے چند باتیں سامنے آئیں، حقیقی قیادت کا فقدان انتشار اور باہمی اختلاف کا سبب ہوتا ہے۔ سامنے جب مضبوط مد مقابل ہو تو اتحاد اور اپنے قائد کو تسلیم کرنا خیر و برکت کا باعث ہوتا ہے۔ ہندوستان میں مسلم دور حکومت میں جنگیں اور معرکہ آرائیاں عام طور پر دولت و اقتدار کے لیے ہوتی تھیں۔ چند اہم شخصیات نے اسلامی اصولوں کی پامالی نہیں کی بلکہ ان حکمرانوں میں صالحین اور خادمان اسلام بھی ہوئے۔
حضرت مصنف فرماتے ہیں محمود غزنوی نے سومناتھ پر جو حملہ کیا وہ مال و دولت لوٹنے کے لیے نہیں ،شہرت و ناموری کے لیے نہیں، بلکہ مندر میں اور اس کے صحن میں جو ظلم ہو رہا تھا، جو عیش پرستی ہو رہی تھی اس کے خاتمے کے لیے کیا، حملے کے بعد مندر میں تین سو ہندو لڑکیاں بر آمد کیں، ان کے سرمنڈے ہوئے تھے ان کے اہلِ خانہ نے عقیدت میں انھیں اس مندر میں دان کیا تھا۔ محمود غزنوی کے دل میں درد تھا انہیں آزاد کرانے کے لیے یہ حملہ کیا تھا۔آپ نے انھیں آزاد کیا اور یہ فرمان جاری کیا کہ اپنے بال بڑھاؤ اور جہاں چاہو شادیاں کرو۔
دوسری بات تھی کہ انھیں بتایا گیا تھا کہ جب کوئی آدمی مرتا ہے تو اس کی روح آتما سومناتھ کے سامنے پیش ہوتی ہے، سوم ناتھ جو ان کا معبود ہے، وہ جس کو جس جونی میں چاہتا ہے اسے اس جونی میں منتقل کر دیتا ہے۔ تو محمود غزنوی نے کہا کہ جس کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ وہ روحیں منتقل کر دیتا ہے میں اسی کو ختم کر دیتا ہوں، اس طرح سے یہ غلط عقیدہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔
اسی طرح محمود غزنوی پر فرقہ پرستی کا الزام ہے ، ایک بہت بڑا جنرل ہندو مذہب کا ماننے والا تا حیات ان کے ساتھ رہا، جب وہ بڑھاپے میں پہنچا تو محمود غزنوی نے اس سے کہا کہ ہندوستان کا جو اسٹیٹ آپ کہیں میں اسے فتح. کر دوں، میرے لیے تو انتہائی آسان ہے، فتح. کرنے کے بعد اس سلطنت کا تاج میں تمھیں دے دوں مگر اس نے جواب دیا کہ میں آپ ہی کے ساتھ غزنی میں رہنا چاہتا ہوں، ہندو جنرل نے کہا کہ میں آپ کا ساتھ چھوڑ نہیں سکتا تو وہ غزنی محمود غزنوی کے ساتھ گیا اور عرصۂ دراز تک وہ غزنی میں ان کے ساتھ رہا اور افغانستان کی بڑی بڑی جنگوں میں اس نے بڑے بڑے معرکے سر کیے، اس کے مرنے کے بعد ہندو رسم و رواج کے مطابق ، اس کے سب مراسم ادا کیے گئے، وہ جگہ آج بھی موجود ہے اور اسی کے نام سے مشہور ہے، وہاں جو ہندو آج ہیں مرنے کا بعد ان کا انتم سنسکار وہیں افغانستان میں ہوتا ہے۔ اس وقت افغانستان ہندوستان کا ایک صوبہ تھا۔
آپ نے فرمایا کہ محمود غزنوی نے کبھی فرقہ پرستی کا کوئی مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ حسنِ سلوک سے پیش آئے، آپ نے ہندو عوام پر ظلم و تشدد نہیں کیا۔ نا انصافی کا تو ان کے یہاں کو تصور نہیں تھا۔ سید سالار مسعود غازی قدس سرہ العزیز آپ کے حقیقی بھانجے ہیں۔ یہ بزرگ اجمیر مقدس میں خواجہ غریب نواز قدس سرہ کی آمد سے قریب دو سو برس پہلے پیدا ہوئے، نوجوانی میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ آپ کا مزار اقدس بہرائچ شریف یو پی میں مرجعِ خلائق ہے۔ دنیا بھر سے لاکھوں لاکھ زائرین ان کے دربار میں حاضری کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور فیض پاتے ہیں۔ آپ کی کرامات کا ظہور آج بھی اہلِ ہند اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
مفتی زاہد علی سلامی استاذ و مفتی جامعہ اشرفیہ اور احقر مبارک حسین مصباحی دو بار سوم ناتھ مندر کی تاریخی آبادی میں بھی گئے ہیں۔ ہم نے وہاں شکستہ مندر بھی دیکھا ہے اور اسی کے قریب دوسرا سوم ناتھ مندر بھی دیکھا ہے۔ ہم نے وہ گیٹ بھی دیکھا ہے جسے حضرت محمود غزنوی کے ایک مجاہد نے ہاتھی کی سونڈ پر بیٹھ کر توڑا تھا۔ ہم نے اس مردِ مجاہد ولی کے مزار مقدس پر اور دیگر مجاہدین کے مزارات اور قبروں پر بھی حاضری کی سعادت حاصل کی ہے۔
یہاں ہم یہ واضح کر دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ دیگر ملکوں سے وارد ہونے والے حکمراں جو ہندوستان کے راجاؤں اور مسلم مملکتوں سے جو مال بطور غنیمت لے گئےتھے اس مال و دولت کو عام طور پر انھوں نے اپنے اخراجات کے لیے بقدر ضرورت رکھا، باقی اموال اور غنیمتوں کو اپنے ساتھ آنے والے مجاہدین اور عام ضرورت مند افراد پر تقسیم کر دیا۔
یہ ایک ناقابلِ تردید سچائی ہے کہ ہندوستان میں اسلام مسلم حکمرانوں اور بادشاہوں نے اپنی طاقت اور اپنی فوجوں کے زور سے نہیں پھیلایا، ہاں ضرورت پڑی تو کاوشیں فرمائیں، دعوت و تبلیغ کے فرائض اولیاے کرام اور علماے ربانیین نے انجام دیے اور ان ہی کے حسنِ کردار کی تلوار سے اسلام پھیلا ہے۔ اگر مسلم بادشاہوں نے اپنی طاقت اور اقتدار کا استعمال کیا ہوتا تو آج ہندوستان کا نقشہ یہ نہیں ہوتا۔ ہمارے لکھنے کا بنیادی نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہندوستان کے سینے پر جو مسلم حکمرانوں نے حکومتیں کی ہیں، انھیں مسلم حکومت کہہ سکتے ہیں اسلامی حکومت نہیں۔
خیر ایک بار پھر ہم دعا کرتے ہیں ، مولا عز و جل ”تاریخ ہند کے گم شدہ اوراق“ کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، دنیا کے مختلف گوشوں میں مقبولیت کی سرفرازیوں سے بامِ عروج پر پہنچائے۔ ہم اسی کے ساتھ اپنے بزرگ مفکر ملت حضرت علامہ محمد ادریس بستوی دامت برکاتہم القدسیہ کی بارگاہ میں بھی دل کی گہرائیوں سے تبریکات پیش کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کے طفیل آپ کی فکر ، علم، اقبال اور عمر میں حد درجہ اضافہ فرمائے اور ہم سب کو آپ کے فکر و قلم اور دعوت و تبلیغ سے بھر پور استفادے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ حبیبک سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم۔
۳۰؍ نومبر ۲۰۲۲ء ......از: احقر مبارک حسین مصباحی، عفی عنہ
۵ جمادی الاولیٰ ۱۴۲۲ھ خادم التدریس والصحافۃ
۔۔۔۔جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org