حفظان صحت
ڈاکٹر ام فرح (ایم ڈی)
یونانی طب، جسے ”یونانی طریقۂ علاج“ بھی کہا جاتا ہے، دنیا کے قدیم ترین اور جامع ترین طبی نظاموں میں سے ایک ہے۔ اس کا آغاز قدیم یونانی طب سے ہوا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں فارسی، عربی اور ہندوستانی طبی روایات کے اصول بھی شامل ہوتے گئے۔ ”یونانی“ لفظ عربی زبان سے ماخوذ ہے، جو اس نظام کے یونانی پس منظر کو ظاہر کرتا ہے۔ آج یونانی طب دنیا کے کئی ملکوں میں رائج ہے، خاص طور پر برِّصغیر (ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش)، مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے کچھ حصوں میں۔
یونانی طب کی ابتدا اور ارتقاء:
یونانی طب کی ابتدا قدیم یونانی طبیب بقراط (Hippocrates) سے منسوب ہے، جنھیں مغربی طب کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا نظریہ تھا کہ انسانی صحت کا انحصار جسم کے چار اہم اخلاط — خون، بلغم، صفرا اور سودا — کے توازن پر ہوتا ہے۔ اگر ان میں عدم توازن پیدا ہو جائے تو بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔
یونانی طب کو بعد میں کئی اسلامی علما نے مزید ترقی دی، جن میں ابنِ سینا، الرازی اور ابن القف جیسے مشہور نام شامل ہیں۔ ابنِ سینا کی کتاب ”القانون فی الطب“، جو گیارہویں صدی میں لکھی گئی، یونانی طب کی ایک نہایت اہم کتاب ہے، اس میں بیماریوں کی تفصیلات، تشخیص اور علاج کے طریقے درج ہیں۔ قرونِ وسطیٰ کے دور میں یہ نظام عرب دنیا، فارس اور جنوبی ایشیا میں پھیلا، جہاں اس نے مقامی طبی علوم اور روایات کو بھی اپنے اندر جذب کر لیا۔
طب کا یونانی تصور:
یونانی اطبا کا ماننا ہے کہ انسانی جسم کی صحت ایک مخصوص قوت کے ذریعے قائم رہتی ہے جسے طبیعت یا قوّتِ مدبّرۂ بدن )جسے لاطینی میں Medicatrix Naturae کہا جاتا ہے) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی فطری طاقت ہے جو انسان کو اُس کے خالق کی جانب سے ودیعت کی گئی ہے۔ طبیعت کا تصور محض جسم کے مدافعتی نظام سے کہیں زیادہ وسیع ہے، یہ نہ صرف جسمانی نظاموں کو کنٹرول اور منظم کرتی ہے بلکہ انھں بحال بھی کرتی ہے اور جسم کی قوتِ مدافعت کو بڑھا کر بیماریوں کے خلاف مزاحمت میں مدد دیتی ہے۔ جب یہ فطری قوت دبا دی جاتی ہے تو بیماری پیدا ہوتی ہے۔
لہٰذا، یونانی طبیب کا کام یہ ہے کہ وہ ایسے طریقے اور علاج استعمال کرے جو جسم کی اپنی فطری شفایابی کی صلاحیت (طبیعت) کو ابھاریں۔ یہ عمل حرارتِ غریزیہ (یعنی جسم کی داخلی زندگی بخش قوت) کو متحرک کر کے ممکن ہوتا ہے، جو بیماری کی حالت میں کمزور پڑ جاتی ہے اور انسان کو ماحول یا دیگر مضر اثرات کے مقابلے میں کمزور بنا دیتی ہے۔
یونانی طب کے بنیادی اصول:
یونانی طب کے مطابق، انسانی جسم ایک وحدت (یعنی اکائی) ہے جو سات عناصر پر مشتمل ہے جنھیں ” امورِ طبیعہ“ کہا جاتا ہے۔ یہ سات اجزا درج ذیل ہیں:
1-ارکان (عناصر) 2-مزاج (طبیعت) 3-اخلاط (بدن کے رطوباتی اجزاء)
4-ارواح )(زندگی بخش قوتیں( 5-اعضاء (جسمانی اعضا) 6-قویٰ (صلاحیتیں یا قویٰ)
7-افعال ( افعالِ جسمانی(
یونانی فلسفہ کے مطابق، جسم چار بنیادی عناصر؛ خاک، ہوا، پانی، اور آگ سے مل کر بنا ہے۔ ان عناصر کے اپنے اپنے مزاج ہوتے ہیں:
خاک: سرد و خشک ہوا: گرم و تر پانی: سرد و تر آگ: گرم و خشک
جب یہ عناصر آپس میں ملتے ہیں تو ایک نیا مرکب وجود میں آتا ہے جس کا مزاج ان کی آمیزش کے مطابق ہوتا ہے، جیسے کہ: گرم تر، گرم خشک، سرد تر، سرد خشک۔
جسم میں موجود سادہ اور مرکب اعضا اپنی غذا چار اخلاط کے ذریعے حاصل کرتے ہیں:
دم (خون) – گرم و تر بلغم – سرد و تر صفرا – گرم و خشک سودا – سرد و خشک
ہر انسان کا ایک مخصوص مزاج ہوتا ہے جو اس کے جسم میں پائے جانے والے اخلاط کے غالب ہونے پر منحصر ہوتا ہے، اور یہی مزاج اُس کی صحت کی نمائندگی کرتا ہے۔ انسان کے مزاج کی چار بڑی اقسام ہیں:
دموی (Sanguine) بلغمی (Phlegmatic) صفراوی (Choleric)سوداوی (Melancholic)
یونانی طبیب کے نزدیک صحت اُس وقت حاصل ہوتی ہے جب اخلاط اور جسم کے افعال میں مکمل توازن ہوتا ہے۔ اس توازن کو قائم رکھنے کے لیے جسم میں ایک فطری قوت موجود ہوتی ہے جسے قوّتِ مدبّرۂ بدن کہا جاتا ہے۔ جب یہ قوت کمزور پڑتی ہے تو اخلاط کے توازن میں کمی یا زیادتی آ جاتی ہے، یا ان کی نوعیت بدل جاتی ہے، جس کے نتیجے میں جسمانی نظام متاثر ہوتا ہے اور بیماری پیدا ہوتی ہے۔
یونانی طبیب کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ بیماری کی بنیادی وجہ — یعنی اخلاط کے بگاڑ — کو تلاش کرے تاکہ اُسے درست کر کے صحت بحال کی جا سکے۔ اخلاط کا بگاڑ بیرونی عوامل (جیسے چوٹ، ناقص غذا، موسم وغیرہ) یا اندرونی عوامل (جیسے ناقص ہضم) یا دونوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔
اخلاطی بیماریوں کی علامات:
غلبۂ خون (Sanguine Humour):جب جسم میں خون کی زیادتی ہو جائے تو جلد سرخی مائل ہو جاتی ہے، رگیں نمایاں ہو جاتی ہیں، نبض بھری ہوئی محسوس ہوتی ہے اور پیشاب گاڑھا اور رنگ دار ہو جاتا ہے۔ مریض کو سانس لینے میں دقت، سردرد اور خواب میں خون دیکھنے کی شکایت ہوتی ہے۔
غلبۂ بلغم (Phlegm Humour):جب جسم میں بلغم کی زیادتی ہو تو جلد سفید اور ٹھنڈی ہو جاتی ہے، نبض دھیمی اور گہری ہو جاتی ہے، پیشاب گاڑھا اور بے رنگ ہوتا ہے۔ مریض بھولنے، بھوک کی کمی، زیادہ نیند، سستی اور خواب میں پانی دیکھنے کی شکایت کرتا ہے۔
غلبۂ صفرا (Choler Humour):صفرا کے غلبے کی صورت میں جلد زردی مائل ہو جاتی ہے، نبض معمول سے تیز ہو جاتی ہے اور پیشاب گہرے رنگ کا ہوتا ہے۔ مریض بلا وجہ چڑچڑا محسوس کرتا ہے اور اسے سر درد، نیند کی خرابی، حلق میں کڑواہٹ اور خواب میں آگ، بجلی، غصہ اور لڑائی جھگڑے کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔
غلبۂ سودا (Melancholer Humour):جب جسم میں سودا کی زیادتی ہو جاتی ہے تو جلد کھردری ہو جاتی ہے، نبض کمزور ہو جاتی ہے اور پیشاب پتلا ہو جاتا ہے۔ مریض کو بھوک کی کمی اور حلق میں کھٹاس کی شکایت ہوتی ہے۔ مریض بے معنی خیالات میں الجھا رہتا ہے اور بلاوجہ خوف محسوس کرتا ہے۔
اخلاط میں عدم توازن کی چار صورتیں ہوتی ہیں:
علاج:
یونانی طب میں تشخیص کے لیے جن امور کا جائزہ لیا جاتا ہے ان میں نبض کی رفتار، قوت، وسعت اور گہرائی، اور پیشاب و پاخانے کا رنگ، بو، مقدار اور اجزا شامل ہیں۔ ساتھ ہی پیشاب میں موجود ذرات کا بھی مشاہدہ کیا جاتا ہے۔
جب مرض کی وجہ کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یونانی طبیب علاج کا آغاز ایسی خوراک (اغذیہ) یا دوا (ادویہ) تجویز کرکے کرتا ہے جن کا مزاج متاثرہ عضو یا نظام کی غیر معمولی حالت کے برعکس ہوتا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ ہر یونانی غذا یا دوا کا اپنا مخصوص مزاج ہوتا ہے جسے مزاجِ غذا یا مزاجِ دوا کہا جاتا ہے۔
یونانی طب میں علاج کی مختلف اقسام درج ذیل ہیں:
علاج بالغذا:اس طریقہ علاج میں مخصوص بیماریوں کو خوراک کے ذریعے قابو میں لایا جاتا ہے اور خوراک کے معیار و مقدار کو منظم کیا جاتا ہے۔
علاج بالتدبیر:اس میں وہ طریقے شامل ہیں جیسے فصد (خون نکالنا)، حجامہ (کپنگ)، تعریق (پسینہ لانا)، ادرار البول (پیشاب آور علاج)، غسل، مالش، داغ دینا، مسہل، قے دلانا، ورزش، اور جونکیں لگانا وغیرہ۔
علاج بالدوا:اس میں قدرتی طور پر پائی جانے والی ادویات شامل ہوتی ہیں جو پودوں، حیوانات اور معدنیات سے حاصل کی جاتی ہیں اور تنہا یا مرکب صورت میں استعمال ہوتی ہیں۔
علاج بالید:یہ علاج تب تجویز کیا جاتا ہے جب مرض بہت زیادہ بڑھ جائے اور دیگر طریقے ناکافی ہوں۔
مناسب طریقۂ علاج کا انتخاب صحت کی عمومی حالت سے انحراف کی شدت پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر بیماری کی شدت کم ہو تو صرف غذا سے علاج کافی ہوتا ہے۔ لیکن اگر انحراف زیادہ ہو اور غذا سے مکمل افاقہ نہ ہو تو دوا کے ساتھ علاج کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات تدبیری علاج اور جراحی (آپریشن) بھی غذا اور دوا کے ساتھ ضروری ہوتے ہیں۔
علاج بالغذا:اگر کسی بیماری کا علاج صرف غذا کے ذریعے ممکن ہو تو دوا کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اکثر امراض مخصوص غذاؤں کے استعمال یا خوراک کی مقدار و معیار کو منظم کر کے بخوبی ٹھیک کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً، ٹھنڈا پانی ان افراد کے لیے مفید ہوتا ہے جن کا مزاج گرم ہو، لیکن وہ افراد جن کا مزاج سرد و تر ہو، ان کے لیے یہی پانی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
اسی طرح، اگر مریض کو زیادہ پیاس لگتی ہو، جو کہ گرم مزاج کی علامت ہے، تو ایسی غذا استعمال کی جائے جس کا مزاج سرد ہو، جیسے کُھرفہ (Portulaca oleracea)۔ لیکن اگر مریض کو سردی کی وجہ سے کھانسی (سعال) ہو رہی ہو تو ایسی ٹھنڈی غذائیں اس کی حالت کو مزید بگاڑ سکتی ہیں، اور گرم مزاج والی غذا مریض کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو گی۔
بعض غذائیں اپنی غذائیت کے علاوہ دواؤں جیسے اثرات بھی رکھتی ہیں، مثلاً چقندر (Beta vulgaris) کو بطور مُلیّن (قبض کشا) استعمال کیا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں، اگر انسانی جسم کے کسی خاص عضو میں کمزوری ہو تو اُسی عضو کا جانور سے ماخوذ جز استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسے گردوں کے مریضوں کے لیے بکری کے گردے کی یخنی مفید سمجھی جاتی ہے، خاص طور پر دائمی گردوں کی خرابی کی صورت میں۔
علاج بالدوا:اگر مرض کی شدت معمولی سطح سے کہیں بڑھ چکی ہو اور صرف غذا کے ذریعے علاج ممکن نہ ہو تو پھر دوا کے ساتھ علاج بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ یہ ادویات نباتات، معدنیات یا حیوانات سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ یونانی اطباء نے دوا کے استعمال سے متعلق چند اصول بیان کیے ہیں:
مزاجِ دوا:یونانی طب کے مطابق ہر دوا کا ایک مخصوص مزاج ہوتا ہے، جو اس کے اجزاء کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے۔ دوا کا مزاج عام طور پر پانچ قسموں میں بیان کیا جاتا ہے: گرم، سرد، خشک، تر، اور بعض اوقات معتدل (neutral)۔ ایک دوا ایک وقت میں مثلاً گرم و خشک، گرم و تر، سرد و خشک یا سرد و تر ہو سکتی ہے۔
کسی مرض میں جو دوا استعمال کی جائے، اس کا مزاج اس عضو کے مزاج کے برعکس ہونا چاہیے جو اس بیماری کا سبب بن رہا ہو۔
درجاتِ دوا:یہ چاروں مزاجی اقسام (گرم، سرد، تر، خشک) مزید چار درجات میں تقسیم کی جاتی ہیں: پہلا درجہ سب سے کمزور ہوتا ہے جب کہ چوتھا درجہ سب سے زیادہ طاقتور۔
مثال کے طور پر افیون کا لعاب (لیٹکس) مزاج کے لحاظ سے سرد چوتھے درجے کا اور خشک چوتھے درجے کا ہوتا ہے، جبکہ اسی پودے کا پھل پوستِ خشخاش مزاج میں سرد دوسرے درجے کا اور خشک دوسرے درجے کا سمجھا جاتا ہے۔
دوا کی درجہ بندی کا انتخاب مرض کی شدت کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ اگر بیماری شدید ہو تو زیادہ درجے والی دوا تجویز کی جاتی ہے۔
علاج بالتدبیر:یونانی اطبا سادہ جسمانی طریقوں سے بیماری کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم بعض مخصوص اور پیچیدہ امراض کے لیے خاص طریقہ کار تجویز کیے گئے ہیں۔ یہ طریقے علاج بالغذا اور علاج بالدوا کے ساتھ معاون طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ چند مشہور تدابیری طریقۂ علاج درج ذیل ہیں:
ریاضت (Exercise):کسی بھی قسم کی جسمانی مشق — چاہے وہ سخت ہو، درمیانی ہو یا ہلکی — جسم پر مختلف اثرات مرتب کرتی ہے۔ درمیانی درجے کی ریاضت حرارتِ غریزیہ (یعنی جسم کی داخلی قوتِ حیات) کو بڑھاتی ہے، فضلات کو پیشاب، پاخانے یا پسینے کے ذریعے جسم سے خارج کرتی ہے، اعضاء کو مضبوط بناتی ہے اور بھوک کو تیز کرتی ہے۔
دَلک (Massage):جسم کے نرم خارجی حصوں پر دباؤ ڈالنے یا رگڑنے کے مختلف طریقے، جیسے ہاتھ یا کسی کھردرے کپڑے سے مالش کرنا، چٹکیاں لینا، دبانا، تھپتھپانا، لرزانا یا حرکات دینا، یہ سب دَلک میں شامل ہیں۔ یہ عمل تیل، کریم، لوشن، مرہم یا کسی اور مشابہ مواد کے ساتھ یا بغیر بھی کیا جا سکتا ہے۔یونانی طب میں مختلف اقسام کی مالش کی تفصیل دی گئی ہے، مثلاً:سخت مالش،نرم مالش، طویل مالش،معتدل مالش
یہ تھراپی دورانِ خون، لمفی نظام، عضلاتی نظام، ہڈیوں اور اعصابی نظام کی کارکردگی کو بہتر بناتی ہے اور چوٹ یا بیماری سے صحت یابی کے عمل کو تیز کرتی ہے۔مالش عضلات کو ڈھیلا کرتی ہے، دورانِ خون بڑھاتی ہے اور جسم سے فاضل مادوں کو خارج کرتی ہے۔یہ طریقہ علاج ان بیماریوں یا کیفیات میں مفید ہے جیسے بےچینی، تناؤ، ڈپریشن، بے خوابی، ذہنی دباؤ، کمر درد، سر درد، پٹھوں کا درد اور بعض دائمی درد کی اقسام۔
فصد-خون نکالنا:یہ ایک جراحی (سرجیکل) عمل ہے جس میں کسی خون کی رگ، خصوصاً ورید (vein)، کو چاقو یا مخصوص آلہ سے چیر کر زائد یا فاسد خون نکالا جاتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے خون کی رگ میں موجود غیر معمولی یا فاسد اخلاط کو متناسب انداز میں خارج کیا جاتا ہے۔
حجامہ:یہ طریقہ مقامی فاسد مادوں کو خارج کرنے یا ان کے بہاؤ کو دوسری طرف منتقل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں کسی بیمار حصے کی جلد پر سینگ یا پیالہ اس طرح چپکا دیا جاتا ہے کہ اندر منفی دباؤ (vacuum) پیدا ہو جائے، جس کے لیے عام طور پر حرارت یا سکشن استعمال کی جاتی ہے۔ماضی میں سینگ استعمال ہوتے تھے، اب ان کی جگہ شیشے کے کپ استعمال کیے جاتے ہیں، اسی لیے اب اس عمل کو "کپنگ" (Cupping) کہا جاتا ہے۔
تعلِیق یعنی جونک لگانا:یہ ایک انوکھا اور مؤثر طریقہ ہے جس میں جونک کے ذریعے جسم سے موادِ فاسدہ (یعنی فاسد مادے) کو نکالا جاتا ہے۔ خاص طور پر جلدی اور سوزشی بیماریوں میں یہ طریقہ بہت مفید سمجھا جاتا ہے۔
کیٔ - داغ دینا:یہ ایک مؤثر طریقہ علاج ہے جس کے ذریعے مختلف مسائل کا علاج کیا جاتا ہے، مثلاً:ناسور اور زخموں کا خاتمہ، سڑنے والے مادوں کو نکالنا،خون کے بہاؤ کو روکنا۔
یونانی اطبا نے ”مِکو“ (Cauterant) یعنی داغنے والے آلے کو سونے سے تیار کرنے کو ترجیح دی ہے۔
یہ طریقہ جلد کے زخم، مسّے، تل یا دیگر نمو جیسے مسائل کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
علاج بالید -جراحی:یونانی اطبا نے جراحی (سرجری) کے مختلف طریقوں کی مفصل وضاحت کی ہے۔ جب تمام دیگر طریقہ ہائے علاج ناکام ہو جائیں یا مؤثر ثابت نہ ہوں تو پھر جراحی کا سہارا لیا جاتا ہے۔
یونانی طب کا جدید طب میں کردار:اگرچہ یونانی طب کی جڑیں قدیم زمانے میں پیوست ہیں، لیکن آج بھی یہ کئی ممالک، خصوصاً ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں رائج اور مقبول ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) نے اسے تسلیم کیا ہے اور ہندوستان میں یہ نیشنل رورل ہیلتھ مشن (National Rural Health Mission) کا حصہ بھی ہے۔یونانی طب اکثر جدید طب کے ساتھ معاون یا تکمیلی علاج کے طور پر استعمال کی جاتی ہے، خاص طور پر دائمی امراض (chronic diseases) اور احتیاطی تدابیر کے طور پر۔ یہ ایک متبادل یا تکمیلی علاج فراہم کرتی ہے، جس کی بنیاد شخصی توجہ، قدرتی ادویات اور طرزِ زندگی میں بہتری پر ہے۔
یونانی طریقہ علاج ایک منفرد اور جامع (holistic) نقطۂ نظر فراہم کرتا ہے، جس کی بنیاد اخلاط کے توازن، قدرتی ادویات کی افادیت اور جسم، ذہن اور روح کی باہمی ہم آہنگی پر ہے۔اگرچہ آج کے دور میں یہ بعض چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، مگر اس کا علمی ورثہ اور تکمیلی علاج کی صلاحیت اسے آج بھی دنیا بھر کے نظامِ صحت میں ایک اہم مقام عطا کرتی ہے۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org