تنقیدی اسلوب کا چلن جاری رہنا چاہیے
مکرمی! ماہ نامہ اشرفیہ مبارک پور مئی 2025 اپنی علمی اور دینی افکار سے لبریز قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ چکا ہے ۔ سب سے پہلے جناب مہتاب پیامی صاحب کا اداریہ ”بھلائی کے درخت“ پڑھیں ابتداءً ہی آپ کو مولانا حبیب اللہ بیگ ازہری صاحب کی علمی فکری اور دینی توانائیوں کا علم ہو جائے گا۔ پھر آپ اسی ماہ نامہ کے صفحہ نمبر 20-21 کا مطالعہ کریں ، اس میں مولانا حبیب اللہ بیگ ازہری صاحب کی رائے پر جو پکڑ کی ہے اسے بغیر کسی لیت و لعل کے اسی ماہ نامہ میں جگہ دی گئی جس کے کالم نگار ازہری صاحب خود بھی ہیں۔
ماہ نامہ اشرفیہ میں اس گرفت کو جگہ دینا اچھی پہل ہے اور اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ کسی مؤقر عالم کی رائے پر علمی گفتگو کے ذریعے گرفت کی جا سکتی ہے۔ اخلاقی حدود میں رہ کر ان کی باتوں کی تردید کی جا سکتی ہے۔
مولانا حبیب اللہ بیگ ازہری صاحب اتنے خوش اخلاق اور ملنسار ہیں کہ انھیں بھی اس پر کوئی شکوہ و شکایت نہیں ہے البتہ دکھ اس بات کا ضرور ہوگا کہ اصلاح کے نام پر استہزا اور غیر عالمانہ لب و لہجہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ عام تو عام خاص بھی ایسے الفاظ کا استعمال کر جاتے ہیں جو صلاحیت مند اور با عمل عالم تو دور ایک مسلمان کو بھی زیب نہیں دیتا۔
حق تنقید جس قوم اور تنظیم کے درمیان روا اور جائز ہے ان کے درمیان خرابیاں جنم لیتے ہی ختم ہو جاتی ہیں کیوں کہ دوسرا فوراً گرفت کرتا ہے ۔ لیکن جہاں بولنے کی آزادی چھینی جاتی ہو اور چہرہ دیکھ کر باتوں کو سند کا درجہ دیا جاتا ہو، گرفت کرنے والوں کا جینا دو بھر کیا جاتا ہو، وہاں پر خرابیاں جنم لیتی ہیں، رفتہ رفتہ پروان چڑھتی ہیں اور پھر وہ ضروری جز بن کر معاشرہ میں متعارف ہو جاتی ہیں جنھیں ختم کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے جیسا ہو جاتا ہے۔ اس لیے تنقیدی اسلوب کا چلن روا رکھنا چاہیے تاکہ خرابی جنم لینے کے ساتھ ختم ہو جائے ورنہ اس کے نقصانات دیرپا بسا اوقات دائمی ہو جاتے ہیں۔ از: محمد شارقؔ رضا کوشامبی
ماہ نامہ اشرفیہ میں اشاعت اعزاز کی بات ہے
مکرمی!السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
باعرضِ ادب و محبت گزارش ہے کہ آپ کا شان دار ماہنامہ ”اشرفیہ“ تواتر سے میرے مطالعے میں رہتا ہے۔ یہ ماہنامہ اپنے علمی، دینی، ادبی اور فکری مضامین کی بدولت اہلِ سنت کی ترجمانی کا حق ادا کر رہا ہے۔ اس کے ہر شمارے میں عقیدے کی پختگی، فکری رہنمائی اور اصلاحِ معاشرہ کا جذبہ نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے۔
خصوصی طور پر میرا مضمون ”غزہ: دورِ جدید کا کربلا اور انسانی حقوق کا بحران“ جو شمارہ مئی 2025 میں شائع ہوا، اُس کی اشاعت پر میں دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ میرے لیے ایک اعزاز اور حوصلہ افزا تجربہ ہے کہ ماہنامہ اشرفیہ جیسے معیاری اور باوقار رسالے نے میرے مضمون کو شائع کرنے کے قابل سمجھا۔اسی ضمن میں میری ایک اور عاجزانہ گزارش ہے کہ میرا نیا مضمون ”اسرائیل میں آگ: حکومت کی لاپرواہی یا قدرت کا انتقام؟“ بھی قابلِ توجہ ہے۔ اگر ادارہ اشرفیہ اسے آئندہ شمارے میں شائع فرما دے تو یہ میرے لیے ایک اور شکریہ کا موقع اور اعزاز ہو گا۔ یہ مضمون موجودہ عالمی حالات کا تجزیاتی و فکری جائزہ پیش کرتا ہے، جو قارئین کے لیے نہایت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
میں ادارہ اشرفیہ، بالخصوص مدیرِ اعلیٰ اور ادارتی ٹیم کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ انھوں نے میرے سابقہ مضمون کو شاملِ اشاعت کر کے نہ صرف میرے قلم کی پذیرائی کی بلکہ مظلومانِ غزہ کے درد کو ایک دینی اور علمی پلیٹ فارم کے ذریعے عام قارئین تک پہنچایا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ماہنامہ اشرفیہ کو مزید علمی، روحانی اور فکری بلندیوں سے سرفراز فرمائے اور یہ رسالہ اہلِ سنت کا نمائندہ ترجمان بن کر ہمیشہ دین و ملت کی خدمت کرتا رہے۔ دعاؤں کے ساتھ— خادمِ علم و قلم
مسرور عالم قادری مصباحی
ڈایریکٹر جامعہ حافظ ملت
عزت اور غیرت کے بدلتے معیارات
مکرمی! اگر تاریخ کے دبیز پردوں کو اٹھایا جائے اور تمدن کے تغیرات کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے، تو معلوم ہوگا کہ عزت اور غیرت کے تصورات ہر دور میں محض معاشرتی سانچوں کے تابع رہے ہیں۔ یہ وہ تصورات ہیں جن کی ماہیت کسی ازلی و ابدی حقیقت کی حامل نہیں بلکہ ہر عہد کے فکری مزاج، سماجی رویوں اور تمدنی اقدار کے زیرِ اثر مسلسل تغیر پزیر رہی ہے۔ آج روایتی تصورات کی معنویت پر سوالیہ نشان ثبت کیے جا رہے ہیں، عزت اور غیرت بھی کسی جامد و غیر متغیر حقیقت کے بجائے محض سوشل کنسٹرکٹس کے روپ میں جلوہ گر ہو چکے ہیں، جن کی تشکیل کسی حتمی اصول کے تحت نہیں بلکہ معاشرتی ضرورتوں سیاسی میلانات اور فکری انقلابات کی آماجگاہ میں ہوتی ہے۔
اگر قدیم عربی و فارسی متون کی روشنی میں دیکھا جائے تو عزت کا مفہوم جلالِ سلاطین، وقارِ علما، اور فصاحتِ خطبا کی مثلث میں محصور نظر آتا ہے۔ غیرت وہ آتشیں جذبہ تھا جو خون کے جوش، ناموس کے تحفظ اور اقدار کے استحکام سے عبارت تھا۔ مگر جدید دور میں عزت و غیرت کی یہ کلاسیکی تعریفیں اپنی معنوی تہہ داری سے محروم ہو کر محض ظاہری علامتوں میں سمٹ چکی ہیں۔ وہ غیرت جو کسی وقت دستار کی بلندی میں پنہاں تھی، آج برانڈڈ لباس اور سوشل میڈیا کی نمود و نمائش میں تبدیل ہو چکی ہے۔
معاشرتی علوم کے جدید نظریات، خاص طور پر فوکو، دیریدا اور بودریار جیسے مابعد جدیدیت کے مفکرین، ہمیں باور کراتے ہیں کہ عزت اور غیرت اب کسی جوہری حقیقت کے بجاے علامتی سرمایے (Symbolic Capital) میں ڈھل چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے عہد میں عزت وہ ہے جو لائکس، شیئرز اور فالوورز کی تعداد سے ماپی جائے، جب کہ غیرت وہ جو محض ڈیجیٹل مباحث میں گرجنے برَسنے تک محدود رہے۔ فکری افلاس کی اس فضا میں، جہاں ہر چیز کو مارکیٹ کے اصولوں پر پرکھا جاتا ہے، وہاں عزت اور غیرت بھی اب تجارتی مال کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔
یہی وہ بنیادی تبدیلی ہے جو قدیم اور جدید معاشرتی نفسیات کے مابین ایک غیر مرئی لکیر کھینچ دیتی ہے۔ وہ غیرت جو کبھی خاندانی ورثے کی حرارت میں نمو پاتی تھی، اب محض سوشل میڈیا کے ٹرینڈز کی حد تک محدود ہو چکی ہے۔ عزت جو کبھی علم و وقار کی میزان پر تولی جاتی تھی، اب محض ظاہری چمک دمک اور سوشل سرکل کی وسعت پر منحصر ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی عزت اور غیرت کی کوئی حقیقی ماہیت ہے، یا یہ محض سماجی اور ثقافتی مظاہر ہیں جو ہر دور میں نئے مفہومات کے قالب میں ڈھلتے رہے ہیں؟
ابنِ خلدون کی مقدمہ نویسی ہمیں بتاتی ہے کہ تمدن کے عروج و زوال میں نظریات کی ماہیت بھی بدلتی ہے۔ آج عزت و غیرت کے تصورات کی یہ نرمی اور تغیر شاید اسی اجتماعی نفسیات کی علامت ہے جو صنعتی و تکنیکی انقلاب کے زیرِ اثر اپنے روایتی ڈھانچوں سے نکل کر نئی تشکیلات میں داخل ہو چکی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس تبدیلی کو قبول کریں، یا پھر کسی تہذیبی ردِ عمل کے ذریعے ان تصورات کی اصل معنویت کی بازیافت کی کوشش کریں؟ از:محمد شاہد رضا نعمانی
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org