30 July, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia July 2025 Download:Click Here Views: 611 Downloads: 120

(12)-دورانِ حمل سکریننگ ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس بی، اور آتشک کے بارے میں مکمل رہنمائی

ڈاکٹر ام فرح (ایم ڈی)

دورانِ حمل خواتین کی صحت اور آنے والے بچے کی حفاظت ایک ایسی ذمہ داری ہے جس میں کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔ اس مقصد کے لیے سکریننگ ٹیسٹ ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ٹیسٹ ایچ آئی وی (ہیومن ایمیونوڈیفیشنسی وائرس)، ہیپاٹائٹس بی، اور آتشک جیسے خطرناک انفیکشنز کی تشخیص کے لیے کیے جاتے ہیں۔ ان بیماریوں کا بروقت پتا لگانا ماں کی صحت کو بہتر بنانے اور بچے کو انفیکشن سے بچانے کے لیے ضروری ہے۔ یہ مضمون سکریننگ کے مقصد، ان بیماریوں کی تفصیلات، ٹیسٹ کے طریقہ کار، نتائج، اور علاج کے اختیارات کو آسان اور واضح انداز میں بیان کرتا ہے تاکہ ہر خاتون اس کی اہمیت کو سمجھ سکے۔

سکریننگ کا مقصد:سکریننگ ٹیسٹ کا بنیادی مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ آیا حاملہ خاتون کو ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس بی، یا آتشک جیسا کوئی انفیکشن ہے۔ اگر ان بیماریوں کی تشخیص ہو جاتی ہے تو فوری طور پر ماہر ڈاکٹر سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ یہ ماہرین ماں اور بچے کی صحت کے لیے مناسب علاج اور نگہ داشت کا بندوبست کرتے ہیں۔ ان ٹیسٹوں کا مقصد نہ صرف ماں کی صحت کو محفوظ رکھنا ہے بلکہ بچے کو ان خطرناک بیماریوں سے بچانا بھی ہے جو ماں سے بچے میں منتقل ہو سکتی ہیں۔

ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس بی، اور آتشک ایسی بیماریاں ہیں جو خون، جسمانی رطوبتوں، جنسی تعلقات، یا آلودہ سوئیوں کے ذریعے پھیلتی ہیں۔ یہ بیماریاں ماں سے بچے میں حمل کے دوران، زچگی کے وقت، یا دودھ پلانے کے دوران منتقل ہو سکتی ہیں۔ آئیے ان بیماریوں کو تفصیل سے سمجھتے ہیں:

ہیپاٹائٹس بی ایک وائرس ہے جو جگر کو متاثر کرتا ہے۔ یہ بیماری دو قسم کی ہو سکتی ہے:شدید (عارضی): یہ چند ہفتوں یا مہینوں تک رہتی ہے اور خود بخود ٹھیک ہو سکتی ہے اور طویل المعیاد: یہ مستقل ہوتی ہے اور جگر کی شدید بیماریوں، جیسے کہ جگر کا انفیکشن یا کینسر، کا باعث بن سکتی ہے۔

اگر کوئی بچہ پیدائش کے وقت یا زندگی کے پہلے سال میں اس وائرس کا شکار ہو جائے تو 90 فیصد امکان ہوتا ہے کہ اسے تاحیات ہیپاٹائٹس بی کا انفیکشن رہےگا۔ اس لیے اس کی روک تھام بہت ضروری ہے۔

ایچ آئی وی جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور کرتا ہے، جس سے جسم دیگر بیماریوں سے لڑنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ ماں سے بچے میں منتقل ہو سکتا ہے۔ تاہم، اگر دورانِ حمل مناسب علاج کیا جائے، جیسے کہ اینٹی ریٹرووائرل ادویات کا استعمال، تو بچے کو ایچ آئی وی ہونے کا خطرہ 25 فیصد سے کم ہو کر صرف 0.5 فیصد رہ جاتا ہے۔ یہ علاج ماں اور بچے دونوں کی زندگی بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

آتشک ایک جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماری ہے جو سیفیلس وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ ماں سے بچے میں منتقل ہو سکتی ہے، جس سے بچے کی صحت کو شدید نقصان(قبل از وقت پیدائش، کم پیدائشی وزن، ہڈیوں اور دانتوں کی پریشانیاں، سماعت کی پریشانیاں، نظر کی پریشانیاں، نشوونما میں تاخیر)، اسقاطِ حمل، یا مردہ پیدائش جیسے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ بروقت علاج سے ان خطرات کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

سکریننگ ٹیسٹ کا طریقہ:سکریننگ ٹیسٹ ایک سادہ  اور محفوظ عمل ہے۔ اس کے لیے:ہیلتھ پروفیشنل آپ کے بازو سے خون کا ایک چھوٹا نمونہ لیتا ہے۔یہ خون لیبارٹری میں بھیجا جاتا ہے جہاں ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس بی، اور آتشک کی موجودگی کی جانچ کی جاتی ہے۔ اس ٹیسٹ سے ماں یا بچے کو کوئی خطرہ نہیں ہے، اور یہ ایک معمول کا طبی عمل ہے جو ہر حاملہ خاتون کے لیے تجویز کیا جاتا ہے۔

سکریننگ ٹیسٹ کروانا مکمل طور پر آپ کا ذاتی فیصلہ ہے۔  تاہم، ڈاکٹرز اس کی پرزور سفارش کرتے ہیں کیونکہ:یہ ٹیسٹ آپ کی صحت کو بروقت علاج کے ذریعے محفوظ رکھتے ہیں۔یہ آپ کے بچے، جنسی ساتھی، اور خاندان کے دیگر افراد کو انفیکشن سے بچاتے ہیں۔یہ ماں سے بچے میں انفیکشن منتقل ہونے کے امکانات کو بہت کم کرتے ہیں۔اگر آپ ٹیسٹ نہ کروانے کا فیصلہ کرتی ہیں تو آپ کو حمل کے تقریباً 20 ہفتوں کے قریب دوبارہ سکریننگ کی پیشکش کی جائے گی تاکہ آپ کے پاس دوبارہ موقع ہو۔

ٹیسٹ کے نتائج کی تفہیم:سکریننگ ٹیسٹ کے نتائج دو طرح کے ہو سکتے ہیں: منفی یا مثبت۔ آئیے ان کا مطلب سمجھتے ہیں:

اگر آپ کا ٹیسٹ منفی آتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اس وقت ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس بی، یا آتشک سے پاک ہیں۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ آپ حمل کے دوران خود کو انفیکشن سے بچائیں کیوں کہ نیا انفیکشن ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ اگر آپ کو کوئی علامت نظر آئے، جیسے کہ بخار، تھکاوٹ، خارش، یا غیر معمولی درد، تو فوراً اپنی مڈوائف یا جنرل پریکٹیشنر (جی پی) سے رابطہ کریں۔

کچھ حالات میں دوبارہ ٹیسٹ کروانے کی ضرورت ہو سکتی ہے، جیسے کہ◘:اگر آپ اپنا جنسی ساتھی تبدیل کرتی ہیں◘اگر آپ یا آپ کا ساتھی منشیات استعمال کرتے ہیں◘اگر آپ کے ساتھی کو کوئی انفیکشن ہے ۔◘اگر آپ کو کوئی جنسی طور پر منتقل ہونے والا انفیکشن (STI) تشخیص ہوتا ہے۔

اگر ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آتا ہے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ماہر ڈاکٹرز آپ کی رہنمائی کریں گے اور مناسب علاج سے آپ اور آپ کے بچے کی صحت کو محفوظ بنائیں گے(آپ اپنے ساتھ اپنے جنسی ساتھی کا بھی ٹیسٹ کرالیں تاکہ انکا علاج بھی شروع ہو جاے )۔ ہر بیماری کے لیے علاج کا طریقہ مختلف ہے:

اگر آپ کو ہیپاٹائٹس بی ہے تو:

◘ماہر ڈاکٹرز کی ٹیم حمل سے پہلے اور بعد میں آپ کی صحت کی نگرانی کرے گی۔◘آپ کے جنسی ساتھی، دیگر بچوں، یا قریبی خاندان کے افراد کو بھی ٹیسٹ اور حفاظتی ٹیکوں کی ضرورت ہو سکتی ہے۔◘بچے کو ہیپاٹائٹس بی سے بچانے کے لیے 6 حفاظتی ٹیکوں کا شیڈول ضروری ہے:

◘پیدائش کے 12-24 گھنٹوں کے اندر پہلا ٹیکہ۔ ◘پہلے ٹیکے کے ساتھ بچے کو ہیپاٹائٹس بی ایمونوگلوبولین کا انجکشن بھی دیا جائے گا تاکہ فوری تحفظ مل سکے۔◘2، 4، اور 6 مہینے کی عمر پر تین ٹیکے (بچپن کے معمول کے ٹیکوں کے ساتھ)۔ ◘ایک سال کی عمر پر آخری ٹیکہ۔◘آخری ٹیکے کے وقت بچے کا خون ٹیسٹ کیا جائے گا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ انفیکشن سے محفوظ ہے۔

اگر یہ ٹیکے بروقت نہ لگائے جائیں تو اپنے جی پی، نرس، یا ہیلتھ وزیٹر سے رابطہ کریں۔

اگر آپ کو ایچ آئی وی ہے تو:

◘ماہر ڈاکٹرز آپ کو خصوصی ادویات دیں گے جو حمل کے دوران محفوظ ہیں اور ایچ آئی وی کو کنٹرول کرتی ہیں۔◘زچگی کے لیے منصوبہ بند نگہداشت کی جائے گی، جیسے کہ سیزیرین ڈلیوری، تاکہ بچے کو انفیکشن سے بچایا جا سکے۔◘آپ کو مشورہ دیا جائے گا کہ بچے کو اپنا دودھ نہ پلائیں، کیوں کہ اس سے ایچ آئی وی منتقل ہو سکتا ہے۔◘ان اقدامات سے بچے کو ایچ آئی وی ہونے کا خطرہ 0.5 فیصد سے بھی کم ہو جاتا ہے۔

اگر آپ کو آتشک ہے تو:

• ماہر ڈاکٹر فوری طور پر اینٹی بائیوٹک علاج شروع کریں گے، جو بچے کے لیے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔

• آپ کے جنسی ساتھی کو بھی ٹیسٹ اور علاج کی ضرورت ہو سکتی ہے تاکہ دوبارہ انفیکشن سے بچا جا سکے۔

• پیدائش کے بعد بچے کا معائنہ کیا جائے گا، اور اسے خون کے ٹیسٹ یا اینٹی بائیوٹک کی ضرورت ہو سکتی ہے تاکہ اس کی صحت کو یقینی بنایا جا سکے۔

نتائج کیسے حاصل کریں؟سکریننگ ٹیسٹ کے نتائج آپ کی مڈوائف یا ڈاکٹر آپ کے ساتھ شیئر کریں گے:

منفی نتیجہ: اگر آپ کا نتیجہ منفی ہے تو آپ کی مڈوائف اگلے چیک اپ پر، جو عام طور پر 16 ہفتوں کے قریب ہوتا ہے، اس پر بات کرے گی۔ یہ نتیجہ آپ کے میڈیکل ریکارڈ میں بھی درج کیا جائے گا۔

مثبت نتیجہ: اگر آپ کا نتیجہ مثبت ہے تو ایک ماہر مڈوائف 10 دنوں کے اندر آپ سے رابطہ کرے گی۔ وہ نتائج کی تفصیلات بتائیں گی، مزید ٹیسٹ کریں گی، اور آپ کے ساتھ مل کر علاج اور نگہداشت کا منصوبہ بنائیں گی۔

احتیاطی تدابیر:

اگر آپ کا ٹیسٹ منفی آتا ہے، آپ کو حمل کے دوران انفیکشن سے بچنے کے لیے احتیاط کرنی چاہیے۔ کچھ اہم نکات یہ ہیں:

◘غیر محفوظ جنسی تعلقات سے گریز کریں اور کنڈوم کا استعمال کریں۔◘اپنے جنسی ساتھی کے ساتھ کھل کر بات کریں اور ضرورت پڑنے پر دونوں ٹیسٹ کروائیں۔◘اگر آپ کو کوئی علامت نظر آئے، جیسے کہ خارش، بخار، یا غیر معمولی تھکاوٹ، تو فوراً اپنے ڈاکٹر یا مڈوائف سے رابطہ کریں۔◘ اپنی صحت کے بارے میں باقاعدگی سے چیک اپ کرتی رہیں۔    

 

چراغ خانہ

عصری تناظر میں قدیم ہندوستانی عورت کی حیثیت

عادل فراز

 

معاصر عہد میں عورت کے حقوق اور آزادی کے بارے میں اسلامی نظام کو مورد طعن و تشنیع قرار دیاجاتاہے، جب کہ معترضین ابھی تک اسلامی قانون کی بنیادوں، اس کی روح، آفاقی پہلوؤں اور اس کی صحیح تشریحات سے لاعلم ہیں۔ اس کے باوجود حجاب، میراث، تعدد ازدواج اور دیگر مسائل میں خواتین کے حقوق کا بہانہ بناکر اسلامی قانون کو ناقص اور عورت مخالف قرار دیاجاتاہے۔ جب کہ  ہندوستان کے قدیم اور موجودہ سماج میں بھی عورت کو مرد کے برابر حقوق حاصل نہیں رہے ہیں۔ عالمی نظام کے تحت ہندوستان کا معاشرہ بھی مرد اساس معاشرہ تھا۔ اس امتیاز کے ساتھ کہ ویدی دور اور اس کے بعد کے عہد میں عورت کو فقط آلۂ تلذذ سمجھا گیا۔ قدیم مقدس کتابوں میں عورت کے تئیں احترام کا جذبہ تو نظر آتاہے لیکن اس کے سماجی حقوق پر کوئی واضح اشارہ نہیں ملتا۔ بلکہ بعض مقامات پر تو اس کی تحقیر اور تذلیل کی گئی ہے۔ اگر کسی جگہ پر اس کی تکریم کا عندیہ ملتابھی ہے تو اس میں قانون سازوں کے مفادات کا اشارہ شامل نظر آتا۔ جس طرح معاصر عہد میں ماڈرن ازم، مساوات، آزادی اور مختلف نظریات کے نام پر عورت کافکری اور جسمانی استحصال جاری ہےاسی طرح قدیم عہد میں بھی اس کے واضح اشارے ملتے ہیں۔

دھرم شاستروں میں عورت کی تکریم کا متضاد فلسفہ ملتاہے۔ کہیں اس کو دیوی اور قابل پرستش قرار دیاگیاہے تو کہیں اس کو ناپاک اور مرد کے مقابلے میں حقیر تصور کیا گیاہے۔ عورت کی تکریم کے سلسلے میں منوؔ سمرتی میں اس طرح مذکور ہے:’’جہاں عورت کی تکریم کی جاتی ہے وہاں دیوتاؤں کی برکتیں نازل ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن جہاں ان کا احترام نہیں ہوتا وہاں تمام امور بے نتیجہ ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ‘‘(منوسمرتی 3/56)

اس کے برعکس دوسرے مقام پر منو’ؔ عورتوں کو مردوں کی گمراہی کا ذریعہ قرار دیتاہے۔ ‘‘(منوسمرتی 2/213)

دھرم شاستروں کے مطابق عورت کبھی آزاد اور خود مختارزندگی نہیں گذار سکتی، کیوں کہ وہ فطری طورپر کمزور واقع ہوئی ہے اس لیے اسے زندگی بھر کسی نا کسی کی نگرانی اور سرپرستی کی ضرورت ہے۔ بچپن میں باپ کی، جوانی میں شوہر کی اور بڑھاپے میں بیٹوں کی۔ (منوسمرتی 3/9)

اس طرح منوؔ نے عورت کی آزادی، خودمختاری اور تانیثی تحریک کے علم برداروں کے فکری فلسفے کو ہی مسترد کردیا۔ اس کے نزدیک عورت اپنے تحفظ میں دوسروں کی نیاز مند رہتی ہے۔ ان کے فطری مزاج کی بنیاد پر مرد کو اس کی نگرانی کرنی چاہیے۔

موجودہ عہد میں بعض متعصب مفکرین اسلامی دستور حیات کو ناقص اور فرسودہ قرار دیتے ہیں۔ خاص طورپر میراث میں عورت کے حصے، مرد کے مقابلے میں اس کی گواہی اور حجاب کے مسئلے پر وہ اسلامی قانون کو فرسودہ اور حقوق نسواں کا مخالف قرار دیتے ہیں۔ جب کہ  ان کے یہاں دھرم شاستروں میں عورت کو بھی تقریباً اسی تناظر میں پیش کیا گیاہے بلکہ اس سے بھی بدتر۔ دھرم شاستروں کے مطابق عورتیں چوں کہ  متلون مزاج کی حامل ہوتی ہیں اس لیے انھیں  گواہ کی حیثیت سے پیش نہیں کیا جاسکتا۔ منوؔ تو بیوہ عورتوں کے عقد ثانی اور نیوگ(صلۂ رحم کی شادی) کا سخت مخالف ہے۔ اس کے برخلاف ناردؔ دونوں کو شادی کی اجازت دیتے ہیں۔ یہ بھی دھرم شاستروں کا ایک متضاد فلسفہ ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ سنگھ منوؔ اور نادرؔ میں کس کے دھر م شاستر کو زیادہ اہمیت دیتاہے۔ رہی عورت کی میراث کی بات تو منوؔ نے واضح طورپر نہیں بتایا کہ بیوہ اپنے شوہر کے مال سے کس قدر حصہ پانے کی مستحق ہے۔ (منوسمرتی باب نہم۔ 217)

منوؔ کے برخلاف دیگر دھرم شاستروں میں عورت کی میراث کا ذکر ملتاہے جیسے یاگیہؔ اور عمکیہؔ کے یہاں عورت کی میراث پر واضح دستور موجود ہے۔شادی سے متعلق دھرم شاستروں میں تفصیلی مباحث ملتے ہیں۔ منوؔ نے شادی کے احکامات اور اصول وضوابط کو بہت تفصیل اور تشریح کے ساتھ بیان کیاہے۔اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ہندوؤں میں تعدد ازدواج کی رسم صدیوں پہلے سے موجود ہے۔ البتہ اس قانون میں طبقاتی تقسیم اور کم ترذاتوں سے تعصب اور منافرت کا جذبہ موجود ہے۔ مثال کے طورپر منوؔ کہتاہے :’’انتہائی مشکلات اور آلام کے دنوں میں بھی کوئی ایسا واقعہ کسی کہانی میں نہیں ملتاکہ کوئی شودر عورت کسی براہمن یا کھشتری کی پہلی بیوی رہی ہو۔ ‘‘( منوباب 3۔ 14)

دوسرے مقام پرمنوؔ کہتاہے : واضح ہو کہ ایک شودر کی بیوی ایک شودر ہی ہوسکتی ہے۔ جب کہ  ایک ویش کی بیویوں میں سے ایک اس کی ہم مرتبہ اور دوسری ویش یا شودر ہوسکتی ہے۔ کشھتری کی بیویوں میں سے ایک اس کی ہم مرتبہ اور دوسری ویش یا شودر ہوسکتی ہے۔ جب کہ  برہمن کی بیویوں سےایک اس کی ہم ذات اور باقی کھشتری، ویش اور شودر ہوسکتی ہے۔ ‘‘(منو باب3۔ 13)

ملاحظہ ہو:منوسمرتی باب نہم۔ 85 میں برہمن، کھشتریوں اور ویش کو متعدد شادیوں کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن برتری کا حق ان کی ہم ذات اور ہم مرتبہ بیویوں کو دیا گیاہے۔

عورت کی مظلومیت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسے مقدس رسومات میں شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ ویدی دور اور اس کے بعد کے تمام ادوار میں یہ رسم عام تھی۔ ویدی دور میں عورت کو ناپاک سمجھا جاتا تھااور قربانی جیسی مقدس رسومات میں اس کی شرکت ممنوع تھی۔ یہی نہیں بلکہ مقدس کتابوں کی تلاوت بھی اس کے لیے جائز نہیں تھی۔ منوؔ کے قانون کے مطابق’’جو شخص دیوتاؤں کے چڑھاوے میں اپنی شودر بیوی کی مدد لیتاہے اس کی بھینٹ اور نذر قبول نہیں ہوتی اور وہ سورگ میں داخل نہیں ہوسکتا۔ ‘‘(منوباب 3۔ 18)

آریائی عہد میں شودروں سے شادی بلکہ ناجائز تعلقات کو بھی نفرت کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ شودر اپنے نام سے کسی جائداد کے مالک بھی نہیں ہوسکتے تھے۔ بعض عورتیں ویدی دور میں علم و ادب کی بلند ترین منزلوں پر فائز ہوچکی تھیں لیکن اس بنیاد پر ان کی مذہبی و سماجی حیثیت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ نہ تو اپنے باپ کی جائداد میں میراث کی حق دار تھیں اور نہ اپنی کسی ذاتی جائداد کی مالک ۔ (قدیم ہندوستان کی تاریخ۔ رما شنکر ترپاٹھی۔ ص:76)

اسلامی قانون پر یہ اعتراض کیاجاتاہے کہ اسلام نے کم عمر لڑکیوں کی شادی کی اجازت دی ہے۔ جب کہ  اسلام میں لڑکی کے بالغ ہونے کی عمر لڑکے سن بلوغ سے مختلف ہے۔ اگر ہم سن بلوغ کو مد نظر نہ رکھیں تو لڑکیاں بلوغ کے بعد بھی کم عمر ہی معلوم ہوتی ہیں۔ دھرم شاستروں میں بھی کم عمر لڑکیوں کی شادی کا قانون موجود ہے۔  دیکھیے (منو باب نہم۔ 88۔ 89)

منو سمرتی میں اعلیٰ ذاتوں کے یہاں کم ذات خواتین کے ارحام سے جنمے بچوں کو دوغلا اور مکروہ سمجھا گیاہے۔ اس سے زیادہ نفرت اور تقسیم کا نظام اور کیا ہوگا۔ اس کے باوجود بغیر صحیح تفہیم کے اسلامی قانون پر انگشت نمائی کرنا ایساہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے گریبان میں نہ جھانک کر دوسروں کے گریبان میں جھانکتا پھرے۔

بہتر ہوگاکہ ایک دوسرے کے دستور حیات کا مطالعہ کیا جائے، بین المذاہب مکالمے کو فروغ دینے کے لیے مخلصانہ جدوجہد ہو اور بین الادیان نفرت کو کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ ایک دوسرے کی مقدس کتابوں اور مذہبی قانون پر طعن و تشنیع کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس کے لیے علما اور دانشور موجود ہیں جو اس راہ میں افہام و تفہیم کی راہیں روشن کرسکتے ہیں۔ اس لیے اختلافی اور نزاعی مسائل کے بجائے مشترکات پر گفتگو ہونی چاہیے

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved