انوار حیات
رضی اللہ تعالیٰ عنہ
محمد رمضان رضا عطاری
اہل سنت کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ انبیا علیہم السلام کے بعد سب سے افضل، اقدم، اکرم، خلیفۂ اوّل عاشق اکبر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ عقیدہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی واضح نصوص اور اقوالِ علما و ائمہ و فقہا و محدثین و متکلمین و مفسرین سے ثابت ہے۔اس کے خلاف عقیدہ رکھنے والا بلکہ اس میں توقف اور سکوت اختیار کرنے والا گمراہ و بد مذہب ہے۔
اہل سنت کے نزدیک افضلیت کا معیار کثرتِ ثواب اور تقویٰ ہے یعنی جو شخص تقوے کے وصف سے جتنا زیادہ متصف ہوگا وہی افضل ہوگا، اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :
”اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ“ (سورۂ حجرات 13)
تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔
اس آیت کریمہ سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ اللہ کریم کے نزدیک افضل وہی ہے جو متقی اور پرہیزگار ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ تمام انسانوں میں (بعد از انبیا علیہم السلام) تقویٰ اور پرہیزگاری کے اعلیٰ مرتبے پر کون سب سے زیادہ فائز ہے؟ تو جب ہم قرآن کریم کی طرف دیکھتے ہیں تو ہماری نظروں کا محور و مرکز یہ آیت کریمہ بنتی ہے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :
وَسَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَى. (سورۂ لیل آیت 17)
اور بہت جلد اس (جہنم) سے دُور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا پرہیزگار۔
تمام مفسرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت پاک حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی۔ چناں چہ بطور ثبوت چند حوالے ملاحظہ ہوں۔
امام محی السنہ ابو محمد حسین بن مسعود بغوی علیہ الرحمۃ والرضوان (متوفیٰ: 516ھ) اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
”یعنی أبا بکر الصدیق، فی قول الجمیع.“(تفسیر بغوی ص1414، دار ابن حزم، لبنان)
ترجمہ: یعنی تمام مفسرین کا اجماع ہے کہ اس سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مراد ہیں۔
امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (م: 604ھ) اپنی شہرہ آفاق تفسیر، تفسیر کبیر میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
أجمع المفسرون منا علی أن المراد منہ ابوبکر رضی اللہ عنہ .(تفسیر کبیر ج 11، ص191، مطبوعہ: دار الفکر)
ترجمہ: ہم (اہل سنت) میں سے تمام مفسرین کا اجماع ہے کہ یہاں "الأتقی" سے مراد ابو بکر صدیق ہی ہیں۔
امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی علیہ الرحمۃ والرضوان(متوفیٰ:671ھ) اپنی مایہ ناز تفسیر، تفسیر قرطبی میں رقم طراز ہیں:
”قال ابن عباس: ھو ابوبکر رضی اللہ عنہ“۔(تفسیر قرطبی ج20، ص88، دار عالم الکتب، الریاض)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہاں "الأتقی" سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔
مشہور مفسر قرآن امام علی بن خازن رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ:725ھ) اس آیت پاک کے تحت تحریر فرماتے ہیں:
”وھو أبوبکر الصدیق فی قول جمیع المفسرین.“ (تفسیر خازن ج6، ص441، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
ترجمہ: تمام مفسرین کے نزدیک "الأتقی" سے مراد حضرت ابو بکر صدیق ہیں۔
امام ابن حجر مکی (متوفیٰ:974ھ) لکھتے ہیں:
”قال ابن الجوزی أجمعوا أنھا نزلت فی أبی بکر.“(الصواعق المحرقہ، ص91، مکتبہ حقیقیہ، استنبول)
یعنی ابن جوزی نے فرمایا: کہ مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت ابو بکر صدیق کے بارے میں نازل ہوئی۔
مذکورہ حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ آیت میں موجود "الأتقی" سے مراد جناب صدیق اکبر ہیں، اور اتقی ہی اللہ کے نزدیک اکرم ہوتا ہے، اور اکرم، افضل ہی کے معنی میں ہے تو نتیجہ نکلا کہ حضرت ابو بکر صدیق تمام لوگوں سے افضل ہے۔
اور کثیر احادیث نبویہ بھی اس بات پر شاہدہیں کہ تمام امت میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ اختصارًا چند احادیث اور ان کے متعلق شارحین کے اقوال درج ذیل ہیں:
”عن عائشۃ قالت قال رسول اللہ ﷺ لا ینبغی لقوم فیھم ابوبکر ان یؤمھم غیرہ.“(جامع الترمذی، کتاب المناقب، باب فی مناقب ابی بکر و عمر، رقم الحدیث 3673)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتی ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس قوم میں ابوبکر ہوں انھیں یہ لائق نہیں کہ ان کی امامت ابوبکر کے سوا کوئی اور کرے۔
اس حدیث پاک کے تحت محقق علی الاطلاق، امام المحدثین، شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ والرضوان(متوفیٰ: 1052ھ) تحریر فرماتے ہیں:
"فیہ دلیل علی فضیلتہ فی الدین علی جمیع الصحابۃ فکان تقدیمہ فی الخلافۃ أیضًا أولی و أفضل“.(لمعات التنقیح شرح مشکاۃ المصابیح، ج9 ص601، دار النوادر)
ترجمہ: اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کو دین میں باقی تمام صحابہ پر فضیلت حاصل ہیں، تو آپ کو خلافت میں بھی مقدم رکھنا بہتر اور افضل ہیں۔
سنن ابی داؤد میں ہے :
عن ابی ھریرۃ قال "قال رسول اللہﷺ أتانی جبرئیل فأخذ بیدی فأرانی باب الجنۃ الذی یدخل منہ امتی فقال ابو بکر یا رسول اللہﷺ وددت انی کنت معک حتی انظر الیہ فقال رسول اللہﷺ اما أنک یا أبا بکر اول من یدخل الجنۃ من أمتی". (سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ، باب فی الخلفاء)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ میرے پاس جناب جبریل آئے میرا ہاتھ پکڑا پھر مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری امت داخل ہوگی حضرت ابوبکر نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! میری آرزو ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ ہوتا حتی کہ اسے دیکھتا تو رسولﷺ نے فرمایا کہ اے ابوبکر تم وہ شخص ہو جو میری امت میں سے سب سے پہلے جنت میں جائے گا۔
اس حدیث کے تحت علامہ علی قاری علیہ الرحمۃ والرضوان (سال وفات: 1014ھ) رقم طراز ہیں:
وفیہ دلیل علی أنہ افضل الامۃ والا لما سبقھم فی دخول الجنۃ و ایماء الی انہ اسبق الامۃ ایمانا۔(مرقاۃ المفاتیح، باب مناقب ابی بکر، ج11، ص175، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
یعنی اس حدیث میں اس بات پر دلیل ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ساری امت سے افضل ہیں ورنہ وہ سب امت سے پہلے جنت میں نہ جاتے اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ وہ ساری امت سے پہلے ایمان لانے والے ہیں۔
علاوہ ازیں یہ کہ آپ رضی اللہ عنہ کی افضلیت پر صحابۂ کرام کا اجماع ثابت ہے چناں چہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :”کنا نقول و رسول اللہﷺ حیٌّ: أفضل أمتہ بعدہٗ ابوبکر ثم عمر ثم عثمان.“ (سنن ابی داؤد کتاب السنۃ، باب فی التفضیل)
زاد الطبرانی فبلغ ذالک رسول اللہﷺ فلم ینکرہ.(الصواعق المحرقہ ص95)
یعنی ہم کہا کرتے تھے جب کہ رسول اللہﷺ (حیات ظاہرہ کے ساتھ) زندہ تھے کہ اس امت میں حضور علیہ الصلاۃ و السلام کے بعد سب سے افضل ابوبکر ہیں، پھر عمر پھر عثمان غنی رضی اللہ عنہم امام طبرانی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا "یہ بات رسول اللہﷺ کو پہنچی تو آپ نے اس پر کوئی انکار نہیں فرمایا۔".
بخاری شریف کی حدیث پاک ہے:
وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي: أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: أَبُو بَكْرٍ. قُلْتُ:ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: عُمَرُ. وَخَشِيتُ أَنْ يَقُولَ: عُثْمَانُ. قُلْتُ: ثُمَّ أَنْتَ قَالَ: «مَا أَنَا إِلَّا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ». (صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب فضل أبی بکر بعد النبی. رقم الحدیث 3671)
ترجمہ: حضرت محمد ابن حنفیہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد{حضرت علی رضی اللہ عنہ} سے کہا کہ نبیﷺ کے بعد لوگوں میں کون بہتر ہے؟ فرمایا ابوبکر، میں نے کہا پھر کون؟ فرمایا عمر، میں ڈرا کہ آپ کہہ دیں گے کہ عثمان، تو میں نے کہا پھر آپ؟ فرمایا میں تو نہیں مگر مسلمانوں میں سے ایک شخص۔
مزید حضرت ابن عمر فرماتے ہیں:
کنا نخیر بین الناس فی زمن النبیﷺ فنخیر أبا بکر ثم عمر بن الخطاب، ثم عثمان بن عفان رضی اللہ عنھم.(ایضاً. رقم الحدیث: 3655)
ترجمہ: ہم لوگ نبیﷺ کے زمانے میں ابوبکر کو سب سے بہتر سمجھتے تھے، پھر عمر بن خطاب کو اور پھر عثمان بن عفان کو۔
اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام بالخصوص خود مولاے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ صدیق اکبر کی افضلیت کے قائل تھے، تو جو کوئی حضرت علی کو حضرت ابوبکر پر فضیلت دیتا ہے تو وہ ان احادیث کو بار بار پڑھے اور دیکھے کہ وہ افضلیت کے مسئلے پر کس کی اتباع کررہا ہے؟ التوفیق من جانب اللہ
مزید بر آں فقہا و محدثین کی تصریحات سے بھی ہمیں افضلیت صدیق اکبر کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ چناں چہ: امام الائمہ سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ نے ”الفقہ الاکبر“ میں ”المفاضلۃ بین الصحابۃ“ کے نام سے ایک مکمل باب باندھا ہے جس میں آپ لکھتے ہیں:
”أفضل الناس بعد رسول اللہﷺ ابوبکر الصدیق ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان ثم علی بن أبی طالب رضوان اللہ تعالیٰ علیھم أجمعین.“(الفقہ الأکبر، ص107، مکتبۃ المدینہ)
یعنی رسول اللہﷺ کے بعد لوگوں میں سب سے افضل ابوبکر صدیق ہیں، پھر عمر بن خطاب، پھر عثمان غنی، پھر مولا علی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں۔
اس کی شرح کرتے ہوئے علامہ علی قاری لکھتے ہیں:
فھو أفضل الأولیاء من الأولین و الآخرین، وقد حکی الاجماع علی ذالک، ولا عبرۃ بمخالفۃ الروافض ھنالک.(شرح الفقہ الأکبر ص108)
یعنی حضرت ابو بکر صدیق اولین و آخرین کے اولیا میں سب سے افضل ہیں، اور بے شک اس پر اجماع منقول ہے، اور یہاں پر روافض کی مخالفت کا کوئی اعتبار نہیں۔
علامہ نجم الدین ابو حفص عمر بن محمد نسفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (متوفیٰ: 537ھ) تحریر فرماتے ہیں:
وأفضل البشر بعد نبینا ابو بکر الصدیق. الخ(العقائد النسفیہ، ص321، مکتبہ المدینہ)
ترجمہ: ہمارے نبی محمد مصطفیٰﷺ کے بعد انسانوں میں سب سے افضل حضرت ابو بکر صدیق ہے۔
امام ابن حجر مکی فرماتے ہیں:
اعلم أن الذی أطبق علیہ عظماء الملۃ وعلماء الأمۃ أن أفضل ھذہ الأمۃ ابوبکر الصدیق ثم عمر. (الصواعق المحرقہ ص79)
یعنی جان لو کہ جس بات پر ملت کے عظما اور امت کے علما کا اجماع ہے یہ ہے کہ اس امت میں سب سے افضل ابوبکر صدیق ہیں، پھر عمر۔
امام عبد الوہاب شعرانی علیہ الرحمہ (متوفیٰ:973ھ) نے افضلیت ابوبکر صدیق کے موضوع پر ایک مستقل باب اس نام سے قائم کیا، فرماتے ہیں:
المبحث الثالث وأربعون: فی بیان أن أفضل الاولیاء المحمدین بعد الأنبیاء والمرسلین أبوبکر ثم عمر ثم عثمان ثم علی رضی اللہ عنھم أجمعین. (الیواقیت والجواہر، الجزء الاول، ص328، دارالکتب العلمیہ)
ترجمہ: بحث '43' اس بیان میں ہے کہ انبیا و مرسلین کے بعد تمام اولیاے امت محمدیہ میں سب سے افضل حضرت ابو بکر صدیق ہیں، پھر حضرت عمر، پھر حضرت عثمان پھر مولا علی رضی اللہ عنہم ہیں۔
امام جلال الدین سیوطی (سال وفات: 911ھ) رقم طراز ہیں:
"أجمع أھل السنۃ أن أفضل الناس بعد رسول اللہﷺ ابوبکر ثم عمر، ثم عثمان ثم علی ثم سائر العشرۃ ثم باقی أھل البدر ثم باقی أھل أحد ثم باقی أھل البیعۃ، ثم باقی الصحابۃ ھکذا حکی الاجماع علیہ أبو منصور البغدادی". (تاریخ الخلفاء ص39، دار ابن حزم)
ترجمہ: اہل سنت کا اجماع ہے کہ رسول اللہﷺ کے بعد تمام لوگوں میں افضل ابوبکر صدیق ہیں، پھر عمر فاروق، پھر عثمان غنی، پھر مولا علی، پھر تمام عشرۂ مبشرہ، پھر باقی اہل بدر پھر باقی اہل احد، پھر باقی اہل بیعت رضوان، پھر باقی صحابہ رضی اللہ عنہم۔ ایسے ہی اس پر ابو منصور بغدادی نے اجماع نقل کیا ہے۔
امام شہاب الدین قسطلانی علیہ الرحمۃ والرضوان (متوفیٰ:943ھ) تحریر فرماتے ہیں:
فیقال فیھا الأفضل بعد الأنبیاء ابوبکر، وقد أطبق السلف علی أنہ أفضل الأمۃ. حکی الشافعی وغیرہ. اجماع الصحابۃ والتابعیں علی ذالک. (ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری، ج8، ص147، دار الکتب)
ترجمہ: اس بارے کہا گیا ہے کہ انبیا علیہم السلام کے بعد افضل ابوبکر صدیق ہیں، اور تحقیق سلَف کا اتفاق ہیں اس بات پر کہ آپ امت میں سب سے افضل ہیں۔ امام شافعی اور آپ کے علاوہ نے صحابہ کرام اور تابعین کا اس پر اجماع نقل کیا ہیں۔
مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح اور ظاہر ہوگئی کہ انبیا علیہم السلام کے بعد امت میں سب سے افضل خلیفۂ بلا فصل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ہیں۔ تو جو کوئی اس کے بر خلاف عقیدہ رکھے وہ سنی نہیں تفضیلی ہے جس کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں۔
اللہ کریم! ہمیں قرآن و حدیث کو کما حقہٗ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے اور بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org