30 July, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia July 2025 Download:Click Here Views: 599 Downloads: 120

(10)-فلسطین کا معاملہ عالمی میڈیا کا مکروہ چہرہ

ڈاکٹر ظہور احمد دانش

کسی داستان غم کولکھنا اوراس کوبیان کرنا تو میں سمجھتاہوں کہ بہت آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ جو اس داستان غم کا حصہ بنے ۔جن پر وہ ظلم کی آندھیاں چلیں ۔جنھوں نے اپنے کندھوں  پر اپنے پیاروں کے لاشے اُٹھائے ۔جن کے سامنے ان کا گھر، محلہ ،شہر ،ملک کھنڈر بن گیاہوں ۔اف میرے مالک !!

قارئین !میں فلسطین کی باتیں کے نام سے ایک سیریز لکھ رہاہوں صرف اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہاہوں ایک حجت قائم کرنے کی ایک کو شش کررہاہوں کہ قیامت میں اپنے کریم کو عرض کرسکوں کریم رب لکھ کر تیرے بندوں کو اطلاع دینے کا کام کرنے اور کرب کی شدب بتانے کی اپنے حصے کی کوشش کرتارہا۔میں کربھی کیاسکتاتھا ۔سوری پیارے اللہ !!

بات طویل ہوجائے گی ۔عالمی میڈیا کا مکروہ رویہ بھی ہم آپ آپ کے سامنے رکھتے ہیں ۔آپ خود ہی انداز کرلیجئے گا کہ آخر ہمارے ساتھ گیم کیا ہو گیا ۔آئیے اصل موضوع کی طرف بڑھتے ہیں ۔

مغربی میڈیا کا اسرائیل کی بولی بولنا:

الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، CNNاور BBC کے صحافیوں نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے نیوز رومز میں اسرائیل کے حق میں تعصب پایا جاتا ہے، جس سے فلسطینیوں کی مشکلات کو کم اہمیت دی جاتی ہے ۔ اسی طرح، The Nation کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ CNN اور MSNBC نے غزہ کی جنگ کی ابتدائی 100 دنوں میں فلسطینیوں کو کم ہمدردی کے ساتھ پیش کیا، جب کہ  اسرائیلی اور یوکرینی متاثرین کو زیادہ انسانی پہلو سے دکھایا گیا ۔​

BBC  کا قابل تشویش رویہ :

BBC کی ڈاکیومنٹری "Gaza: How to Survive a War Zone" میں عربی الفاظ "یہود" اور "جہاد" کو "اسرائیلی افواج" اور "مزاحمت" کے طور پر ترجمہ کیا گیا، جس پر شدید تنقید کی گئی۔ یہ ترجمے صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھے گئے، کیوں کہ اس سے ناظرین کو اصل بیانیے سے محروم رکھا گیا۔​

مظلوم فلسطینوں کی کوریج میں بُخل :

مغربی میڈیا نے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کو نمایاں طور پر کوریج دی، جب کہ  1,900 سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو کم اہمیت دی گئی۔ یہ عدم توازن میڈیا کی جانب داری کو ظاہر کرتا ہے۔

سوشل میڈیا پر فلسطین کے لیے رویہ

2025 میں، Meta (فیس بک اور انسٹاگرام) نے اسرائیلی حکومت کی درخواست پر 94% مواد کو ہٹا دیا، جو فلسطینیوں کے حق میں یا اسرائیل پر تنقید پر مبنی تھا۔ اس سے سوشل میڈیا پر بھی فلسطینی آوازوں کو دبانے کا رجحان ظاہر ہوتا ہے ۔​

 عالمی میڈیا اکثر فلسطینی مزاحمت کو ’’دہشت گردی‘‘ جب کہ  اسرائیلی حملوں کو "دفاعی کارروائی" کے طور پر پیش کرتا ہے۔

آئیے میں کچھ اخباری تراشوں سے خبروں کی مثالیں پیش کرتاہوں آپ خود فیصلہ کرسکیں گے کہ ہوکیارہاہے

خبر:جب اسرائیل نے غزہ میں 2023–2024 میں بمباری کی، تو The New York Times اور Reuters نے سرخی میں لکھا:“Israel retaliates after Hamas rocket fire” جب کہ   حقیقت یہ تھی کہ بمباری کا آغاز اسرائیل نے خود کیا تھا۔

حوالہ:Middle East Eye – Gaza coverage analysis, 2024

2023–2024 میں 123 فلسطینی صحافی شہید ہوئے، جن میں الجزیرہ کے مشہور رپورٹر شریف ابو عاقلہ کی شہادت عالمی توجہ کا مرکز بنی۔تاہم، CNN، BBC، Fox News جیسے اداروں نے ان واقعات پر یا تو رپورٹنگ نہ کی یا غیرواضح انداز میں کی، گویا فلسطینی صحافیوں کی زندگی کم قیمتی ہو۔

حوالہ:Committee to Protect Journalists (CPJ), 2025 Report

اسرائیلی شہری کی موت کو "Breaking News" بنا کر دنیا کو دکھایا جاتا ہے۔جب کہ  ایک ہی حملے میں شہید ہونے والے 40 فلسطینی بچوں کو ایک عددی خبر یا کونے کی تصویر میں محدود کر دیا جاتا ہے۔امریکی چینلز نے اسرائیلی متاثرین کو اوسطاً 6 گھنٹے کی کوریج دی جب کہ  فلسطینی شہداء پر صرف 40 منٹ  دی ۔

حوالہ:[Media Bias Monitoring Institute, 2025 Media Equity Index]

جب کوئی رپورٹر فلسطینیوں پر مظالم کی بات کرتا ہے، تو فوری "دونوں طرف" کی بات شامل کر دی جاتی ہے۔مگر اسرائیلی بیانیہ بغیر توازن کے نشر ہوتا ہےیہ توازن نہیں، سچائی کو "کمزور" کرنے کی چال ہے۔

Meta (Facebook, Instagram) نے 2024 میں فلسطینی ہیش ٹیگز پر شدید سینسرشپ کی

TikTokنے "Free Palestine" ٹرینڈ کو محدود کیا۔Twitter/X پر فلسطینی صحافیوں کے اکاؤنٹس بند کیے گئے۔

آپ میری بات سمجھ رہے ہوں گے ہم مسلمانوں کے ساتھ ہوکیا رہاہے افسوس اتنے مسلم ممالک ٹیکنالوجی میں اپنا کوئی کردار ادا نہ کرسکے ۔کوئی اپنا سرچنگ انجن نہ بنا سکے ۔کوئی سوشل میڈیا اپنا پلیٹ فارم نہ بناسکے ۔سیٹلائٹ پر کوئی کام نہ کرسکے ، افسوس ....بعض مسلم ممالک کے چینلز نے فلسطین کی رپورٹنگ کو محدود کیا تاکہ سفارتی تعلقات متاثر نہ ہوں،مثلاً UAE، بحرین، اور مراکش کے سرکاری میڈیا میں حماس، اسرائیل تنازع کو جان بوجھ کر کم اہمیت دی گئی

CNN، BBC، AP، New York Times کے درجنوں صحافیوں نے 2024 میں اپنے اداروں کے تعصب پر کھلا خط لکھا:ہم غیر جانب دار صحافت کے دعوے دار ہیں، مگر سچائی کو چھپانے کے گواہ بھی۔قارئین:2025 تک کے تجزیے سے واضح ہے کہعالمی میڈیا نے فلسطین کے ساتھ منصفانہ رویہ اختیار نہیں کیا۔صحافت کے بنیادی اصول — سچ، توازن، انسانی ہمدردی  کو جانب داری، لابی، اور پالیسی نے دبا دیا۔فلسطین نہ صرف زمینی جنگ بلکہ بیانیے کی جنگ بھی لڑ رہا ہے۔سچ کی آواز بند کی جا سکتی ہے، دبائی جا سکتی ہے۔لیکن فلسطینی بچے کا خون… کیمرہ نہ بھی دکھائے توبھی تاریخ ضرور لکھے گی۔

سوشل میڈیاپر فضولیات  کی نمائش كرنے والو!!دشمن نے تمہیں کھیل تماشوں میں لگاکر خود دریافت اور ریسرچ کی دنیا میں تہلکا مچادیا۔تمہاری نسلوں کو ذہنی طور پر برباد اور تمھیں ہلاک کرنے کا پورابندوبست کررکھاہے ۔ کچھ ہوش کے ناخن لو۔جس سوشل میڈیا پر اتراتے ہو۔ گولڈن ، سلور ،ڈائمنڈ بٹن میں الجھے اور بگڑے نوجوانوں رب کا واسطہ یہ انھی کا پلیٹ فارم ہے ۔جب چاہیں تمہاری آواز بند کردیں ۔ابھی وقت ہے ،سنبھل جاؤ ۔میری مثال تو خریداران یوسف ہی کی سی ہے کہ کچھ بڑانھیں  تو اپنے حصے کی اپنے کمرے سے آواز تو بلند کرسکتاہوں وہی کرلیتاہوں ۔اے پیارے اللہ !!تیرے نام لیوابہت تکلیف میں ہیں کوئی معجزہ کردے ،مالک اتاردے ابابیل۔مالک فضائے بدر بنادے ۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved