نقد و نظر
تبصرہ نگار: شہروز مخفی
یہاں مجمع البحرین سے مراد ہے حضرت شاہ مفتی محمد عبید الرحمٰن رشیدی مصباحی قُدِّس سِرّہٗ۔8جنوری 1947ء کو موضع بینی باڑی،کٹیہار،بہار میں آنکھیں کھولیں۔ والدگرامی ہیں حکیم لطیف الرحمن رشیدی قُدّس سرّہٗ۔چمنی بازار،بنارس،بریلی شریف جیسے علمی مراکز میں تعلیم حاصل کی۔چار سال مبارک پورکی علمی فضا میں رہ کر 1967ء میں معقولات و منقولات کے مسلم الثبوت استاذ بن گئے۔ پھر جمشیدپور،بنارس،جلال پور،ناگ پور، ممبئی، گھوسی، بریلی شریف اور چمنی بازار شریف میں دودہایئوں تک علمی جوہر لٹائے۔والدگرامی سلسلہ رشیدیہ سے منسلک تھے، فرزند بھی اسی سلسلہ کے بزرگ سید شاہ مصطفی علی سبزپوش قدّس سرّہٗ کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوگئے۔1986ء میں سلسلہ رشیدیہ کے میر کارواں بنے،یعنی سلسلہ کی مسند کے آپ گیارہویں سجّادہ نشیں بنادیے گئے۔تین دہائیوں سے زائد آپ نے اس مسند کو زینت بخشی۔کم و کیف دونوں لحاظ سے سلسلہ رشیدیہ کی آبیاری میں اپنی نصف زندگی کھپادی۔یہاں تک کہ 22مارچ 2024ء کو خود جنت نشیں بن گئے۔
’’یاد مجمع البحرین ‘‘ حضرت مجمع البحرین پرارباب علم ودانش کے تازہ ترین تاثرات کا گراں قدر مجموعہ ہے۔شاہ عبد العلیم آسی فاونڈیشن نے اس کی اشاعت کی ہے۔صفحات 486 ہیں۔تعداد 600 ہے۔قیمت 400 درج ہے۔سن اشاعت 2025ء ہے۔ مولف ہیں مولانا ابرار رضامصباحی۔موصوف بارسوئی، کٹیہار کے باشندہ ہیں۔ 2010ء میں جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے فضیلت کی دستار حاصل کی۔جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے اردو میں گریجویشن کیا۔وہیں سے ایم۔اے( فارسی ) کی ڈگری لی۔یو۔جی۔سی نیٹ (فارسی ) میں کامیابی کا پرچم لہرا کر جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی میں پی۔ایچ۔ڈی میں رجسٹریشن کرا چکے ہیں۔میانہ قد، چھریرےبدن کے یہ فاضل گرچہ جوان ہیں،مگرعلم و ہنر،تحریرو قلم،تصنیف و تالیف،گفتار ورفتار، اخلاق وکردارسے بزرگ معلوم ہوتے ہیں۔سلسلہ رشیدیہ کے متوسّلین میں معتبراور حضرت مجمع البحرین کے مرید اور معتمد خاص رہ چکے ہیں۔خوشی کی بات یہ ہے کہ میرے دوست بھی ہیں۔شاہ عبدالعلیم آسی فاونڈیشن کے نگراں اور درجنوں کتابوں کے مؤلف، مصنف، مترجم اور محقق ہیں۔اس کتاب کی ترتیب میں بھی انھوں نے جان توڑ کوشش کی ہے۔کتاب پر نظر ثانی کا کام حضرت مولانا عارف اللہ فیضی مصباحی جیسی عظیم علمی شخصیت نے انجام دیا ہے۔اس سے کتاب میں حسن کا اضافہ یقینی بات ہے۔
|
’’یاد مجمع البحرین ‘‘اپنے طرز کی ایک امتیازی کتاب ہے ۔ کسی شخصیت پر مضامین جمع کرنے کا عام طریقہ یہ ہے کہ مختلف موضوعات متعین کر لیے جاتے ہیں اور متعین ارباب قلم سے مضامین لکھوا لیے جاتے ہیں۔یہاں کسی کو موضوع نہیں دیا گیا ہے۔کس نے حضرت مجمع البحرین کو کب،کس طرح دیکھا اور کیساپایا؟انھیں باتوں کو ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں پیش کردیا ہے۔میں نے اس کتاب کا تقریباً استیعابی مطالعہ کیا ہے۔سچ یہ ہے کہ مزہ آگیا۔مولانا ابرار رضا مصباحی کے لیے دل سے دعا نکلی ۔مجمع البحرین کی زندگی کے بہت سے اہم گوشے شاید اجاگر نہیں ہو پاتے اگر یہ طرز نہ اپنایا جاتا۔یہ کتاب صرف مجمع البحرین کی یادوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ ان کی پیدائش سے وفات تک کل ستہتر سال کے ہندوستان کی علمی،عملی،مذہبی، ثقافتی تاریخ کی دستاویز ہے۔اس کتاب کوسامنے رکھ کر متعدد مذہبی موضوعات پر تصنیف و تالیف کا ایک جہان آباد کیا جا سکتا ہے۔
کتاب کا انتساب حضرت مجمع البحرین کے پیر و مرشد، خانقاہ رشیدیہ کے دسویں سجادہ نشیں سید شاہ مصطفیٰ علی سبزپوش کے نام ہے۔صفحہ 12 سے 27 تک مؤلف کا گراں قدر مقدمہ ہے۔پھر کتاب کو چھ کالموں میں بانٹا گیا ہے۔
احوال و کوائف: اس کالم میں مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی،مفتی محمد شمس الدین رضوی،مفتی ذوالفقار علی رشیدی مصباحی،ڈاکٹر ہادی سرمد،ڈاکٹر امتیاز سرمد،مفتی محمد زبیر احمد صدیقی وغیرہ کے کل 25 مضامین ہیں۔ناچیز کے مضمون کو بھی متعدد تراش خراش کے بعد اس میں جگہ دی گئی ہے،میری ایک دو لغزشیں جسے ہٹانے کی بات تھی،نہیں ہٹائی گئیں۔
حقائق ومشاہدات: صفحہ 163 سے حقائق و مشاہدات کا کالم شروع ہوتا ہے۔علامہ محمد احمد مصباحی،مولانا عبدالمبین نعمانی قادری،ڈاکٹر عاصم اعظمی،ڈاکٹر سید شمیم احمد گوہر مصباحی،مفتی سلیم مصباحی،مولانا وارث جمال قادری،مفتی سید محمد فاروق عالم رضوی،مولانا مبارک حسین مصباحی،ڈاکٹر سجاد عالم رضوی مصباحی وغیرہ کے کل 18 مضامین شامل ہیں۔
مراتب و کمالات: تیسرا کالم مراتب و کمالات کا ہے، صفحہ 250 سے یہ کالم شروع ہوتا ہے ۔مولانا سید جلال الدین اشرف اشرفی جیلانی،سید طارق علی سبز پوش،مولانا عارف اللہ فیضی مصباحی،ڈاکٹراعجاز انجم لطیفی،مولانا سیف الدین اصدق مصباحی،مولانا ظفرالدین برکاتی مصباحی وغیرہ اٹھارہ قلم کاروں کے مضامین اس میں ہیں۔
اوصاف و خصائل: اس عنوان کے تحت پروفیسر نصرت جمال،شاہ ظفرالیقین قلندر،مفتی شمس الہدٰی نوری،مولانا رونق احسان برکاتی مصباحی،مولانا خواجہ ساجد عالم لطیفی مصباحی وغیرہ کی تحریریں ہیں۔
تعزیتی پیغامات: علامہ سید محمد مدنی میاں،سید شاہ دانش علی سبز پوش،مولانا سید محمود اشرف اشرفی جیلانی،مولانا سید محمد اشرف اشرفی جیلانی،پروفیسر فاروق احمد صدیقی،مفتی بدرعالم مصباحی،مفتی رضاء الحق اشرفی، مولانا نفیس احمد مصباحی،ڈاکٹر غلام زرقانی،ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی وغیرہ 22 علما و مشائخ کے تعزیتی پیغامات کواس کالم میں جگہ دی گئی ہیں۔
منظومات: کتاب کے اس آخری گوشے میں محمدامجد علی قادری،سید شمیم احمد گوہر،حسین مشاہد رضوی،واصف رضا واصفؔ وغیرہ کے منظومات شامل ہیں۔واصف رضاواصفؔ بالکل نو عمر ہیں ۔نو عمری کے حساب سے ان کی نظم مثنوی کی ہیئت میں بہت دل چسپ ہے۔
کتاب پر تبصرہ اس وقت نا مکمل ہوگا اگرحضرت مجمع البحرین پر چند تاثرات ذکر نہ کیے جائیں۔اختصار کے پیش نظر چند مختصر اور اچھوتے اقتباسات قارئین کی نذر کیے جاتے ہیں۔
◘’’اس میں شک نہیں کہ وہ ایک بلند پایہ محقق،عمدہ فقیہ،زبردست پیر،اچھے منتظم اور سلسلہ رشیدیہ کے فروغ میں اہم کردار کے حامل تھے۔‘‘ (علامہ محمد احمد مصباحی)
’’آپ نے پیشہ ورانہ پیری مریدی کبھی نہیں کی...لوگ صوفی بنتے ہیں،مگر آپ واقعی صوفی تھے۔اندر باہر سب یکساں تھا۔منافقت اور ریا کاری کی آپ کے یہاں کچھ بھی گنجائش نہیں تھی۔‘‘ (مولانا عبد المبین نعمانی قادری)
’’جامع معقولات و منقولات ہونے کے ساتھ ان کے شعری ذوق پر اس وقت بڑی حیرت ہوتی جب وہ گفتگو میں برمحل میر و غالب کے اشعار پڑھتے ۔کلام رضا و آسی پیش کرتے۔‘‘ (ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی)
’’بات بات میں ایسے ایسے علمی نکات اور ایسے فنی رموز کا اظہار فرماتے تھے کہ جنھیں سن کر بے ساختہ نعرہ بلند کرنے کو جی چاہنے لگتا۔‘‘ (ڈاکٹر سید شمیم احمد گوہر مصباحی)
’’آپ ایک خود دار عالم ربانی تھے،چاپلوسی سے کوسوں دور تھے،تواضع و انکساری فطرت ثانیہ تھی۔غرور و تکبر کا شائبہ بھی نہیں تھا۔‘‘ (مولانا مبارک حسین مصباحی)
’’ کٹیہار ضلع میں حضرت مفتی محمد عبید الرحمٰن رشیدی کی اجازت کے بغیر جمعہ قائم کرنا جائز نہیں۔‘‘ (مفتی محمد مطیع الرحمن مضطر پورنوی بروایت مفتی محمد مبشر رضا ازہر مصباحی)
’’آپ کا روحانی تصرف اور باطنی کمال ہی تھا کہ یہ سارے امور و معاملات بحسن و خوبی انجام پاتے تھے۔‘‘ (سید شاہ طارق علی سبز پوش)
’’خانقاہ رشیدی کا سجادہ نشیں ہونے کے بعدانھوں نے موجودہ سجادگان کی روش کے بر خلاف قدیم بزرگان دین کا طور و طریق اپنایا۔‘‘ (مولانا عارف اللہ فیضی مصباحی)
’’بچپن سے میری نشست و برخاست حضرت مفتی شاہ عبیدالرحمٰن رشیدی کے ساتھ زیادہ رہی.....میں نے ان کو ہر عمر میں نیک، عقل مند اور سنجیدہ پایا۔‘‘ (مفتی شمس الہدٰی نوری)
’’آپ نے اپنی ولایت کو اپنی فقاہت کے پردے میں چھپادیا تھا‘‘۔ (ملخصاً مولانا ابرار رضا مصباحی)
خلاصہ یہ ہے کہ کتاب یاد مجمع البحرین اپنے اندر ظاہری و باطنی حسن لیے ہوئے ہے۔مضبوط بندش،عمدہ کاغذ،مجلد ہے، جلد پر ایک خوبصورت کور بھی چڑھا ہے۔کور کے پشت پر سید شاہ ہاشم علی سبز پوش ایک مکتوب بنام مجمع البحرین ہے۔کور کے حاشیتین پرحضور حافظ ملت الشاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی، علامہ ارشد القادری اور ڈاکٹرشکیل احمد اعظمی کے مکتوبات بنام مجمع البحرین مطبوع ہیں۔ٹائپنگ کی غلطیوں سے کتاب پاک ہے۔ البتہ کتاب کی سیٹنگ کے بعد شاید اس پر نظر ثانی نہیں ڈالی گئی ہے۔درجنوں جگہ دو الفاظ آپس میں مل گئے ہیں۔
آخری دوصفحات پر شاہ عبد العلیم آسی فاؤنڈیشن کی چند اہم مطبوعات کی فہرست ہے۔ان میں سے سمات الاخیار،از مولانا عبد المجید کاتب مصطفی آبادی،بندگی شیخ مصطفےٰ عثمانی: احوال و آثار،از مولانا ابرار رضا مصباحی،وسیلۃ النجاۃ،از شیخ احسن اللہ علوی،ترجمہ از مولانا ابرار رضا مصباحی،رفیق العارفین،ازفرید بن سالار عراقی،اختیار نبوت،از مجمع البحرین کے مکمل مطالعہ کا شرف نا چیز کو حاصل ہے۔اختیار نبوت کے سوا ہر ایک پر تفصیلی تبصرہ بھی رقم کرچکا ہے۔البتہ رفیق العارفین پر تبصرہ تشنۂ اشاعت ہے۔صحائف السلوک،اور عین المعارف کا مطالعہ جاری ہے۔بوستان آسی (تینوں جلدوں)کے مطالعہ کا ارادہ ہے۔خدا توفیق بخشے۔
حضرت مجمع البحرین پر ابھی موٹے طور پر چار کام کرنے کی اشد ضرورت ہے: (۱) ان کے فتاوے کی ترتیب و اشاعت (۲) مقالات و مضامین کی ترتیب و اشاعت (۳) مکتوبات کی اشاعت (۴) مجلسی ملفوظات کی تدوین و اشاعت
اللہ تعالیٰ ان کے متوسلین کو اس کی توفیق بخشے،مؤلف کتاب مولانا ابرار رضا مصباحی کی اس کاوش کو قبول فرمائے، حضرت مجمع البحرین کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org