مہتاب پیامی
روایت، جدوجہد اور بقا کی داستان:
ضلع اعظم گڑھ کی آغوش میں آباد قصبہ مبارک پور ، محض ایک جغرافیائی حقیقت کا نام نہیں بلکہ ہنر، روایت اور محنت کی ایک زندہ علامت ہے۔ یہ قصبہ اپنے ریشمی اور مرکب کپڑوں کی نفاست، رنگوں کی دلکشی اور دست کاری کی باریکی کے لیے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں جانا جاتا رہا ہے۔ مبارک پور کی گلیوں میں گونجتے کرگھوں کے سُر تال کی آوازیں صدیوں سے محنت کش کاریگروں کی سانسوں سے وابستہ رہی ہیں۔
مبارک پور کی یہ روایت صرف ایک صنعتی سرگرمی نہ تھی، بلکہ ایک ثقافتی ورثہ تھی جو سانگی، گلٹا اور جمدانی(جامدانی) جیسے روایتی کپڑوں کی تیاری میں جھلکتی تھی۔ ان کپڑوں میں صرف دھاگے نہیں بُنے جاتے تھے بلکہ صدیوں پرانی ہنرمندی، فنی لطافت اور نسلوں کی یادیں بھی سموئی جاتی تھیں۔ مبارکپور کی بنائی ہندوستانی برآمدات کا فخر تھی، جس نے مغلیہ دور سے لے کر قبل از استعماری زمانے تک عالمی منڈیوں میں اپنی ایک الگ پہچان قائم کی ۔
تاہم، جب برطانوی استعمار کی آہنی زنجیریں ہندوستان کے گلے کا پھندا بن گئیں، تو دست کاری کے اس تاج پر بھی زوال کے گرد و غبار چھا گئے ۔ مشینی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی یلغار نے کاریگروں کے ہنر کو رفتہ رفتہ پس منظر میں دھکیل دیا، مشینوں کی بے جان رفتار نے ہاتھ کی نرم جنبشوں کو گم کر دیا۔ استعماری معیشت نے جہاں ایک طرف مشینی مصنوعات کو سرکاری سرپرستی دی، وہیں دوسری جانب مبارک پور جیسے علاقوں میں محنت کش بنکروں کی معیشت کو کمزور کر کے رکھ دیا۔
انیسویں اور بیسویں صدی کے سنگم پر جب دست کاروں کی آواز دھیمی پڑنے لگی، تب مبارک پور کے بنکروں نے ایک نئی راہ کا انتخاب کیا۔ انھوں نے خالص ریشمی ساڑیوں کی تیاری میں اپنی مہارت کو نئی جہت دی۔ ان ساڑیوں کی نزاکت، نفاست اور رنگوں کی ہم آہنگی نے انھیں نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر ممتاز مقام دلوایا۔ اس کامیابی میں بنارس کے تاجروں کی فراخ دلانہ حمایت اور سرکاری سرپرستی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
لیکن یہ کامیابی دیرپا نہ تھی۔ جب بیسویں صدی کے وسط میں صنعتی انقلاب نے پاور لومز کی صورت میں نئی دنیا آباد کی، تو ہاتھ کی بنائی ایک بار پھر پسپا ہونے لگی۔ مئو جیسے قریبی علاقوں میں پاور لومز کی تیزرفتاری اور کم لاگت نے روایتی دست کاری کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ مگر مبارک پور کے ہنرمند، جن کے ہاتھوں کی حرکت رزقِ حلال کی جستجو میں عبادت کی طرح تھی، انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ اپنی روایات کے ساتھ جُڑے رہے، جیسے کوئی دریا اپنی پرانی گزرگاہ چھوڑنے پر آمادہ نہ ہو۔اس صنعت کا دل مسلم بنکر برادری کے سینے میں دھڑکتا رہا۔ اس برادری کے لیے بنائی محض ذریعۂ معاش نہیں بلکہ ان کی تہذیبی شناخت، سماجی مرتبت اور شخصی وقار کا سنگم تھی۔ انھوں نے نہ صرف معاشی بحرانوں کا سامنا کیا بلکہ بدلتے زمانے کے ذہنی دباؤ کو بھی سہنا سیکھا۔ ان کی بقا کی جدوجہد صرف روزگار کے لیے نہیں بلکہ اپنی ذات، اپنے وجود اور اپنی تاریخ کو بچانے کے لیے تھی۔آج اگر ہم مبارک پور کی بنائی کے زوال کو سمجھنا چاہیں، تو ہمیں اسے محض مذہبی یا طبقاتی تناظر میں محدود کرنا دانش مندی نہ ہوگی۔ اس صنعت کا زوال کئی تہوں پر پھیلا ہوا ایک پیچیدہ عمل ہے،استعماری معیشت کی سازش، صنعتی ترقی کی یلغار، خام مال کی فراہمی میں کمی، اور صارفین کے رجحانات میں تیزی سے آتی تبدیلیاں، سب نے مل کر مبارک پور کے بنکروں کے لیے راستے تنگ کیے۔تاہم، اس تمام پس منظر میں ایک روشنی کی کرن اب بھی باقی ہے—وہ ہے ان کاریگروں کا عزم، ان کی لگن اور ان کا ہنر، جو آج بھی ان کے دلوں میں زندہ ہے۔ اگر مناسب سرپرستی، تربیت، اور مارکیٹ تک رسائی دی جائے، تو مبارک پور کی بنائی ایک بار پھر دنیا میں اپنی پہچان واپس پا سکتی ہے۔
مشرقی اتر پردیش کی بنکرتہذیب: مبارکپور کے تناظر میں ایک تاریخی و سماجی مطالعہ:
قدیم ہندوستان کی تہذیبی گزرگاہوں میں سے ایک، مشرقی اتر پردیش، محض زمین اور دریا کی سرزمین نہیں بلکہ ہنر اور حرفت کی وہ دنیا ہے جہاں وقت کی چادر پر بُنائی کے حسین نقوش ابھرتے رہے ہیں۔ اس خطے کی فضا صدیوں تک سوت کی مہک اور کھڈیوں کی لے میں گونجتی رہی۔ زمانۂ قدیم کے دانشور کوٹلیہ نے جس وقت کاشی اور الٰہ آباد (وتس دیس) کو اعلیٰ درجے کے روئی کے کپڑے کی تیاری کے مراکز قرار دیا، اسی لمحے اس خطے کے ہنر کو ایک تاریخی سند بھی عطا ہو گئی۔
مسلم بنکروں کی آمد اور ان کے توسط سے اس صنعت میں قرونِ وسطیٰ کے دوران جو نکھار آیا، وہ ایک معاشرتی تبدیلی کا مظہر تھا۔ وہ ہنر جو پہلے صرف شہری دست کاروں تک محدود تھا، اب نسلاً بعد نسل منتقل ہونے والے پیشے کی صورت اختیار کر گیا۔ اسلام قبول کرنے والے ان کاریگروں نے محض مذہب نہیں اپنایا، بلکہ اپنے ہنر کو بھی ایک نئی روح بخشی۔ اودھ کے نوابوں کی سرپرستی ہو یا ایسٹ انڈیا کمپنی کا ظہور، ٹانڈہ، مبارک پور، مئو ناتھ بھنجن اور کوپا گنج جیسے قصبے اپنی بنائی کی روایت پر مضبوطی سے قائم رہے۔
انیسویں صدی کا سورج جب طلوع ہوا، تو وہ مغربی دنیا کی صنعتی چمک کے ساتھ آیا۔ مشینی انقلاب نے دھیرے دھیرے اس خطے کی روایتی معیشت کی بنیادیں ہلا دیں۔ انگلستان سے درآمد شدہ مشینی دھاگا اور کپڑا، جس نے مقامی منڈیوں میں اپنی جگہ بنائی، اس نے محض مقامی کاتنے والوں کا روزگار نہیں چھینا بلکہ مقامی صنعت کے پورے تنظیمی ڈھانچے کو متزلزل کر دیا۔ بنارس، جو اس صنعت کا مرکز رہا، اپنی عظمت برقرار رکھنے کی تگ و دو میں رہا، مگر مئو اور مبارک پور جیسے معاون خطے مسلسل پس منظر میں جاتے رہے۔
مبارکپور کی کہانی انوکھے تضادات کا مجموعہ ہے ۔ اگرچہ اسے مئو ناتھ بھنجن جیسی شہرت کبھی نہ مل سکی، اور ضلع کی قدیم دستاویزات میں بھی اس کا نمایاں ذکر نہیں ملتا، مگر یہ قصبہ اپنی جگہ ایک زندہ روایت کا امین رہا۔ انیسویں صدی میں یہ قصبہ ترقی کی آس میں مسلسل سماجی و معاشی زلزلوں سے دوچار رہا۔ ہندو ساہوکاروں اور مسلم بنکروں کے درمیان تناؤ کی کہانیاں بھی اسی دوران ابھر کر سامنے آئیں۔ فرقہ وارانہ خلیج کے پس منظر میں، یہ کشمکش محض ذات یا مذہب کی نہیں، بلکہ معاشی طاقت کی تھی، جو اپنے آپ میں نوآبادیاتی نظام کی گہری ستم ظریفی تھی۔
جب بیسویں صدی کی صبح نمودار ہوئی، تو مبارک پور نے خود کو بنارس کی ریشمی صنعت کے ایک معاون خطے کی حیثیت سےازسرِنو دریافت کیا۔ آس پاس کے علاقوں، املو، نوادہ، سریاں، رسول پور اور مصطفیٰ آباد کے لوگ بھی اس صنعت سے جڑتے گئے۔ مگر ریشمی کپڑا، جس کی تیاری میں مبارک پور کے بنکروں کو مہارت حاصل تھی، ایک ایسا فن تھا جو ہر کسی کے لیے قابلِ حصول نہ تھا۔ بھاری سرمایہ، خاص تربیت، اور دیرینہ تجربہ، یہ تمام شرطیں اس فن کو عام بنکروں کے لیے ناقابلِ عمل بناتی رہیں۔
زوال، جدوجہد اور باز آفرینی :
تاریخ کے اوراق پر جب مشرقی اتر پردیش کے قصبوں کی داستان رقم کی جاتی ہے، تو مبارک پور ایک ایسا نام بن کر ابھرتا ہے جس کی کہانی نہ صرف بنکروں کی مہارت بلکہ وقت کے بے رحم تھپیڑوں، معاشی آفات، اور سماجی تبدیلیوں کی مکمل عکاسی کرتی ہے۔ 1801 میں جب یہ علاقہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیرِ اقتدار آیا، تو اس وقت مبارک پور زندگی کی روانی، بازاروں کی چہل پہل، اور کھڈیوں کی جھنکار کے ساتھ۔ ایک ابھرتا ہوا مرکز تھا۔آبادی کی ساخت میں ایک نمایاں توازن پایا جاتا تھا؛ کل آبادی کا چوتھائی حصہ مسلم بنکروں پر مشتمل تھا جب کہ کچھ ہندو تاجر خوش حال معیشت کے علم بردار تھے، مگر یہ رونقیں زیادہ دیر قائم نہ رہ سکیں۔ صرف چند دہائیوں میں، 1865 سے 1877 کے درمیان، ہندو تاجروں کی مالی چمک مانند پڑ گئی، اگرچہ بنائی کی صنعت نے اب بھی خود کو سنبھالے رکھا۔ مبارک پور کی کھڈیوں کی تعداد 1,700 تک پہنچ چکی تھی، گویا ہنر ابھی سانس لے رہا تھا، مگر اس کی سانسیں بوجھل ہو چکی تھیں۔
مبارک پور میں اتوار اور جمعرات کو لگنے والے خوردہ بازار محض تجارت کے مقام نہ تھے، بلکہ یہ اس ثقافتی زندگی کا تسلسل تھے جو کبھی دریا کی طرح رواں دواں تھی۔ قریبی دیہات، جیسے املو میں بھی بازار کی روایت اسی طرح قائم تھی۔ ان بازاروں میں دھاگوں کے سودے، روزمرہ کی اشیا، اور فنونِ لطیفہ کی چھوٹی جھلکیاں ہوا کرتی تھیں۔قریب ہی، کوپا گنج کی بنیاد 1745ء میں ارادت خان نے رکھی تھی اورمئو کے بنکروں کو یہاں لا بسایا تھا، اور اگر وال برادری کے تاجروں کو یہاں کا رخ کرنے کی دعوت دی تھی۔ یہ بستیاں محض اقتصادی اکائیاں نہ تھیں، بلکہ بنکروں اور تاجروں کی وہ مشترکہ کوششیں تھیں جنھوں نے مشرقی اتر پردیش کے کینوس پر ٹیکسٹائل کا روشن رنگ بھرا۔
سانگی اور گلٹا، ریشم اور سوت کے امتزاج سے بنے ان پارچہ جات میں مہارت مبارکپور اور خیرآباد تک محدود تھی۔ یہ فن نہ صرف مخصوص تھا بلکہ ایک پوشیدہ خزانہ تھا، جس کی کوئی معتبر تاریخی ابتدا معلوم نہیں۔ یہ ہنر نسلوں میں منتقل ہوتا رہا، مگر اس کی راہیں وقت کی دھول میں گم رہیں۔
مبارک پور کی شناخت میں فنِ گلٹا کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہ کپڑا، جس کی تخلیق ریشم اور سوتی دھاگے کے امتزاج سے کی جاتی ہے، اپنی باریک کاریگری اور جمالیاتی صفات کے باعث خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ گلٹا کا لفظ فارسی ”غلطیدن“ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی لوٹ پوٹ ہونے کے ہیں، جو شاید اس کی چمک دار اور ہموار سطح کی طرف اشارہ ہے۔
اس فن کی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اگرچہ گلٹا میں سوتی دھاگا نمایاں طور پر استعمال ہوتا تھا، تاہم تیار شدہ کپڑے کی اوپری سطح اس قدر ہموار اور چمک دار ہوتی کہ سوتی عناصر بالکل غائب دکھائی دیتے ۔ صرف پچھلی جانب سوتی دھاگے کا وجود ظاہر ہوتا ، اور ریشمی دھاگے کی موجودگی کم محسوس ہوتی ۔گلٹا کی بناوٹ میں عموماً خانہ دار (چیک) ڈیزائن شامل ہوتا تھا، جنھیں ایک، دو یا تین پتلی لکیروں سے محدود کیا جاتا ۔ ان لکیروں کے درمیان کا حصہ بعض اوقات مختلف رنگ کے ریشم سے بھرا جاتا ، جس سے نہ صرف بصری تنوع پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ فنی نزاکت کا بھی اظہار بن جاتا ہے۔ چیک اور دھاری دار طرز کا یہ امتزاج محض ایک جمالیاتی اسلوب نہیں، بلکہ اس کے پیچھے نسلوں کی ہنر مندی، محنت، اور تہذیبی ورثے کا عکس جھلکتا تھا۔
انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں قدرت نے اپنے قہر سے اس خطے کو آزمایا۔ قحط، سیلاب اور طاعون کی مسلسل وباؤں نے 1882، 1894، 1895، 1897، 1904، 1905 اور 1907میں مبارکپور کے بنکروں کی کمر توڑ دی۔ دھاگے کی قیمتوں میں اضافہ، زراعت کی ناکامی، اور بازاروں کی سکڑتی ہوئی مانگ، سب کچھ گویا ہنر کو آہستہ آہستہ خاموش کرنے پر تُلا ہوا تھا۔ مگر اس گہرے اندھیرے میں ایک روشن کرن بھی پھوٹی۔ 1896 سے 1904 کے درمیان ریلوے لائنوں کی تعمیر نے ٹیکسٹائل کی تجارت میں نئی روح پھونکی۔ بمبئی، کلکتہ اور کانپور جیسے بڑے مراکز سے رابطے کے سبب کچھ روشنی کی امید پیدا ہوئی، اور کچھ بنکروں کو مجبوری میں ہجرت سے بچا لیا گیا۔
تاہم، تجارتی مندی نے ان کو مجبور کیا کہ وہ سوتی رومال اور دکنی پگڑیوں جیسے کم قیمت مگر طلب میں زیادہ مصنوعات کی طرف رخ کریں۔ ریشمی ساڑیاں اگرچہ اب بھی بنائی جا رہی تھیں، مگر ان کی محدود کھپت نے صنعت کی عظمت کو سہارا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس دوران مغربی بنگال سے آنے والے تھوک تاجروں کی آمد دُرگا پوجا کے موقع پر ایک عارضی جنبش ضرور پیدا کرتی، لیکن یہ تجارت بھی دلالوں اور بیوپاریوں کے شکنجے میں پھنسی ہوئی تھی،دستکار کو اس کا پورا حق کبھی نہ ملا۔
اور جب طاعون کی وبا نے بنکروں کے گھروں پر دستک دی، تو محض جسم ہی بیمار نہ ہوئے، مزاج بھی زہر آلود ہو گیا۔ ایک وقت آیا جب کہا جانے لگا کہ ”طاعون کے نقصانات نے ان کے نقطۂ نظر کو تلخ بنا دیا ہے“یہ تلخی ہنر کی خاموشی، خوابوں کی شکست، اور ایک زندہ تہذیب کی سسکتی سانسوں کی گواہی تھی۔
جدوجہد اور زری ساڑیوں کی سنہری داستان:
وقت کا پہیہ اگر ایک لمحے کو تھم جائے اور ہم ماضی کی گلیوں میں قدم رکھیں، تو مبارک پور کا نقشہ ایک ایسی برادری کے طور پر ابھرتا ہے جس کے ہاتھوں میں دھاگے تھے، مگر آنکھوں میں خواب، جن کی بنیاد صرف روزی روٹی نہیں، بلکہ عزت، پہچان، اور ثقافت تھی۔ بنکر برادری کے لیے بنائی محض پیشہ نہیں تھی، بلکہ ایک تہذیب تھی—ایسا اثاثہ جسے وہ سینے سے لگا کر نسلوں تک سنبھالتے رہے۔
مبارک پور کے بُنکروں نے ہمیشہ اپنی پیداواری سرگرمیوں کو برادری کی چھتری تلے محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔ ان کے لیے کھڈیوں پر بننے والا ہر دھاگا، ہر کڑھائی، ان کے وقار اور شناخت کا مظہر تھا۔ یہ وہی برادری تھی جس نے اپنی اجتماعی سوچ کو پیداوار تک تو محدود رکھا، لیکن جب بات ہجرت اور سیاسی سرگرمیوں کی آئی، تو کوئی متفقہ لائحہ عمل نہ بن سکا۔ یہی وہ درار تھی جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ مفاد پرستوں نے برادری کی حدود کو اپنے مالی مفادات کے مطابق ڈھالنا شروع کر دیا، اور اس اجتماعی ادارے کی اتھارٹی آہستہ آہستہ کمزور پڑنے لگی۔
محلہ پورہ صوفی کے ایک خوشحال بُنکر عبد المجید، نے 1902 سے 1934 کے درمیان مبارک پور کی روزمرہ کی زندگی، بازار کے نرخ، برادری کے مسائل اور مقامی سیاست پر مبنی ایک ڈائری مرتب کی۔ اگرچہ انھوں نے اپنی کھڈی یا فنِ بنائی کا براہِ راست ذکر نہیں کیا، لیکن ان کے اندراجات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ محض ایک کاریگر نہیں، بلکہ ایک ایسے شخص تھے جو برادری کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔ان کے قلم سے نکلا ہر جملہ، ہر تبصرہ، مبارک پور کی سماجی ساخت کا آئینہ دار ہے۔ ان کا کہنا تھا:
”اب کے سال روزگار ہواں، جس سے مبارکپور آباد ہواں، آج تک ایسا روزگار کبھی نہ ہواں اور نہ ہوگا۔“
یہ الفاظ 1919 کی اس خوش حالی کے لیے تھے، جب سنگھی اور گلٹا کپڑے 10 سے 41 روپے فی گز تک فروخت ہوئے، اور مبارکپور کے بُنکروں نے ایسا معاشی عروج دیکھا جو پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ہر محلے میں بھینسیں خریدی گئیں، حتیٰ کہ دودھ نہ دینے والی بھینسیں بھی۔ فضول خرچی عام ہوئی، اور 142 افراد نے حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ مگر یہ مسرت زیادہ دیرپا نہ رہی۔
بیسویں صدی کے آغاز میں، جب بنائی کی صنعت دیگر علاقوں میں دم توڑ رہی تھی، مبارکپور میں ابھی امید باقی تھی۔ 1920 کی دہائی میں عام ریشم کی جگہ زری کی ساڑھیوں نے لینا شروع کی، اور 1930 میں بروکیڈ (زری) ساڑھیوں کی ہتھ کرگھا صنعت کی بنیاد محلہ پرانی بستی میں رکھی گئی۔ عبید حسین انصاری ، اس تبدیلی کے علم بردار تھے۔ انھوں نے اپنی بانی سے اس صنعت کا آغاز کیا اور مقامی افراد کو تربیت دے کر ایک نئی راہ متعین کی۔
یہ وہ وقت تھا جب مبارک پور کی گلیوں میں دھاگے کی بو، رنگوں کی جھلک اور کھڈیوں کی آوازیں ایک بار پھر گونجنے لگیں۔ مبارکپور، املو، اور سریاں کے کاریگروں نے 15 دن کے اندر بروکیڈ ساڑی بنانی سیکھ لی۔ آج بھی مبارک پور کی ہر گلی، ہر آنگن میں کوئی نہ کوئی زری ساڑی ضرور ملتی ہے، جو اس سنہری روایت کی خاموش مگر زندہ گواہ ہے۔
1950 تک مبارکپور میں 5,275 ہتھ کرگھے موجود تھے، جن میں سے 20 فیصد کپاس کے کپڑے کے لیے مخصوص تھے۔ اس وقت معاشرتی سطح پر ایک واضح تقسیم نظر آتی تھی:
ریشمی ساڑیاں گھر کے اندر، ذاتی ہتھ کرگھوں پر بنائی جاتیں۔ مگر یہ سب کچھ ایک مکمل خودمختاری کی علامت نہیں تھا، کیوں کہ کئی چھوٹے کارخانوں میں بنکر ایسے مالکان کے رحم و کرم پر کام کرتے تھے جو دھاگا فراہم کرتے، مزدوری طے کرتے، اور زیادہ تر منافع خود سمیٹ لیتے۔ ہنر مند کاریگر اپنے ہی فن میں استحصال کا شکار ہو رہے تھے ۔وہ ایسے کاریگر تھے جنھوں نے ہنر کو ورثہ بنایا، جن کے فن نے زبان کا کام کیا، اور جن کی کھڈیوں نے دھڑکنوں کو ترتیب دیا۔ مگر یہ کہانی صرف سنہری ساڑیوں، چند خوش حال برسوں یا عبد المجید کی ڈائری تک محدود نہیں؛ اس میں تو ان سروں کی بھی داستان ہے جو جھک کر کپڑا بنتے رہے، ان آنکھوں کی بھی کہانی ہے جو دھاگے میں مستقبل ڈھونڈا کرتی تھیں، اور ان دلوں کی بھی فریاد ہے جو کبھی اپنا حق نہ پا سکے۔
ساہوکار، دلال، اور دھاگے کی سیاست:
مبارک پور کی ریشمی صنعت کی بنیاد جن ہاتھوں نے رکھی، وہی ہاتھ وقت کے ساتھ بازار کی سرد و گرم ہوا کے تھپیڑوں میں بے بس ہو گئے۔ سب سے چھوٹی پیداواری اکائی، یعنی ایک تنہا جولاہا، محض ہنر کے بل پر اس وسیع اور پیچیدہ نظام میں اپنی شناخت قائم رکھنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن سرمایہ، خام مال اور بازار تک رسائی کی کمی نے اسے دلالوں کے شکنجے میں جکڑ دیا۔
بنکر کو وہ دھاگا، جو اس کے فن کی روح تھا، خود خریدنے کی طاقت نہ تھی۔ تاجر، جو دلال کا روپ دھارے ہوئے ہوتا، نہ صرف اسے دھاگا مہیا کرتا بلکہ اس کے تیار کردہ کپڑے کو بھی اپنے مقررہ نرخ پر خرید لیتا۔ یوں بنکر مکمل طور پر اس دلال کے رحم و کرم پر ہوتا، جو اس کے فن کو صرف آرڈر کی شکل میں تولتا۔ یہ دلال نہ صرف تجارت کے ایک بڑے حصے پر قابض تھے بلکہ ان کا ادارہ اس قدر مضبوط تھا کہ وہی پیداوار، خریداری اور فروخت، سب کچھ طے کرتے۔
ورک شاپ کے مالکان، اگرچہ بظاہر آزاد نظر آتے، مگر درحقیقت وہ بھی ان دلالوں کے سامنے بے بس تھے۔ ماہر بنکر ان کے پاس کام کرتے، جنھیں فی کپڑا یا فی ساڑی کے حساب سے اجرت دی جاتی، مگر یہ محنت تب تک بے معنی ہو جاتی جب تک دلال تیار مال اٹھا کر لے نہ جاتا۔ انھیں اکثر نقد رقم کے بجائے تین یا چار ماہ مؤخر ادائیگی کے چیک دیے جاتے، جس سے سرمایہ منجمد اور نظام بے کیف ہو جاتا۔ 1960 کی دہائی کے آغاز میں ایسے 21 دلالوں نے مبارکپور میں اپنا جال بچھایا ہوا تھا، جو ماہانہ لگ بھگ دس ہزار ریشمی ساڑیاں بازار تک پہنچاتے اور خود خاطر خواہ منافع سمیٹ کر چلے جاتے ہیں۔
بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں جب ہیوی ہینڈلوم بروکیڈ ساڑھیوں کی مانگ نے صنعت کو نئی بلندیوں تک پہنچایا، وہ لمحے مبارک پور کے لیے سنہری تھے۔ تاہم، یہ چمک زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی۔ دوسری جنگ عظیم اور آزادی کے بعد کی سیاسی تبدیلیوں نے اس صنعت کی بنیادیں ہلا دیں۔ جاپان سے درآمد شدہ خام ریشم پر انحصار اس قدر بڑھ گیا کہ قیمتیں عام صارف کی دسترس سے باہر ہو گئیں، اور مقامی بازار سمٹنے لگے۔
اس سے بڑا دھچکا اُس وقت لگا جب برصغیر کی تقسیم نے مبارکپور کے روایتی خریداروں(یعنی پاکستان اور مشرقی پاکستان (بعد ازاں بنگلہ دیش) کا بازار چھین لیا۔ فرقہ وارانہ فسادات نے کئی ماہر بنکروں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ نہ صرف ہنر بکھر گیا بلکہ بازار بھی سمٹ گیا۔ اس کے بعد جب پاکستان نے ریشمی مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کیے، تو مبارک پور کی زری ساڑیاں خریداروں کی فہرست سے غائب ہونے لگیں۔
خام مال، رنگ، اور روایت کا بدلتا چہرہ:
بروکیڈ ساڑی کی تیاری میں دو بنیادی عناصر شامل ہوتے تھے: خالص ریشم اور زری کا دھاگا۔ ریشمی دھاگا شہتوت اور ٹسر کی اقسام میں دستیاب تھا، جو اگرچہ اتر پردیش کے چند اضلاع میں تھوڑی بہت پیداوار دیتے تھے، مگر مبارک پور کے کاریگر مغربی بنگال کے مالدہ سے درآمد شدہ ریشم کو فوقیت دیتے تھے۔ اسے گھر کے اندر ہی سستے، کیمیائی اینلائن رنگوں سے رنگا جاتا—یہ تبدیلی روایت سے ہٹ کر سہولت اور ارزانی کی طرف ایک علامتی قدم تھا۔
زری کے دھاگے کی کہانی بھی کم پیچیدہ نہ تھی۔ 1963 تک سونے کا بازار کھلا تھا، اور وارانسی و سورت جیسے شہروں کے تاجر خالص سونے یا چاندی کے تار فراہم کرتے تھے۔ لیکن جیسے ہی ”دفاعِ ہند (ترمیمی) رول“ کے تحت سونے پر کنٹرول نافذ ہوا، زری ساڑی کی لاگت آسمان چھونے لگی پھر سنہری اور نقرئی ”لوریکس“ نے سونے کا نعم البدل بن کر مارکیٹ میں قدم رکھا، مگر اصل چمک باقی نہ رہی۔
سماجی تناؤ اور شناخت کی تلاش:
ایسے میں معاشی دباؤ اور پیداواری زوال کے ساتھ ساتھ سماجی سطح پر بھی گہرا انتشار جنم لینے لگا۔ ہندو ساہوکاروں کے مسلم بنکروإں کے ساتھ تعلقات میں درار پڑنے لگی۔ معاشی کمزوریوں نے مذہبی کشیدگی کو ہوا دی، اور بنکر اپنی شناخت کو مذہب کے دائرے میں ڈھالنے لگے۔ اسلامائزیشن کا یہ عمل صرف عقیدے کی تبدیلی نہ تھا، بلکہ ایک پُرپیچ ردِ عمل تھا اُن سماجی اور اقتصادی حقائق کا، جو ہر قدم پر بنکروں کو پیچھے دھکیل رہے تھے۔ان بنکروں کے اندر بھی نسلی، اور پیشہ ورانہ تقسیم موجود تھی—وہ صرف ایک طبقے کے مسلمانوں نہیں تھے، بلکہ وہ تو ایک تہذیب کے زخم خوردہ وجود کا عکس تھے، جو اپنے فن، اپنی معیشت، اور اپنی سماجی شناخت کو نئی کروٹوں پر دیکھ رہا تھا۔
مذہبی تنوع اور مسلکی رقابتیں:
جیسا کہ ہم نے کہا ؛مبارک پور کی سرزمین صرف ریشمی دھاگوں اور بروکیڈ ساڑھیوں ہی کی آماجگاہ نہ تھی، بلکہ یہاں مذہبی فکر و فہم کے مختلف رنگ بھی پوری شدت سے رائج تھے۔ وقت کے ساتھ اس قصبے میں جہاں صنعتی حرکیات نے اپنی ایک دنیا آباد کی، وہیں مذہبی رجحانات نے بھی سیاست، معاشرت اور شخصی روابط پر گہرے نقوش ثبت کیے۔ مبارک پور میں مکاتب ہاے فکر کی موجودگی نہ صرف مذہبی فکر کی گہرائی کی مظہر ہے، بلکہ ان کے باہمی تعلقات نے مقامی سیاست، تعلیم اور ثقافتی اداروں کی تشکیل پر بھی دیرپا اثرات مرتب کیے۔
مبارک پور میں سب سے پہلا اور قدیم اسلامی مذہب سنی حنفی تھا، جو عموماً برصغیر کے طول و عرض میں پھیلا ہوا تھا۔ اٹھارہویں صدی میں جب اودھ کی نوابین نے مذہبی فضا کو نئی جہتیں عطا کیں، تب شیعہ مذہب نے بھی اس خطے میں قدم جمائے۔ نواب آصف الدولہ کے عہد میں رمضان علی شاہ نے یہاں اپنا امام باڑہ تعمیر کروایا، جو نہ صرف ان کے مذہبی شعائر کا مرکز تھا بلکہ شیعہ وجود کی سماجی پہچان بھی ۔ اس وقت کئی شیعہ مبلغین نے مبارک پور کا رخ کیا، اور نوابی سرپرستی میں اس کو فکری پشت پناہی حاصل ہوئی۔
بوہرہ اسماعیلی شیعہ بھی مبارکپور میں انیسویں صدی کے ابتدائی برسوں سے قبل موجود تھے، اور ان کے وجود کا استناد ملا نثار علی مبارک پوری سے ہوتا ہے، جنھوں نے اس مذہب کی بنیاد یہاں رکھی۔ بعد ازاں، غیر مقلدین نے بھی قدم جمانے شروع کیے، یہاں اس کے بانی مبانی شاہ ابو اسحاق لوہراوی تھے، جن کا انتقال 1234 ہجری میں ہوا۔ سب سے آخر میں دیوبندی مکتبِ فکر نے 1317 ہجری میں یہاں اپنی شناخت قائم کی۔ مولانا محمود معروفی اور مولانا حکیم الٰہی بخش نے اس کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔
ان مختلف مکاتبِ فکر نے نہ صرف اپنے عقائد کی تبلیغ کی بلکہ اپنے اپنے مدارس بھی قائم کیے، جو ان کی فکری تربیت گاہیں بن گئیں۔ سنیوں کا مدرسہ ”اشرفیہ“ (دار العلوم اہل سنت مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم)، دیوبندیوں کا ”جامعہ عربیہ احیاء العلوم“ ، اہل حدیث کا ”دار التعلیم“، اور شیعوں کا ”باب العلم“ یہ تمام مدارس اپنے اپنے مذاہب کی علمی روایت کے امین کل بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ بوہروں کا مدرسہ ملا نثار علی سرائمیری نے قائم کیا تھا، جسے بمبئی کے بوہروں کی جانب سے مالی امداد حاصل ہوتی تھی۔ اگرچہ بیسویں صدی کے اوائل میں یہ مدرسہ طویل عرصے تک غیر فعال رہا، لیکن دینی تعلیم امام باڑہ اور گھریلو سطح پر جاری رہی۔تمام مذاہب کے لوگ ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہے، اور سب کے اندر ایک دوسرے کے خلاف کشیدگی پروان چڑھتی رہی۔
مقامی قیادت اور باہمی تعلقات:
1909-10میں مبارک پور پولیس نے اپنے مشاہدے میں درج کیا کہ مبارک پور میں فرقہ وارانہ کشیدگی صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نہیں، بلکہ خود مسلمانوں کے اندر بھی گہری خلیجیں موجود ہیں۔ سنی، اہل حدیث، شیعہ اور دیوبندی سب اپنے اپنے تشخص میں ممتاز اور الگ شناخت رکھتے تھے، ان کے عبادت کے مراکز جدا تھے، اور وہ ایک دوسرے کی مساجد میں نماز ادا نہیں کرتے تھے۔ البتہ محرم کے دوران تمام فرقے، اہل حدیث کے سوا، عزاداری میں شریک ہوتے۔ تعزیے کے جلوس کے دوران بدامنی کا آغاز اکثر محلہ شاہ محمدپور سے ہوتا، جو کہ ایک شیعہ اکثریتی علاقہ تھا۔
اس دور کی مقامی قیادت بھی مسالک کے نمائندہ چہرے تھے۔ سنی قیادت میں شیخ عبد الوہاب، شیخ طیب گرہستھ، حکیم الٰہی بخش اور حاجی عبد الحق شامل تھے۔ اہل حدیث کی نمائندگی مولوی سلامت اللہ، عبد المجید اور حکیم محمد شفیع کے پاس تھی، جب کہ شیعوں کی قیادت حکیم یار علی کے ہاتھ میں تھی۔ سرکاری امور میں یہ رہنما نہایت اہم کردار ادا کرتے تھے، اور بعض مواقع پر مقامی انتظامیہ کو یہ مشورہ دیا گیا کہ بدامنی کے تدارک کے لیے حکیم یار علی سے تعاون حاصل کیا جائے، کیوں کہ وہ معاملات کو سلجھانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
بمبئی کا ”غلہ کیس“
اناج کے دانوں میں چھپی ہوس کی داستان:
1940 کی دہائی کا ہندوستان ایک بےقراری کی کیفیت میں سانس لے رہا تھا۔ باہر کی دنیا میں جنگ کے بادل گرج رہے تھے، تو اندرون ملک فاقہ کشی کی آندھیاں چل رہی تھیں۔ بمبئی، جو برطانوی ہندوستان کا دلِ تھا، اپنے بظاہر جگمگاتے بازاروں، اونچی عمارتوں اور بندرگاہ کے شور میں ایک ایسی سچائی کو چھپائے بیٹھا تھا جو بھوک کی چیخوں سے گونجتی تھی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب چاول کی خوشبو محض یاد بن چکی تھی، اور گندم کے دانے سونے کی مانند قیمتی ہو گئے تھے۔ اناج کی قلت، جو قدرتی سے زیادہ مصنوعی تھی، ہر گھر کی دہلیز پر ایک سوال بن کر دستک دے رہی تھی: ”کیا کل چولہا جلے گا؟“ اور تب سامنے آیا بمبئی کا ”غلہ کیس“۔(جاری)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org