30 July, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia July 2025 Download:Click Here Views: 591 Downloads: 120

(9)-مجمع البحرین حضرت مفتی عبید الرحمٰن رشیدی مصباحی

چند یادیں اور باتیں

مبارک حسین مصباحی

رمضان المبارک کا موسم بہاراں تھا ،جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں تعطیلِ کلاں ہو چکی تھی،ہم اپنے وطن قصبہ شاہ آباد ضلع رام پور میں تھے ، تراویح کے بعد اتفاقیہ ہم نے اپنا موبائل آن کیا تو فیس بک پر مجمع البحرین حضرت مفتی عبید الرحمٰن رشیدی کے وصال کی اندوہناک خبر سامنے آئی ، اس حادثۂ جاں کاہ کی خبر سے دل و دماغ کی حالت غیر ہونے لگی ، کلمات استرجاع پڑھ کر کچھ تلاوت کی اور ان کی روح پرفتوح کو ایصال ثواب کیا ۔آپ کا وصال 11 رمضان المبارک 1445ھ /22مارچ 2024ء میں ہوا۔ سچائی یہ ہے کہ خادم  مبارک حسین مصباحی  عہدِ حاضر کی جن شخصیات سے متاثر   ہے ان میں ایک اہم علمی اور روحانی شخصیت مجمع البحرین شیخ طریقت حضرت علامہ مفتی عبید الرحمن رشیدی مصباحی علیہ الرحمۃ والرضوان کی تھی، آپ کا خطاب” مجمع البحرین“  تھا، یعنی آپ کی پروقار شخصیت شریعت و طریقت کا حقیقی سنگم تھی۔ آپ خاک ہند کی شہرۂ آفاق اور با فیض درس گاہ  جامعہ اشرفیہ مبارک پور کےذی استعداد فاضل جلیل تھے، تصوف و روحانیت  کے پیکر ،حدیث و تفسیر کے ماہر، فقہی بصیرتوں کے حامل اور حالاتِ زمانہ پر عقابی نگاہ رکھنے والے دانش ور تھے، کردار و اخلاق ابتدا ہی سے ہر دل عزیز بنائے ہوئے تھے،اساتذہ آپ کی علمی صلاحیتوں کا اعتراف فرماتے تھے، اس لیے طالب علمی کے دور میں آپ کو معین المدرسین کا منصب عطا کیا گیا۔ آپ نے فراغت کے برس 1967 عیسوی میں فتاوی رضویہ جلد چہارم کی اولین اشاعت میں تصحیح میں معاونت فرمائی ۔آپ خود ارشاد فرماتے ہیں:

”جامعہ اشرفیہ میں زمانۂ طالب علمی کے اخیر سال 1967ء میں استاذ گرامی حضرت علامہ حافظ عبد الرؤف بلیاوی علیہ الرحمہ نے مجھ سے کہا:فتاوی رضویہ کی چوتھی جلد کی کتابت ہو کر آئی ہے ، اس کو اصل سے ملانا ہے ، میں اکیلے یہ کام نہیں کر سکتا، اگر تم کو موقع ہو تو اس کام میں میری مدد کرو ، تم پڑھنا اور میں دیکھتا رہوں گا، اگر کہیں کچھ فرق ہوا تو میں اس کی تصحیح کر دوں گا ۔ تو میں نے اپنی سعادت سمجھتے ہوۓ حضرت کے اس فرمان کو قبول کیا اور کئی مہینوں تک حضرت کے ساتھ میں نےیہ کام کیا۔“

1964 ء میں آپ جامعہ اشرفیہ مبارکپو ر میں داخل ہوئے،، اس وقت جامعہ میں ایک سے ایک یکتاے روزگار شخصیات تھیں ، خود حضور حافظِ ملت مٹی کو سونا بنانے کا فن جانتے تھے ۔  مخلص اساتذہ کی پر سوزتعلیم وتربیت نے آپ کو ہر دل عزیز ہیرا بنا دیا۔ 1967 ء میں آپ نے فضیلت کی تکمیل فرمائی اور سند و  دستار سے سرفراز کیے گئے۔

 اب ہم ذیل میں اساتذہ کے اسماے گرامی مدارس کی وضاحت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔

(1)- موضع بینی باڑی ضلع کٹیہار میں اپنے والد بزرگوار حضرت مولانا حکیم لطیف الرحمان رشیدی علیہ الرحمہ سے میزان و منشب وغیرہ کتابیں پڑھیں۔

(2)- دار العلوم مصطفائیہ چمنی بازار پورنیہ ،بہار میں شرح جامی تک تعلیم حاصل کی ،یہاں بطور خاص شارح بخاری حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی اور خواجۂ علم و فن حضرت علامہ  خواجہ مظفر حسین رضوی وغیرہ اساتذہ تھے۔

(3)- دار العلوم حنفیہ رضویہ بنارس ، یہاں کے مشاہیر اساتذہ ہیں حضرت مولانا سید سلیمان اشرف بھا گلپوری اور شمس العلما حضرت علامہ شمس الدین جعفری جون پوری۔

(4)- مدرسہ مظہر ا سلام بریلی شریف میں حضرت علامہ صوفی مبین الدین محدث امروہوی ، حضرت علامہ تحسین رضا خاں بریلوی اور حضرت مفتی بلال احمد نوری۔

(5)-جامعہ اشرفیہ مبارک پورمیں جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی، ماہر علوم وفنون حضرت علامہ حافظ عبد الرؤف بلیاوی اور شیخ طریقت حضرت مولانا سید شاہ حامد اشرف اشرفی جیلا نی کچھوچھوی وغیرہ ۔

جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا ۔ حضور حافظ ملت اور دیگر اہم اساتذہ کی نگاہوں کے مرکز تھے۔ قائد اہل سنت حضرت علامہ ارشد  القادری بھی جامعہ اشرفیہ مبا ر ک پور کے معروف فاضل جلیل ہیں ۔ آپ کو اپنے ادارے مدرسہ فیض العلوم جمشید  پور کے لیے میں ایک با صلاحیت فاضل کی ضرورت تھی ، آپ نے استاذ گرامی حضور حافظ ملت کی بارگاہ میں عریضہ پیش کیاحضور حافظ ملت کی نگاہ انتخاب آپ پر پڑی اور آپ کو مدرسہ فیض العلوم جمشید پور کے صدر المدرسین اور شیخ الحدیث کی حیثیت سے روانہ فرما دیا، آپ نے علامہ ارشد القادری کی رہنمائی میں اپنی منصبی ذمہ داریاں بہ حسن و خوبی شروع فرما دیں، علامہ ارشد القادری اپنی گونا گوں خوبیوں کے ساتھ ماہر جو ہر شناس  بھی تھے، آپ نے حضرت مفتی صاحب کےوجود ناز میں پنہاں کار افتا کی صلاحیتوں کو دیکھ لیا اور پھر دارالافتا کا قلم دان بھی آپ کے حوالے کر دیا ۔آپ نے اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ فتویٰ نویسی کی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دینا شروع کر دیا ، اب آپ فتویٰ نویسی میں بھی  اس دور کے اکابر  علما کے معتمد ہوگئے۔

علامہ ارشد القادری بلاشبہ کام کی مشین تھے، ملکی اور عالمی سطح پر مختلف نوعیتوں کے ادارے اور تحریکیں  قائم کرنا اور حیرت انگیز طور پر بڑی بڑی کا نفرنسیں منعقد کرنا ،آپ کی امتیازی خوبیوں کا ایک حصہ  رہا ہے۔ 10 ؍ 11 ؍ 12 مئی  1968ء میں سیوان بہار میں  سہ روزہ سنی کانفرنس منعقد کی جس میں اہل سنت کے اکابر علما اور مشائخ جلوہ گر ہوئے ۔ آپ نے اپنے مشائخ کے مشورے سے ایک تجویز پاس کرائی کہ ہم اہل سنت کا بھی ایک دا ر القضا ہونا چاہیے ، اس منصوبے کی تحریری ذمہ داریاں مشائخ اور اکابر علما نے مجمع البحرین حضرت مفتی عبید الرحمٰن رشیدی  کو سونپی ،یہ کار خیر آپ نے بحسن وخوبی پایۂ تکمیل تک پہنچایا ، 12 مئی 1948 ء میں ادارہ شرعیہ پٹنہ بہار کی بنیاد ڈالی گئی اور اس کی توسیع و ترقی کے لیے سنی کانفرنس پٹنہ کا انعقاد ہوا۔اب ”شہرِ خموشاں کے چراغ“ کے حوالے سے اس کا پس منظر ملاحظہ فرمائیے۔

”ہندستان میں کئی لاکھ مسلم خواتین ہیں جن کی ازدواجی زندگی آفات کے نشانے پر ہے جن کے شوہر نہ حق زوجیت ادا کرتے ہیں نہ نان نفقہ کی کفالت کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں طلاق دیگر آزاد کر دیتے ہیں کہ وہ اپنی آسائش و عزت نفس کا کوئی راستہ اپنے طور پر نکال سکیں۔ اپنی گلو خلاصی کے لیے وہ غیر مسلم حکام کی طرف بھی رجوع نہیں کر سکتیں کہ اسلام اپنے مذہبی امور میں کسی غیر مسلم کو مداخلت کا حق نہیں دیتا۔ ایسی عورتوں کی قرار واقعی مشکلات کے حل کے لیے چند ماہ ہوئے ادارہ شرعیہ بہار نے اہل سنت کے مشاہیر علما سے ایک استفتا کیا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے:

 (1) آج کے حالات میں کیا از روئے شرع مسلمانوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے معاشرتی اور ازدواجی معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے قاضی منتخب کریں۔

 (2) کیا مسلمانوں کے منتخب کردہ قاضی کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ مظلوم عورتوں کے مقدمات کی سماعت کر کے اپنی صوابدید کے مطابق فسخ نکاح کاحکم لگا سکے ۔

چنانچہ ضرورت و مصلحت کے تحت فقہی عبارتوں کی روشنی میں حضرت مولانا قاضی شمس الدین صاحب جون پوری ، حضرت مولانا الحاج مفتی عبد الرشید خاں صاحب شیخ الجامعہ ناگپور، نائب مفتی اعظم حضرت مولانا شریف الحق صاحب امجدی، حضرت مولانا مفتی بدر الدین صاحب براؤں شریف اور حضرت مولانا عبید الرحمن صاحب استاذ جامعہ فیض العلوم جمشید پور نے نہایت مدلل طور پر یہ فتوی صادر فرمایا کہ عامہ مسلمین کو قطعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ازدواجی معاملات کا فیصلہ کرانے کےلیے کسی صحیح العقیدہ سنی عالم دین کو اپنا قاضی منتخب کر لیں ۔ حسب ضرورت و مصلحت اس قاضی کو شرعا ًبشرط معہودہ فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہوگا۔

پٹنہ کے اجتماع میں ان موصول شدہ فتوؤں پر غور و خوض کرنے کے لیے سیدی حضور مفتی اعظم ہند دامت برکاتہم کی سر پرستی میں اکابر علما کی ایک مجلس شوری منعقد ہوئی۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد حضور مفتی اعظم ہند نے موصول شدہ فتویٰ کی توثیق فرمادی۔ اس کے بعد حضرت سید العلمامولانا سید شاہ آل مصطفیٰ صاحب قبلہ برکاتی ، حضرت استاذ العلما حافظ عبدالعزیز صاحب شیخ الحدیث اشرفیہ مبارک پور، سلطان المتکلمین حضرت مولانا رفاقت حسین صاحب مفتیِ اعظم  کان  پور، مجاہد ملت حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب قبلہ نے فتوؤں کی تائید میں اپنے اپنے دستخط ثبت فرما دئیے۔ اور ادارہ شرعیہ بہار کے مرکزی دفتر میں باضابطہ دار القضاء کا قیام عمل میں آگیا۔(شہرِ خموشاں کے چراغ، ص:265، از: مبارک حسین مصباحی، ناشر المجمع المصباحی، مبارک پور)

پٹنہ کی سرزمین پر ادارہ شرعیہ کا قیام عمل میں آیا، اس کا  ایک شعبہ دار القضاء تھا۔ ابتدائی طور پر یہ دار القضا ء بہار، بنگال اور اڑیسہ کا مشترکہ دار القضاء تھا، علما اور مشائخ نے تین صوبوں پر مشتمل  اس دار القضاء کا مفتی اور قاضی مجمع البحرین حضرت علامہ مفتی عبید الرحمٰن رشیدی کو منتخب کیا ، اکابر اور مشائخ کی نگاہ میں آپ ابتدا ہی سے منتخب تھے۔

اب آپہ چند لمحے ٹھہر کر غور کریں کہ ۱۹۶۷ء میں آپ کی دار العلوم اشرفیہ مبارک پور سے فراغت ہوئی اور ۱۹۶۸ء میں آپ اپنے اکابر اور مشائخ کے معتمد ہو گئے اور مشائخ نے آپ کو تین صوبوں کے مشترکہ دار القضا کا مفتی اور قاضی منتخب کر دیا، ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ۔

 چند برس آپ نے مد رسہ  فیض العلوم جمشید پور میں حدیث و فقہ وغیرہ کی خدمت انجام دی ، اس کے بعد آپ مدرسہ حمید یہ رضویہ بنارس میں چند برس تدریس اور فتویٰ نویسی فرماتے رہے، اس کے بعد آپ کے استاذ گرامی اشرف العلما حضرت سید حامد اشرف کچھوچھوی نے آپ کودارالعلوم محمد یہ ممبئی  دورۂ حدیث کی تدریس کے لیے دعوت دی۔ آپ تشریف لے گئے مگر کچھ ہی عرصے بعد آب و ہوا کی نامساعدگی کی وجہ سے مستعفی ہو گئے ، مدرسہ مظہر اسلام بریلی شریف ، دار العلوم امجدیہ ناگ پور اور دار العلوم ندائے حق جلال پور  ضلع امبیڈکر نگرمیں تدریس اور فتویٰ نویسی کی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد آپ جامعہ شمس العلوم قصبہ گھوسی ضلع مئو ، پانچ برس 1986 ء تک مقیم رہے اور تدریسی اور فتویٰ نویسی کی خدمات انجام دیتے رہے۔

یہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں ہماری طالب علمی کا دور تھا ، گا ہے بہ گاہے آپ کے علمی فضائل اور روحانی معارف کے بارے میں سنتے رہتے تھے ۔انہی دنوں آپ کی معروف تحقیقی  کتاب ”اختیار نبوت“شائع ہو کر آئی تو ہم نے اپنی علمی وسعت کے مطابق اس کا مطالعہ کیا ۔ آپ کی نکتہ رس تحریر اور فکر انگیز حسن استدلال نے حد درجہ متاثر کیا ۔یہ کتاب در اصل مولوی صفی الرحمٰن مبارک پوری کی کتاب ”رزم حق و باطل“ کے جواب میں تحریر کی گئی تھی۔”اختیارِ نبوت“یہ ایک بے مثال اور مدلل کتاب ہے۔ بفضلہٖ تعالیٰ اس کا تازہ ایڈیشن کمپوز شدہ شاہ عبد العلیم آسی فاؤنڈیشن دہلی سے بھی شائع ہو کرمنظر عام پر آگیا ہے۔  آپ کی تحریریں قرآن و حدیث کی روشنی میں بڑی پر مغز ہوتی ہیں ، آپ کے فتاویٰ مدلل اور فقہی بصیر توں سے لبریز ہوتے ہیں۔ آپ نے ایک اہم کتاب ” بیان حقیقت “  رقم فرمائی جو دیوبندی مولوی کے کتا بچے ” نو ر حق“ کے جواب میں منظر عام پر آئی۔ ” جواہر الحدیث“ محمدثانہ بصیرت کا سرمایہ ہے ،فارسی زبان میں ”گنج ارشد“ میں مذکور حضرت شمس الحق شیخ محمد رشید جون پوری کے معمولات کو اردو ترجمہ کرکے ”معمولات قطب الارشاد“مرتب فرمائی۔ مختلف مقامات میں لکھے گئے آپ کے گراں قدر فتاویٰ بھی متعدد جلدوں پر مشتمل ہوں گے، کسی اہل علم کو چاہیے کہ انھیں وہ سلیقے سے مرتب کر دے۔

آپ نے درجنوں کتابوں  پر مقدمات اور تاثرات لکھے ہیں۔ آپ نے ”بوستان آسی اول“ کے آغاز میں قطب العرفا حضرت مولانا شاہ عبد العلیم آسی غاز ی پوری قدس سرہ کے صوفیانہ اشعار کی جو عارفانہ توضیحات رقم فرمائی ہیں، اس نے اس حقیر کو بے پناہ متاثر کیا ۔ہمارا مشورہ ہے کہ ہر عالم اور صوفی کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے ، ہم خاص طور سے جدید مفتیانِ کرام سے عرض کریں گے کہ وہ اس اہم صوفیانہ تحریر اور آپ کی دیگر عارفانہ تحریروں کا مطالعہ فرمائیں ، ہو سکتا ہے کہ وہ ان کے لیے مفید ہوں۔

”مناقب العارفین“ حضرت شیخ یٰسٓ جھونسوی قدس سرہ کی فارسی زبان میں ہے، یہ وقیع کتاب قطب العارفین مخدوم شاہ طیب بناری اور ان کے سلسلہ کے مشائخ کے حالات و مناقب پر مشتمل ہے، اس کے کچھ حصوں کا ترجمہ پروفیسر سید غلام سمنانی جون پوری نے کیا ہے ، اس پر مجمع البحرین حضرت مفتی عبید الرحمٰن رشیدی کا گراں قدر مقدمہ ہے ۔ اس میں آپ نے مخدوم شاہ طیب بنارسی کی فارسی زبان میں تصنیف ”صلوٰۃ طیبی“ ہے جو ۱۹۹۰ء تک غیر مطبوعہ قلمی تھی، اس کے  ایک فارسی اقتباس کی روشنی میں وحدۃ الوجود کی جو توضیح رقم کی ہے ، حق یہ ہے کہ آپ نے حق ادا کر دیا ہے۔

آپ کا خانواده خانقاہ عالیہ رشیدیہ جو نپور سے وابستہ تھا، اس لیے آپ بھی 1956ء میں منظور الحق حضرت سید شاہ علی سبز پوش گورکھ پوری دسویں سجادہ نشین خانقاه عالیہ رشیدیہ جو نپور کے دست اقدس پر سلسلہ چشتیہ رشید یہ میں بیعت ہوئے۔ آپ کو اپنے والد گرامی حضرت مولانا حکیم لطیف الرحمن رشیدی، حضرت مولانا شاہ غلام محمد یٰسٓ رشیدی اور حضرت سید شاہ زاہد سجاد جعفری پٹنوی سے خلافتیں حاصل ہوئیں۔

عہدِ طالب علمی ہی سے آپ کی شہرت ومقبولیت شروع ہو گئی تھی۔ آپ قرطاس و قلم اور فتاویٰ نویسی کے بھی دھنی تھے ۔ جس دور میں آپ مدرسہ شمس العلوم قصبہ گھوسی میں شیخ الحدیث تھے تو ہم نے آپ کو کچھ کچھ پہچانا مگر ہمارا اس وقت بھی تاثر یہی تھا کہ آپ ایک با صلاحیت فاضل جلیل ہیں ۔ اس کے بعد آپ کو خانقاہ عالیہ رشیدیہ جونپور کا سجادہ نشین بنا دیا گیا، اس کے بعد ہم بھی جامعہ اشرفیہ مبار ک پور کے خادم التدریس اور اس کے ترجمان ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور کے مدیر بنا دیے گئے ۔اب باہم شناسائی بھی ہوگئی ۔ ملاقات اور زیارت تو ہم پہلے بھی کر چکے تھے برسوں پہلے کی بات ہے، ایک بار آپ جامعہ اشرفیہ مبارک پور تشریف لائے ، آپ حضرت مولانا احمد رضا مصباحی کیشئر علیہ الرحمہ کے آفس میں جلوہ گر تھے ، حسنِ اتفاق ہم بھی پہنچ گئے ، زیارت کرکے بے پناہ مسرت ہوئی ۔ چائے نوشی کے درمیان آپ سے شرف ہم کلامی حاصل ہوا ، کوئی مسئلہ آگیا ہم نے آپ کی علمی اور روحانی شخصیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے عرض کیا : حضور اس موضوع پر آپ لکھ دیجئے ، آپ نے مسکراتے ہوئے ہماری جانب دیکھا اور اپنے خاص انداز میں معروف شاعر نیازؔ کا یہ مصرع پڑھا ؂

جو لکھا پڑھا تھا نیازؔ نے سو وہ صاف دل سے بھلا دیا

یہ مصرع  سن کر حاضرین کے چہروں پر مسرت و شادمانی کے آثار ظاہر ہوئے۔

اس کے بعد بھی آپ متعدد بار جامعہ اشرفیہ مبارک پور تشریف لائے اور شرفِ نیاز بھی حاصل ہوتا رہا ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے فیوض و برکات سے ہم سب کو شادکام فرمائے، آمین۔

ہمیں یاد آرہا ے کہ مجمع البحرین حضرت مفتی عبد الرحمٰن رشیدی کی قیادت و سرپرستی میں خانقاہ طیبہ معینیہ درگاه شریف ، منڈواڈیہ  بنارس منعقدہ سیمیناروں میں یا د کیا گیا مگرافسوس ہم ایک بار بھی شرکت کی سعادت حاصل نہیں کر سکے۔ محب گرامی وقار حضرت مونا ابرا رضا مصباحی دام ظلہ العالی معروف قلم کار ، متعدد کتابوں کے مصنف اور ”بوستان آسی“ تین جلدوں وغیرہ کے مرتب ہیں، آپ عربی و فارسی عبارتوں کے اردو ترجمہ نگار بھی خوب ہیں۔ خانقاہ رشیدیہ کے مشائخ اور سجادگان سے گہری عقیدت رکھتے ہیں۔ مجمع البحرین حضرت مفتی عبید الرحمان رشیدی علیہ الرحمہ کے دامن سے وابستہ  ہیں، انہی کے فیضان وکرم سے شاہ عبدا العلم آسی فاؤنڈیش دہلی میں بحیثیت رکن مقیم ہیں۔ آپ خادم مبارک حسین مصباحی غفرلہ سے حد درجہ محبت فرماتے ہیں۔ خادم متعدد بار شاہ عبدالعلیم آسی فاؤنڈیشن دہلی میں حاضر ہو چکا ہے  پیش نظر تحریر بھی آپ کے حکم پر لکھ رہا ہوں ۔  حضرت مولانا ابرار رضا مصباحی نے متعدد بار بوستانِ آسی کے لیے مضمون لکھنے کے تقاضے کیے مگر افسوس مواد اور موضوع منتخب کرنے کے باوجو لکھ نہیں سکا۔ ہاں آپ کی کتاب ”بندگی شیخ مصطفےٰ عثمانی“پر تبصرہ لکھ کر ماہ نامہ اشرفیہ مبارک پور میں شائع کیا۔ بقول حضرت مولانا ابرار رضا مصباحی، حضرت مجمع البحرین نے پڑھ کر بے پناہ مسرت کا اظہار فرمایا اور بہت دعاؤں سے نوازا۔

مجمع البحرین حضرت مفتی عبید الرحمٰن رشیدی علیہ الرحمہ ذمہ دار اور مستند مفتی تھے ،آپ کی تحریروں میں علمی رنگ نمایاں رہتا ہے۔لہجہ سنجیدہ اور پر وقار ہوتا ہے ، آپ کی تحریروں میں جامعیت اور بلاغت ہوتی ہے، آپ نے کم ہی لکھا ہے مگر جو لکھا ہے اپنے موضوع کا بڑی حد تک حق ادا کر دیا ہے۔ آپ کی نگارشات میں تصوف کے رموز و اسرار کا رنگ گہرا ہوتا ہے  آپ ایک خود دار عالم ربانی تھے، چاپلوسی سے کوسوں دور رہتے تھے ، تواضع و انکساری فطرت ثانیہ تھی ،غرور و تکبر کا شائبہ بھی نہیں تھا۔ اور آپ کے اہل و عیال  پر خانقاہ رشیدیہ کا صوفیانہ رنگ غالب رہتا ہے۔

آپ کی ولادت ماہ رجب المرجب بروز سہ شنبہ 1362ھ / 1944ء میں ضلع کٹیہار کے موضع بینی باڑی میں ہوئی، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ظاہری اور باطنی علوم و معارف کا سنگم بنایا تھا، آپ نے یادگار علمی اور روحانی خدمات انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے فیوض و برکات سے ہم سب کو مسلسل شادکام فرمائے۔ آمین

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved