مکتوبات
ایک درد مند پکار
محترم مہتاب پیامی! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ کی یہ تحریر(جولائی 2025 کا اداریہ) ایک درد مند پکار ہے، ایک ایسی کہانی ہے جو زمین کی خاموش سسکیوں اور انسانی غفلت کے شور سے بُنی گئی ہے۔ آپ نے ایک سائنسی حقیقت کو نہایت ہی فنکارانہ اور بلیغ انداز میں پیش کیا ہے، جس میں معلومات اور احساسات کا حسین امتزاج ہے۔
آپ نے زمین کے محور کی گردش کو ایک رقاصہ کے رقص سے تشبیہ دے کر قاری کو ایک دلنشیں تصور میں غرق کر دیا ہے۔ محور کا جھکاؤ، موسموں کی ترتیب، دن رات کا نظام – یہ سب ایک نازک اور دائمی رقص کی مانند ہیں، جس میں ذرا سی بھی بے ترتیبی کائنات کے اس ہم آہنگ نظام کو درہم برہم کر سکتی ہے۔ آپ نے اس رقص میں لغزش کے امکان کو بیان کر کے ایک تشویش ناک صورت حال کی طرف اشارہ کیا ہے، جو قاری کے ذہن پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔
ہندوستان میں زیرِ زمین پانی کے بے دریغ استعمال کے نتیجے میں زمین کے محور میں آنے والی تبدیلی کا ذکر آپ نے نہایت ہی مؤثر انداز میں کیا ہے۔ ناسا کی تحقیق کے حوالے سے اعداد و شمار پیش کرنا آپ کے دعوے کو مضبوط بناتا ہے، اور قاری اس سنگین مسئلے کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہو جاتا ہے۔
پانی کی اہمیت اور اس کی قدر و منزلت کو آپ نے جس شاعرانہ انداز میں بیان کیا ہے، وہ قابلِ داد ہے۔ اسے محض ایک مادی عنصر قرار نہ دیتے ہوئے، آپ نے اسے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا آئینہ اور ایک عظیم نعمت قرار دیا ہے۔ آپ کے الفاظ میں وہ سوز اور درد پنہاں ہے جو پانی کی بے قدری کے سبب دل میں محسوس ہوتا ہے۔ "وہ پانی جو کبھی زندگی کا استعارہ تھا، آج موت کا پیغام بن چکا ہے" – یہ ایک ایسا جملہ ہے جو موجودہ صورتحال کی تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے۔
بھارت کو کبھی دریاؤں کی سرزمین کہنے اور آج اسے ایک تشنہ لب قافلے کی صورت میں دیکھنے کا منظرنامہ آپ نے بہت ہی دردناک انداز میں کھینچا ہے۔ زیرِ زمین پانی کے خزانوں کے بے دریغ استعمال اور اس کے نتیجے میں زمین کے توازن میں آنے والی تبدیلی کو آپ نے ایک ایسی کہانی قرار دیا ہے جو وقت، زمین اور کائنات کی گہرائیوں میں پنہاں ایک بڑے تغیر کی ابتدائی داستان ہے۔ یہ تشبیہ مستقبل کے ان سنگین نتائج کی طرف اشارہ کرتی ہے جو ہماری غفلت کے سبب رونما ہو سکتے ہیں۔
پنجاب، ہریانہ، راجستھان، اترپردیش اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں کی تشنگی اور دہلی، بنگلور اور چنئی جیسے شہروں کی پانی کی بوند بوند کو ترسنے کی تصویر کشی ایک المیے سے کم نہیں ہے۔ کسان جو کبھی بارش کی ایک بوند پر سجدہ ریز ہوتا تھا، اب موٹر اور بورویل کی گرج میں فطرت کی سرگوشیاں سننے سے قاصر ہو چکا ہے – یہ جملہ صنعتی ترقی کی بھینٹ چڑھتی ہوئی فطرت اور اس کے نتیجے میں انسانی زندگی پر پڑنے والے اثرات کو بخوبی بیان کرتا ہے۔
”زمین کے قطب شمالی کا 78 سینٹی میٹر مشرق کی جانب سرک جانا محض ایک سائنسی واقعہ نہیں، بلکہ زمین کی سانسوں کے بھٹک جانے کا عمل ہے“ – یہ استعارہ اس تبدیلی کی سنگینی اور اس کے دور رس نتائج کو واضح کرتا ہے۔ دن اور رات کے چکر میں خلل، بے ترتیب موسم، قطبین پر سورج کی شعاعوں کا بڑھتا ہوا دائرہ، برف کا پگھلنا، قحط، طوفان، خشک سالی اور بے موسم بارشیں – یہ سب ایک ایسے مستقبل کی جھلکیاں ہیں جو ہماری بے احتیاطی کے نتیجے میں ہمارے سامنے آ سکتا ہے۔ ممبئی، کولکتہ جیسے شہروں کے سمندر میں ڈوبنے اور گلف اسٹریم جیسے بحری دھاروں کے کمزور پڑنے کے امکانات ایک خوف ناک منظر پیش کرتے ہیں۔
زمین کو ایک زندہ جسم قرار دینا اور اس کے اندرونی دباؤ کے چھیڑے جانے پر زلزلوں اور آتش فشاں کے پھٹنے کی تشبیہ فطرت کے ردعمل کی شدت کو اجاگر کرتی ہے۔ "رِنگ آف فائر" میں تیز ہوتی ہوئی سرگرمیاں اور طوفانوں کی شدت میں اضافہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کی نشاندہی کرتا ہے۔
”یہ محض پانی کا بحران نہیں یہ انسان کی عاقبت نا اندیشیوں کے خلاف فطرت کا انتقام ہے“ – یہ ایک ایسا جملہ ہے جو اس تحریر کے مرکزی خیال کو جامعیت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ زمینی نشست (land subsidence) کے آثار اور ندیوں کا بہاؤ کم ہونا اس انتقام کے ابتدائی مظاہر ہیں۔ یمنا، گوداوری اور کرشنا کی خشک ہوتی ہوئی آنکھیں ایک ایسی داستان بیان کرتی ہیں جو کبھی تہذیبوں کی نرسری تھیں اور آج اپنی ہی زمین سے بچھڑ کر سسک رہی ہیں۔
آخر میں آپ نے اس خوف ناک صورت حال کا حل اسلام کے درسِ اعتدال میں تلاش کیا ہے۔ قرآن مجید کی آیات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے حوالے سے پانی کی اہمیت، اس کی پاکیزگی اور اس کے استعمال میں اعتدال کی تلقین آپ کے استدلال کو مضبوط بناتی ہے۔ پانی کو حیات کا سرچشمہ قرار دینا، اسے پاکیزگی کا وسیلہ بتانا، اس کے بے جا استعمال کو اسراف قرار دینا اور اس کی حفاظت اور منصفانہ تقسیم پر زور دینا – یہ سب اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پانی کی قدر و قیمت کو اجاگر کرتے ہیں۔
آپ نے پانی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی نشانی قرار دے کر اس کی روحانی اہمیت کو بھی واضح کیا ہے۔ اسے ضائع کرنے کو ناشکری اور آلودہ کرنے کو رحمتِ الٰہی کی توہین قرار دینا ایک گہرا پیغام دیتا ہے۔ وضو کرتے ہوئے بھی پانی کے اسراف سے منع کرنے والی حدیث ہمارے لیے ایک واضح رہنمائی ہے۔
مجموعی طور پر، آپ کی یہ تحریر ایک فکر انگیز اور مؤثر ادبی کاوش ہے۔ آپ نے ایک اہم اور سنگین مسئلے کو نہ صرف سائنسی حقائق کی روشنی میں پیش کیا ہے، بلکہ اسے ایک دردناک کہانی کی صورت میں بیان کر کے قاری کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ آپ کا اندازِ بیان شاعرانہ، بلیغ اور مؤثر ہے، جو قاری کو اس مسئلے کی گہرائی میں اترنے اور اس کے حل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ آپ نے معلومات، احساسات اور اسلامی تعلیمات کو یکجا کر کے ایک ایسی تحریر تخلیق کی ہے جو نہ صرف موجودہ صورتحال کی عکاسی کرتی ہے بلکہ مستقبل کے لیے ایک واضح پیغام بھی دیتی ہے۔فقط
مفتی ڈاکٹرسبطین مرتضوی
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org