اداریــــــــہ
ہم جنگ اور اسرائیل دونوں کو ایک ساتھ ختم کریں گے— روز نامہ کیہان
مہتاب پیامی
تہران کےصاف شفاف فضا میں اچانک دھویں کے بادل منڈلانے لگے اور آسمان کے ستارے لرز اٹھےرات کی چادر پر جب آسمان کے ستارے خوف سے کانپنے لگے، دنیا نے دیکھا کہ جنگ کی دیوی نے ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ کی گود میں اپنے جلتے ہوئے پر پھیلادیے ہیں۔ اسرائیلی طیاروں نے جب ایران کی زمیں کو چیرتے ہوئے شعلوں کی لکیریں کھینچیں، تو لگا گویا تیل کے کنویں نہیں، تہذیبوں کے زخم چرکنے لگے ہوں۔تہران کی جنوبی فصیل پر واقع آئل ریفائنری پر جو آگ برسائی گئی، وہ صرف ایندھن نہیں جلا رہی تھی بلکہ امیدوں کی روشنی کو بھی خاکستر کر رہی تھی۔ لگ رہا تھا جیسے زمین کے سینے پر کوئی پرانا عذاب واپس آ گیا ہو ، وہی عذاب جو قوموں کو تقسیم کرتا ہے، شہروں کو مٹی میں بدل دیتا ہے، اور خوابوں کو راکھ کر دیتا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جب میڈیا سے بات کی، تو ان کے لہجے میں سفارتی لہجے کی بجاے ایک گھائل قوم کی دھڑکن چیخ رہی تھی، ان کا کہنا تھا کہ یہ آگ اسرائیل نے تنہا نہیں لگائی، اس کے پس پردہ واشنگٹن کے سفید ستونوں سے اڑتی ہوئی کالی روشنی بھی شامل ہے، اور اسی روشنی نےستم کے ان شعلوں کو راہ دکھائی ہے۔یہ شعلے اسرائیل نے نہیں، امریکی نظامِ ستم نے برسائے ہیں، ہم نے ثبوت فراہم کیے ہیں کہ امریکی اڈے، ان کے ہتھیار، ان کی مرضی اور ان کے صدر کی زبان نے یہ سب کچھ ممکن بنایا۔ہمارے پاس ثبوت ہیں، ناقابلِ تردید اور ٹھوس… امریکہ نے نہ صرف یہ جانا بلکہ سرِعام مانا کہ وہ اس سازش کا حصہ ہے۔ صدر ٹرمپ کے الفاظ ہمارے زخموں پر نمک نہیں، بلکہ ایک گواہی ہیں، جو تاریخ کے ایوان میں ہمیشہ گونجتی رہے گی۔
عراقچی کا کہنا ہے کہ امریکہ نے پیغامات کے ذریعے معذرت کی کہ وہ ان حملوں میں شامل نہیں، مگر نشانات تو کچھ اور ہی گواہی دے رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ :”اگر امریکہ واقعی اس جنگ کا حصہ نہیں، تو وہ نیوکلیر تنصیبات پر حملے کی مذمت کرے۔“
یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے جب عمان میں امریکہ اور ایران کے درمیان نیو کلیر معاہدے کی چھٹی نشست ہونے والی تھی۔عراقچی نے دعویٰ کیا کہ ”اسرائیل نے ایک بار پھر سفارت کے چراغ کو بجھانے کی کوشش کی ہے، وہی چراغ جس کی لو پر دنیا کی امیدیں رقص کرتی تھیں۔“یہ سب کچھ ایک ایسے لمحے میں رونما ہوا، جب ایران، شام اور لبنان کی فضائیں پہلے ہی جنگ کے بادلوں سے بوجھل تھیں۔ اور اب تہران، اصفہان، بوشہر، شاہرہان، ہر جگہ آگ برسائی گئی، تیل کے کنویں، گیس کے ذخائر، اور بجلی کے نظام....ہر وہ شریان جس سے ایران کا بدن متحرک تھا، اسے نشانہ بنایا گیا۔ایران کے فوجی کمانڈروں، پاسدارانِ انقلاب، نیوکلیر سائنسدانوں، اور درس گاہوں کے اساتذہ کو موت کی نیند سلا کر اسرائیل نے تہران کی زمین پر صرف لاشیں نہیں گرائیں، بلکہ فکر، دانش اور علم کے پودوں کو ان کی جڑوں سے اکھاڑنے کی کوشش کی۔
|
اس آپریشن کا نام اسرائیل نے ”آپریشن رائزنگ لاین“ رکھا۔ آپریشن رائزنگ لاین بھی ایسا ہی ایک خاموش مگر چمکتا ہوا شعلہ تھا، جس نے بظاہر ایران کے جوہری مراکز پر حملہ کیا، مگر حقیقتاً پوری مشرقِ وسطیٰ کی سیاسی، عسکری اور تہذیبی زمین کو ہلا دیا۔آپریشن رائزنگ لاین دراصل مستقبل کی جنگ کا پہلا بڑا مظہر تھا۔ اس میں نہ صرف جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی، بلکہ اخلاقیات، سفارت، اور قانون کی تمام حدیں بھی عبور کی گئیں۔ اسرائیل نے بغیر اعلانِ جنگ، ایران کے نیوکلیر مراکز پر حملہ کیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ یہ حملہ ایران کی جوہری صلاحیت کو روکنے کے لیے ضروری تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر ہر طاقت ور ملک اپنے خوف کی بنیاد پر دوسروں کی خودمختاری روندنے لگے، تو عالمی نظام کا کیا بنے گا؟یہ وہ لمحہ تھا جب پیشگی دفاع (preemptive strike) کے نام پر پیشگی فتح حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اور دنیا، جو انسانی حقوق، عالمی ضوابط اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی دعوےدار ہے، محض تماشائی بن کر رہ گئی۔
اسرائیل کا یہ رائزنگ لاین تاریخی بھی ہے اور علامتی بھی، تاریخ میں اس کی جڑیں رضا شاہ پہلوی کے ایرانی پرچم سے جا کر ملتی ہیں، اور علامتی طور پر دیکھا جائے تو یہ ”رائزنگ لاین“ وہ جدید طاقت ہے جو سائنس، میڈیا اور پروپیگنڈا کو ہتھیار بناتی ہے۔ یہ جدید سیاست کے جنگل کا شیر ہے جس کے پنجے ”ڈرون“ ہیں، آنکھیں ”مصنوعی ذہانت“، اور دماغ ”ڈیپ اسٹیٹ“یہ شیر صرف جسم نہیں چیرتا، ریاستوں کی خودی، اقوام کی خودمختاری، اور تاریخ .کی حرمت کو بھی زخمی کرتا ہے۔
اس شیر نے نہ صرف جوہری تنصیبات، آئل ریفائنریز اور اہل علم و دانش کو تباہ وبرباد کیا بلکہ اس نے ایران کے اندر خفیہ موسادی سرگرمیوں، سائبر تخریب کاری، اور داخلی کمزوریوں کو بھی ہوا دی۔ شاہرہان کے آئل ڈپو میں لگنے والی آگ صرف ایندھن کو نہیں، بلکہ تہران کے باشندوں کے خوابوں کو بھی جلا گئی،آسمان پر اڑتے پرندے، جو کبھی محبت کے قاصد تھے، اب موت کے پیغامبر بن چکے ہیں۔
جنرلز کی ہلاکت، تنصیبات کی تباہی، اور قومی شعور کی چوٹ — یہ سب کچھ بتاتا ہے کہ جنگ اب صرف ہتھیاروں کی جنگ نہیں رہی، بلکہ نظاموں، اداروں، اور قوموں کے اعصاب پر قبضے کی جنگ ہے۔ مگر دنیا نے دیکھا کہ ایران خاموش نہیں بیٹھا۔جواب میں ایران نے اپنے آتشیں پرندوں کو تل ابیب اور حیفہ کی جانب بہ زبانِ ساحر یہ کہتے ہوئے روانہ کیا
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف |
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی |
یہ زر کی جنگ ہے نہ زمینوں کی جنگ ہے |
یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے |
جو خون ہم نے نذر دیا ہے زمین کو |
وہ خون ہے گلاب کے پھولوں کے واسطے |
آئے گی صبح امن، لہو رنگ ہی سہی
بے شک ہمارے ہاتھوں میں شعلہ نہیں، دعا ہے، آنکھوں میں نفرت نہیں، روشنی کی پیاس ہے مگر اگر اندھیرے اس قدر گہرے ہو جائیں کہ چراغوں کو نگلنے لگیں، اگر ظلم سانپ بن کر حریت کے گلابوں کو ڈسنے لگے، تو پھر ہمیں اپنے زخموں کو ہتھیار بنانا آتا ہے۔ہم امن کے دیوانے ہیں، لیکن اگر امن کو گلا گھونٹ کر قید کیا جائے، اگر انصاف کو زنجیروں میں جکڑا جائے، اگر سکوت کو بزدلی بنا دیا جائے، تو پھر ہماری خاموشی بغاوت بن جاتی ہے، اور ہماری خاموش آہیں، میدانِ کارزار کی گھن گرج میں ڈھل جاتی ہیں۔جو خون ہم نے زمین کو دیا ہے، وہ فقط لہو نہیں — وہ عشق کی مہریں ہیں، جو مٹی کی پیشانی پر ثبت ہوئی ہیں۔ وہ خون لال گلاب کی آبیاری ہے، وہ صبح کی اذان ہے، جو رات کے سینے کو چیر کر نکلتی ہے، ہمیں معلوم ہے کہ صبحِ امن آئے گی — شاید وہ چادر لہو سے تر ہو، شاید اس کی ہوا میں سسکیاں ہوں، لیکن وہ صبح آئے گی۔ کیوں کہ سیاہ راہ کا سخت پتھر چاہے کتنا ہی سخت ہو، اذانِ فجر کی شیشہ نما ضرب اسے چکنا چور کر ہی دیتی ہے۔
ایران کی ضرب سے جب اسرائیل کی کمر ٹوٹنےلگی تو جس طرح رات کے اندھیرے میں گیدڑوں کا ہجوم ایک آواز میں چیختا ہے، اسی طرح اُس کے ہم نوا چیخنے چلانے لگے کہ یہ صرف بدلہ نہیں بلکہ تیسری عالمی جنگ کی تمہید ہے، امریکہ بہادر نے بھی اپنی چودھراہٹ دکھانے کی کوشش کی لیکن ایرانی رہ نماؤں کے بیانات نے ثابت کر دیا کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتے۔
ایرانی حملے کے بعدایران کے مقامی اخبارات نے اپنی پیشانیوں پر صرف خبریں نہیں، بلکہ ملی غیرت کے زخموں کو کندہ کیا۔روزنامہ ”کیہان“ نے لکھا:”ہم جنگ اور اسرائیل دونوں کو ایک ساتھ ختم کریں گے۔“ ایک اور اخبار نے اسے قومی جنگ سے تعبیر کیا ، اخبار ”سازندگی“ نے سرخی جمائی”تل ابیب کے چہرے پر ایران کا طمانچہ۔“
حالیہ واقعات میں، ایران نے اپنے جوابی آپریشن "وعدۂ صادق" کے تحت، جس کے نام ہی میں صداقت اور وعدہ کی گونج سنائی دیتی ہے، پانچ سو سے زائد بیلسٹک میزائل اور ڈرونز کی بارش کر دی۔ یہ بارش پانی کی نہیں، آگ کی تھی، تل ابیب، حیفہ اور ریشون لیزون جیسے شہروں پر ایسی گھنگھور گھٹائیں چھا گئیں جن کے نیچے صرف دھواں، تباہی اور عبرت کے نقش ثبت ہوئے۔ ایران کی فضاؤں نے دشمن کے F-35 جنگی جہازوں کو قبول نہ کیا اور انھیں خاک میں ملایا، جیسے شہیدوں کا انتقام فضاؤں میں سرگوشی کرتا ہو۔
انقلابی گارڈز نے اپنے بیان میں اس جوابی طوفان کی تفصیل کچھ یوں بیان کی جیسے کوئی زخمی شیر دھاڑتا ہو: ”ہم نے ان کے ایندھن کے مراکز، توانائی کی فراہمی کے سرچشموں، اور جنگی جہازوں کی سانسوں کو نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر اسرائیلی ہاتھ باز نہ آئے، تو ایرانی ردِعمل کی گونج اور زیادہ گہری اور تباہ کن ہوگی۔
ایران کا یہ حملہ صرف فوجی کاروائی نہیں ہے، بلکہ ایک نظریاتی پیغام بھی ہے۔ ایک ملک جس پر جارحیت کی گئی، اس نے جواب دیا، اور ساتھ ہی بین الاقوامی ضمیر کو جھنجھوڑا۔ ایران نے اسرائیلی حملے کو نہ صرف اپنی سرزمین کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا بلکہ اسے عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی بھی گردانا۔
ایرانی صدرپزشکین نے ان لمحوں میں جو لب کشائی کی، وہ محض سفارتی جملے نہ تھے بلکہ وہ صدیوں پر محیط ایرانی عزتِ نفس اور مزاحمت کی آواز تھی۔ انھوں نے دو ٹوک کہا کہ امریکہ کی وہ پرانی چال، جس میں دباؤ اور دھونس کے ذریعے ایران کو زیر کیا جاتا رہا، اب ناکام ہو چکی ہے۔ اسرائیل کے ان حملوں کی حمایت کو امریکہ کی بدنیتی کا ثبوت قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا: ”وہ ہمیں مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ ہم جھک جائیں، مگر وہ نہیں جانتے کہ ہم سر کٹوا سکتے ہیں، جھکا نہیں کرتے۔“ایسے حالات میں قطر کے امیر شیخ تمیم کی جانب سے ایرانی عوام کے ساتھ اظہارِ ہمدردی اور یکجہتی نے خلیج کی ہواؤں میں ایک نئی ہم آہنگی پیدا کی۔ اس پر صدر نے شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ ایران تنہا نہیں، اور جو دل ظلم کے خلاف دھڑکتے ہیں، وہ ایک دوسرے کے قریب ہیں۔
یہ داستان صرف میزائلوں اور جہازوں کی نہیں، عزت و حمیت، وعدہ و وفا، اور ایک قوم کی بیدار غیرت کی کہانی ہے۔ ایران کی فضائیں اب بھی خاموش نہیں، اور اگر کوئی آسمان سے بارود برسائے گا، تو زمین سے حوصلے اگیں گے،ایسے حوصلے جنھیں نہ گولی مار سکتی ہے، نہ سازش روند سکتی ہے۔ایرانی اتھارٹی نے اسرائیل کے منہ پر طمانچہ مار کر اسلامیانِ عالم کے جلتے سلگتے سینوں کو جو ٹھنڈک پہنچائی ہے، ہم دعا کرتے ہیں کہ تادیر وہ ٹھنڈک برقرار رہے۔ آمین۔
رسالہ پریس جانے کو تیار تھا ، ایسے میں خبر آئی کہ ایران پر حملہ کرنے کی پندرہ روزہ مہلت کے باوجود دو ہی دن میں اپنی بات سے پھرتے ہوئے ڈونالڈ ٹرمپ کے حکم پر امریکی جنگی جہازوں نے ایران کے تین شہروں میں واقع ایٹمی تنصیبات پر بنکر بسٹر بموں سے حملہ کر دیا۔ امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ ایران کی ایٹمی تنصیبا کو ملیامیٹ کر دیا گیا ہے، اس کے یہ دعوے اس وقت بڑ بول ثابت ہوئے جب ایران نے عالمی میڈیا کو بتایا کہ حملہ ضرور ہوا مگر اس کی ایٹمی تنصیبات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ۔ ایران اپنا ایٹمی مواد پہلے ہی دوسرے خفیہ مقامات پر منتقل کر چکا ہے۔ ایران نے امریکہ کو اس کے عبرت ناک انجام کی دھمکی دی ہے ۔ اس حملے کے بعد دوسری بڑی طاقتوں کے جنگ میں ملوث ہونے کے آثار بھی نظر آنے لگے ہیں۔اس طرح اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دنیا تیزی سے تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ تیسری عالمی جنگ ہو کر رہے گی اور 2027ء کے ختم ہوتے ہوتے اسرائیل کا وجود بھی دنیا کے نقشے سے غائب ہو چکا ہوگا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org