30 July, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia July 2025 Download:Click Here Views: 583 Downloads: 120

(13)-قربانی کے سماجی پہلو

*اگست 2025 کا عنوان—       سیرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے درخشاں نقوش

*ستمبر 2025 کا عنوان—                 مدارس کی تعلیم اور جدید تقاضے: چند اصلاحی تجاویز

قربانی کا ایک معاشرتی، انسانی اور معاشی زاویہ سے جائزہ

از: مفتی مسرور عالم قادری مصباحی

”اللہ تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔“(سورۃ الحج: 37)

قربانی-عبادت سے آگے کا پیغام:

قربانی محض ایک عبادت نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر سماجی عمل ہے جو اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی اور معاشرتی تعاون کا درس بھی دیتا ہے۔ عید الاضحیٰ پر ہر صاحبِ استطاعت مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے قربانی کرتا ہے۔ لیکن اگر ہم گہرائی سے جائزہ لیں تو قربانی کے اس عظیم عمل میں کئی اہم سماجی پیغامات پوشیدہ ہیں۔

غربت اور بھوک کے خلاف جنگ:

ہمارے معاشرے میں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو سال بھر گوشت کھانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ قربانی کا موقع ان ضرورت مندوں کے لیے خوشی اور سیر کا ذریعہ بنتا ہے۔قربانی کا گوشت بانٹنے کی اسلامی ترغیب، محروم طبقے تک نعمتوں کی رسائی کا عملی نمونہ ہے۔اگر ہم منظم انداز میں قربانی کا اہتمام کریں تو یہ عمل وقتی طور پر ہی سہی، لیکن غربت اور بھوک کے خلاف ایک مؤثر جنگ بن سکتا ہے۔

سماجی مساوات اور بھائی چارہ:

عید الاضحیٰ کا دن مساوات اور اخوت کی سب سے حسین تصویر پیش کرتا ہے۔نمازِ عید میں سب ایک صف میں کھڑے ہو کر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں اور قربانی کے بعد گوشت کی تقسیم میں امیر و غریب کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔یہ منظر بتاتا ہے کہ اسلامی معاشرہ رنگ، نسل، دولت اور حسب نسب کے فرق سے بالاتر ہو کر محبت، رواداری اور ہمدردی کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔

معاشی سرگرمیوں کا فروغ:

قربانی کے ایام میں معاشی سرگرمیاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔جانوروں کی پرورش، خرید و فروخت، چارہ سازی، قصابوں کی خدمات، کھالوں کی تجارت اور دیگر شعبہ جات میں سرگرمی آجاتی ہے۔یہ سب قربانی سے جڑے ایسے پہلو ہیں جو کئی طبقوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بنتے ہیں اور ملک کی معیشت کو بھی حرکت میں لاتے ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر اربوں روپے کی معاشی سرگرمیاں انجام پاتی ہیں، جن کا بڑا فائدہ نچلے اور درمیانے طبقے کو ہوتا ہے۔

قربانی اور ماحولیاتی ذمے داری:

بدقسمتی سے بعض اوقات قربانی کے عمل میں صفائی اور ماحولیاتی پہلو نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔اسلام ہمیں صفائی اور طہارت کا خاص حکم دیتا ہے۔لہٰذا قربانی کے بعد جانوروں کے فضلات کی صفائی، گوشت کی درست پیکنگ اور شہر و قصبوں کی سڑکوں کو آلودگی سے بچانا ہماری دینی اور سماجی ذمے داری ہے۔

قربانی — ایک مکمل سماجی درس:

قربانی صرف خون بہانے کا نام نہیں بلکہ یہ ایثار، ہمدردی، مساوات اور بھائی چارے کا مظہر ہے۔آج کی دنیا، جو خود غرضی اور مادی دوڑ میں الجھ چکی ہے، قربانی کا یہ پیغام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسانیت کا اصل جوہر دوسروں کی بھلائی میں پوشیدہ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قربانی کے اس سماجی پہلو کو شعوری طور پر زندہ کریں اور اسے صرف ایک انفرادی عبادت نہیں بلکہ ایک اجتماعی تحریک کے طور پر اپنائیں۔◘◘◘

 

قربانی کے معاشرتی و معاشی فوائد

از: حافظ افتخار احمد قادری

 

 

 

    اس دنیاے فانی میں انسانی ہمدردی کا حامل، فلاحی و معاشرتی لحاظ سے صفوں میں سب سے آگے نمائندگی کرنے والا دین ”دین اسلام“ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دین کے دھاگے میں فرائض و عبادات کے ایسے ایسے موتی کو پرویا ہے جس پر عمل کرکے بندہ نہ صرف قرب خداوندی حاصل کرسکتا ہے بلکہ لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کو بھی بہترین بنا سکتا ہے۔ قارئین! اس تمہید سے ہم جس عبادت کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں اس سے ہماری مراد ماہ ”ذوالحجۃ الحرام“ کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو ہونے والی جانوروں کی قربانی کے بارے میں ہے جو ہر مسلمان بالغ مرد و عورت مالک نصاب پر واجب ہے۔ ان تین دنوں میں قربانی کے ذریعے حاصل ہونے والے ثواب کو سال کے کسی بھی دن کسی بھی وسائل سے کمایا نہیں جاسکتا۔ ان دنوں افضل یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جانوروں کی قربانی پیش کی جائے۔ اس قربانی کے ذریعے نہ صرف ثواب کا ذخیرہ ہاتھ آتا ہے بلکہ لوگوں کو معاشی و معاشرتی اعتبار سے فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں جن کا ذکر ہم اس مضمون میں کرنے کی کوشش کریں گے۔

 اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: فصل لربك وانحر۔ ترجمہ: تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔(الکوثر)

  حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہوکر قربانی کی تو وہ آتش جہنم سے حجاب (یعنی روک) ہو جائے گی۔ (المعجم الکبیر، جلد:3 صفحہ:84 حدیث:2736)

اے فاطمہ!اپنی قربانی کے پاس موجود رہو کیوں کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرے گا تمہارے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔(السنن الکبری للبیہقی، جلد:9،صفحہ:476 حدیث:19161)

   قربانی عبادت کے ساتھ ساتھ لاکھوں لاکھ افراد کو کاروبار کا ذریعہ بھی فراہم کرتی ہے اور ملکی معیشت کو بھی اربوں روپے کا فائدہ پہنچاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قربانی کے لیے بہت سے لوگ اپنے گھروں، باڑوں یا کیٹل فارمز میں جانور پالتے ہیں ان کی دیکھ بھال کے لیے ملازمین رکھے جاتے ہیں۔ کسان جانوروں کے چارے کے لیے کھیتی باڑی کرتا ہے۔ اگر جانور بیمار ہو جائے تو علاج کے لیے ڈاکٹرز سے مدد لی جاتی ہے۔ جانور بیچنے والے اسے بیچنے کے لیے منڈی لانے تک اور خریدار جانور کو اپنے گھر لے جانے کے لیے گاڑیوں کو کرایے پر لیتے ہیں۔ جانور کو ایک شہر سے دوسرے شہر لے جانے کے لیے راستے میں حکومت کو ٹول ٹیکس ادا کیا جاتا ہے۔ منڈی میں جانور رکھنے کے لیے جگہیں کرائے پر لی جاتی ہیں۔جانوروں کی حفاظت کے لیے ٹینٹ اور دیگر لوازمات کا کرایہ ادا کیا جاتا ہے،منڈی آنے والے افراد کے لیے منڈی میں مختلف کھانے پینے کے اسٹال لگائے جاتے ہیں۔منڈی میں بچے اور بزرگ گھوم گھوم کر ماسک بیچ رہے ہوتے ہیں۔جانوروں کو سجانے کے لیے سجاوٹ کا سامان خریدا جاتا ہے،چھری، چاقو تیز کرنے والوں کے کاموں میں تیزی آجاتی ہے۔ چھری،چاقو کی خرید و فروخت بڑھ جاتی ہے،قصابوں کو بھی تلاش کیا جارہا ہوتا ہے۔قربانی کے بعد گوشت کو پکانے کے لیے مصالحہ جات کا استعمال،قربانی کے بعد لیدر انڈسٹری جانوروں کے کھالوں کی منتظر ہوتی ہے۔قربانی کی کھالوں سے دینی مدارس اور فلاحی اداروں کو مالی مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سے ایسے کاروبار ہیں جو عین قربانی کے دنوں میں عروج پر ہوتے ہیں جن کے ذریعے مال داروں کے ساتھ ساتھ زیادہ تر غریبوں اور مزدوروں کو فائدہ پہنچ رہا ہوتا ہے۔

  قربانی سے جہاں ثواب کا ذخیرہ ہاتھ آتا ہے اور مالی مسائل حل ہوتے ہیں وہیں معاشرتی ماحول میں بھی درستگی آتی ہے۔ قربانی ہمیں بھائی چارگی اور اخوت کا پیغام بھی دیتی ہے جیسے قربانی کے جانور کی حفاظت میں دوست و احباب ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔قربانی کے وقت خاندان کے چند لوگ دوست و احباب اکٹھے ہوکر جانور کو نحر (ذبح) کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ جانور ذبح ہونے کے بعد کلیجی پکتی ہے جو گھر میں آئے مہمان ساتھ مل کر کھاتے ہیں۔ بعض مقامات پر پکی ہوئی کلیجی اپنے پڑوسیوں کو بھی بھجواتے ہیں جس سے ان کے دلوں میں خوشی پیدا ہوتی ہے۔قربانی کے بعد گوشت باٹنے کا سلسلہ ہوتا ہے جو ایک رشتہ دار کو دوسرے رشتہ دار سے، ایک امیر کو ایک غریب سے ملانے کا سبب ہے کیوں کہ بعض دفعہ مصروفیات کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے کئی کئی دن بلکہ کئی کئی مہینے تک نہیں مل پاتے۔ رشتہ داروں میں ایک دوسرے کو دعوتیں دی جارہی ہوتی ہیں۔ قربانی کا گوشت ایسے غریبوں کے گھر بھی پہنچ رہا ہوتا ہے جو پورے سال گوشت سے محروم رہتے ہیں اور گوشت دینے والا ان کی دعائیں لے رہا ہوتا ہے۔ یعنی قربانی معاشرے کے افراد میں ایک دوسرے کے لیے الفت و چاہت اور ادب و احترام پیدا کرنے، معاملات کو مشترکہ طور پر انجام دینے، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے، ایک دوسرے کو تحائف دینے اور صلہ رحمی کا بہترین ذریعہ ہے اور اس سے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اسی الفت اور باہمی تعلقات سے معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔

  قربانی نہ صرف اسلامی عقیدہ اور تہذیب کا حصہ ہے بلکہ اس کے ذریعے مسلمان اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔دین اسلام میں قربانی کا عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہے۔قرآن و حدیث میں اس عبادت کا کئی بار ذکر آیا ہے۔ قربانی کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا،اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنا اور دل و دماغ کی صفائی ہے۔

   اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے جانور مقرر کیے  ہیں تاکہ اللہ کے ذکر کے لیے ان پر اس کا نام لیا جائے۔(الحج:34)

   اسی طرح احادیث میں بھی قربانی کی اہمیت اور اس کے فوائد بیان کیے  گئے ہیں۔حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا: قربانی کا خون کسی عمل سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔(ابن ماجہ) قربانی کا عمل ایک روحانی عبادت ہے جس کے ذریعے انسان اپنے اندر تقوی خشوع اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو بڑھاتا ہے۔ قربانی کے جانور کا خون اللہ تک نہیں پہنچتا بلکہ اس کے ذریعے انسان کا دل اور ذہن اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تیار ہوتا ہے۔ قربانی کا اصل مقصد اللہ کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرنا اور اس کی رضا کو حاصل کرنا ہے۔قربانی کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی عیش و آرام سے دست بردار ہوکر اللہ کی رضا کے لیے اپنے مال کا ایک حصہ قربان کرتا ہے۔قربانی کا نہ صرف فردی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی اہم اثر ہوتا ہے۔یہ معاشرتی ہم آہنگی،تعاون اور غربت کا خاتمہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔قربانی کے گوشت کا بڑا حصہ غریبوں،یتیموں اور مساکین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔اس سے معاشرتی سطح پر غربت میں کمی آتی ہے اور غریب افراد کو عید کی خوشیوں کا حصہ ملتا ہے۔قربانی کا عمل معاشی انصاف کو فروغ دیتا ہے اور معاشرتی فرق کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔قربانی کا عمل مسلم کمیونٹی کے درمیان محبت،تعاون اور ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے۔عید الضحیٰ کے دن مسلمان آپس میں مل کر گوشت تقسیم کرتے ہیں جس سے بھائی چارے اور اخوت کو تقویت ملتی ہے۔قربانی کے ذریعے انسان شکر گزار بنتا ہے اور اپنے مال کا کچھ حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے جو کہ اخلاقی اعتبار سے ایک بہتر معاشرتی عمل ہے۔اس کے ذریعے لوگوں میں تعاون اور مدد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔قربانی انسان کو ایثار کی تعلیم دیتی ہے۔ قربانی انسان کو سکھاتی ہے کہ دنیاوی مال و دولت کا تعلق عارضی ہے اور انسان کو اللہ کی رضا کے لیے اپنی خواہشات کو قربان کرنا چاہیے۔اس سے انسان میں خود غرضی کی جگہ دوسروں کی مدد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔قربانی کا عمل انسان کو تکبر اور غرور سے بچاتا ہے کیوں کہ جب انسان اپنی جائیداد میں سے کچھ حصہ قربان کرتا ہے تو وہ اپنی دولت کے غرور سے چھٹکارا پاتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قربانی کرتے وقت تمام حقوق کا خیال رکھنے اور عزیر و اقارب کے ساتھ الفت و محبت رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔◘◘◘

 

 قربانی کے سماجی اور معاشرتی پہلو پر ایک نظر

از:سبطین رضا مصباحی، کشن گنج

 

 

 مذہب اسلام میں دو قربانیاں بڑی اہم ہیں، ایک ماہ محرم الحرام میں دوسری ماہ ذی الحجہ میں، کیوں کہ اسلامی سال کی ابتدا قربانی سے ہوتی ہے جس میں دسویں تاریخ کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا الم ناک واقعہ پیش آیا،انھوں نے دینِ متین کی دیواروں کو مضبوط کرنے کے لیے اپنی قربانی پیش کی، اوراسلامی سال کی انتہا بھی قربانی پر ہوتی ہے جس میں اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار قربانی ہے جنھوں نے اسلام کے بنیادی احکامات کو عمل کی قوت سے روشن و فروزاں کیا، جس میں ان کی یہ قربانی سرِ فہرست ہے جوعید الاضحیٰ کے موقع پر کی جاتی ہے، عید الاضحیٰ کے بے شمار فضائل ہیں اور تاریخِ انسانی میں حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے پیش کی گئی قربانی ایک منفرد اور بلند مقام رکھتی ہے،جس میں جاں نثاری ، اطاعتِ خداوندی ، محبت الٰہی ، اخلاص و پرہیزگاری ، اور استقامت دین مطلوب ہے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قربانی کا مقصد ہی یہی ہے کہ مسلمانوں کے اندر وہی اسلامی روح ، ایمانی کیفیت ، اور اخلاص و محبت کی وہی شان اور وہی جذبہ پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرتِ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی کیا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی انسان محض جانوروں کا خون بہانا ہی قربانی سمجھتا ہے اور اس کا دل اس کی روح سے خالی رہتا ہے جو قربانی میں مطلوب ہے تو وہ دکھاوا اور صرف خون بہانا ہے ، اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا ، کیوں کہ اللہ کے پیغمبر حضرتِ ابراہیم علیہ السلام طاعتِ الٰہی کے پیکر تھے آپ کی پوری زندگی استقامت دین سے لبریز اور سرشار تھی جن میں سر فہرست یہ عظیم قربانی ہے جو آپ کی عظیم ترین یادگار ہے اور اسی عظیم الشان قربانی کو تا قیامت امت محمدیہ کے لیے ایک فریضے کی شکل دی گئی تاکہ وہ بھی اطاعتِ خداوندی ، اور خلوص و للہیت کے ذریعے بارگاہِ الہی میں قرب حاصل کرے اور اسی میں امت محمدیہ کی معراج ہے_

قربانی کے کچھ ایسے پہلو بھی ہے جن کی طرف توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے کیوں کہ قربانی اپنی معنویت اور روحانیت کے اعتبار سے الگ مقام رکھتی ہے، اس میں جہاں رشتے دار اور خاندان والوں کا جہاں تعاون ہے وہیں معاشرتی مسائل کا حل بھی ہے ، جی ہاں! قربانی کے سماجی اور معاشرتی کے ایسے پہلو جن پر دھیان دینے سے قومِ مسلم کا سماجی ڈھانچہ مضبوط ہوگا اور معاشرتی مسائل بھی حل ہوں گے ، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قربانی کی اہمیت اور عظمت و بزرگی سمجھیں، اور دوسروں تک پہنچائیں اور اسے صرف رسم سمجھ کر نہ ادا کریں کیوں کہ مذہبِ اسلام میں رسم نام کی کوئی چیز نہیں ہے ،

قربانی میں قومِ مسلم کے معاشرتی مسائل کے حل کے لیے عظیم پیغام ہے ، قربانی معاشرتی مسائل کے حل میں دستورِ حیات ہے کہ اولا یہ بات ذہن میں بٹھا لینی چاہیے کہ قربانی کا مقصد اصلی تقویٰ اور پرہیزگاری کا حصول ہے ، لہذا اگر کوئی نیک عمل محض نام و نمود اور نمائش کے لیے کیا جائے تو وہ ہرگز قابلِ قبول نہیں چناں چہ سنت ابراہیمی ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ہمارے اندر تقویٰ اور پرہیزگاری کا ہونا بہت ہی ضروری ہے کیوں کہ بندہ اسی کے ذریعے رب کا قرب حاصل کرتا ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

یعنی کہ اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک ضرور باریاب ہوتی ہے۔ (سورۂ حج ،آیت نمبر: ٣٧ )، لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ تقویٰ اور رضائے الٰہی کی نیت سے سنت ابراہمی کو بجا لائے۔

اپنے معاشرے کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آج ہم کیا کررہے ہیں اور اپنی اولاد کو کیا سکھا رہے ہیں یہ سوچنے والی بات ہے،   اس بات کے لیے قربانی ہمارے لیے عظیم نعمت ہے وہ اس طور پر کہ زندگی میں چاہے باپ کی شکل میں ہو یا بیٹے کی شکل میں دونوں صورت میں یہ قربانی ہمیں اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ ایک باپ کے لیے اپنی اولاد سے الفت و محبت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت و تربیت میں موجود ہے ، ایک بیٹے کے لیے اپنے والدین کی فرماں براداری ، اور حکم خداوندی کی تابع داری حضرتِ اسماعیل علیہ السلام کی سیرت میں موجود ہے ، اور بنت حوا کے لیے حقوقِ زوجین کی بجاآوری حضرتِ ہاجرہ کے کردار میں ہے۔

بلاشبہہ اگر مسلم معاشرہ قربانی کو ان زاویوں سے دیکھے اور خود کو اسی کے مطابق ڈھالے تو قربانی کے ساتھ ساتھ قومِ مسلم کی معاشرتی مسائل کی اصلاح ہوجائے گی ، کیوں کہ قربانی کے ذریعے ہمیں ایک پاب ، اور بیٹے کی شکل میں اور بنت حوا کے لیے عمدہ رہنمائی حاصل ہوتی ہے ۔ قربانی جہاں اللہ رب العزت سے قرب کا ذریعہ ہے وہیں اس کے سماجی مصرف کا تعاون بھی ہے ۔

قربانی کے گوشت کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس کے کے تین حصے کیے جاتے ہیں ایک حصہ گھر والوں کے لیے ، ایک حصہ فقرا حضرات کے لیے ، اور ایک حصہ دوست و احباب کے لیے ،لیکن قربانی کی جامعیت اور معنویت کو دیکھیے کہ قربانی میں اپنے ،اور فقرا اور دوست و احباب کا خیال رکھتے ہوئے یہ پیغام دنیا کو دیا جا رہاہے کہ اسلام میں ذات پات ، رنگ و نسل کی کوئی اہمیت نہیں ہے، امیر و غریب سب برابر ہے اسلام سب کے حقوق کا ضامن ہے اور خصوصاً قربانی کے گوشت کے ذریعے غریبوں لوگوں کی مدد اور مستحق لوگوں کا تعاون ہوجاتا ہے اس سے ہر کوئی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکتا ہے۔قربانی کی خوب صورتی یہ ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں میں خرید و فروخت کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانور لے جانے میں ضرورت مندوں کو مزدوری کا موقع مل جاتا ہے تو قربانی کے ذریعے معاشرے میں لوگوں کے لیے اپنی زندگی کے انتظام و انصرام کا بند و بست ہوجاتاہے ۔

قربانی کا مقصد ہی یہی ہے لوگوں میں اونچ نیچ ختم ہوجائے، ہر طرح کا امتیاز مٹ جائے اور اس کے ذریعے اخوت و مساوات ،پیار و محبت مزید پروان چڑھے اور قربانی میں اس کا عملی نمونہ بھی ہے کہ قربانی کے وقت سبھی لوگ حاضر ہوتے ہیں اور بڑے چھوٹے سب شریک ہوتے ہیں شرکا میں امیر و غریب بھی ہوتے ہیں نہ کوئی بڑا سمجھا جاتا ہے اور نہ کوئی چھوٹا ، سبھی لوگ ایک ساتھ ہوتے ہیں ،تو اس سے معلوم ہوا کہ قربانی جہاں ایک فریضے کی ادائگی وہیں ہمارے سماجی افراد کا تعاون بھی ہے اور معاشرتی مسائل کا حل بھی ہے ، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ بندۂ مومن اپنے دل میں وہی جذبہ پیدا کرے جو حقیقت میں قربانی میں مطلوب ہے یعنی اس کے ذریعے اسلام و ایمان میں تازگی لائے ، والدین کی فرماں برداری کرے ، احکاماتِ خداوندی کو بجالانے میں خلوص کو ذہن میں رکھے ، سماجی میں لوگو کا تعاون اور معاشرتی مسائل کا حل ڈھونڈے۔

دعا ہے کہ مولیٰ تعالیٰ ہم سبھی کو قربانی کی نعمت سے مالامال فرمائے اور اس کی معنویت اور اہمیت کی سمجھنے کی توفیق دے اور صحیح معنوں میں احکامِ خداوندی کو بجالانے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved