30 July, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia August 2025 Download:Click Here Views: 249 Downloads: 18

(10)-سیرت امام حسین کے درخشاں نقوش

فکر و نظر

*ستمبر 2025 کا عنوان—                  مدارس کی تعلیم اور جدید تقاضے: چند اصلاحی تجاویز

*اکتوبر 2025 کا عنوان—       اخلاقِ نبوی ﷺ اور آج کی مسلم قیادت

اخلاقی محاسن و کمالات کے جامع 

از: مفتی محمد ساجدرضا مصباحی

سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ ، خاتون جنت سیدہ  فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نور نظر ،مولاے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کےجگر پارےاور خاندان نبوت  کے چشم وچراغ تھے،  بلکہ آپ تاریخِ اسلام کی ایک عظیم شخصیت، امت مسلمہ کے لیے  مشعل راہ ، ملت اسلامیہ کے محافظ وپاسبان ، کشتی امت کے ناخدا، حق وصداقت کے علم بردار، صبر و رضا کے  پیکراورقیامت تک کے متلاشیان حق کے لیے مینارۂ نور و ہدایت بھی تھے،اس میں کوئی شک نہیں  کہ آپ کی حیات مبارکہ کا ہر گوشہ درخشاں ، ہر پہلو  نمایاں اور ہر زاویہ تابندہ ہے۔ آپ  علم وعمل ، فضل وکمال ،جود وسخا ، زہد وورع اور حلم وبردباری کے ساتھ تمام تر اخلاقی محاسن وکمالات کے جامع تھے۔

حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے ساتھ ارض کربلا  میں پیش آنے والا الم ناک واقعہ  اوروہاں کے قیامت خیز حالات  میں آپ کی جرأت واستقامت،اسلامی نظام کے احیا کی خاطراپنی اور اپنے اہل خانہ کی عظیم قربانی پیش کر کے ظالم و جابر حکمراں  کے سامنے  اعلاے کلمۃ الحق کی جو عظیم مثال آپ نے پیش کی اس کی نظیر انسانی تاریخ میں نظر نہیں آتی۔  

سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ولادت4ھ میں ہوئی ، انھوں نے کائنات کی سب سے عظیم شخصیت  کے آغوش شفقت میں  تربیت پائی ،وہ  مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کےسب سے چہیتے نواسے تھے ، آقاے کائناتﷺ آپ سے  بڑی محبت فر ماتے تھے ، بلکہ  ان کی محبت کو اپنی محبت قرار دیتے تھے، اس مضمون کی متعدد احادیث کتب حدیث میں موجود ہیں ، والد کریم شیر خدا مولاعلی کرم اللہ وجہہ الکریم اور والدہ مشفقہ سیدہ فاطمۃ الزہر ا  کے زیر سایہ زندگی کا ایک اہم حصہ گزارا،نسبی اور خاندانی فضائل وکمالات اس پر مستزاد تھے، ایسے میں محاسن وکمالات  کا ایک سمندر آپ کے اندر موج زن ہو نا لازمی تھا ، عام  طور پر مورخین ، تذکرہ نگاران  اورواعظین واقعۂ کر بلا کی روشنی میں آپ کی بے مثال قربانی  اور صبر ورضا کے حوالے سے آپ کی عظمتوں کو بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، جب کہ آپ  کی حیات مبارکہ کاہر گوشہ  بے شمارفضائل وکمالات سے  پُرہے ۔ابن اثیر لکھتے ہیں:

وکان الحسین رضی اللہ عنہ فاضلا کثیرا لصوم والصلاة والحج والصدقۃ و افعال الخیر جمیعا۔ (ابن الاثیر، اسدالغابہ،ج۲:ص: ۲۳)

 یعنی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بڑی فضیلت کے مالک، کثرت سے روزہ، نماز، حج ادا کرنے والے، صدقہ دینے والے اور تمام افعال خیر انجام دینے والے تھے۔

حضرت امام عالی مقام اور کثرت عبادات:

حضرت امام عالی مقام کی حیات مبارکہ کا ایک اہم پہلو یہ بھی  ہے کہ آپ زہد وورع کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے ، عبادت گزاری اور خشیتِ الٰہی میں بھی  امتیازی  مرتبے کے حامل تھے۔

امام ذہبی نے ’’سیر اعلام النبلاء‘‘میں لکھا :

کان من سادات الزہادو أئمۃ العباد۔ (سیر أعلام النبلاء، ج:3، ص:289)

یعنی آپ زاہدوں کے سردار اور عبادت گزاروں کے امام  تھے۔

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ  عنہ کو شب بیداری اور تہجد سے خاص انسیت تھی۔ امام ابن عساکرنے اپنی کتاب ’’تاریخ دمشق‘‘میں لکھا:

ما ترك صلاته اللیل حتی یوم استشهاده۔  (تاریخ دمشق، ابن عساکر، ج: 14، ص:217)

یعنی آپ نے اپنی زندگی میں کبھی تہجد کی نماز ترک نہ کی، حتیٰ کہ شہادت کے دن بھی نہیں۔

مشہور مؤرخ ابن کثیرنے ’’البدایہ والنہایہ‘‘میں امام حسین رضی اللہ عنہ  کی کربلا میں عبادت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا:

طلب الحسین من القوم تأخیر القتال لیلة لیصلّی و یدعو ربّه۔(البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، ج:8، ص:185)

یعنی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے دشمن سے کہا کہ جنگ کو ایک رات مؤخر کر دو تاکہ میں نماز پڑھوں، دعا کروں اور اپنے رب سے مناجات کر سکوں۔

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ، جو جلیل القدر محدث و مفسر ہیں، اپنی کتاب ’’تاریخ الخلفاء‘‘میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں:

کان عابدًا، فاضلًا، کثیر الصوم والصلاة۔ (تاریخ الخلفاء، ص: 207)

یعنی حضرت امام حسین عبادت گزار، فضیلت والے، اور کثرت سے روزے رکھنے اور نماز پڑھنے والے تھے۔

عفوو درگزر:

 حضرت امام عالی مقام رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  اپنے اخلاق وکردار اور عفوودر گزر جیسے اوصاف میں  اپنے نانا جان مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے عکس جمیل تھے ، آپ نے اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف فر ماکر ان کے لیے ہدایت کی دعا فر مائی ۔

علامہ شمس الدین ذہبی(متوفی ۷۴۸ھ) نے’’سیر أعلام النبلاء‘‘ میں لکھا:

کان من سادات المسلمین، فقیهًا، سیدًا، کثیر الصلاة والصوم والصدقة، عالِمًا، عابدًا، شجاعًا، جوادًا۔ (سیر أعلام النبلاء، ج: 3، ص: 289)

یعنی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے سردار، بڑے فقیہ، عبادت گزار، سخی، شجاع، اور معاف کرنے  والےتھے۔

ابن کثیرنے’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں حضرت  امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حر بن یزید ریاحی کے واقعے کو بیان کرتے ہو ئے لکھا :فخرج إلیه الحر بن یزید، فوقف بین یدی الحسین وقال: هل لی من توبة؟ فقال الحسین: نعم، یتوب الله علیک، انزل۔(البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، ج:8، ص:185)

یعنی جب حر بن یزید نے توبہ کی تو حضرت  امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہاں، اللہ تیری توبہ قبول فرمائے ، ہمارے ساتھ  آجاؤ۔

ابن کثیرہی کی  روایت ہے کہ جب حر بن یزید اپنے لشکر کے ساتھ امام حسین رضی اللہ عنہ کے قافلے کے قریب پہنچا، تو حضرت امام حسین رضی اللہ نے ان سے کوئی شکوہ نہ کیا بلکہ ان کے سپاہیوں کو پانی پلایا:

فسقاه الحسین وأصحابه الماء، و حتی الخیول۔ (البدایہ والنہایہ، ج: 8، ص: 164)

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے ان  کو پانی پلایا، حتیٰ کہ ان کے گھوڑوں کو بھی۔

ابن سعد اپنی مشہور کتاب ’’الطبقات الکبریٰ‘‘میں حضرت  امام حسین رضی اللہ عنہ کی دعا نقل کرتے ہیں، جب آپ نے میدانِ کربلا میں دشمنوں کی ہدایت کے لیے دعا کی:

اللهم اهدِ قومي فإنهم لا يعلمون۔(الطبقات الكبرى، ابن سعد، ج :5، ص: 429)

اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے، کیوں کہ وہ نہیں جانتے۔

میدانِ کربلا میں جب آپ شدید زخمی ہو چکے تھے اور آخری لمحات میں تھے، تب بھی آپ نے کسی کو بددعا نہ دی، بلکہ قرآن کی تلاوت، ذکر، اور دعا میں مشغول رہے۔ابن عساکر اپنی کتاب تاریخ دمشق میں نقل کرتے ہیں:

فكان في آخر لحظاته يذكر الله ويقول: رضاك يا رب فوق كل رضا۔(تاریخ دمشق، ابن عساکر، ج :14، ص:223)

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ  اپنی حیات کے آخری لمحات میں  اللہ کو یاد کرتے رہے اور کہتے رہے: اے رب! تیری رضا ہر رضا سے بلند ہے۔

حاجت مندوں کی مدد:

امام عالی مقام سید نا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سخاوت اورفیاضی ورثے میں ملی تھی اس لیے کمال فیاضی اور ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے خلقِ خدا کی حاجات کو پورا کرنا آپ کا معمول تھا۔

حافظ ابن عساکر نے ابو ہشام القناد البصری کی زبانی یہ چشم دید  نقل کی ہے کہ میں حضرت حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے پاس بصرہ سے سامان فروخت کے لیے لایا کرتا تھا۔ آپ باصرارمجھ سے قیمت کم کراتے ،پھر میرے وہاں سے اٹھنے سے پہلے پہلے اس سامان کا زیادہ تر حصہ لوگوں کو عنایت فرمادیا کرتے۔ میں نے عرض کیا: اے شہ زادۂ رسول! میں آپ کے پاس بصرہ سے سامان لاتا ہوں، آپ باقاعدہ اصرار کرکے اس میں قیمت کم کراتے ہیں اور پھر میرے اٹھنے سے پہلے پہلے اس کا زیادہ تر حصہ لوگوں میں تقسیم بھی کردیتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے والد گرامی نے مجھے یہ مرفوع حدیث سنائی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

المخبون لا محمود ولا ماجور. (ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر، ج:7، ص: 115)

یعنی جو آدمی سودے یا لین دین میں دھوکا کھا جائے وہ قابلِ ستائش ہے نہ قابل اجر۔

ایک مرتبہ ایک سائل مدینہ منورہ کی گلیوں میں گھومتے ہوئے آپ کے دروازے پر پہنچا۔ دستک دی اور اپنی حاجت کا درج ذیل اشعار کی صورت میں یوں اظہار کیا:

لم یخب الیوم من رجاک ومن    حرک من خلف بابک الحلقه

وانت جود وانت معدنة           ابوک ما کان قاتل الفسقه

آج آدمی نامراد واپس نہیں جائے گا جو آپ کے پاس امید لے کر آیا ہے اور جس نے آپ کے دروازے کا حلقہ کھٹکھٹایا ہے آپ سراپا بخشش اور جود و کرم کی کان ہیں۔ آپ کے والد وہ عظیم شخص تھےجنھوں نے فاسقوں سے جنگ فرمائی تھی۔

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اس وقت نماز میں مصروف تھے دروازے کی دستک اور سائل کی حاجت انھوں نے نماز میں سن لی۔ نماز میں تخفیف کی اور باہر تشریف لائے۔ دیکھا کہ سائل کے چہرہ پر واقعی فقر و فاقہ کے آثار ہیں، آپ نے واپس آکر اپنے غلام کو بلایا اور فرمایا کہ ہمارے نفقہ میں سے تمہارے پاس کچھ ہے؟ اس نے کہا کہ دو سو درہم ہیں۔ جن کے متعلق آپ کی ہدایت ہے کہ انھیں  آپ کے اہل خانہ پر خرچ کردوں۔ آپ نے فرمایا: وہ سب درہم لاؤ کیوں کہ ان سے زیادہ حق دار آدمی آگیا ہے۔ پھر ان دراہم کو پکڑکر باہر نکلے اور انھیں  اس اعرابی (سائل) کو دیتے ہوئے فی البدیہہ یہ اشعار کہے:

خذھا فانی الیک معتذر           واعلم بانی علیک ذوشفقۃ

لو کان فی سیرنا عصاۃ لما               کانت سماء علیک مند فقہ

لکن ریب المنون ذونکد          والکف منا قلیلۃ النفقۃ

(تاریخ دمشق لابن عساکر)

امام عالی مقام اور واقعۂ  کر بلا:

حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیات پاک کا سب سے اہم باب  واقعۂ  کر بلا ہے یہ تاریخِ اسلام کا وہ درخشندہ باب ہے جس کی روشنی قیامت تک انسانیت کو راہ دکھاتی رہے گی۔ یہ صرف ایک جنگ، ایک سانحہ یا چند افراد کی شہادت کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک  دینی ،روحانی، فکری اور اخلاقی انقلاب ہے۔

واقعۂ کربلا کی سب سے نمایاں معنویت یہ ہے کہ یہ حق و باطل کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دیتا ہے۔ جب اسلامی خلافت کے نام پر یزید جیسا فاسق، ظالم جابر، اور بے عمل حکمران اقتدار پر قابض ہوا اور دین کے نام پر ظلم، بے عدلی اور فسق پھیلانے لگا توحضرت  امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دین وشریعت کے مقابلے میں کسی  کی بھی پروا نہیں کی ،اور حق کا راستہ اختیار کیا اور دنیاوی مال ومنال  اور عیش وآرام کو ٹھوکر مارکر راہِ حق میں پہنچنے والی مصیبتوں کاخوش دلی سے استقبال کیا اور ہزار آفتوں اور بلاؤں کے باوجود یزید جیسے فاسقِ  وفاجر کی بیعت کا خیال بھی اپنے قلبِ مبارک میں نہ آنے دیا ۔

 کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ  کے عظیم کردار سے انسانیت کو یہ سبق ملا کہ ظلم کے سامنے جھک جانا بزدلی ہے، اور حق پر ڈٹ جانا ہی اصل کامیابی ہے، چاہے اس کی قیمت جان کی قربانی ہی کیوں نہ ہو۔ کر بلا کا حسینی کردار قیامت تک مظلوموں کو حوصلہ، اور ظالموں کو للکار دیتی رہے گی۔

در اصل جب یزید پلید  تخت نشیں ہوا تو اس نے اسلام کے سیاسی و دینی نظام کو ملوکیت میں بدلنے کی کوشش کی، شریعت کے حدودو کو پامال کر نے میں کوئی دریغ نہیں کیا ، اس نے اسلامی نظام کو  اپنی خواہشات پرقربان کر نا شروع کیا،وہ فاسق، فاجر، شراب نوش اور حدودِ شریعت سے مکمل طورپرمنحرف تھا، اور اسلامی خلافت کو اپنی نفسانی خواہشات  کی تکمیل کا آلہ بنا رہا تھا۔ ایسے وقت میں اگر خاندان بنوت کا یہ چشم وچراغ   اعلاے کلمۃ الحق  کا فریضہ نہ اداکرتا تو اسلام کی اصل روح مسخ ہو جاتی، اور باطل کو ہمیشہ کے لیے قوت و تائید فراہم ہو جاتی۔

 ایسے عالم میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  نہ صرف یزید کی بیعت سے انکار فر مایا  بلکہ پوری جرأت و استقامت کے ساتھ  اعلان کیا:

’’ مثلی لا یبایع مثله‘‘میرے جیسا، اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔(البدایہ والنہایۃ  )

حضرت امام عالی مقام نے کرب وبلا  کی سر زمین  میں خالص دین کی سر بلندی کے لیے   جس کرب واضطراب کا سامنا کیا  اور جس طرح ہزاروں یزیدی فوج کے مقابلے میں  اپنے چند رفقا کے ساتھ  جواں مردی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے حق کی آواز بلند کی ، اس كو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا ،ظلم وجبر کے مقابلے  میں آپ کی سیرت کا یہ درخشاں پہلو  تمام اسلامیان عالم کو روشنی فراہم کرتا رہے گا۔

حسینی  سیرت کا یہ پہلو بھی  بڑا تابندہ ہے کہ آپ نےمصائب وآلام پر کبھی بھی شکوہ نہیں کیا ، بلکہ ہمیشہ صبروورضا کے پیکر  بنے رہے ،دسویں محرم الحرام  کوآپ پیاس کی شدت سے نڈھال تھے ، خیموں میں تڑپتے شہ زادے تھے، اہل و عیال کے لرزتے دل تھے، دشمن کے تیروں کی بارش تھی، لیکن ان کے لبوں پر شکایت کے بجاے رب کی حمد وثنا تھی ۔ اپنے پیارے بیٹے علی اکبر کو رخصت کرتے وقت آنکھوں سے اشک ضرور بہے، مگر دل اللہ کی رضا میں مستغرق رہا۔

کربلا کے اس سفر میں حضرت  امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی، بھتیجے، بیٹے، ساتھی، سب کچھ قربان کر دیا، مگر دینِ اسلام کے اصولوں پر ذرّہ برابر سمجھوتا نہیں كیا۔ بلاشبہہ کربلا میں امام حسین رضی اللہ عنہ   نے وہ عظیم کردار پیش کیا جس کی روشنی میں اہلِ حق ہمیشہ اپنی راہیں متعین کرتے رہیں گے۔ صبرِ حسین قیامت تک انسانیت کو عزت، حوصلہ، اور حق پر ثابت قدمی کا پیغام دیتا رہے گا۔◘◘◘

 

راہِ ہدایت کے درخشندہ ستارے

از: مفتی محمد اعظم مصباحی مبارک پوری

 

 

 

حضرت امام حسین راہ ہدایت کے وہ درخشندہ ستارے ہیں کہ جن سے کتنے ہی گمگشتہ راہ کو منزل مقصود تک رسائی حاصل ہو گئی سرزمین کرب و بلا میں صبر و شکر ،وفا شعاری اور راہ حق میں جان نچھاور کرنے کی جو داستان آپ نے رقم کی ہے وہ رہتی دنیا کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ کی سیرت طیبہ سے ہمیں عدل و انصاف وفاداری و جانثاری صبر و استقامت عزم و حوصلہ، شجاعت و بہادری ،زہد ورع ،تقویٰ و طہارت، حلم و بردباری، عفت و پارسائی، تدبر و دانائی، اعلائے کلمۃ الحق، شریعت مصطفی کا تحفظ اور عزیمت و استقلال کا درس ملتا ہے ۔مصیبت زدوں ،حق کی راہ میں مشکلات کا سامنا کرنے والوں ظلم و جفا کی آندھیوں کا مقابلہ کرنے والوں اعلائے کلمۃ الحق کے علمبرداروں کے دلوں میں  اپ کی سیرت امید کی ایک نئی شمع روشن کرتی ہے۔

حضرت امام حسین کا تعلق اس خانوادے سے ہے جسے اہل بیت کہا جاتا ہے آپ کا گھرانا رشد و ہدایت کا مرکز ، علم و حکمت کا منبع رشک کائنات اور تجلیات و انوار الٰہی  کا مہبط تھااس کی طہارت و پاک بازی کی ضمانت قرآن کریم نے لی ہے رسول گرامی وقار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جنھیں  اپنا بیٹا کہا مولاے کائنات خیبر شکن حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے والد بزرگوار ہیں عفت و پارسائی طہارت و تقدس کی پیکر جمیل، عابدہ ،زاہدہ ،سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا والدہ محترمہ۔

امام حسین کا علمی شجرہ کائنات کی بڑی مقتدر اور صاحب بصیرت ہستیوں سے ملتا ہے معلم کائنات حضور سے سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تربیت میں پروان چڑھے، حضور علیہ السلام کے ساتھ علمی نشستوں میں شرکت کی اور تقریباً سات سالوں تک حضور سے علم و حکمت کے زلالی جام پیتے رہے، اس کے علاوہ احادیث کی روایت، قرآن کی تفسیر اور اسلامی اقداراور دیگر علوم اجلہ صحابۂ کرام بالخصوص اپنے والدبزرگ وار  مدینۃ العلم سیدنا علی مرتضیٰ اور والدہ ماجدہ سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے زیر سایہ حاصل کرتے رہے ۔صحابۂ کرام آپ کی علمی شخصیت کی قدر کیا کرتے تھے آپ کی موجودگی میں فتوی دینے سے دریغ کیا کرتے تھے۔ سائل کو آپ کی بارگاہ میں بھیجتے تھے ،چنانچہ تاریخ مدینہ دمشق میں ابن عساکر نے یہ روایت نقل کی ہے:حضرت عبداللہ ابن عباس مجمع میں لوگوں کو مسائل بتا رہے تھے ناف ابن ازرق خارجی بھی وہیں موجود تھا تو عبداللہ ابن عباس سے کہنے لگا کہ ابن عباس آپ لوگوں کو صرف چیونٹی اور کھٹمل کے بارے میں مسئلہ بتاتے ہیں میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے رب کی صفات بیان کیجیے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس نے اس کے قول کے عظمت کے پیش نظر اپنی گردن جھکا لی، امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسی محفل میں تشریف فرما تھے ،انھوں  نے فرمایا :اے ابن ازرق میرے پاس آ میں تجھے جواب دیتا ہوں۔ اس نے کہا کہ میں آپ سے نہیں پوچھ رہا ہوں۔ اتنا سنتے ہی حضرت عبداللہ ابن عباس نے فرمایا کہ اے ابن ازرق یہ امام حسین اہل بیت نبوت سے ہیں اور رسول اللہ کے علم کے سچے وارث ہیں ،تو نافع ابن ازرق حضرت امام حسین کی طرف متوجہ ہوا اور امام حسین نے اسے رب کی توحید ،عقائد اسلام اور اپنی عظمت کو بڑے واضح انداز میں بیان فرمایا۔

امام حسین صرف عبادات، تفسیر و حديث فقہ و فتاوی وغیرہ ہی عالم نہ تھے بلکہ معاملات وسیاست کے ساتھ زبان و بیان اور فصاحت و بلاغت میں بھی بے مثال تھے۔ابن حجر ہیتمی لکھتے ہیں:امام حسین علم و حلم میں بے نظیر، فصاحت میں یکتا، شجاع، زاہد اور عبادت گزار تھے۔

کربلا کے میدان میں امام حسین کے خطبات میں فصاحت و بلاغت، تدبر و دانائی اور علم و حکمت کا بلند ترین مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔امام ابن اثیر نے الکامل فی التاريخ میں کربلا کی سرزمین پر آپ کے دیے گئے خطبات کو نقل کیا ہے۔امام حسین  کا میدانِ کربلا میں دیا گیا خطبہ ایک تاریخی اور روحانی اہمیت کا حامل ہے، اور امام ابن اثیر جزری نے اپنی معروف کتاب "الکامل فی التاریخ" میں اس کا ذکر کیا ہے۔ ذیل میں امام حسین کا خطبہ "الکامل فی التاریخ" کی روشنی میں پیش کیا جا رہا ہے

خبردار! اے لوگو! تم سب جانتے ہو کہ میرا نسب کیا ہے، میرا حسب و نسب، میری شخصیت اور میرا مقام اسلام میں تم پر واضح ہے۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل سے روکا نہیں جا رہا؟ ایسے حالات میں مؤمن کو اپنے رب سے ملاقات کی تمنا کرنی چاہیے۔ میں موت کو سعادت سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ جینا محض ذلت اور تکلیف سمجھتا ہوں۔"

امام حسین  نے یہ خطبہ یزیدی لشکر کے سامنے اس وقت دیا جب حالات نہایت نازک ہو چکے تھے۔ یہ خطبہ اُن کے مقصد، سچائی، اور عزیمت کا آئینہ دار ہے۔ اس میں آپ نےظلم کے خلاف اپنی جدوجہد کو بیان کرتے ہوئے یہ واضح فرمایا کہ آپ کسی ذاتی مفاد یا دنیاوی حکومت کے لیے نہیں، بلکہ دین کی بقا اور حق و باطل کے فرق کو واضح کرنے کے لیے میدان میں آئے ہیں

ابن اثیر اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام حسین کا یہ خطبہ نہ صرف ایک سیاسی و دینی اعلان تھا بلکہ ایک اخلاقی و روحانی دعوت بھی تھی، جس میں انھوں  نے امت کو بیدار کرنے کی آخری کوشش کی۔

اپنے دوستوں کو نصیحت کرتے ہوئے امام عالی مقام نے فرمایا :

اما بعد! میں ایسے اصحاب کو نہیں جانتا جو میرے اصحاب سے زیادہ وفادار اور بہتر ہوں، اور نہ ایسے اہلِ بیت کو جانتا ہوں جو میرے اہلِ بیت سے زیادہ نیک اور صلہ رحم کرنے والے ہوں۔ پس اللہ تمھیں میری طرف سے بہترین جزا دے۔ خبردار! میں نے تم سب کو جانے کی اجازت دے دی ہے۔ تم سب آزاد ہو۔ یہ رات تمھیں ڈھانپ چکی ہے، اسے سواری بنا لو (یعنی چلے جاؤ)۔ تم میں سے ہر ایک میرے اہلِ بیت میں سے کسی فرد کا ہاتھ تھامے، اور اندھیرے میں منتشر ہو جاؤ۔ اور مجھے ان لوگوں کے ساتھ چھوڑ دو، کیوں کہ وہ صرف مجھے چاہتے ہیں۔"

عبادت و ریاضت، تقویٰ طہارت میں بھی آپ کا اسوہ قابل تقلید ہے۔ امام حسین کی زندگی کا ہر لمحہ عبادت و بندگی اور طاعت الٰہی  سے معمور تھا، آپ نے 25 حج ادا کیے ،اکثر روزے سے رہا کرتے، فرائض کے علاوہ نوافل کثرت سے پڑھا کرتے ،  تلاوت کلام اللہ بھی خوب کیا کرتے تھ،ے نہایت خوش و خضوع کے ساتھ رب کے حضور سجدہ ریز ہوتے ۔علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں کہ حضرت امام حسین  کثرت سےنماز پڑھتے ، روزہ رکھتے ، حج کرتے ، صدقہ وخیرات کرتےاورتمام بھلائی کےکاموں میں حصہ لیتے تھے۔   آپ کے شہزادے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا : میرے والدِ گرامی  دن اوررات میں ہزاررکعت نوافل ادا فرمايا كرتے تھے۔ 10 محرم الحرام کی رات جو آپ کی زندگی کی آخری رات تھی، ہر طرف سے دشمنوں نے نرغے میں لے رکھا تھا۔ اتنے مشکل حالات میں بھی آپ کی عبادت و ریاضت ، خشوع و خضوع اور وظائف و معمولات میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی ،یہاں تک کہ عین میدان جنگ میں جب کہ دشمن آپ کی پشت مبارک پر سوار تھا ،اس وقت بھی اپنے رب کی اطاعت و بندگی سے پیچھے نہیں ہٹے اور تیر ،تلوار ،نیزے سے چھلنی بدن لے کر اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو کر اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی اور دنیا والوں کو یہ پیغام دیا کہ چاہے کتنی ہی مشکل گھڑی ہو اپنے رب کی بندگی سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔

تسلیم و رضا، عشق وفا، صبر و ہمت، فدا کاری و جاں نثاری، استقامت و ثابت قدمی کی تاریخ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ۔کربلا کے میدان میں آپ کے اہل و عیال محبین اولاد و مستورات سخت مشکلات میں تھے نہر فرات پر پہرا بیٹھا دیا گیا تھا ،پانی لینے پر بندش تھی ،کئی دنوں تک کھانا پانی بند تھا ،ان حالات میں جنگ کا سامنا اپنوں کی قربانیاں بھائی ،بھتیجے، بیٹے، شیر خوار بچے کالاشہ اٹھا کر اپنی ثابت قدمی کا امتحان جو امام حسین نے دیا ، دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔کربلا کی دھرتی پر آپ کی قربانی نے شہادت کا وہ بے نظیر باب قائم کیا کہ شہادت کو بھی آپ کی شہادت پر رشک آتا ہے

امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ  صرف شجاعت و جواں مردی، تسلیم و رضا  اور صبر و استقامت کے پیکر جمیل ہیں بلکہ سخاوت اور فیاضی کے ایسے دریا بھی ہیں جس سے رہتی دنیا تک قافلے سیراب ہوتے رہیں گے ۔امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس جہت سے بھی امتیازی شان کے مالک تھے،آپ مسکینوں یتیموں حاجت مندوں اور محتاجوں کی حاجت روائی کرتے، منگتوں کو اپنے دولت کدے سے خالی واپس نہ کرتے ،سائلین کے ساتھ حسن سلوک فرماتے اور ان کی دعوت کو قبول کرتے اور ان کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے اور انھیں اپنے گھر دعوت پر بلاتے تھے اور گھر پر جو ہوتا اس سے دریغ نہیں کرتے تھے۔

آپ غلاموں اور باندیوں کی دین داری اور اچھے اخلاق و کردار کی بنا پر ان پر شفقت فرماتے اور رضاے الٰہی  کے لیے انھیں آزاد کردیتے۔ تاریخ مدینہ دمشق یہ روایت بھی مذکور ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی خدمت میں ایک کنیز کو بہت سارا مال اور عمدہ لباس کے ساتھ  بھیجا تو آپ نے قرآن کی بعض آیات کی تلاوت اور دینا و موت کے بارے میں بعض اشعار پڑھن پھر اسے آزاد کیا اور وہ مال بھی اسے عطا کیا۔ 

میدانِ کربلا میں امام عالی مقام نے جو جرأت، حوصلہ اور ثباتِ قدمی دکھائی، وہ رہتی دنیا تک غازیان اسلام کے سینوں میں نئی جان ڈالنے کا کام کرتی ہے اور انھیں ثابت قدمی کے ساتھ یزید وقت کے سامنے سینہ سپر ہونے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ امام حسین نے جب یزید کی بیعت کو ٹھکرایا، تو وہ جانتے تھے کہ یہ راستہ شہادت کی طرف جاتا ہے مگر وہ جھکے نہیں۔ یہ وہ شجاعت ہے جو صرف جسمانی طاقت سے نہیں، بلکہ روحانی بلندی سے پیدا ہوتی ہے۔

کون نہیں جانتا کہ دس محرم کی صبح آپ کے لیے کتنی مشقت آمیز تھی، یکے بعد دیگرے آپ کے جاں نثار اور اہل بیت نبوت کے مہکتے پھول جام شہادت نوش کرتے رہے،دشمن کی افواج کا سمندر سامنے تھا، ہر طرف نیزے، تیغیں، تیروں کی بارش،مگر امام حسین کا چہرہ مثلِ خورشید دمک رہا تھا ،آپ کے پاے ثبات میں ذرہ برابر جنبش نہ آئی اور پورے حوصلہ اور استقلال کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کرتے رہے ، بالآخر یزیدیوں نے چاروں طرف سے نرغے میں لے کر یکبارگی حملہ کیا زخموں سے چور ہوکر امام گھوڑے سے اترے رب کریم کی بارگاہ میں آخری سجدہ کیا اور اسی حالت میں جام شہادت نوش کیا ۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved