30 July, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia August 2025 Download:Click Here Views: 251 Downloads: 18

(7)-مبارک پور کی معاشی و معاشرتی تاریخ

یاد ماضی                                                     آخری قسط

 

مہتاب پیامی

اس مقدمے میں کچھ ایسے نامور تاجروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا، جن کی تجوریاں لبریز تھیں، مگر دل خالی۔ الزام یہ تھا کہ انھوں نے دانستہ طور پر اناج کو گوداموں میں قید رکھا، بازار میں قلت پیدا کی، اور بھوکی نگاہوں کو قیمتوں کے طمانچے کھانے  پر مجبور کیا۔ ان کے لیے غلہ محض ایک شے تھی، جس کی رسد و طلب کا کھیل منافع کا ذریعہ تھا، جب کہ عوام کے لیے وہ زندگی کا سہارا تھا۔

عدالتوں میں بیانات دیے گئے، سرکاری افسران نے فائلوں پر مہریں لگائیں، اور اخباروں میں شہ سرخیاں بنیں۔ حکومت نے راشن کارڈ، کنٹرول نرخ اور نگرانی کے قوانین کا اعلان کیا، مگر” جہاں بھوک سوال بن جائے، وہاں ضابطے جواب نہیں بنتے“۔

”غلہ کیس“ اپنی تمام تر قانونی موشگافیوں کے باوجود، ایک آئینہ تھا — ایسا آئینہ جس میں نوآبادیاتی معاشی نظام کی بدصورتی، سرمایہ داری کی بےحسی، اور عوامی بےبسی عیاں تھی۔یہ محض ایک مقدمہ نہ تھا بلکہ ایک تہذیبی المیہ تھا جہاں کچھ انسانوں نے اناج کے دانوں کو سونے کی طرح تولا، اور دوسرے انسان اپنی بھوک کا مول بھرتے رہے۔ غلہ کیس، بمبئی کے تاریخ کے صفحات میں ایک ایسی سطر ہے، جو نہ صرف قانون، بلکہ اخلاق، معیشت اور انسانیت کے دائرے میں ہمیشہ سوال بن کر زندہ رہے گی۔

”غلہ کیس“ اور بوہروں کی اندرونی کشمکش:

بمبئی کا مذکورہ ”غلہ کیس“  بوہری جماعت کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ ملا رحمت علی مبارک پور ی اور ملا سیف الدین کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوا، جس میں بمبئی کے ملا سیف الدین نے نے ”غلہ کیس“ کا حوالہ دیتے  ہوئے مبارک پور کے بوہروں کے لیے مالی امداد بند کروادی۔ نتیجتاً، ملا رحمت علی کو بمبئی سے نکل کر مبارک پور میں پناہ لینی پڑی۔ یہ واقعہ نہ صرف مذہبی قیادت کی داخلی تقسیم کا غماز تھا بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ مذہبی تنازعات صرف عقائد تک محدود نہیں، بلکہ وہ معاشی مفادات اور سیاسی اثر و رسوخ کے دائرے میں بھی داخل ہو چکے تھے۔

تعلیم کا متوازی نظام:

مدارس کے ساتھ ساتھ گھریلو تعلیم کا نظام بھی مبارک پور کی علمی فضا کا اہم حصہ رہا ہے۔ بزرگ حضرات گھروں سے قرآن، اردو، عربی اور فارسی کی تعلیم دیا کرتے، جب کہ خواتین بھی محلے کے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتیں، خود میرا بھی معاملہ ایسا ہی رہا۔ میری والدہ محترمہ نے مجھے قرآن مجید ناظرہ کی تعلیم دی اور اردو ہندی کی ابتدائی کتابیں بھی مجھے انھی سے پڑھنے کا شرف حاصل ہے۔ یہ روایتی نظام آج بھی اس معاشرتی نقش کا حصہ ہے جہاں تعلیم صرف اداروں تک محدود نہ تھی، بلکہ گھروں کی دہلیز پر بھی علم کے چراغ روشن کیے جاتے تھے۔ ان دہلیزوں پر روشن ابتدائی تعلیم  کے چراغ نہ صرف علم کی منتقلی کا ذریعہ بنے بلکہ ایک اجتماعی شعور کی بیداری کا سبب بھی۔ گھروں سے دی جانے والی یہ تعلیم خاص طور پر لڑکیوں کے لیے روشنی کی کرن ثابت ہوئی، جنھیں رسمی تعلیمی اداروں میں رسائی حاصل نہ تھی، ان کی ابتدائی تربیت انھی تعلیم یافتہ خواتین کے ذریعے ہوئی، جو مذہب، اخلاق، اردو، عربی اور فارسی کی تعلیم اپنے گھروں کی چار دیواری کے اندر دیتی تھیں۔

قرآن مجید کو زبانی یاد کرنے والے حافظ حضرات بھی گھروں ہی سے تعلیم دیتے، اور یہ نظام خالصتاً مذہبی اقدار کے گرد گھومتا تھا۔ یہ وہ فکری ماحول تھا جہاں معاشرتی تربیت اور دینی شعور، تعلیم کے بنیادی ستون تھے۔ فارسی ادب پر مہارت رکھنے والوں کو ”میاں صاحب“  کہا جاتا، جو معاشرے میں علمی مقام کے حامل سمجھے جاتے۔ مبارک پور اب محض ایک قصبہ نہ رہا، بلکہ ایک نوخیز اسلامی مرکز میں ڈھلنے کی کوشش میں مصروف تھا، جہاں تعلیم، مذہب اور سماجی تنظیمیں ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی قوتیں تھیں۔

اسلامائزیشن اور تجارتی خودمختاری:

1920کی دہائی میں مذہبی اور سماجی احیا کے یہ آثار تجارتی میدان میں بھی نمایاں ہونے لگے۔ مبارک پور کی مسلم کمیونٹی نے نہ صرف مذہبی اداروں کو مضبوط کیا، بلکہ تجارتی اتحادوں پر بھی نظر ثانی کی۔ ”اسلامائزیشن“ اب محض وضع قطع یا رسوم و عبادات کی حد تک محدود نہ رہا، بلکہ اس نے معیشت، معاشرت اور قیادت کی از سرِ نو تشکیل کا آغاز کر دیا۔یہی وہ دور تھا جب ہندو تاجروں اور ساہوکاروں کے ساتھ تجارتی روابط منقطع کرنے کی مہم شروع ہوئی۔ جمعہ، 12 دسمبر 1919 کو مبارک پور  کے قریب اٹھائیس مواضعات کے بنکر گاؤں گجہڑا میں جمع ہوئے اور فیصلہ کیا کہ آئندہ وہ بابو مہابیر، بابو لال اور کمتا پرساد اگروال سے ریشم اور دھاگے کا لین دین نہیں کریں گے۔ یہ اعلان تجارتی خودمختاری کی پہلی باقاعدہ دستک تھا۔

9 جنوری 1920 کو ایک پنچایت محلہ پورہ دلہن میں منعقد ہوئی، جہاں خلاف ورزی کرنے والوں پر جرمانے عائد کیے گئے۔ عبد المجید پر سب سے زیادہ 101 روپے کا جرمانہ لگایا گیا۔ 8 فروری 1920 کو گولا بازار میں پنچایت کے موقع پر بابو مہابیر چودھری نے اپنی دکان کھولی، جس پر انھیں 200 روپے کا جرمانہ اور 25 روپے پنچایت کے اخراجات کے طور پر ادا کرنے پڑے۔ اسی موقع پر سریاں گاؤں کے کریم بخش دلال کو دو سو روپے جرمانہ ہوا، دو گھنٹے کھڑا رکھا گیا، اور ”گوش مالی“ کی سزا دے کر معاف کر دیا گیا۔ تاہم، اسی گاؤں کے اسمٰعیل کے بیٹے صابر کو برادری سے بے دخل کر دیا گیا، جو ان فیصلوں کی شدت اور اثر پذیری کا غماز تھا۔

مقامی پنچایتیں، سیاست میں عوامی شمولیت کا نمونہ:

مذہبی اور تجارتی اداروں کے ساتھ ساتھ، مبارک پور میں پنچایتوں نے خود کو سماجی انصاف اور سیاسی تحریکوں کا مرکز بھی بنا لیا۔ عدم تعاون اور خلافت تحریکوں کے دوران ان پنچایتوں نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ جولائی 1921 میں پچری گاؤں کے باغ میں منعقد ہونے والی ”چوراسی“ پنچایت اسی سیاسی شعور کا مظہر تھی۔ اس پنچایت کو منشی یعقوب اور مولوی شبلی خیرآبادی نے طلب کیا تھا، جس میں چار افراد پر الزام عائد کیا گیا: احمد اللہ دلال، حاجی حسن، عبداللہ حاجی اور سبحان مہتر۔

یہ اجلاس 24 جولائی کو صبح 9 بجے شروع ہوا اور اگلی رات 8 بجے فیصلہ سنایا گیا۔ تین افراد پر جرم ثابت ہونے کے بعد احمد اللہ دلال پر 100 روپے، حاجی حسن اور حاجی عبداللہ پر 50-50 روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا، جسے خیرآباد کی خلافت کمیٹی کے فنڈ میں جمع کرایا گیا۔ سبحان مہتر کو معاف کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ اس قدر مؤثر تھا کہ خیرآباد کے عوام نے اسے نہایت تسلی بخش قرار دیا۔

احمد اللہ دلال، حاجی حسن اور حاجی عبداللہ نے خود کو سزا سے بچانے کے لیے ”افسرانِ قوم“  کو راضی کرنے کی کوشش کی، لیکن عوامی پنچایت کے سامنے یہ تدبیریں ناکام رہیں۔ 26 جولائی کی صبح 4 بجے یہ تاریخی پنچایت ملتوی ہوئی۔

کوپا گنج میں پنچایت کی فیصلہ کن کارروائی:

کوپا گنج میں، جب بعض شراب فروش ٹھیکےداروں نے عدم تعاون تحریک کے رضاکاروں پر سختی کی، تو پنچایت نے نہ صرف ان کے خلاف فیصلہ سنایا بلکہ انھیں جوتوں سے مارنے کی سزا بھی دی۔ یہی نہیں، بلکہ ان افراد کو کانگریس کی ضلعی کمیٹی میں اپیل کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنچایتیں صرف مقامی نظام انصاف تک محدود نہ تھیں بلکہ وہ قومی تحریکوں کی اخلاقی پشت پناہ بھی بن چکی تھیں۔

مبارک پور کا داخلی اضطراب:

جب خلافت اور عدم تعاون کی تحریکیں ہندوستان کے طول و عرض میں جوش و خروش سے گونج رہی تھیں، مبارک پور بھی اس سیاسی بیداری سے لاتعلق نہ رہا۔ تاہم، یہاں کی سیاست ایک الگ ہی رنگ لیے ہوئے تھی،یہ وہ رنگ تھا جس میں برادری کی پہچان، مذہبی وابستگی، ذاتی رنجشیں اور مفادات کی چالاک بساط ایک ساتھ بچھی ہوئی تھی۔

1922میں وہ لمحہ آیا جب برادری کی یکجہتی کے پردے چاک ہونے لگے۔ عدم تعاون اور خلافت تحریک جیسے قومی نظریات کے برعکس، مبارک پور کی سیاست میں ذاتی اور برادری کے مفادات غالب دکھائی دیے۔ ایک واقعے میں چھ بنکر  بابو بال کشن اگروال کی کپڑے کی دکان پر احتجاج کرنے کے جرم میں چھ ماہ کی قید با مشقت سزا کاٹنے پر مجبور ہوئے۔ یہ لمحۂ حیرت تھا، کیوں کہ ان کے خلاف گواہی دینے والے پانچ افراد بھی اسی برادری کے تھے۔

اس موقع پر عبدالمجید، جنھیں خود”سوراج“ یا خلافت تحریک سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی، نے مسلم اخوت کی بنیاد پر ان سزا یافتہ افراد سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ اُن کے الفاظ، ”یہ لوگ خود مسلمان ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں کو قید کروا رہے ہیں“ دراصل ایک داخلی اضطراب کی بازگشت تھے۔ یہاں ”مسلمان“ محض مذہب کا حوالہ نہ رہا، بلکہ ”انصاری“  کی شناخت کا استعارہ بن چکا تھا،جس سے واضح ہوا کہ برادری کے اندر فکری اور سماجی تقسیم اب ناقابلِ انکار حقیقت بن چکی ہے۔

مذہبی قیادت کی کشمکش:

مبارک پور کی مقامی سیاست کا ایک اور رنگ محمد امین گِرہست اور مولوی شکراللہ کی کشمکش سے اجاگر ہوتا ہے۔ امین گِرہست، ایک بااثر زمیں دار، اہل سنت و جماعت کے دَم دار رہنما اور طویل عرصے تک میونسپل بورڈ کے چیئرمین بھی تھے۔ان کے مدِمقابل دیوبندی مسلک کے علم بردار مولوی شکراللہ تھے، اپنے دور میں خلافت کمیٹی کے سیکریٹری اور ایک سخت گیر انسان تھے۔ اگرچہ ان کی نجی شناخت پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے ہیں لیکن ان کی سیاسی چالاکی اور خطیبانہ مہارت نے انھیں  مبارک پور کی دیوبندی جماعت کا نمایاں رہنما بنا دیا۔

1930 کی دہائی میں ان دونوں گروپوں کے درمیان اکثر جھڑپیں اور لاٹھی چارج کی نوبت آتی تھی۔ تاہم وہ وقت بھی آیا جب انھوں نے اپنی پسپائی قبول کر لی اور امین گرہست کو اچھا آدمی کہنے لگے۔

مقامی حکومت اور جدید نظام کا سامنا:

1929میں اعظم گڑھ ضلع کے تمام نوٹیفائیڈ علاقوں کو ٹاؤن ایریا میں بدلنے کی تجویز پر بحث نے مقامی سیاست کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ 30 جولائی 1930 کو مبارک پور کی نوٹیفائیڈ ایریا کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا، جس کی صدارت شیخ عبدالمجید نے کی۔ اراکین میں شیخ محمد امین، شیخ محمد شفیع اور بابو گنیش پرساد شامل تھے۔ اجلاس میں حکومت کو یاد دہانی کرائی گئی کہ مبارک پور 1908 سے نوٹیفائیڈ ایریا کے درجے پر فائز ہے، اور اس کی آبادی اب 12،500 نفوس پر مشتمل ہے۔یہ وہ دور تھا جب مبارک پور اپنی شناخت کی بازیافت کے سفر پر گامزن تھا، مگر یہ سفر داخلی تضادات، شخصی کشمکش اور سیاسی چالاکیوں سے لبریز تھا۔اس وقت  مبارک پور اپنی تاریخ کے ایک نازک دور سے گزر رہا تھا۔ برطانوی راج کے تحت مقامی نظم و نسق کے جو تجربے برسوں پہلے ”نوٹیفائیڈ ایریا“ کی صورت میں شروع ہوئے تھے، وہ اب نئے سوالات اور نئے امکانات کی طرف بڑھ رہے تھے۔ لیکن ہر تبدیلی اپنے ساتھ اختلاف، انتشار اور بعض اوقات غیرمتوقع تباہی بھی لے کر آتی ہے۔

1930میں نوٹیفائیڈ ایریا کمیٹی نے اپنی مدت کے اختتام تک، یعنی 1932 تک، موجودہ حیثیت برقرار رکھنے کی سفارش کی۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ پچھلے انتخابات کے بعد شکست خوردہ گروہ کے ساتھ پورا سال قانونی جنگ میں گزر چکا تھا، اور نظم و نسق کی کوئی مؤثر پیش رفت ممکن نہ ہو سکی۔ تاہم، کمیٹی کے اندرونی مباحث نے ایک اور رخ اختیار کیا جب زرعی علاقوں، خاص طور پر  املو جیسے گاؤں کی شمولیت پر بحث چھڑ گئی۔16 جولائی 1930 کو کمیٹی کے صدر کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں املو خاص کا ذکر بڑے معنی خیز انداز میں کیا گیا۔ یہ گاؤں، جو بنیادی طور پر زرعی تھا، اس کے دو محلے،پورہ محبت اور پورہ محمود،ریشمی صنعت میں مہارت رکھتے تھے، جہاں کی اکثریت بنکروں پر مشتمل تھی۔ قریبی دیہات جیسے  نوادہ، سریاں، رسول پور،  اور علی نگر بھی ریشمی کپڑا بنانے اور اس کی تجارت کرنے والوں سے بھرے ہوئے تھے۔چاں چہ، کمیٹی نے اکثریتی رائے سے مبارک پور کو ٹاؤن ایریا قرار دینے کی منظوری دے دی، لیکن یہ فیصلہ سب کے لیے قابلِ قبول نہ تھا۔ 2 اگست 1930 کو مبارک پور کے 95 باشندوں نے انگوٹھے کے نشانات ثبت کرتے ہوئے ایک درخواست ضلع مجسٹریٹ کو پیش کی، جس میں انھوں  نے کہا کہ ”اگرچہ موجودہ نوٹیفائیڈ ایریا کے ارکان اس تبدیلی کے خلاف ہیں، ہم مبارک پور کے عوام اسے خوش آئند سمجھتے ہیں، بشرطےکہ املو اور سکٹھی جیسے زرعی علاقے اس حدود سے باہر رکھے جائیں۔“

مقامی معیشت کا زوال اور گم ہوتی شناخت:

مبارک پور  کی معیشت اور انتظامی حیثیت کی نزاکت اُس وقت اور واضح ہو گئی جب 12 دسمبر 1929 کو ایس۔ ایم۔ جعفر، ٹاؤن مجسٹریٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ”یہ قصبہ زوال پذیر ہے“۔ 1928-29 کی آمدنی اگرچہ 6،883 روپے تھی، لیکن اقتصادی اور صنعتی سرگرمیاں ماند پڑ چکی تھیں۔ضلع مجسٹریٹ این۔ سی۔ مہتا نے 2 اپریل 1930 کو کمشنر گورکھپور کو رپورٹ پیش کی، جس میں صاف کہا گیا کہ ”مبارک پور  کی تجارت عرصۂ دراز سے ماند ہے اور اس کے احیا کی امید کم ہے۔“یہی رائے ٹاؤن ایریا کے درجہ دینے کے فیصلے کا جواز بنی۔

مگر 1940 کی دہائی میں وقت نے جیسے ایک اور کروٹ لی۔ نئے ضلع مجسٹریٹ نے اپنی معائنہ رپورٹ میں لکھا: ”ٹاؤن ایریا کا درجہ دینا ایک غلطی تھی، مبارک پور اب بھی اتنی اہم اور خوش حال جگہ ہے کہ اسے دوبارہ نوٹیفائیڈ ایریا بنایا جانا چاہیے۔“  اس کے باوجود سب ڈویژنل مجسٹریٹ نے اس خیال کو رد کر دیا اور کہا:”ٹاؤن ایریا کا درجہ ملنے کے بعد سے اس کی خوش حالی مزید گھٹ گئی ہے۔“

اُس وقت ریشمی صنعت، جو کبھی مبارک پور  کی پہچان تھی، اب فیشن سے باہر ہو چکی تھی، اور زری و ریشم کی بڑھتی قیمتوں اور بھاری ٹیکسوں نے باقی صنعت کو بھی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ آمدنی محض 3،200 روپے پر آ چکی تھی، اور انتظامیہ کے لیے مزید مالی بوجھ اٹھانا ممکن نہ تھا۔

مذہبی تصادم اور آزاد ہندوستان کا خواب:

جب ہندوستان نے 1947 میں آزادی حاصل کی، تو مبارک پور جیسے قصبے میں یہ آزادی نہ صرف سیاسی، بلکہ مذہبی آزادی کے طور پر بھی محسوس کی گئی۔ 28 جولائی 1948 کو، جب پرانی بستی میں ایک ہندو گھر میں مذہبی اجتماع کے دوران شنکھ بجایا گیا، تو یہ عمل محض ایک عبادت نہ رہا،یہ ایک پرانی پابندی کو توڑنے کی علامت بن گیا۔ مسلمانوں کی اکثریت نے اسے جارحیت سمجھا اور قریب ڈھائی تین سو افراد پر مشتمل ہجوم نے حملہ کر دیا۔

پولیس رپورٹ میں کہا گیا کہ” مسلمانوں کی اکثریت کے سبب ہندو شنکھ نہیں بجا سکتے تھے، مگر آزادی کے بعد ہندوؤں نے پرانی روایات کو توڑنے کی کوشش کی۔“یہ صرف ایک مذہبی جھگڑا نہ تھا، بلکہ اس میں شناخت، عزت اور تاریخ کا بوجھ بھی شامل تھا۔ رپورٹ کے مطابق 1906 میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا، جب ایک مسلمان پولیس افسر نے رشوت کے بدلے شنکھ بجانے کی اجازت دی تھی۔

سیاسی تبدیلی اور فرقہ وارانہ فسادات:

وقت کے ساتھ ساتھ مذہبی تقسیم میں سیاسی رنگ بھی شامل ہو گیا۔ 1959 میں مبارک پور  میں ہولی کے موقع پر ہونے والا آخری ہندو-مسلم فساد دراصل ایک سیاسی کشمکش کا شاخسانہ تھا۔ مقامی مسلمانوں کی کمیونسٹ پارٹی سے وابستگی اور ہندو اکثریت کی اس پر مخالفت نے اس تصادم کو مزید سنگین بنا دیا۔

1960 کے بعد مبارک پور کی معیشت نے کئی نشیب و فراز دیکھے، جن میں روایتی دست کاری کی صنعت کی زوال پذیری، خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت، اور عالمی منڈیوں سے وابستگی شامل ہیں۔1960 کی دہائی کے بعد، مبارک پور  کی معیشت کا مرکز ریشمی ساڑیوں کی تیاری رہا، جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر مقبول تھیں۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ، پاور لومز کے بڑھتے ہوئے استعمال اور صنعتی تبدیلیوں نے ہاتھ سے بنے کپڑوں کی مانگ کو متاثر کیا، جس سے مقامی صنعت کو نقصان پہنچا۔ معاشی دباؤ، بے روزگاری، اور تعلیم کی کمی جیسے عوامل نے خواتین کو دستکاری کے شعبے میں کام کرنے پر مجبور کیا۔ ایک مطالعے کے مطابق، خواتین کی بڑی تعداد نے اقتصادی ضروریات کی بنا پر اس صنعت میں قدم رکھا، جس سے ان کی معاشی حالت میں بہتری آئی۔

حوالہ جات:

  • جے۔ سی۔ رے، "ٹیکسٹائل انڈسٹری“۔ جرنل آف بنگال اینڈ اوڈیسا ریسرچ سوسائٹی۔ حصہ سوم، جلد 3،، صفحات 181-186، 206-207۔(1917)

جے۔ سی۔ رے کی اس تحریر میں 1917 کے دوران بنگال اور اڑیسہ میں ٹیکسٹائل صنعت کی حالت پر تحقیق کی گئی ہے۔ یہ مضمون ہاتھ سے بنے کپڑوں، ان کی تیاری کے طریقے، استعمال ہونے والے خام مال اور مزدوروں کی معاشی حالت کے تجزیے پر مبنی ہے۔

  • اے۔ یوسف علی۔اے مونو گراف آن سلک فیبرکس پروڈیسڈ ان دی نارتھ ویسٹرن پروونسز اینڈ اودھ۔ (شمال مغربی صوبوں اور اودھ میں تیار کردہ ریشمی کپڑوں پر ایک مونوگراف)۔ الہ آباد، 1900ء۔ صفحات 102-103؛

اے۔ یوسف علی نے اپنے مونوگراف میں شمالی ہند کے ریشمی کپڑوں کی تفصیل بیان کی ہے، جن میں مبارک پور  کی مخصوص بُنائی اور ڈیزائنز کا ذکر ہے۔

  • قاضی اطہر مبارک پور ی۔ تذکرہ تذکرہ علماے مبارک پور

 قاضی اطہر مبارک پور ی نے اپنے تذکرے میں مبارک پور  کے علما کے ساتھ ساتھ یہاں کی معاشرتی اور اقتصادی زندگی، خاص طور پر دستکاری کی صنعت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔

  • پنکج راگ، (مقالہ)  1857:نیڈ فار الٹرنیٹیو سورسز۔ (مجلہ)سوشل سائنٹسٹ، جلد 26، شمارہ 1-4، جنوری-اپریل 1998، صفحہ 123۔

پنکج راگ کے اس مضمون میں 1857 کی بغاوت کے بارے میں نئی تحقیق کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے جس میں مقامی تاریخی ذرائع اور عوامی بیانیے کو رسمی نوآبادیاتی ریکارڈ کے ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی ہے۔

  • جے۔ آر۔ ریڈ۔رپورٹ آن دی سٹلمنٹ آپریشن ان دی ڈسٹرکٹ آف اعظم گڑھ( ضلع اعظم گڑھ میں تصفیہ کی کارروائیوں کی رپورٹ) صفحہ 148۔

یہ رپورٹ برطانوی دور میں ضلع اعظم گڑھ میں زمین کی تقسیم، محصولات، اور دیہی معیشت کے سروے پر مبنی ہے، جس میں کسانوں، دستکاروں، اور زمین داروں کی معاشی حالت کا تجزیہ شامل ہے۔

  • گیانندر پانڈے۔اکونومک ڈس لوکیشن ان نائنٹینتھ سنچری ایسٹرن یوپی۔(انیسویں صدی کے مشرقی اتر پردیش میں معاشی انقطاع“۔ مجلہ ”رورل ساؤتھ ایشیا“لندن، 1983،  صفحات 89-129؛

گیانندر پانڈے نے مشرقی اتر پردیش میں انیسویں صدی کے دوران ہونے والے معاشی انقطاع اور دیہی اقتصادی ڈھانچے کی تبدیلی کا گہرا تجزیہ پیش کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح نوآبادیاتی پالیسیوں، محصولات کی زیادتی، اور صنعتی سامان کی در آمد نے روایتی دستکاری، خاص طور پر جولاہوں کی معیشت کو شدید متاثر کیا

  • گیانندر پانڈے۔دی کنسٹرکشن آف کمیونلزم ان کولونیل نورتھ انڈیا۔( نوآبادیاتی شمالی ہندوستان میں فرقہ واریت کی تشکیل) دہلی، 1990۔

اس کتاب میں، وہ فرقہ واریت کو نوآبادیاتی سماجی تعمیر کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ معاشی زوال اور شناختی سیاست کے امتزاج نے مذہبی تفریق کو ہوا دی۔

  • ایف. ایچ. فشر۔اسٹیٹسٹیکل  ڈیسکریپٹیو اینڈ ہسٹوریکل اکاؤنٹ.....اعظم گڑھ۔( شماریاتی، توضیحی و تاریخی خاکہ....اعظم گڑھ) صفحات 171-172۔

ایف۔ ایچ۔ فشر کی یہ کتاب انیسویں صدی کے وسط میں ضلع اعظم گڑھ کی معاشرتی و اقتصادی صورتِ حال پر مبنی ہے۔ صفحات 171-172 پر وہ مبارک پور  کا ذکر کرتے ہیں جہاں ریشمی کپڑا بنانے کی صنعت بہت نمایاں تھی۔ انھوں نے فنی مہارت، تجارتی راستوں، اور مقامی منڈیوں کی تفصیل بھی پیش کی ہے اورواضح کیا ہے کہ کس طرح ان صنعتوں کو زوال پذیر پالیسیوں نے نقصان پہنچایا۔

  • ڈی. ایل. ڈریک بروک مین۔ اعظم گڑھ: ایک گزٹیر، صفحہ 62۔

ڈریک بروک مین نے اعظم گڑھ کے مختلف قصبوں، خصوصاً مبارک پور ، کی سماجی و اقتصادی زندگی کا مفصل تذکرہ کیا ہے۔ صفحہ 62 پر وہ مبارک پور  کی ریشمی صنعت، بنکروں کی آبادی، اور ان کے مخصوص طرزِ معاشرت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ مبارک پور  کا کپڑا پورے شمالی ہند میں مشہور تھا اور یہاں کی صنعت مقامی ہنر و کاریگری پر مبنی تھی۔

  • مبارک پور  فساد کیس، محکمہ سیاسیات کی کارروائیاں.جنوری 1905.سلسلہ نمبر 10، فائل نمبر 254/1904، بکس نمبر 662، یو۔ پی۔ اسٹیٹ آرکائیوز۔

یہ ایک سرکاری ریکارڈ ہے جو 1904 کے اواخر میں مبارک پور  میں پیش آنے والے فرقہ وارانہ فساد سے متعلق ہے۔ فائل میں درج گواہیوں، انتظامی رپورٹوں اور مقامی سماجی تناؤ کی تفصیلات محفوظ ہیں۔ کیس میں بتایا گیا کہ معمولی مذہبی رسومات کے دوران پیدا ہونے والی چپقلش نے کس طرح بڑے فساد کی شکل اختیار کی، اور کس طرح پولیس و نوآبادیاتی حکومت نے صورتِ حال پر قابو پایا۔ یہ مواد اس بات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ برطانوی راج میں مقامی اختلافات کو کس طرح سے ”سیاسی خطرہ“ تصور کیا جاتا تھا۔

  • عبد المجید کی ڈائری بحوالہ مولانا قمر الزماں مبارک پوری۔اندراج: 10 اگست 1919، (1902–1934؟)

یہ ایک ذاتی ڈائری کا اندراج ہے جو عبد المجید نے غالباً 10 اگست 1919 کو لکھا تھا۔ اگرچہ مکمل مخطوطہ غیر مطبوعہ ہے، مگر یہ تحریر 1902 سے 1934 کے درمیانی عرصے کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ مخطوطہ مولوی قمر الزماں مبارک پوری کے پاس محفوظ تھا، ان کے انتقال کے بعد اب یہ کہاں ہے، اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں۔

یہ ڈائری مقامی سطح پر برادری کی سماجی، مذہبی اور سیاسی زندگی کا گہرا عکس پیش کرتی ہے، خاص طور پر 1919 کے آس پاس کے دنوں میں جب تحریک خلافت، عدم تعاون، اور مقامی ہنگامہ خیز حالات ملک بھر کی طرح یہاں بھی شدت اختیار کر چکے تھے۔

  • آر.آئی.ورما۔سلک ٹکسٹائل انڈسٹری ان اتر پردیش وتھ اسپیشل ریفرنس ٹو مبارک پور، اعظم گڑھ ہینڈی کرافٹ سروے مونو گراف نمبر 7۔

آر. آئی. ورما نے اس مونوگراف میں اتر پردیش کی ریشمی صنعت کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے، جس میں خاص طور پر مبارک پور ، ضلع اعظم گڑھ پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ یہ مطالعہ 1961 کی مردم شماری کے تحت دستکاری کی صنعتوں کے ایک سروے کا حصہ ہے، جو ہنڈی کرافٹس سروے مونوگراف نمبر 7 کے طور پر شائع ہوا۔صفحہ 9-10 پر مبارک پور  مبارک پور  کو ریشمی کپڑے کی تیاری کا ایک پرانا اور مشہور مرکز قرار دیا گیا ہے۔لکھا گیا ہے کہ یہاں تیار ہونے والے کپڑے نہ صرف ریاست کے اندر بلکہ بیرونِ ریاست بھی بھیجے جاتے تھے۔انھوں نے لکھا کہ اگرچہ مبارک پور  میں ریشم کی صنعت ایک روایتی پیشہ ہے، لیکن بیسویں صدی کے وسط میں اسے مختلف معاشی چیلنجز کا سامنا تھا، جیسے کہ:خام مال کی قیمتوں میں اضافہ،جدید مشینری کی کمی،بازار تک رسائی میں رکاوٹیں،اور روایتی ہنر مندوں کی کم آمدنی۔ رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ اگر حکومت اور نجی شعبے کی طرف سے مناسب تعاون ملے تو مبارک پور  میں ریشم کی صنعت کو دوبارہ فروغ دیا جا سکتا ہے

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved