گوشۂ ادب
ایک جائزہ
ڈاکٹر صابر رضا رھبرؔ مصباحی
سید شاہ شاہد علی سبز پوش فاؔنی گورکھپوری (ولادت: ۱۸۸۸ء۔ وفات:۱۹۲۵ء)اپنے عہد کے عظیم شاعر وادیب گزرے ہیں۔ وہ ایک جید عالم دین،مبلغ اورصوفی تھے۔ شعروسخن سے فطری ذوق کے سبب کم عمری ہی (تقریباً ۱۴؍ برس) میں شاعری شروع کردی۔ابتداً فارسی میں بھی غزل کہتے تھے مگربعدکے دنوں میں صرف اردومیں مشق سخن کرنے لگے۔ ان کے مرشد حضرت آسی غازی پوری اپنے وقت کے مستند شاعر تھے ، نعت گوئی اور تغزل میں اپنی مثال آپ تھے۔ ان کی پاکیزہ صحبت نے ان کے ذوق شاعری کومزید پروان چڑھایا۔ انھوں نے اپنے مرشدکے علاوہ شمشاد لکھنوی سے اصلاح لی۔ ان کے صوفیانہ مزاج نیان کے شعری رنگ وآہنگ کومزیدگہراکردیا، کیوں کہ وہ ایک طرف خم خانۂ تصوف کے مست الست تھے تو دوسری طرف میدان شعروادب کے شہسوار بھی۔ انھیں اردو،عربی اور فارسی زبان پرکمال حاصل تھا، جس نے ان کے شعری وادبی کائنات کو نہ صرف بہت حسین بنادیابلکہ انھیں ان کے ہم عصروں میں ایک امتیازی شان عطا کی۔ انھیں فن شعروسخن پر عبور حاصل تھا۔ انھوں نے حمد، نعت، منقبت ، مثنوی ، قصیدہ ،غزل ، رباعی ، مخمس ،مسدس ، تضمین، سہرا اور تاریخ .گوئی میں اپنی جولانی ٔطبع کا خوب مظاہرہ کیا۔ طبیعت میں بلاکی سنجیدگی تھی۔ فن پر گرفت کا عالم یہ تھا کہ زمین خواہ کتنی ہی دشوارگزارہو،جب کہتے تو کہتے چلے جاتے۔ تضمین کے معاملے میں توآپ اپنی مثال تھے۔ ایسابے جوڑمصرع لگاتے کہ لوگ واہ وا کیے بغیر نہیں رہ پاتے۔ تصوف سے انھیں قلبی لگاؤ تھاجس کاگہرا اثراُن کے کلام میں ،خاص طور سے غزل میں نظر آتا ہے۔فن غزل گوئی سے متعلق سید امیر احمد اثیم خیر آبادی رقم طرازہیں:
’’شاہ صاحب کو غزل گوئی سے زیادہ شغف رہا۔دو تین خمسے بھی ہیں اور لاجواب ہیں۔ صاحب غزل کی زبان میں ایسی زبان ملائی ہے کہ امتیاز نا ممکن ہے۔…. رباعیاں بھی چند ہیں۔ قصیدے کے بارے میں فرماتے تھے: ’’اہل دنیا کی مدح میرے لیے عار ہے۔ ‘‘ایک بارنعت میں قصیدہ کہنا شروع کیا تھا۔ پندرہ بیس شعر ہوئے تھے کہ خیال ہوا کہ میرے طائر وہم وخیال کی انتہائی پرواز بھی باعث کمال منقصت ہوگی، اس لیے اس خیال کو ترک کردیا۔احباب کی فرمائش سے البتہ قصیدے قلم برداشتہ اْنھیں کے نام سے لکھ کے دے دیے۔ ایک مثنوی بھی کہی تھی، مگر ضائع گئی۔‘‘(مقدمہ دیوان فانی،ص:81،ناشر شاہ عبد العلیم آسی فاؤنڈیشن، نئی دہلی)
فن غزل گوئی میں انھیں کمال حاصل تھا۔ مشکل سے مشکل زمین میں بھی کامیاب غزلیں کہیں۔اساتذۂ سخن کی زمینوں پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔خصوصاً استاذ ذوؔق دہلوی ، داغؔ دہلوی ، امیرؔ مینائی ،خواجہ حیدرعلی آتشؔ اور مومن ؔدہلوی کی زمینوں میں آپ کے کلام ملتے ہیں۔جناب سید امیر احمد اثیمؔ خیر آبادی رقم طراز ہیں :
’’زبان اور انداز بیان پر قدرت ایسی ہے کہ جو کہنا چاہتے ہیں، خوب کہتے ہیں۔شاہ صاحب کی اکثر غزلیں اساتذہ کی غزلوں پر ہیں، خصوصاًحضرت داغ اور حضرت امیر مینائی کی غزلوں پر۔کچھ غزلیں آتشؔ کی غزلوں پر بھی ہیں۔ ذوق ؔو مومؔن کی زمینوں میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ میرؔ کی طرح میں دو ایک غزلیں ہیں ؛مگر خصوصیت یہ ہے کہ جس کی غزل ہے، وہی رنگ غالب ہے۔ ناظرین خود ہی ملاحظہ فرمائیں گے۔‘‘(مصدرسابق ،ص:82)
متصوفانہ جہت ان کی غزلیہ شاعری کو نہ صرف امتیازی رنگ وآہنگ عطاکرتی ہے بلکہ انھیں اپنے ہم عصروں سے ممیزبھی کرتی ہے۔ڈاکٹرفضل الرحمان شررمصباحی کے بقول:
’’ مشربی طور پر آپ خم خانۂ تصوف کے مست الست تھے،اس لیے آپ کے اشعار میں جو تغزل کا جوہر ہے وہ آپ کے ہم عصرشعرا میں خال خال پایا جاتا ہے۔ پھر سرکار آسیؔ غازی پوری کے دربار عالی کی خاک روبی نے اس رنگ تغزل کو اور چوکھا کردیا۔شاعری صرف قافیہ پیمائی کا نام نہیں،بلکہ ایک اچھے شاعر کے لیے علم عروض میں مہارت رکھنے کے ساتھ ہی اس کا شعری شعور بھی بالیدہ ہواور زبان و بیان پر دسترس حاصل ہو،اس کے تجربات و مشاہدات گہرے ہوںوغیرہ۔اچھا شعر وہی ہے جو بلندیِ تخئیل کا حامل ہو اور جس کے لیے الفاظ کا انتخاب اسی کے متناسب ہو۔اس نقطۂ نظر سے’دیوان فانی‘میں بڑی جامعیت نظر آتی ہے۔بے شبہہ’دیوان فانی‘ میخانۂ تصوف کی رحیق مختوم اور خوانِ تغزل کا مزعفر و مطنجن ہے۔‘‘(دیوان فانی،ص:27،ناشر شاہ عبد العلیم آسی فائونڈیشن، نئی دہلی)
ان کی غزلیہ شاعری میں گل وبلبل کی داستان طرازی، ہجرووصال کے قصے ، عشق ومعشوق کی کہانیاں اورقافیہ پیمائی ہی نہیں تخیلات کی نیرنگی وپاکیزگی اور شعری شعورکی آفاقیت، معاملہ بندی کی نزاکت،مضمون آفرینی کے علاوہ فن کی تمام تررعنائیاں موجودہے۔ان کی شاعری میں شعریت بدرجہ اتم موجودہے۔یہ چنداشعاربطورمثال پیش ہیں:
ہر چند تھا وہ شوخ ہزاروں حجاب میں شرما کے رہ گئی تھی کرن آفتاب میں
دکھلا کے چشمِ مست وہ کہتی ہے نازسے تم کو کبھی ملی تھی یہ لذّت شراب میں
ذکر میرا ان کی محفل میں ہے میں شامل نہیں واہ رے قسمت کہ میں خارج نہیں داخل نہیں
حسن کے کوچے میں کیا اب کوئی اس قابل نہیں سر بکف پھرتے ہیں ہم لیکن کوئی قاتل نہیں
اپنے کانوں سے بھی ایسا نہ سنا کوئی حسیں یہ نہیں ہے کہ فقط آنکھ سے دیکھا ہی نہیں
یار کہتا ہے فنا ہو کے ملو اے فانی یہی رونا ہے کہ ہم سے تو یہ ہوتا ہی نہیں
اغیار اْنھیں بھر کے نظر دیکھ رہے ہیں ہم دیکھ نہیں سکتے مگر دیکھ رہے ہیں
رہ رہ کے ادھر بھی وہ مگر دیکھ رہے ہیں آہوں میں ہم اب کچھ تو اثر دیکھ رہے ہیں
مانا کہ نہ آئیں گے کبھی وہ شبِ وعدہ رہ رہ کے مگر ہم سوے در دیکھ رہے ہیں
تصویر بنے بیٹھے ہیں وہ بزم عدو میں ہر شخص سمجھتا ہے ادھر دیکھ رہے ہیں
کوچۂ بے خودی سے مست پہنچے حریم راز میں زاہد خشک رہ گیا منزلِ امتیاز میں
مست جھکی ہوئی نگاہ بزم طرب کی ہے گواہ جوشِ شراب خواب ہے دیدۂ نیم باز میں
منزل نیستیِ عشق ہو گئی دم کے دم میں طے خنجر ناز بن گیا خضر رہِ نیاز میں
دل ہیں حقیقت آشنا بے خبرانٍ عشق کے دورِ مئے الست ہے مے کدۂ مجاز میں
شعروادب کے اعتبارسے فانی گورکھ پوری کا عہد بڑاہی پربہار تھا۔دہلی اورلکھنوکے دبستانوں میں ادبی وشعری معرکہ آرائیاں شباب پرتھیں اوراردوزبان اصلاحات کے تجربے سے گزررہی تھی۔جناب فانی نے دونوں دبستان (لکھنواور دہلی) کا گہرا مطالعہ کیا، ان سے خوب خوب اکتساب کیااورجہاں سے جو اچھا لگا اسے اپنے کلام کا حصہ بنایا۔
فانی گورکھ پوری کے عہدمیں دبستان لکھنواوردہلی کی علمی ،ادبی وشعری موشگافیوں کی طرف ایک لطیف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر فضل الرحمٰن شرررقم طراز ہیں:
’’حضرت فانی کا زمانۂ شباب اردو زبان وادب کے لحاظ سے بڑا پُربہار تھا۔لکھنومیں خاندانِ انیس کے چشم و چراغ پیار ے صاحب رشیدؔ،ابرؔ،ابروؔ،جلالؔ،عزیزؔ، فصاحتؔ،وصفؔ، محشرؔ، بیرسٹر حامد علی، شررؔ، واصفؔ، شمسؔ،اثرؔ، خواجہ عبد الروف عشرتؔ، نظمؔ طباطبائی،مولانا عبد الباری آسیؔ،مرزا محمد ہادی رسواؔ، نیازؔ، مسعود حسن ادیبؔ رضوی جیسے باکمال شعرا،ادبا،نقادانِ فن، علماے فرنگی محل اور فقہ جعفری کے مجتہدین کا شہرہ تھااور دہلی حضرت سید وحید الدین بیخودؔ،نواب شجاع الدین تاباںؔ،سائلؔ، حکیم اجمل خاںشیداؔ،خواجہ حسن نظامی،امیر الملک بہادر گورگانی احقرؔ،ملاواحدیؔ،مرزابشیر الدین،مرزاحیرتؔ ،ناطقؔ، لالہ چھنو مل،لالہ سری رام، نواب علی خاں اعجازؔ،واعظؔ نقشبندی،آغا حسن قدرؔ،مفتی کفایت اللہ جیسے شعرا ، اربابِ فکر و فن اورمسلک ولی اللہٰی کے علماے اعلام سے خطہؔ شیراز بنی ہوئی تھی۔‘‘(مصدرسابق ،ص:26)
آپ کے خاص رفقا میں ریاض خیرآبادی، اصغرؔ گونڈوی، عبدالباری آسیؔ، حفیظؔ جون پوری،احسنؔ مارہروی،عزیزؔ لکھنوی ، صفدر مراز پوری ، عالمؔ لکھنوی ، سیمابؔ اکبر آبادی ، وصل ؔبلگرامی ،عشرت لکھنوی،اثرؔلکھنوی ، یاسؔ عظیم آبادی ، ثاقبؔ لکھنوی ،نازش ؔبدایونی ،بیخود ؔموہانی ، بے نظیرؔ شاہ وارثی جیسے نامور شعرا و ادبا کے اسما شامل ہیں، جن سے آپ کے گہرے مراسم اور تعلقات تھے۔
شیخ طریقت ہونے کے ساتھ جناب فانیؔ کا شمارمیدان شاعری کے باکمالوںمیں ہوتا تھا۔ ان کے عہد کے تقریباًتمام مستنداوراستاد شعرا سے ان کے روابط تھے۔ شاعری میں انھوں نے شمشادؔ لکھنوی سے اصلاح لی۔ دیوان فانی کے مولف سیدمصطفیٰ علی آنی رشیدی گورکھپوری رقم طراز ہیں:
’’والد صاحب قبلہ جناب مولانا شمشاد فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہونے کی حیثیت سے جملہ قواعد کے سختی سے پابند تھے۔بعض بعض جگہ خلاف قواعدالفاظ پائے جاتے ہیں۔جیسے مکان، آسمان وغیرہ میں بے عطف و اضافت کے بھی نون غنہ آگئے ہیں۔میں نے (والد صاحب سے) استفسار کیا تھا تو(آپ نے)یہ فرمایا:بعض غزلوں میں جناب وسیم (خیرآبادی) کی فرمائش سے ایسا نظم کیاگیا ہے اور چند اشعار میں جو قواعد کی پابندی اختیار کرنے کے قبل کے ہیں،یوں ہی رہنے دیا گیا ہے۔‘‘(معذرت مشمولہ دیوان فانی،ص:29،ناشر شاہ عبد العلیم آسی فاؤنڈیشن، نئی دہلی)
حضرت فانی کا اپنے کلام پر اصلاح لینے کا طریقہ بھی عام روش سے ہٹ کر تھااورجناب شمشاد لکھنوی نے حضرت فانی کی غزلوں کی اصلاح میں جداگانہ طرز اختیار کیا ،جودونوں کی علمی وادبی قدرومنزلت میں چارچاندلگاتاہے۔ دیوان فانی کے مقدمہ میں جناب اثیم خیر آبادی نے جناب فانی کے اصلاح لینے کاطریقہ کچھ یوں بیان کیا ہے :
’’ان کااصلاح لینے کا طریقہ عام انداز سے جدا گانہ اور کمال استفادہ کو لیے ہوئے تھا۔غزل کے ساتھ ان کے علوفکر، رسانی ذہن،سلیقہ حسن، نشست وانتخاب، الفاظ کی اصلاح اور بجمیع حیثیات قوت فکریہ کی ترقی ہوجاتی تھی، بصیرت تامہ حاصل ہورہی تھی،ملکہ بڑھتاہی جاتا تھا اور وجوہِ اصلاح دل نشیں ہوتے جاتے تھے۔‘‘(مقدمہ دیوان فانی ،ص: 80،ناشر: شاہ عبدالعلیم فاونڈیشن نئی دہلی)
اصلاح کے لیے جب وہ جناب شمشادؔ لکھنوی کی خدمت میں حاضر ہوتے تو عرض کرتے تھے’’ جولفظ بدلوانا ہو، مجھ ہی سے بدالوائیے‘‘۔ اس گزارش کے سبب جب کوئی لفظ استاد کو پسندنہیں آتا تو اس کی جگہ دوسرے لفظ کوفٹ کرنے کے لیے خون جگر صرف کرتے اورلفظ بدلتے۔ اس دوران استاد وشاگرمیں باہمی مکالمہ ہوتا۔اس طریقہ اصلاح کا انھیں غیرمعمولی فائدہ پہنچا ، وہ اکثرکہا کرتے تھے کہ ان چار پانچ غزلوں کی اصلاح سے جو نفع مجھ کو حاصل ہوا ،اگرسیکڑوں غزلیں بھیج کر اصلاح لی جاتی تونہ ہوتا۔ دوران اصلاح غزل ایک مرتبہ ایسا ہواکہ استاد کی اصلاح پسند نہ آئی مگر ادباً استاد کالفظ قبول کرلیا۔ طبیعت اس سے مطمئن نہیں تھی ،اس اضطراب کیفیت میں حضرت آسیؔ غازی پوری کی خدمت میں آئے۔ اپناموقف بیان کیا اوراستادکے بدلے گئے لفظ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ شعر سن کر حضرت آسیؔ نے انھیں کی تائید کی۔ جناب اثیم خیرآبادی لکھتے ہیں:
’’ ایک روز کسی شعر کے ایک لفظ پر استاد شاگرد میں دیر تک مکالمہ رہا۔ انھوں نے ادباًاستاد محترم کا لفظ قبول کیا۔یہاں سے اْٹھ کر پیر و مرشد قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پوچھا:’’میاں شاہد! کہاں گئے تھے؟‘‘۔ کہا:حضرت شمشاد کی خدمت میں۔فرمایا:’’اصلاح کے لیے کوئی غزل لے گئے تھے؟‘‘۔ کہا: جی حضور۔حکم ہوا:’’ سناؤ!‘‘۔انھوں نے سنائی۔ فرمایا: ’’مولوی صاحب نے کیا اصلاح دی؟‘‘۔ انھوں نے اپنا شعر اور مولوی صاحب کی اصلاح پیش کی۔فرمایا:’’تمہارا لفظ بہتر ہے‘‘۔ان کی خلش مٹ گئی، تشفی ہوگئی۔ ‘‘(مصدرسابق ،ص: 81)
فانی گورکھ پوری کو تضمین نگاری پر عبورحاصل تھا۔ کسی بھی طرح پر ایسا بے جوڑ مصرع جڑتے کہ اصل کا گمان ہونے لگتا تھا۔ مشکل سے مشکل طرح اورزمین پر کثرت سے اشعار کہتے ایسا لگتاہے کہ مضمون صف بستہ کھڑے ہیں اور باندھے جارہے ہیں۔
جناب فانی کہاکرتے تھے کہ ’’ میرے اشعار کو دوسروں کے شعر سے توارد کی امید کم ہے۔ مصرع ثانی شاید لڑجائیں ؛مگر میں مصرع اولیٰ سب سے علیحدہ لگاتا ہوں‘‘(مصدرسابق ص:83۔84)
جناب فانی کی تضمین نگاری کے تعلق سے صاحب مقدمہ دیوان فانی جناب اثیم خیرآبادی رقم طراز ہیں :
’’تضمین میں شاہ صاحب کو عجب ملکہ اور شغف ہے۔ قریب قریب شاعروں کے ہر مصرع پر مصرع لگائے جو دیکھنے ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر غزل جس میں تضمین کا مصرع ہے،واضح کر دیا گیا ہے۔ ناظرین محظوظ ہوں گے۔‘‘(مصدرسابق،ص: 122)
حضرت فانی گورکھ پوری کوزبان وبیان پر ملکہ حاصل تھا۔ ان کی بلندپایہ اوربصیرت افروز شاعری کے جائزہ سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ انھوں نے محض تفنن طبع اوراپنے فن کے مظاہرہ کے لیے شاعری نہیں کی، بلکہ انھیں شاعری سے جذباتی وقلبی لگاؤ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اپنے عہد کے معتبراور اساتذہ شعرا سے باضابطہ ان کا ربط وتعلق تھا اوران کے یہاں ادبی وشعری مجلس جمتی تھی یعنی مشورہ سخن کاایک جہان آباد ہواکرتاتھا۔ ان کادولت کدہ اہل علم وفن کامسکن اور فکرو ادب کا گہوارہ بن چکا تھا، جہاں شعروسخن کے ماہرین ورسیا شریک ہوتے، علمی وادبی مجالس آراستہ ہوتیں اور مشاعرے کابھی دور چلتا۔بہت کم ایسے شعرا ہوتے ہیں جو کامیاب وسنجیدہ شاعری کرتے ہیں مگر مشاعرہ میں ان کا رنگ نہیں جمتا اوروہ ایک طرح اسٹیج کی دنیا سےباہر ہوتے ہیں مگر فانی گورکھ پوری کا کمال سخن یہ ہے کہ وہ سنجیدہ شاعرہونے کے ساتھ ساتھ مشاعرہ کے اسٹیج کے بھی کامران شاعرتھے۔ ان کی شرکت مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔آپ خود بھی شعری بزم سجاتے تھے۔فاضل مقدمہ نگار دیوان فانی کے مطابق گورکھ پور میں ہندستان کے پہلے کل ہند مشاعرہ کے انعقاد کا سہرا بھی انھیں کے سرہے۔یہ تاریخی آل انڈیا مشاعرہ1924ء میں جارج اسلامیہ انٹر کالج،گورکھپورمیں منعقد ہواتھا،جس میں رواں ؔاناوی، عزیزؔلکھنوی ، جگرؔمرادآبادی، جگرؔ بسوانی ،حسرتؔ موہانی ، سیمابؔ اکبرآبادی، عبدالباری آسی، صفدر مرزا پوری، سعید احمد سعید، خلیل احمد شمیم، سیدعقیل احمد عقیل اور جڑبڑشاہ وارثی جیسے آسمان شعروادب کے درخشندہ ستاروں نے شرکت کی تھی۔ اس مشاعرے کے لیے تین طرحیں دی گئی تھیں۔ فانی گورکھ پوری نے تین طرح میں بے مثال کلام کہے۔
ہم یہاں بطور دلیل مقدمہ دیوان فانی سے دو واقعے کا ذکرکرتے ہیں۔جناب اثیم خیرآبادی نے لکھاہے کہ پہلے یہاں گورکھپور میں مقامی مشاعرے ہوکر رہ جاتے تھے۔ پہلے پہل بیرونی حضرات کو اس مشاعرے میں زحمت شرکت دی گئی۔چند شعرائے لکھنو بھی تشریف لائے تھے۔ مہمانانِ عزیز انھیں کے یہاں فروکش تھے۔ ایک بزرگ تھے جناب وزیرؔلکھنوی شاگرد حضرت حکیم مرحوم، نہایت پُرگو اور فی البدیہہ کہنے والے۔
گرمیوں کے دن تھے۔ایک کشادہ چھت پر شب میں پلنگ بچھے۔دل و دماغ شگفتہ اور ترو تازہ کرنے والی فرحت بخش ہواؤں کے جھونکے آرہے تھے۔ میں بھی ان کے اور مہمانوں کے حسب اصرار یہیں رہ گیا تھا۔ جناب وزیر نے ان سے برجستہ گوئی کی فرمائش کی۔ انھوں نے کہا :
’’ بسم اللہ جو رائے ہو،جو مصرع دے گاتو ایک کو دوسرے پر اشتباہ کی گنجائش رہے گی کہ پہلے سے غزل ہوگی۔نئی زمین پیدا کی جائے۔ایک قافیہ تجویزکرے ایک ردیف پھر مصرع کہہ لیا جائے ‘‘۔
وزیر صاحب نے ایک کی جگہ چار طرحیں نکالیں۔ طرحیں دشوار تھیں، خود دو ہی طرحوں میں فکر کر سکے؛ مگر مطلع نہیں کہہ سکے۔انھوں نے چار طرحوں میں غزلیں کہہ لیں۔ ہر غزل تہہ دار ہے اور پُر زور۔موصوف کو بھی ان کی طبیعت داری کا اعتراف کرنا پڑا۔ تضمین بھی کیں جو حسب ذیل ہیں:
بال پکتے ہی ہوئی اپنی جوانی رخصت
’’رات آخر ہوئی وہ صبح کا تارا چمکا‘‘
پیری میں کیوں نہ داغ تمنا چمک اٹھیں
’’ ہوتی ہے د ل فریب نہایت بہار صبح‘‘
دعا سے ہاتھ اٹھا اے ننگ الفت
’’اثر کیسا؟ تمنائے اثر تک‘‘
لگے سر میں پتھر ملا پھل جنوں کا
’’ہوا نخل غم بارور چلتے پھرتے‘‘
حضرت فانی گورکھ پوری کوایک بار جگربسوانی نے اپنے یہاں بسواں کے مشاعرے میں مدعوکیا مگر وہ خود تونہیں جاسکے مگر اپنا کلام بھیج دیا جسے کسی اورنے پڑھا اوران کا کلام ہی حاصل مشاعرہ قرارپایا۔۔۔۔۔۔۔(جاری
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org