تفہیم قرآن
محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
عربی زبان میں
اسم کی دو قسمیں ہیں: مذکر اور مؤنث۔
مذکر: وہ اسم ہے جو کسی مرد کا نام ہو، یا جس میں علامت تانیث نہ ہو، مثلاً زید،حمزہ اور قائم وغیرہ۔
مؤنث: وہ اسم ہے جو کسی عورت کا نام ہو، یا جس میں علامت تانیث ہو، مثلاً زینب، فاطمہ اور زاہدہ وغیرہ۔
ان تعریفات اور مثالوں کی روشنی میں مذکر ومؤنث کے درمیان بآسانی فرق کیا جاسکتا ہے، لیکن عربی زبان میں کچھ ایسے کلمات بھی پائے جاتے ہیں جن میں بظاہر کوئی علامت تانیث نہیں ہوتی، اس کے با وجود اہل زبان ان کو مؤنث استعمال کرتے ہیں، ایسے کلمات کو علم نحو کی اصطلاح میں مؤنث سماعی یا مؤبث غیر قیاسی کہا جاتا ہے، زبان وادب کے ہر طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ ان کلمات کی اچھی طرح شناخت کرلے، تاکہ ترجمہ وتعریب کے دوران کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ ہو۔
ہم یہاں اختصار کے ساتھ مؤنث سماعی کا ذکر کریں گے، اور انھیں الف بائی ترتیب کے مطابق ذکر کریں گے، امید ہے کہ ہماری یہ تحریر زبان وادب کےشائقین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگی۔
الإبل:اونٹ اور اونٹنیوں کے لیے بولا جاتا ہے، إبلکا اسی لفظ سے کوئی واحد نہیں ہے، یہ مؤنث ہے، اسی کے تحت لسان العرب میں ہے:قال الجوهري: وهي مؤنثة، لأن أسماء الجموع التي لا واحد لها من لفطها إذا كانت لغير الآدميين فالتانيث لها لازم.
یعنی جوہری نے کہا کہ إبلمؤنث ہے، کیوں کہ جس اسم جمع کا اسی لفظ سے کوئی واحد نہ ہو، اور اس کا اطلاق انسانوں پر نہ ہوتا ہو تو اس کے لیے تانیث لازم اور ضروری ہے۔ اور یہ تمام شرائط لفظ إبل میں موجود ہیں لہٰذا إبلمؤنث ہوگا، ارشاد باری ہے:
اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ.[سورۂ غاشیہ: 17]
کیا وہ اونٹوں کو نہیں یکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیے گئے ہیں ؟
اس آیت میں اونٹ کی تخلیق کے لیے جو فعل آیا ہے وہ مؤنث ہے، جو اس بات پر دلیل ہے کہ إبل مؤنث ہے۔
الأذن: ذال کے ضمہ اور سکون کے ساتھ، اس کی جمع آذانہے، اس کے دو معانی ہیں، ایک کان، دوسرے کان کا کچا، جو ہر سنی بات پر اندھا اعتماد کر بیٹھتا ہے، أذن بمعنی کان مؤنث ہے، ارشاد باری ہے:
اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِۙ۰۰۱۱ لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَّ تَعِيَهَاۤ اُذُنٌ وَّاعِيَةٌ۰۰۱۲ ۔[سورۂ حاقہ: 11-12]
یعنی جب پانی حد سے زیادہ ہو گیا تو اے قوم نوح! ہم نے تمھیں کشتی پر سوار کرلیا، تاکہ ہم اسےتمھارے لیے نصیحت بنادیں، اور اسے یاد رکھنے والے کان یاد رکھیں۔
اس آیت مبارکہ کے مطابق لفظ أذن مؤنث ہے، کیوں کہ اس آیت میں أذن کےلیے تَعِيَ فعل مؤنث آیا ہے، ساتھ ہی أذن کی صفت وَاعِيَةٌ بھی مؤنث آئی ہے۔
اور أذن بمعنی کان کا کچا مذکر ہے، ارشاد باری ہے:
وَ مِنْهُمُ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ النَّبِيَّ وَ يَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌ١ؕ قُلْ اُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ يُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ۠ وَ رَحْمَةٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ۔[سورۂ توبہ: 61]
ان میں کچھ وہ بھی ہیں جو نبی کو اذیت پہنچاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ وہ کان کے کچے ہیں، اے نبی! کہہ دو کہ یہ تمھاری بھلائی کے کان ہیں، جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، مسلمانوں پر یقین کرتے ہیں، اور تم میں جو ایمان لے آئے ان کے لیے رحمت ہیں۔
اس آیت میں اذن کا دوسرا معنی مراد ہے، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں منافق کہا کرتے تھے: هُوَ اُذُنٌ ۔ یعنی یہ ہر ایک کی بات سنتے اور صحیح مان لیتے ہیں، تو اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کا دفاع کرتے ہوئے فرمایا: اُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ۔
یعنی بلا شبہ یہ ہر ایک کی بات سنتے ہیں، لیکن صرف بھلائی کی بات سنتے ہیں، اور سچی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں، کیوں کہ یہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، اور مسلمانوں کے خیر خواہ اور سراپا رحمت ہیں۔
اس آیت میں أذن کی صفت کے طور پر آنے افعال میں مذکر کے صیغے ذکر کیے گئے ہیں، جو اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ اذن جب دوسرے معنی میں مستعمل ہوتو مذکر ہوتا ہے۔
الأرض: زمین کو کہتے ہیں، اس کی جمع أراضي ہے، أرض مؤنث ہے، قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں لفظ أرض مذکور ہے، جن میں أرض کے لیے ذکر کیے گئے افعال، صفات، اور اس کی جانب لوٹنے والے ضمائر مؤنث ہیں، جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ أرض مؤنث سماعی ہے، ارشاد باری ہے:
وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَ اَلْقَيْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ وَ اَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِيْجٍ ۔[سورۂ ق: 7]
اور ہم نے زمین کو پھیلادیا اور اس میں مضبوط پہاڑ نصب کیے، اور اس میں ہر قسم کے خوش نما پودے اگائے۔
الإصبع:اس کا معنی انگلی ہے، اس کی جمع أصابع ہے، یہ مؤنث ہے،کبھی مذکر بھی استعمال ہوتا ہے، ترمذی شریف، سورۂ والضحی کی تفسیر میں حضرت جندب البجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی انگشت مبارک زخمی ہوگئی تو آپ نے فرمایا:
هَلْ أَنْتِ إِلاَّ إِصْبَعٌ دَمِيتِ
وفي سَبِـــيلِ اللهِ ما لَقِيتِ
یعنی تو ایک انگلی ہے جو خون آلود ہوگئی، اور اللہ کی رضا کے لیے تکلیف سے دوچار ہوئی۔
اس حدیث پاک میں إِصْبَعٌ کے لیے دَمِيتِ اور لَقِيتِ صیغۂ خطاب مؤنث لایا گیا ہے، جو اس کی تانیث پر روشن دلیل ہے۔ واضح رہے کہ إِصْبَعٌ کی طرح اس کے تمام افراد مؤنث ہیں، لہٰذا الإبهام، السبابة، الوسطى، البنصر، الخنصرمؤنث استعمال کیے جائیں گے۔
البئر: اس کی جمع آبار ہے، بئر کا معنی کنواں ہے، پانی کے کنویں کے لیے مطلقاً بئر یا بئرعادية کہتے ہیں، جب کہ زمزم شریف اور پٹرول وغیرہ کے لیے بئر کو اضافت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں، مثلاً بئرزمزم اور بئر البترول وغیرہ، بہر کیفبئربمعنی کنواں مؤنث ہے، خواہ اضافت کے ساتھ ہو یا اضافت کے بغیر ہو، ارشاد باری ہے:
وَ بِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّ قَصْرٍ مَّشِيْدٍ۔[سورۂ حج: 45]
اور کتنے کنویں ہیں جو بیکار پڑے ہوئے ہیں اور کتنے مضبوط محل ہیں جو اپنے مکینوں سے خالی ہو چکے ہیں۔
اس آیت مبارکہ میں بِئْرٍکی صفت مُعَطَّلَةٍ مؤنث آئی ہے جو اس بات پر دلیل ہے کہ بئر مؤنث ہے۔
جهنم: آخرت میں عذاب کا گھر ہے، قرآن کریم کی متعدد آیات میں جہنم کا ذکر ہے، اور ہر جگہ مؤنث ہے، مثلاً سورۂ یس میں ہے:
هٰذِهٖ جَهَنَّمُ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۰۰۶۳ اِصْلَوْهَا الْيَوْمَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ۰۰۶۴ ۔[سورۂ یٰسٓ: 63-64]
یہ جہنم ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔آج اس میں چلے جاؤ، یہ تمھارے کفر کا بدلہ ہے۔
ان آیات میں جہنم کے لیے اسم اشارہ مؤنث لایا گیا ہے، ساتھ ہی کلمہ اِصْلَوْهَا میں ضمیر عائد مؤنث لائی گئی ہے، جو اس بات پر دلیل ہے کہ جہنم مؤنث ہے۔(جاري
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org