شعاعیں
کی حقیقت و حیثیت
مولانا طفیل احمد مصباحی
”لولاک لما خلقت الافلاک “ بطورِ حدیث کافی مشہور ہے، لیکن بعض محدثین نے اس پر کلام کیا ہے اور کہا ہے کہ ان الفاظ کے ساتھ محدثین کے نزدیک یہ حدیث ثابت نہیں۔ ہاں ! سند الفقہاء و المحدثین حضرت ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ و دیگر محدثین نے اس حدیث کو معنی کے اعتبار سے درست قرار دیا ہے اور اس حوالے سے حضرت ابن عباس، حضرت عمر اور حضرت سلمان رضی اللہ عنہم سے مرفوع روایات اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ایک اثر بھی پیش کیا ہے ۔ ملا علی قاری کے الفاظ یہ ہیں :
حديث : لَوْلاكَ لَما خَلَقتُ الأفلاك . قال الصغانی : إنہ موضوع، كذا فی الخلاصۃ، لكن معناہ صحیح، فقد روی الديلمی عن ابن عباس رضي اللہ عنہما مرفوعاً : أتانی جبريل فقال : يا مُحمَّد لولاك ما خُلِقَتِ الجَنَّۃُ و لَوْلاكَ ما خُلِقَتِ النار وفي روايۃ ابن عساكر: لَوْلاكَ ما خُلِقَتِ الدُّنيا. )الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ، ص : 288، مطبوعہ : المکتب الاسلامی، بیروت (
ترجمہ: زیرِ نظر حدیث ” لولاک لما خلقت الأفلاک“ کے متعلق امام صغانی کی راے ہے کہ یہ موضوع ہے، جیسا کہ ” خلاصہ “ میں ہے، لیکن یہ حدیث معنیٰ کے اعتبار سے درست ہے ۔ امام دیلمی نے حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : میرے پاس جبرئیل آئے اور کہا : یا رسول اللہ ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر آپ نے ہوتے تو جنت اور دوزخ کی تخلیق نہ ہوتی ۔ امام ابن عساکر کی روایت میں ہے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو دنیا کی تخلیق نہ ہوتی ۔
کشف الخفاء للعجلونی میں ہے :
أتانی جبریل فقال: یا محمد لولاك ما خلقت الجنة ولولاك لما خلقت النار رواه الدیلمی عن ابن عمر . (کشف الخفاء للعجلونی، جلد اول، ص : 59، مطبوعہ : مکتبۃ العلم الحدیث، بیروت )
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جبرئیل نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ نہ ہوتے تو جنت اور دوزخ پیدا نہ کی جاتی ۔
المستدرک للحاکم میں ہے : عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: أوحى الله إلى عیسی علیه السلام: یا عیسی ! آمن بمحمد وأمر من أدرکه من أمتک أن یؤمنوا به، فلولا محمد ما خلقت آدم، و لولا محمد ما خلقت الجنة و لا النار و لقد خلقت العرش علی الماء فاضطرب، فکتب علیه لا إله إلا الله محمد رسول الله فسکن. )المستدرک علیٰ الصحیحین للحاکم، جلد دوم، ص : 722، حدیث نمبر : 4286، مطبوعہ : دار الحرمین للطباعۃ و النشر، مصر (
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ عز و جل نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی نازل فرمائی کہ اے عیسیٰ ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان لاؤ اور تمہاری امت میں سے جو لوگ ان کو پائیں، وہ ان پر ایمان لائیں ۔ اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں جنت اور دوزخ کو پیدا نہ کرتا ۔ جب میں نے عرش کو پانی پر پیدا کیا تو وہ ہلنے لگا، اس پر میں نے کلمۂ طیبہ لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھ دیا تو وہ ساکن ہو گیا ۔
کنز العمال میں ہے: أتانی جبريل فقال : يا محمد ! لولاك ما خلقت الجنة و لولاك ما خلقت النار.(کنز العمال للمتقی، جلد:11، ص:431، حدیث نمبر : 32025، مطبوعه : مؤسسة الرسالة، بیروت )
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس جبرئیل آ کر بولے : اگر آپ نہ ہوتے تو جنت اور دوزخ کی تخلیق نہ ہوتی۔
مندرجہ ذیل روایت سے بھی متعلقہ بحث ( حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باعثِ تخلیقِ کائنات ہیں ) کی تائید ہوتی ہے، جسے امام متقی ہندی نے کنز العمال میں اور ابو نعیم نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے ۔ المستدرک للحاکم ( جلد دوم، ص : 722، حدیث نمبر : 4287 ) میں بھی یہ روایت موجود ہے ۔
لما اقترف آدم الخطيئة قال: يا رب! اسألك بحق محمد إلا غفرت لی، فقال الله تعالى: و كيف عرفت محمداً و لم أخلقه بعد، قال : يا رب! لأنك لما خلقتنی بيدك و نفخت فی من روحك رفعت رأسی فرأيت على قوائم العرش مكتوباً " لا إله إلا الله محمد رسول الله " فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك، فقال الله عز و جل: صدقت يا آدم ! إنه لأحب الخلق إلى و إذا سألتنی بحقه فقد غفرت لك، و لولا محمد ما خلقتك .( کنز العمال للمتقی، جلد : 11، ص: 455، حدیث نمبر:32138،مطبوعہ : بیروت)
ترجمہ : جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو وہ بارگاہِ الٰہی میں عرض گذار ہوئے : اے میرے رب ! جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میری مغفرت فرما ۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : اے آدم ! تم نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کیسے پہچانا، حالاں کہ ابھی میں نے ابھی ان کو دنیا میں بھیجا بھی نہیں ہے ۔ اس پر حضرت آدم علیہ السلام عرض گذار ہوئے : مولیٰ ! جب تو نے مجھے اپنے دستِ قدرت سے پیدا کیا اور مجھ میں روح ڈالی تو میں نے عرش کے پایوں پر ” لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ “ لکھا ہوا پایا، جس سے میں جان گیا کہ جس ذات کے نام کو تونے اپنے نام کے ساتھ متصل و منسوب کیا ہے، وہ تیرے نزدیک افضل اور محبوب ترین ہستی ہے ۔ اس پر اللہ رب العزت نے فرمایا : بیشک وہ ( حضور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ) میرا محبوب ترین بندہ ہے ۔ اے آدم ! جب تو نے ان کے وسیلے سے مغفرت طلب کی ہے تو میں نے تمھیں بخش دیا ۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمھیں پیدا نہ کرتا ۔
توضیح و تشریح:
اللہ رب العزت نے اپنے محبوب جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بیشمار فضائل و خصوصیات سے نوازا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عز و جل کے نائبِ مطلق، مظہرِ ذاتِ الٰہی، افضل الانبیاء و المرسلین اور وجہِ تخلیقِ کائنات ہیں ۔ دونوں جہاں آپ کے صدقے وجود میں آئے ۔ اگر آپ کی تخلیق نہ ہوتی تو یہ دنیا بھی وجود میں نہیں آتی ۔ اہلِ سنت و جماعت کا یہ بنیادی عقیدہ ہے۔ لطائفِ اشرفی کی مذکورہ حدیث ”لولاک لما خلقت الأفلاک “ میں اسی مفہوم کی وضاحت کی گئی ہے ۔ عاشقِ رسول حضرت امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مشہورِ زمانہ قصیدہ بردہ شریف میں اسی حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے :
و كَيْفَ تَدْعُو إِلَی الدُّنْيَا ضَرُورَۃُ مَن
لولَاہُ لَـــــــــــمْ تُخْرَجِ الدُّنْــــــيَا مِنَ الْعَدَمٖ
یعنی کوئی ضرورت آپ کو دنیا کی طرف کیسے بلا سکتی ہے، جب کہ آپ کے مقام و مرتبہ کا یہ عالم ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو یہ دنیا عدم سے وجود میں نہیں آتی ۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باعثِ تخلیقِ کائنات بھی ہیں اور پوری کائنات کے اصل و جوہر بھی ہیں ۔ اس اجمال کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ اللہ عز و جل نے اپنے نور سے سب سے پہلے اپنے محبوب جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو پیدا فرمایا اور پھر نورِ نبی سے پوری کائنات کی تخلیق فرمائی ۔ لہٰذا آپ وجہِ کن فکاں بھی ہیں اور باعثِ تخلیقِ کائنات، جانِ کائنات اور اصلِ کائنات بھی ہیں ۔ حضور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عز و جل نے سراپا نور بنایا اور لباسِ بشریت میں اس دنیا میں مبعوث فرمایا ۔ قرآن ناطق ہے : قد جاءکم من اللہ نور و کتاب مبین ( تحقیق کہ تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آ گیا ) اس آیت میں ” نور “ سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے ۔ امام جلال الدین سیوطی لفظ ” نُور “ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وَ ھُوَ النَّبِیُّ صلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم ۔
یعنی اس آیت میں نور سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلم ہیں ۔ اب رہا یہ سوال کہ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو نور سے کیوں موسوم کیا تو اس کا جواب دیتے ہوئے علامہ صاوی لکھتے ہیں :
وَ سُمِّیَ نُوْرًا لِاَنَّہٗ یُنَوِّرُ الْبَصَائِرَ وَ یَھْدِیْھَا لِلرَّشَادِ وَ لِاَنَّہٗ اَصْلُ کُلِّ نُوْرٍ حِسِّیٍّ وَ مَعْنَوِیٍّ .
یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک کو نور اس لیے بنایا گیا کہ آپ بصیرتوں کو روشن کرتے ہیں اور انھیں رُشد و ہدایت عطا فرماتے ہیں اور اس لیے کہ آپ ہر نورِ حِسّی (ظاہری نور ) اور نورِ معنوی ( باطنی نور / علم و ہدایت ) کی اصل ہیں ۔(تفسیر صاوی، سورۃ المائدۃ، تحت الآیۃ : 15، جلد دوم، ص : 486، بیروت )
مصنف عبد الرزاق کی بڑی مشہور حدیث ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ رب العزت کی پہلی تخلیق کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا : یا جابر ! ان اللہ تعالیٰ قد خلق قبل الأشیاء نور نبیک من نورہ . ( اے جابر ! بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق (کو پیدا کرنے ) سے پہلے تمہارے نبی کے نور کو اپنے نور سے پیدا فرمایا۔ علامہ احمد قسطلانی علیہ الرحمہ اپنی مایۂ ناز تصنیف ”المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ “ میں روایت نقل فرماتے ہیں :
و روی عبد الرزاق بسندہ عن جابر بن عبد اللہ الأنصاری قال : قلت : يا رسول اللہ، بأبي أنت وأمی أخبرني عن أول شيء خلقہ اللہ تعالیٰ قبل الأشياء . قال : يا جابر ! إن اللہ تعالیٰ قد خلق قبل الأشياء نور نبيك من نورہ، فجعل ذلك النور يدور بالقدرۃ حيث شاء اللہ تعالی، ولم يكن فی ذلك الوقت لوح ولا قلم، ولا جنۃ ولا نار، ولا ملك ولا سماء، ولا أرض و لا شمس ولا قمر، ولا جني ولا انسي فلما أراد اللہ تعالیٰ أن يخلق الخلق قسم ذلك النور أربعۃ أجزاء، فخلق من الجزء الأول القلم، ومن الثاني اللوح، ومن الثالث العرش. ثم قسم الجزء الرابع أربعۃ أجزاء، فخلق من الجزء الأول حملۃ العرش، و من الثاني الكرسي، ومن الثالث باقي الملائكۃ، ثم قسم الجزء الرابع أربعۃ أجزاء، فخلق من الأول السماوات، ومن الثاني الأرضين ومن الثالث الجنۃ و النار، ثم قسم الرابع أربعۃ أجزاء، فخلق من الأول نور أبصار المؤمنين، و من الثاني نور قلوبہم - و ہي المعرفۃ باللہ - و من الثالث نور أنسہم، وہو التوحيد لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ ....(المواھب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ، جلد اول، ص : 36، 37، مطبوعہ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت )
ترجمہ : امام عبد الرزاق اپنی سند کے ساتھ روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول ﷲ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ! مجھے بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کون سی چیز پیدا فرمائی ؟ حضور صلیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : اے جابر ! بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کے نور کو اپنے نور سے پیدا فرمایا ۔ پھر وہ نور مشیتِ الٰہی کے مطابق جہاں چاہتا سیر کرتا رہا ۔ اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، نہ جنت تھی نہ دوزخ، نہ فرشتہ تھا، نہ آسمان تھا نہ زمین، نہ سورج تھا نہ چاند، نہ جن تھا اور نہ انسان ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ مخلوقات کو پیدا کرے تو اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کیا ۔ پہلے حصے سے قلم بنایا، دوسرے حصے سے لوح اور تیسرے سے عرش ۔ پھر چوتھے حصے کو چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصے سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے اور دوسرے سے کرسی اور تیسرے سے باقی فرشتے ۔ پھر چوتھے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے آسمان بنائے، دوسرے سے زمین اور تیسرے سے جنت اور دوزخ بنائے ۔ پھر چوتھے حصے کو مزید چار اجزا میں تقسیم کیے ۔ پہلے سے مومنین کی آنکھوں کے نور بنائے، دوسرے سے ان کے دلوں کے نور یعنی معرفۃ باللہ پیدا کی ۔ تیسرے سے ان کی انسیت کا نور یعنی کلمۂ توحید لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کو پیدا فرمایا ........
اسی مفہوم کی روایت مصنَّفِ عبد الرزاق میں ان الفاظ کے ساتھ بیان کی گئی ہے، جس کا ما حصل یہی ہے کہ اللہ عز و جل نے سب سے پہلے اپنے نور سے اپنے حبیبِ پاک صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو پیدا کیا اور نورِ محمدی کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے کائنات اور اس کی مختلف چیزیں پیدا کیں ۔
عبد الرزاق عن معمر عن ابن المنكدر عن جابر قال : سألت رسول اللہ صلی اللہ عليہ و سلم عن أول شیئ خلقہ اللہ تعالیٰ ؟ فقال : ہو نور نبيك يا جابر خلقہ اللہ، ثم خلق فيہ كل خير، و خلق بعدہ كل شيء، و حين خلقہ أقامہ قدامہ من مقام القرب اثنی عشر ألف سنۃ، ثم جعلہ أربعۃ أقسام، فخلق العرش و الكرسی من قسم و حملۃ العرش و خزنۃ الكرسی من قسم، و أقام القسم الرابع فی مقام الحب اثنی عشر ألف، ثم جعلہ أربعۃ أقسام، فخلق القلم من قسم، و اللوح من قسم، و الجنۃ من قسم، ثم أقام القسم الرابع فی مقام الخوف اثنی عشر ألف سنۃ جعلہ أربعۃ أجزاء فخلق الملائكۃ من جزء، والشمس من جزء، والقمر والكواكب من جزء، وأقام الجزء الرابع في مقام الرجاء اثنی عشر ألف سنۃ، ثم جعلہ أربعۃ أجزاء فخلق العقل من جزء و العلم و الحكمۃ و العصمۃ و التوفيق من جزء ..... إلی أن أوصلہ اللہ صلب عبد اللہ بن عبد المطلب، و منہ إلی رحم أمی آمنۃ بنت وہب، ثم أخرجنی إلی الدنيا فجعلني سيد المرسلين و خاتم النبيين و رحمۃ للعالمين و قائد الغر المحجلين و ہكذا كان بدء خلق نبيك يا جابر .(الجزء المفقود من الجزء الأول من المصنّف لعبد الرزاق، ص : 64، 66، مطبوعہ : مؤسسۃ الشرف، لاہور، پاکستان)
علامہ احمد قسطلانی، میلاد نامۂ ابن طغر بک کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ جب اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو انھوں نے کہا : یا رب العالمین ! تو نے میری کنیت " ابو محمد " کیوں رکھی ۔ اس پر اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : اے آدم ! اپنے سر کو اٹھا ۔ جب انھوں نے اپنے سر کو اٹھایا تو عرش کے پایہ میں انھیں نورِ محمدی نظر آیا ۔ اس وقت انھوں نے کہا : اے میرے رب ! یہ کیسا نور ہے ۔ رب نے فرمایا : یہ تمہاری اولاد میں سے اس کا نور ہے جس کا نام آسمان میں احمد اور زمین پر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے ۔ اگر یہ نہ ہوتے تو میں نہ تجھے پیدا کرتا اور نہ زمین و آسمان کو پیدا کرتا ۔ اس بات کی تائید امام حاکم کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے عرش کے پایوں محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ مبارک لکھا ہوا پایا اور اللہ رب العزت نے ان سے فرمایا : اے آدم ! اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا نہ کرتا
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org