30 July, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia August 2025 Download:Click Here Views: 217 Downloads: 18

(9)-موبائل بچوں کے لیے دودھاری تلوار

چراغ خانہ

محمد شاہد علی مصباحی

آج کل دنیا ایک دیجیٹل گاؤں بن چکی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے چلتے علم و آگہی کی ندیاں ہر کس و ناکس کی انگلیوں کی پوروں پر بہہ رہی ہیں۔ ہمارے ہاتھوں میں پائے جانے والے معمولی سے موبائل فون نے رابطے کی دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔

یہ ایک چھوٹا سا آلہ، جو ابتداءً محض گفتگو کا ذریعہ تھا، وہ آج علم، تجارت، تفریح کے ساتھ ہر طرح کے مواد کا محور بن چکا ہے۔ مگر جیسے ہر پھول کے ساتھ کانٹا، ہر چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے، ویسے ہی موبائل کی روشن نظر آنے والی دنیا بھی بعض اوقات بچوں کی معصومیت کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔

موبائل فون سے ہونے والے نقصانات:

بچپن، زندگی کا وہ سنہرا دور ہوتا ہے جس میں خیالات کا آسمان نیلگوں اور جذبات کا سمندر شفاف ہوتا ہے۔ مگر جب انھی  ننھے ذہنوں پر موبائل کی رنگین دنیا کی چکاچوند چھا جاتی ہے، تو یہ روشنی بعض اوقات آنکھوں کی بینائی، ذہن کی پاکیزگی اور دل کی معصومیت کو چٹ کر جاتی ہے۔

موبائل کے استعمال کا سب سے پہلا اور نمایاں نقصان بچوں کی جسمانی صحت و تندرستی کو پہنچتا ہے۔ گھنٹوں اسکرین پر نظریں گاڑنے سے جہاں آنکھوں کی بینائی متاثر ہوتی ہے وہیں گردن اور ریڑھ کو نقصان پہنچتا ہے، نیند کی مقدار متأثر ہوتی ہے ، اور سب سے بڑھ کر حرکت و ورزش کے ساتھ باہری اور میدان کے کھیلوں کا رجحان ختم ہو جاتا ہے۔ جو جسمانی کمزوری اور طرح طرح کی بیماریوں کی دعوت کا ذریعہ بنتا ہے۔

دوسرا بڑا نقصان بچے کے نفسیاتی پہلوؤں پر پڑتا ہے۔ موبائل گیمز اور سوشل میڈیا کے نشے میں چور بچہ نہ صرف بد مزاج اور چڑچڑا ہوجاتا ہے بلکہ موبائل کے ساتھ تنہائی پسند اور جذباتی طور پر غیر متوازن ہو جاتا ہے۔

انٹرنیٹ کی دنیا میں موجود نامناسب مواد بچوں کے اخلاق و کردار کو دیمک کی طرح چاٹتا ہے۔

بچے کی نشوونما کا وہ قیمتی وقت جو تخلیقی سرگرمیوں، مطالعہ، گھر والوں کے ساتھ باہمی تعلقات یا ریاضتی کھیلوں میں صرف ہونا چاہیے تھا، وہ موبائل فون کی اسکرین کی کبھی نہ ختم ہونے والی اسکرولنگ کے بھنور کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔

مشہور محاورہ ہے: ”خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے“۔ ٹھیک اسی طرح بچے موبائل پر جو  دیکھتے ہیں، اس کا اثر ان کی سوچ، بول چال اور رویے میں صاف دیکھا جاسکتا ہے۔

اور اس طرح موبائل فون موبائل بچوں کے معصوم بچپن کے تعمیری خیالات کی دیوار کی بنیاد کو ٹھوس اور پائدار زمین دینے کے بجاے  ظاہر و باطن کا فرق رکھنے والے دلدل نما مقام پر لا چھوڑتا ہے  — اور اگر بنیاد دلدل پر رکھی گئی ہو تو عمارت کا انجام بتانے کی ضرورت نہیں...

بچاؤ کے لیے کیا کر سکتے ہیں ؟ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس مسئلے کا حل تلاش کریں، نہ کہ صرف تنقید پر اکتفا کریں۔ سب سے پہلے تو والدین کو بیدار مغز اور ہوشیار ہونا ہوگا اور انھیں  بچوں کے لیے فون کتنا مفید اور کتنا مضر ہے یہ بخوبی سمجھنا ہوگا۔

بچوں کو موبائل تھما کر ان کی نگرانی نہ کرنا ایسا ہی خطرناک ہے جیسے بچوں کو جنگلی درندوں اور خوبصورت مناظر سے بھرے جنگل میں تنہا چھوڑ کر چلا آنا۔ مگر آپ جب بچوں کو جنگل کی خوبصورتی دکھانے جاتے ہیں تو جنگلی جانوروں اور خطرناک مقامات سے حفاظت کے انتظام و انصرام کے ساتھ جاتے ہیں۔ تو بچے کو موبائل فون تھما کر ہم کیوں بچے کو نقصان پہنچانے والے خطروں سے بے خبر ہوکر خواب خرگوش کے مزے لیتے نظر آتے ہیں ؟

بحیثیت والد/والدہ/سرپرست ہماری ذمہ داری ہے کہ  بچوں کے لیے موبائل کے استعمال کا ایک معینہ وقت مقرر کریں، اور صرف تعلیمی یا مثبت تفریحی مواد تک رسائی دیں۔ اس کے لیے آپ پلے اسٹور پر موجود متعدد ایپلیکیشنز کا سہارا لے کر بچوں کی فون کی سرگرمیوں کو نہ صرف دیکھ سکتے ہیں بلکہ کنٹرول بھی کر سکتے ہیں، مگر جن کے پاس وقت ہے ان کے لیے خود نگرانی زیادہ مناسب ہوگی۔

اپنے بچوں کو آؤٹ ڈور و ان ڈور کھیل، مطالعہ، قصہ گوئی، فنون لطیفہ اور خاندانی گفتگو جیسے مشغلوں میں مصروف رکھیں تاکہ بچے موبائل کی لت سے بچے رہیں۔

بچے وہی سیکھتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں۔ اگر والدین خود موبائل کے عادی ہوں، تو بچوں کو روکنا محال ہو جاتا ہے۔ لہذا والدین کو چاہیے کہ بچوں کے سامنے صرف ضروری امور کے لیے ہی موبائل استعمال کریں، بے وجہ اسکرولنگ وغیرہ سے پرہیز کریں۔

ٹیکنالوجی کے مثبت پہلوؤں کا استعمال وقت کے ساتھ چلنے کے لیے ضروری ہے۔ لہذا موبائل کو دشمن بنانے کے بجاے  دوست بنائیں۔ اور اس میں تعلیمی ایپس، تعلیمی کارٹون، اسلامی کہانیاں، یا سائنسی تجربات کی ویڈیوز کے ساتھ بچے کی دلچسپی کا لحاظ کرتے ہوے دیگر مثبت مواد سے بچوں کی بہتر ذہنی نشوونما کی جا سکتی ہے۔

کسی نے کہا تھا کہ: ”موبائل کو صرف سہولت سمجھیں، وقت کی نزاکت کا حوالہ دیتے ہوے اسے عبادت نہ بنا لیں“۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ: ”زیادہ روشنی بھی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے“۔ بچوں کو موبائل کے نا پیدا کنار سمندر میں غوطہ لگانے کی اجازت دینے کا ارادہ کر ہی لیا ہے تو، انھیں بصیرت، فہم اور توازن کے ساتھ تیرنا سکھانا ہوگا۔ تاکہ وہ کل کے چراغ بن کر قوم کی رہنمائی کر سکیں، نہ کہ خود اندھیرے میں گم ہو جائیں

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved