30 July, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia August 2025 Download:Click Here Views: 261 Downloads: 20

(4)-زہر میں گھلتی حیات

فکر امروز

ماحولیاتی چیلنجز اور بقا کی جنگ

مفتی ڈاکٹر محمد سبطین رضا مرتضوی

فضا میں تحلیل ہوتا زہر جو ہمارے پھیپھڑوں میں سست روی سے موت اتار رہا ہے، پانی میں گھلتا مٹیالا پن جو زندگی کے سرچشموں کو ہی خشک کر رہا ہے اور جنگلوں کی ویرانی جو دھرتی کے سبز لباس کو تار تار کر رہی ہے … یہ سب محض الفاظ نہیں، بلکہ اس دھرتی کا گہرا کرب ہے جو صدیوں سے ہماری آماجگاہ رہی ہے۔ یہ وہی دھرتی ہے جس کے سینے سے پھوٹتے شفاف چشموں نے نسلوں کی پیاس بجھائی، جس کے زرخیز دامن میں پنپتی حیات نے ہمیں سانس لینے کی مہلت دی اور جس کی گود میں انسانیت نے تہذیب کے چراغ روشن کیے۔ آج یہی خوبصورت کرۂ ارض ماحولیاتی خطرات کے بھنور میں پھنس چکا ہے، جو محض سائنسی اصطلاحات کا گورکھ دھندا نہیں، بلکہ ایک ایسی روح فرسا حقیقت ہے جو ہماری سانسوں کو بھی اجنبی بنا رہی ہے اور ہمارے مستقبل پر سیاہ بادلوں کی طرح منڈلا رہی ہے۔ ہم آج ایک ایسے سنگین موڑ پر کھڑے ہیں جہاں قدرت کا بے مثال حسن انسان کی بے فکری، ہوس کی بھوک، اور نام نہاد ترقی کی قربان گاہ پر اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ زمین کا ہر گوشہ، فضا کا ہر ذرہ، اور پانی کا ہر قطرہ گویا انسان کی بے حسی اور غفلت پر نوحہ کناں ہے۔

ترقی کا زہر اور فضائی آلودگی کا عفریت:

یہ کہانی اس وقت شروع ہوئی جب انسان نے ترقی کی راہ پر پہلا قدم رکھا۔صنعتی انقلاب کی چکاچوند روشنی جس نے ہر گلی کو دھوئیں سے بھر دیا اور منافع کی دوڑ میں اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈالا۔ اورقدرتی وسائل کا اندھا دھند، بے رحمانہ استعمال ان سب نے مل کر ایک ایسا عفریت جنم دیا جس کا نام ماحولیاتی آلودگی ہے۔ فیکٹریوں کی چمنیوں سے اگلتا دھواں جو بادلوں کو بھی شرما دے، جو فضا میں ایک گھنی اور زہریلی چادر کی صورت چھا جائے اور سورج کی زندگی بخش کرنوں کو دھرتی تک پہنچنے نہ دے، جس سے سورج کی شفاف روشنی بھی مٹیالی لگنے لگے۔ شہروں میں ٹریفک کا زہر آلود غبار جو سانسوں کی نالیوں میں سکون کے بجاے گھٹن بھر دے اور ہنستے کھیلتے چہروں پر وقت سے پہلے بیماریوں کی لکیریں کھینچ دے ، اور کھیتوں میں کیمیائی کھادوں کا بے دریغ استعمال جو مٹی کے زرخیز پن کو فنا کر دے، اسے بنجر و بے روح بنا دے … یہ سب مل کر ہماری فضا کو اس قدر مسموم کر چکے ہیں کہ اب سانس لینا بھی ایک چیلنج بن چکا ہے۔ زندگی کی یہ بنیادی ضرورت جو کبھی فطری اور بلا قیمت تھی آج ایک مہنگی نعمت بن کر رہ گئی ہے، جسے ہم فلٹرز اور ایئر پیوریفائر کے ذریعے خریدنے پر مجبور ہیں۔

 

ایڈیٹر سہ ماہی صدائے مناظر اہلسنت، دھامی گچھ، سوناپور اتردیناج پور، بنگال sibtainraza160@gmail.com-

فضائی آلودگی نہ صرف پھیپھڑوں کے امراض، دمہ، الرجی، اور کینسر جیسے موذی امراض کو دعوت دے رہی ہے، بلکہ انسانی زندگی کے معیار کو بھی پست کر رہی ہے۔ اس کا سب سے خوفناک نتیجہ عالمی حدت (Global Warming) کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ گلیشیر پگھل رہے ہیں جیسے دھرتی کے آنسو بہہ رہے ہوں، ان کا پگھلنا سمندروں میں پانی کا طوفان برپا کر رہا ہے، سمندروں کی سطح بے تحاشا بلند ہو رہی ہے اور دنیا کے خوبصورت جزیرے جہاں کبھی زندگی رقص کرتی تھی اب ہستی سے مٹتے جا رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں اپنی تباہ کاریاں دکھا رہی ہیں کبھی خشک سالی اپنا پنجہ گاڑ لیتی ہے اور زمین کو بنجر بنا کر رزق کی فراہمی میں رکاوٹ بنتی ہے تو کبھی غیر متوقع اور شدید سیلاب بستیاں بہا لے جاتے ہیں، کھیتوں کو ویران کر دیتے ہیں اور زندگیاں اجاڑ دیتے ہیں۔ کبھی شدید طوفان اور سمندری لہریں ساحلوں کو روند ڈالتی ہیں اور کبھی غیر متوقع موسم کاشتکاروں کے خواب روند ڈالتے ہیں، ان کی محنت پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ یہ سب ہمارے ہی اعمال کا نتیجہ ہے، جس کے تباہ کن اثرات سے بچنا اب محال ہوتا جا رہا ہے۔ ہر روز نئے چیلنجز سر اٹھا رہے ہیں جو ہمیں اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ فطرت سے ہمارا تصادم کس قدر مہنگا پڑ رہا ہے۔

 

آبی حیات کا ماتم اور زمین کا زخم:

پانی زندگی کا دوسرا نام ہے، جو ندیوں میں شفاف دھارے کی صورت بہتا ہے، چشموں سے پھوٹتا ہے اور سمندروں میں گہرائی پاتا ہےوہ بھی آج خطرے میں ہے۔ شہروں کا  گندا پانی جس میں ہر طرح کا فضلہ، گٹر کا پانی اور ناقابل تحلیل کیمیکلز شامل ہیں؛ صنعتی فضلہ جو انتہائی زہریلے کیمیکلز اور بھاری دھاتوں سے بھرا ہوتا ہے، جسے بے رحمی سے آبی ذخائر میں بہا دیا جاتا ہے اور زرعی کیمیائی مواد جو فصلوں کو سنوارنے کی بجاے پانی کو زہر آلود کر دیتا ہے اور اسے پینے کے ناقابل بنا دیتا ہے… یہ سب ندیوں، جھیلوں اور سمندروں میں بلا جھجک بہا دیا جاتا ہے، گویا ہم اپنی ہی زندگی کے سرچشموں میں زہر گھول رہے ہیں۔ مچھلیاں مر رہی ہیں اور ان کے مردہ اجسام پانی کی سطح پر تیرتے ہیں، آبی نباتات تباہ ہو رہی ہیں اور مرجان کی چٹانیں جو سمندروں کی خوبصورتی، حیاتیاتی تنوع کا گڑھ اور ہزاروں جانداروں کی پناہ گاہ تھیں، وہ اپنا رنگ کھو رہی ہیں اور ویران ہو چکی ہیں، سمندروں کی گہرائیوں میں ایک ماتم کا سماں ہے۔ اس آلودگی نے انسانی صحت کے لیے بھی سنگین خطرات پیدا کیے ہیں۔ آلودہ پانی سے ہیضہ، ٹائیفائیڈ، یرقان اور دیگر  بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں، جو ہزاروں زند گیاں نگل لیتی ہیں اور صحت کے نظام پر بوجھ بڑھا دیتی ہیں۔ صاف پانی کی دستیابی ایک خواب بنتی جا رہی ہے، دور دراز گاؤں میں عورتیں اور بچے کوسوں دور سے آلودہ یا مشکل سے میسر پانی لانے پر مجبور ہیں، اور زیر زمین پانی کی سطح میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ کہیں بورویل خشک ہو رہے ہیں تو کہیں زمینی پانی میں زہریلے مادے اس قدر گھل گئے ہیں کہ وہ پینے کے قابل نہیں رہا۔صحراؤں کا بڑھتا دامن، جو زرخیز زمینوں کو نگل رہا ہے اور انھیں  بنجر بنا رہا ہے، اور زرعی زمینوں کی بے رحمانہ کٹائی اور تجاوزات ایک اور سنگین مسئلہ ہے جسے زمین کا انحطاط (Land Degradation) کہا جاتا ہے۔ جنگلات جو دھرتی کے پھیپھڑے سمجھے جاتے ہیں، جو آکسیجن فراہم کرتے ہیں، کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں، بارشوں کا سبب بنتے ہیں اور ماحول کو معتدل رکھتے ہیں، انھیں  بے رحمی سے کاٹا جا رہا ہے۔ ان کی جگہ کنکریٹ کے جنگل اگائے جا رہے ہیں، رہائشی کالونیاں بسائی جا رہی ہیں، یا انھیں  سڑکوں اور دیگر انفراسٹرکچر کے منصوبوں کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ تعمیرات اور انسانی ہوس کی بھینٹ چڑھ رہا ہے، جس سے نہ صرف حیاتیاتی تنوع (Biodiversity) کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ مٹی کا کٹاؤ بھی بڑھ رہا ہے اور آب و ہوا پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کتنے ہی جاندار اپنی پناہ گاہیں کھو کر ناپید ہو چکے ہیں، ان کی نسلیں ہمیشہ کے لیے مٹ چکی ہیں اور ان کا وجود صرف کتابوں میں رہ گیا ہے، اور کتنے ہی ناپید ہونے کے دہانے پر ہیں، ان کی خاموش چیخیں فضا میں گونج رہی ہیں جنھیں  سننے والا کوئی نہیں۔ ہر کٹتا درخت، ہر خشک ہوتا چشمہ، اور ہر ناپید ہوتا جاندار، گویا دھرتی کا ایک زخم ہے جو گہرا ہوتا جا رہا ہے، اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم اپنے ہی گھر کو کیسے تباہ کر رہے ہیں۔

پلاسٹک اور دیگر خاموش آلود گیاں :

پلاسٹک جو آج ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے، جو آسانی اور سہولت کا فریب دیتا ہے مگر درحقیقت ایک گہرا زخم ہے، وہ بھی کچرے کا انبار بن کر ماحولیات کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہ ایک ایسا بھوت ہے جو برسوں تک ختم نہیں ہوتا، زمین میں دبایا جائے تو بھی تحلیل نہیں ہوتا، اور سمندروں میں جا کر آبی حیات کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے۔ مچھلیاں اور دیگر آبی جاندار اسے غذا سمجھ کر نگل لیتے ہیں، جو ان کی موت کا سبب بنتا ہے اور یوں سمندروں میں زندگی کے بجاے  موت کا راج ہوتا جا رہا ہے۔ پلاسٹک کے چھوٹے ذرات جسے مائیکرو پلاسٹکس کہتے ہیں، اب ہماری غذا اور پانی میں بھی شامل ہو چکے ہیںا ور یوں ایک خاموش زہر ہمارے جسم میں بھی داخل ہو رہا ہے۔اس کے علاوہ شور کی آلودگی (Noise Pollution) جو ہمارے شہروں میں ہر وقت موجود رہتی ہے، گاڑیوں کا بے ہنگم شور، مشینوں کی گھن گرج، تعمیراتی کاموں کی آوازیں اور لاؤڈ اسپیکر کی آوازیں، انسانوں اور جانوروں دونوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ اس سے نہ صرف سماعت متاثر ہوتی ہے بلکہ ذہنی دباؤ، نیند کی کمی، چڑچڑاپن، اور دل کے امراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔ پرندے اور جانور اپنے قدرتی ماحول میں سکون نہیں پاتے، اور ان کا طرز زندگی متاثر ہوتا ہے۔ یہ شور ہمارے اندرونی سکون کو بھی چھین رہا ہے اور ہماری روحوں میں بے چینی بھر رہا ہے۔اس کے علاوہ روشنی کی آلودگی (Light Pollution)، جو رات کے وقت شہروں کی بے تحاشا مصنوعی روشنیوں سے پیدا ہوتی ہے، نہ صرف تاریک آسمان کے حسن کو چھین لیتی ہےاور ستاروں کے نظارے کو ناممکن بنادیتی ہے بلکہ رات کے وقت کے جانداروں کی زندگی پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے، ان کے قدرتی طرز زندگی کو متاثر کرتی ہے۔یہ ایک ایسی آلودگی ہے جسے اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے مگر اس کے اثرات گہرے ہیں۔

نجات کا راستہ اور امید کی شمع:

کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ آج ہمیں درپیش بیماریاں، قدرتی آفات، اور وسائل کی کمیابی جیسے تمام خطرات ہمارے اپنے وجود کو کیسے کھوکھلا کر رہے ہیں؟ یہ سب کچھ آج ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے، اور ہم محض تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ کیا ہم نے مکمل طور پر ہار مان لی ہے؟ کیا دھرتی کا یہ نوحہ کبھی نہیں تھمنے والا؟ کیا زہر میں گھلتی حیات کا یہ سلسلہ ہمیشہ یوں ہی چلنے والا؟ ـــــــــــــنہیں! ہرگز نہیں، امید کی کرن ابھی باقی ہے، یہ دھرتی ابھی مکمل طور پر ماتم کناں نہیں ہوئی، ابھی بھی اس میں سانس لینے کی طاقت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری کو سمجھیں، خواب غفلت سے جاگیں اور اپنی اس کرۂ ارض کو بچانے کی جدوجہد کریں، یہ محض سائنس دانوں یا حکومتوں کا کام نہیں بلکہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔

یہیں سے اسلام کی عالمی اور ہمہ گیر تعلیمات کی اہمیت ابھر کر سامنے آتی ہے، جو نہ صرف انسانوں کے حقوق کی بات کرتا ہے بلکہ تمام مخلوقات اور ماحول کے تحفظ کی بھی تلقین کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماحول کے تحفظ اور قدرتی وسائل کے درست استعمال کے بارے میں جو تعلیمات دیں، وہ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ذیل میں اسلامی تعلیمات کے چند اہم پہلوؤں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے جو ہمیں اس مشترکہ چیلنج سے نمٹنے کے لیے رہنمائی کرتا ہے۔

صفائی اور پاکیزگی- نصف ایمان کا تقاضا:اسلام نے صفائی پر بے حد زور دیا ہے اورحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پاکی آدھا ایمان ہے‘‘۔[مسلم، کتاب الطہارۃ،رقم الحدیث: ۵۳۴] اس حدیث کا ماحولیاتی تناظر یہ ہے کہ ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم نہ صرف اپنی جسمانی اور روحانی پاکیزگی کا خیال رکھیں بلکہ اپنے گردوپیش یعنی اپنے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھیں۔ اگر ہوا آلودہ ہو، پانی گدلا ہو اور زمین کچرے سے بھری ہو تو یہ ہماری مجموعی پاکیزگی کے خلاف ہے۔ یہ حدیث ہمیں صاف ستھرے ماحول کی فضیلت اور اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔

درخت لگانا اور ماحولیاتی توازن- صدقہ جاریہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت لگانے کی عظیم فضیلت بیان فرمائی اور اسے محض نیک عمل نہیں بلکہ صدقۂ جاریہ قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو مسلمان کوئی درخت لگائے یا کھیتی بوئے، پھر اس میں سے پرندہ، انسان یا چوپایہ کھائے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہو گا‘‘۔ [بخاری،کتاب المزارعۃ، رقم الحدیث: 2320]

یہ حدیث ہمیں نہ صرف عمل پر اجر کی بشارت دیتی ہے بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ نباتاتی زندگی کا فروغ کس قدر وسيع فيض کا ذریعہ ہے۔ درخت محض پھل اور سایہ نہیں دیتے بلکہ ان سے پرندے انسان اور جانور سب مستفید ہوتے ہیں، اور یہ سلسلہ اس مسلمان کے لیے اجر کا باعث بنتا رہتا ہے جس نے اسے لگایا۔اس فضیلت کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی مشکل حالات میں بھی درخت لگانے کی ترغیب دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا پودا ہو تو اگر وہ اسے لگانے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے لگا دے‘‘۔[الادب المفرد، باب اصطناع المال، رقم الحدیث: 479]

اور ایک دوسری روایت میں ا س کی مزید وضاحت ملتی ہے: ’’ اگر تم سن لو کہ دجال نکل چکا ہے اور قیامت کے دوسرے سب آثار و علامات نمایاں ہو چکے ہو اور تم کوئی نرم و نازک پودا زمین میں بٹھانا اور لگانا چاہتے ہو تو لگا دواور اس کی دیکھ بھال اور نشو و نما کے انتظامات میں سستی نہ کرو، کیوں کہ وہ بہرحال زندگی کے گزران کے لیے ایک ضروری کوشش ہے‘‘۔

 [مرجع سابق، رقم الحدیث: 480]

یہ احادیث ہمیں ماحولیاتی توازن اور نباتاتی زندگی کی بقا کی جانب ایک واضح اشارہ دیتی ہیں۔ یہ ہمیں بتاتی ہیں کہ ہر حال میں، یہاں تک کہ انتہائی ناموافق حالات میں بھی ماحولیاتی بہتری کی کوشش ترک نہیں کرنی چاہیے۔ درخت فضا کو صاف رکھتے ہیں، آکسیجن فراہم کرتے ہیں جو تمام جانداروں کے لیے لازم ہے، مٹی کے کٹاؤ کو روکتے ہیں جس سے زمین کی زرخیزی برقرار رہتی ہے اور بارش کا سبب بنتے ہیں جو پانی کے قدرتی چکر کے لیے ضروری ہے۔ یہ تمام فوائد اس بات کا ثبوت ہیں کہ درخت لگانا ایک بنیادی ماحولیاتی ذمہ داری ہے اور یہ نہ صرف ہماری موجودہ نسلوں کے لیے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک پائیدار اور بہتر ماحول کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

پانی کا درست استعمال اور تحفظ- زندگی کی اساس: اسلام میں پانی کو زندگی کی اساس قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے پیدا کیا۔ [الانبیاء:30]  اس آیت سے پانی کی بنیادی اہمیت واضح ہوتی ہےجو نہ صرف انسانی حیات بلکہ تمام مخلوقات کے لیے لازم ہے،اسی اہمیت کے پیش نظرحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کے ضیاع اور آلودگی سے سختی سے منع فرمایا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کے درست استعمال کی ترغیب خود اپنے عمل سے دی، آپ نے وضو جیسے ایک اہم عبادتی عمل میں بھی پانی کم استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد پانی سے وضو اور ایک صاع پانی سے غسل کیا کرتے‘‘۔ [ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ، رقم الحدیث: 269]

یہ حدیث ہمیں ہر حال میں پانی کی بچت کا درس دیتی ہے، اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ پانی ایک قیمتی امانت ہے جسے ہر صورت میں بچانا چاہیے۔مزید برآں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کے قدرتی ذخائر کو آلودہ کرنے سےبھی سختی سے منع فرمایا: ’’تم میں سے کوئی بھی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے پھر اس میں غسل کرے‘‘۔ [مسلم، کتاب الطہارۃ، رقم الحدیث: ۶۵۷]

 اس حدیث کا واضح مطلب یہ ہے کہ پانی کے قدرتی ذخائر کو گندا کرنا ممنوع ہے تاکہ وہ تمام مخلوقات کے لیے قابل استعمال رہیں۔ آج کے صنعتی اور شہری دور میں فضلہ پانی میں بہانا اس حکم کی شدید خلاف ورزی ہے اور اس سے نہ صرف انسانی صحت بلکہ ماحولیاتی نظام بھی شدید متاثر ہوتا ہے۔ اسلام کی یہ تعلیمات ہمیں پانی کے تحفظ اور اس کے ذمہ دارانہ استعمال کی پائیدار بنیاد فراہم کرتی ہیں تاکہ ہم اس نعمت کو آنے والی نسلوں کے لیے بھی محفوظ رکھ سکیں۔

فضول خرچی سے اجتناب اور وسائل کا حسن انتظام: اسلام میں اسراف (فضول خرچی) اور تبذیر (مال کو ضائع کرنا) سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’کھاؤ اور پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، بے شک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔[ الاعراف: 31] یہ آیت واضح طور پر اس بات پر زور دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھایا جائے، لیکن حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔ یہ حکم محض کھانے پینے تک محدود نہیں بلکہ ہر قسم کے وسائل خواہ وہ پانی ہو، بجلی ہو، مال ہو یا کوئی بھی قدرتی نعمت کے استعمال میں اعتدال اور ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔ اسلام کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ انسان ان وسائل کا مالک نہیں بلکہ ان کا امین ہے اور اسے ان کا حساب دینا ہوگا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسراف سے بچنے کی بارہا تاکید فرمائی۔اس کی ایک واضح مثال وہ واقعہ ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جو وضو کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ کیسا اسراف ہے؟ حضرت سعد نے پوچھا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں، اگرچہ تم بہتی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ بیٹھے ہو‘‘۔ [ابن ماجہ ، کتاب الطہارۃ، رقم الحدیث: 425] 

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں وسائل کے استعمال میں کفایت شعاری اتنی اہمیت رکھتی ہے حتیٰ کہ عبادت جیسے نیک عمل میں بھی اسراف سے منع کیا گیا ہے، چاہے وسائل کی بظاہر فراوانی ہی کیوں نہ ہو۔ اسراف بالآخر وسائل کی کمی اور معاشرتی محتاجی کا سبب بنتا ہے۔ نیز ایک حدیث پاک کا جز ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص میانہ روی اختیار کرے، اللہ اسے غنی کر دیتا ہے، اور جو فضول خرچی کرے، اللہ اسے محتاج کر دیتا ہے‘‘۔[جہنم میں لے جانے والے اعمال، ج:۱، ص:259]

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اسراف نہ صرف انفرادی طور پر انسان کو مالی مشکلات میں ڈالتا ہے بلکہ یہ اللہ کی رضا کے بھی خلاف ہے۔

آج کے دور میں، اسراف اور تبذیر کی ایک واضح مثال پلاسٹک کا بے تحاشا استعمال ہے۔ پلاسٹک کی چیزوں کو ایک بار استعمال کرنے کے بعد بے دردی سے پھینک دینا اور پھر ان کا ہزاروں سال تک ماحول میں موجود رہنا، یہ سب وسائل کا اسراف اور فضلہ کا تبذیر ہے۔ یہ عمل نہ صرف ہمارے قدرتی ماحول کو آلودہ کرتا ہے بلکہ قیمتی وسائل کو بھی ضائع کرتا ہے۔ اسی طرح بجلی کا بے جا استعمال، ضرورت سے زیادہ سامان خریدنا، اور خوراک کا ضیاع بھی اسراف کی ہی مختلف شکلیں ہیں۔اسلامی تعلیمات ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ ہمیں ہر چیز کا ذمہ دارانہ استعمال کرنا چاہیے۔ جو چیز قابل استعمال ہے اسے استعمال کریں، جو قابل مرمت ہے اسے ٹھیک کریں، اور جو قابل ری سائیکل ہے اسے ری سائیکل کریں۔

دوسروں کو تکلیف نہ دینا- حسن اخلاق کا تقاضا:اسلام حسن اخلاق، حقوق العباد اور معاشرتی امن و سکون پر بھی گہرا زور دیتا ہے۔ اس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ مسلمانوں کو دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرنی چاہیے اور کسی بھی طریقے سے انھیں  تکلیف نہیں دینی چاہیے۔ یہ اصول ماحولیاتی سیاق و سباق میں بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، خاص طور پر شور اور روشنی کی آلودگی جیسے جدید مسائل کے حوالے سے۔شور کی آلودگی اگرچہ براہ راست کسی حدیث میں مذکور نہیں، تاہم اسلام کے عمومی اخلاقی اصول اسے ممنوع قرار دیتے ہیں۔ بے جا اور غیر ضروری شور دوسروں کے لیے جسمانی اور ذہنی تکلیف کا باعث بنتا ہے، جو کہ انسانی صحت اور سکون کے منافی ہے۔ اسلام نے ایسی ہر چیز سے منع کیا ہے جو لوگوں کی راحت میں خلل ڈالے یا انھیں  پریشان کرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لغو اور بے ہودہ باتوں سے اجتناب کا حکم دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خطبہ میں اختصار کرو اور بے ہودہ باتوں کو چھوڑ دو‘‘۔ [مسلم، کتاب الجمعہ، رقم الحدیث: 2009]

یہ حکم عام ہے اور اس میں ہر وہ چیز شامل ہے جو معاشرے میں بے سکونی، اضطراب یا الجھن کا باعث بنے خواہ وہ زبان سے نکلی ہوئی بات ہو یا کسی قسم کا شور۔ اسی طرح روشنی کی آلودگی بھی اس ضمن میں آتی ہے۔ رات کے وقت ضرورت سے زیادہ اور بے جا روشنی کا استعمال نہ صرف قدرتی تاریکی کو ختم کرتا ہے بلکہ انسانوں اور جانوروں کے قدرتی طرز زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ یہ نیند میں خلل ڈالتا ہے اور پرندوں و حشرات کی ہجرت اور رہن سہن میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔ اگرچہ یہ مسئلہ جدید دور کی پیداوار ہے، تاہم اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد ہر اس عمل سے بچنا ہے جو مخلوق خدا کے لیے نقصان دہ ہو یا ان کی فطری حالت کو بگاڑے۔ان تمام پہلوؤں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام صرف انفرادی پاکیزگی اور تزکیۂ نفس پر ہی زور نہیں دیتا، بلکہ ایک صحت مند، پرامن اور متوازن معاشرے کے قیام کی بھی ترغیب دیتا ہے۔ دوسروں کو تکلیف نہ دینا صرف اخلاقی ذمہ داری نہیں بلکہ حقوق العباد کا اہم حصہ ہے، جس کا تعلق ماحولیاتی سکون اور پائیداری سے بھی جڑا ہوا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں ایسے تمام افعال سے گریز کریں جو ہمارے اردگرد کے ماحول اور دیگر مخلوقات کے لیے بے سکونی کا باعث بنیں۔

عملی اقدامات:

آج اور کل کے لیےاب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان اسلامی تعلیمات کو عملی جامہ پہنائیں۔ ہمیں درخت لگانے چاہئیں، ہر سال لاکھوں کی تعداد میں پودے لگائے جائیں تاکہ دھرتی کے پھیپھڑے دوبارہ سانس لے سکیں۔ پانی کی ہر بوند کو قیمتی سمجھیں، اسے بچائیں اور اس کے استعمال میں احتیاط برتیں۔ بجلی کا کم استعمال کریں اور قابل تجدید توانائی (جیسے شمسی توانائی اور ہوا کی توانائی) کی طرف رخ کریں تاکہ فوسل فیولز پر انحصار کم ہو۔ پلاسٹک سے پرہیز کریں، متبادل اشیا جیسے کپڑے کے تھیلے اور دوبارہ استعمال ہونے والے برتنوں کو اپنائیں۔ کچرے کو ٹھکانے لگانے کے صحیح طریقے اپنائیں اور ری سائیکلنگ کو فروغ دیں۔حکومتوں کو چاہیے کہ وہ سخت ماحولیاتی قوانین بنائیں، ان پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنائیں اور ماحول دوست منصوبوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں۔ صنعتوں کو چاہیے کہ وہ منافع کی دوڑ میں ماحول کو قربان نہ کریں بلکہ ماحول دوست ٹیکنالوجیز اور طریقوں کو اپنائیں اور آلودگی پر قابو پائیں۔ تعلیم کے ذریعے لوگوں میں شعور بیدار کیا جائے، بچوں کو ماحولیاتی تحفظ کی اہمیت سکھائی جائے تاکہ وہ مستقبل میں اس دھرتی کے سچے محافظ بن سکیں اور ایک بہتر کل کی بنیاد رکھیں۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ ان مسائل کو اجاگر کرے اور عوام میں بیداری پیدا کرے۔

یہ دھرتی ہمارا گھر ہے، ہماری پناہ گاہ اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل۔ اس کا تحفظ ہمارا اولین فرض ہے، اگر ہم نے آج اپنی آنکھیں بند کر لیں، اگر ہم آج بھی بے حس رہے، اگر ہم نے آج بھی عملی اقدامات نہ اٹھائے، تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ ان کا مستقبل تاریک ہو جائے گا، اور ہم اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم قدرت کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کریں، اس کے اشاروں کو سمجھیں اور اس کے ساتھ مل کر چلیں، کیونکہ اس کے بغیر نہ تو ہماری بقا ہے اور نہ ہی ہماری آنے والی نسلوں کا کوئی روشن اور محفوظ مستقبل۔ آئیے زہر میں گھلتی اس حیات کو ایک بار پھر سانس لینے کا موقع دیں، اس دھرتی کے نوحے کو ایک خوشگوار نغمے میں بدلنے کا عزم کریں، ایک ایسا نغمہ جو زندگی، حسن اور پائیداری کا لافانی ترانہ ہو۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved