مفتي محمد ساجد رضا مصباحی
ہندوستان کے طول وعرض میں پھیلے ہو ئے مدارس اسلامیہ مسلمانوں کی دینی ومذہبی تشخص کی بقا کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ، جب تک مدارس اسلامیہ کا وجود رہے گا یہاں کے مسلمانوں کے اندر اسلامی روح باقی رہے گی اور ان کا ایمانی جذبہ بھی سلامت رہے گا ،کیوں کہ مسلمانوں کو دینی وروحانی غذامدارس اسلامیہ ہی فراہم کرتے ہیں ۔ مدارس اسلامیہ کا وجود اسلام دشمنوں کے لیے ہمیشہ تکلیف کا باعث رہا ہے ، ہمارے اپنے سماج کے افرادمدارس کی اہمیت کو سمجھیں یا نہ سمجھیں لیکن مخالفین کو مدارس کی اہمیت اور مسلم سماج کے استحکام میں اس کے عملی کردار کا خوب علم ہے ، یہی وجہ ہے کہ ماضی میں اسلام دشمن عناصر نے جب اور جس سر زمین پر بھی مسلمانوں کو بے دست و پا کر نے اور ان کے وجود کو ختم کر نے کا منصوبہ بنایا ہے تو ان کا سب سے پہلا حملہ مدارس اسلامیہ اور دینی درس گاہوں پر ہوا ۔ آج پھر ایک بار ہندوستان کے مدارس اسلامیہ زعفرانی طاقتوں کے نشانے پر ہیں ، ان کا منشا یہ ہے مدراس اسلامیہ کےذریعہ دین ومذہب کے حوالے سے جو توانائی امت مسلمہ کو ملتی ہے اس کا سلسلہ بند ہو جائے ، کیوں کہ جب ان کے اندر روحانی وایمانی طاقت ختم ہوجائے گی اور ان کی مذہبی شناخت کمزور ہو جائے گی تو ان کو نیست و نابود کر نا آسان ہو جائے گا۔باطل طاقتوں کے عزائم بلند ہیں ، وہ قوم مسلم کو ہر محاذ پر بے دست وپا دیکھنا چاہتی ہیں ، ان کی معیشت کو تباہ وبر باد کر نا چاہتی ہیں ، ان کی عزت وآبرو پرمسلسل حملہ کر کے اور سربازار ان انھیں رسوا کر کے ان کو دوسرے در جے کا شہری بنانا چاہتی ہیں ۔
اس سلسلے میں انھوں نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ سب سے پہلے مسلمانوں کے علمی وروحانی مراکز مدارس اسلامیہ کو بے اثر کر نے کا منصوبہ بنایا ہے ، یہاں کی تعلیمی روح ، یہاں کے نظام ونصاب کو یکسر بدل کر انھیں اسکولوں کی شکل میں چلانے پر مجبور کر نا ان کا اولین مقصد ہے ، اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اقدامات شروع ہو گئے ہیں ، وقف ترمیمی ایکٹ اور اس سے قبل آسام کے مدارس کے تعلق سے پیدا شدہ صورت حال سے اس کا ندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ، اسی طریقۂ کار کو اتر پردیش اور اتر اکھنڈ میں بھی اسے آزمانے کی کوشش ہو رہی ہے ، ملک دوسرے صو بوں کے مدارس کے ساتھ بھی مستقبل میں اسی طرح کا رویہ یقینی ہے ۔
|
اس وقت ملک کی متعدد ریاستوں میں مدارس کے سروے کے نام پر اہل مدارس کو ہراساں کیا جارہا ہے ، اس کا مقصد مسلمانوں کو رسوا کرنا اور برادران وطن کی نظر میں ان کو مشکوک بنانا ہے، اگر حکومت جاننا چاہتی ہے کہ تعلیمی ادارے حکومت کے اصول وضوابط پر عمل پیرا ہیں یا نہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ، لیکن صرف مدارس کے حالات اور اس کے انفراسٹرکچر ہی کی جانچ کیوں ضروری ہے، اس طرح کی جانچ تمام تعلیمی اداروں میں ہونی چاہیے، چاہے وہ اکثریتی فرقہ کے تعلیمی مراکز ہوں یا اقلیتوں کے، اور اقلیتوں میں مسلمانوں کے ہوں یا سکھوں کے، عیسائیوں کے ہوں یا بدھشٹوں کے؛ بلکہ پرائیویٹ اداروں سے زیادہ سرکاری اداروں
کا سروے کرنے اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ حکومت کے قواعد وضوابط کے مطابق اسکولوں کا جو انفراسٹرکچر ہونا چاہیے وہ مہیا ہے یا نہیں؟۔ صرف مسلمانوں کے تعلیمی اداروں یا دینی مدرسوں کا سروے مسلمانوں کے خلاف شکوک وشبہات کا موقع پیدا کرتا ہے، اور اس وقت نفرت کی جو آندھی آئی ہوئی ہے، یا لائی جا رہی ہے، اس میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مدارس مسلمانوں کا اثاثہ ہیں، اس کی زمین، اس کی عمارت، اس کا فرنیچر، اس کی لائبریری وغیرہ قوم کے تعاون سے مہیا کیے جاتے ہیں ، تاکہ تعلیمی اعتبار سے پس ماندہ قوم کے بچے ان مدارس میں تعلیم حاصل کر سکیں ۔نئی نسل تعلیم سے آراستہ ہوگی توگھر ، خاندان اور ملک سب کا بھلا ہو گا ،سماج ومعاشرے کی ترقی ہو گی ، برائیوں کا خاتمہ ہو گا ۔ لیکن پھر بھی مسلم تعلیمی اداروں کو مسلسل کمزور کرنا اور وہاں کی تعلیم کو متاثر کر نا ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہی کہا جا سکتا ہے۔
مدارس اسلامیہ کے حوالے سے ریاستی حکومتوں کا منشا جان لینے کے بعد اہل مدارس کو بھی اپنے نظام میں حسب ضرورت تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ حکومتوں کے بڑے اختیارات ہو تے ہیں اگر حکومت ان اختیارات کا استعمال کر کے مدارس کے نظام میں شفافیت لانے کے بہانے گاہے گاہے جانچ کے نام پر دستاویزات طلب کرے تو اہل مدارس انھیں یکسر منع بھی نہیں کر سکتے ، بلکہ ایسے معاملات میں حکومتی عملے کا تعاون اہل مدارس کی ذمے داری ہوگی ۔
مدارس اسلامیہ داخلی وخارجی دونوں طرح کے مسائل سے جوجھ ر ہے ہیں ، غیروں کی یلغار کے ساتھ بے شمار داخلی مسائل ومشکلات مدارس کو کھوکھلا کرر ہے ہیں اوران کا نظام دن بہ دن خستہ حالی کا شکار ہو تا جارہاہے ۔
مدارس میں تعلیم حاصل کر نے والے طلبہ کی تعداد دن بہ دن گھٹتی جارہی ہے، چند مدارس کو چھوڑ کر باقی تمام مدارس طلبہ کی تعداد کے حوالے سےتشویش ناک صورت حال سے دو چار ہیں، ظاہر ہے کہ جب مدارس میں پڑھنے والے طلبہ ہی نہیں ہوں گے تو ان مدارس کا وجود بے معنی ہو کر رہ جائے گا ۔ لہذا ہمیں اس کے اسباب ووجوہات پر غور کر کے اس کا بھی حل ڈھونڈنا ضروری ہے۔
در اصل مدارس کی تعلیم کے تعلق سے ماضی قریب میں مسلسل منفی پروپیگنڈہ ہو ا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس تعلیم سے کوئی دنیاوی فائدہ نہیں ہے ، یہ تعلیم معاش کے لیے کسی طرح مفید نہیں ہے ، مدرسے میں پڑھنے کے بعد دوچار ہزار کی ملازمت کر نی پڑے گی اور دوسروں کے رحم وکرم پرزندگی گزارنا پڑے گا وغیرہ ۔ یہ تمام باتیں بالکل بے بنیاد بھی نہیں ہیں ، ائمہ ومدرسین کے کی تنخواہوں کی جو کیفیت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، اہل مدارس اپنے ملازمین کے ساتھ جو غیر انسانی رویہ روا رکھتے ہیں اس سے بھی ہر ذی ہوش واقف ہے۔ مدارس سے تعلیم حاصل کر کے فارغ ہو نے والے طالبان علوم نبویہ کی ذہن سازی اور تر بیت ایسی ہو تی ہے کہ وہ فراغت کے بعد کسی مدرسے میں تدریس یا پھر امامت ہی کو اپنے معاش کا واحد ذریعہ سمجھتا ہے یا پھر اپنے آپ کو اسی لائق پاتا ہے ۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ مدارس کی بقا کے لیے اس کے نظام اور نصاب میں تھوڑی ایسی ترمیم ہو جس سے دینی تعلیم کی روح بھی باقی رہے اور حصول معاش کے لیے وہ صرف مدارس یا مساجد میں ہی ملازمت کر نے پر مجبور نہ ہوں بلکہ وہ وہ کسی دوسرے میدان میں بھی جاکر اپنے معاش کا انتظام کر سکیں ۔
اتر پر دیش کے مدارس میں کامل وفاضل کی ڈگریوں کو سپریم کورٹ کے ذریعہ کالعدم قرار دیے جانے کے بعد کئی طرح کے مسائل کھڑے ہو گئے ہیں ، اب عالم مساوی انٹر کے بعد مدارس کے بعد بی اے اور ایم اے کر نے کے لیے کوئی نظام نہیں ہے ، ایسے میں طلبہ کی تعداد مزید کم ہو نے کا اندیشہ قوی ہو گیا ہے ، ان حالات میں ذمے داران مدارس کو سر جوڑ کر بیٹھنے اور متبادل ڈھونڈنے کی سخت ضرورت ہے۔
مدارس اسلامیہ میں ہاسٹل کا نظام بہت فرسودہ ہے ، جدید آلات و سائل سے استفادہ نہ کے برابر ہے ،خورد و نوش کا نظام جس انداز اورمعیار سے ہونا چاہیے نہیں ہوتا ،گرمی اور سردی سے بچاؤ کے لیے بھی مناسب انتظام نہیں ہوتا ،جس کی وجہ سے مال دار گھرانے کے طلبہ مدارسِ عربیہ کا رخ کم کرتے ہیں۔
لاک ڈاؤن میں اکثر مدارس کے اساتذہ کے ساتھ جو سلوک ہوا اور معاشی اعتبار سے جو ان کی حالت رہی اور جس طرح ایک بڑی تعداد کو در بدر بھٹکنا پڑا اس سے بھی طلبہ میں منفی اثرات كے شكار هوئے۔
اکثر صوبوں کےمدارس کی سندیں اور ان کی ڈگریوں کی حکومت کی نظر میں کوئی اہمیت اور وقعت نہیں ہے اور نہ اس کی اہمیت کو منوانے کی طرف کبھی توجہ دی گئی ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک بڑی تعداد مدارس سے عالم اور فاضل کرنے کے بعد بھی حکومت کی نظر میں ناخواندہ ہے۔ اگروہ پاسپورٹ بنواتے ہیں تو ان اسناد اور ڈگریوں کے بعد بھی ان کا شمار مزدوروں اور ناخواندہ لوگوں میں ہوتا ہے ۔ ان داخلی وخارجی مسائل ومشکلات پر کچھ حد تک قابو پانے کے لیے درج ذیل امور پر ہمیں خاص توجہ دینے ہو گی ۔
◘جو مدارس کسی بورڈ سے مجاز نہیں ہیں ان کو کسی بورڈ کے دائرےمیں لانا ازحدلازمی ہے ، جن صوبوں میں یہ سہولت دست یاب ہے وہاں کے ذمے داران کوشش کر کے یہ کام ضرور کر لیں ، اس لیے کہ مستقبل میں اس حوالے سے بڑی دشواریوں کے امکانات ہیں۔
◘جدید تعمیرات میں تعمیراتی ضابطوں کی پاس داری کا لحاظ رکھیں ، تنگ وتاریک کمروں کی تعمیر نہ کریں ، خاص طور سے جن مدارس میں ہاسٹل کا نظام ہو انھیں تعمیرات میں خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ، ابھی تو صرف حکومتی عملے دستاویزت طلب کررہےہیں ، مستقبل میں مدارس کے ہاسٹل کے نظام پر بھی سوالات کھڑے ہو سکتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے بہت سارے مدارس ایسے ہیں جہاں طلبہ کی معقول رہائش اور ایک اقامتی ہاسٹل میں جو سہولیات ہو نی چاہئیں ان کا فقدان ہو تا ہے ، ذمے داران مدارس ان امور پر بالکل توجہ نہیں دیتے ، کمرے تنگ وتاریک، بر آمدے چھوٹے ، چھت بغیر ریلنگ کے ، صفائی کا کوئی نظم ونسق نہیں ، بیت الخلا کی حالت نا گفتہ بہ ، ان کے نہانے دھونے اور کپڑے سکھانے کا کوکوئی مناسب انتظام نہیں ، چھوٹے چھوٹے کمروں میں ایک درجن سے زائد طلبہ کا قیام ، یہ وہ مسائل ہیں جو اکثر مدارس میں قدر مشترک ہیں ۔ ظاہر ہے کسی ہاسٹل کے جو حکومتی ضوابط ہیں ، ہمارے مدارس کے یہ ہاسٹل ان ضابطوں کو پورا نہیں کر سکیں گے ۔ مستقبل میں کبھی بھی مدارس کے یہ غیر معیاری ہاسٹل نشانے پر آسکتے ہیں ۔ اس لیے قبل از وقت ایسے ہاسٹلوں کے معیار کو درست کر نے پر توجہ کی سخت ضرورت ہے ۔
◘قانونی جہت سے کرنے کا ایک کام یہ بھی ہے کہ ہر ادارہ اپنے لیےایک قانونی مشیر مقرر کرے، جو ٹیکس کے شعبہ سے تعلق رکھنے والا وکیل ہو تو زیادہ بہتر ہے، وہ مدرسہ کی املاک اور آمدوصرف پر گہرائی کے ساتھ نظر رکھے اور بوقت ضرورت سرکاری محکموں میں حساب پیش کرسکے،اس سے مدارس کا تحفظ ہوگا، جو ذمہ داران مدارس حساب وکتاب کے فن سے واقف نہیں ہیں، نہ ٹرسٹ یا سوسائٹی وغیرہ کے اصولوں سے آگاہ ہیں، وہ نہ عوام کو مطمئن کر پاتے ہیں، نہ سرکاری محکموں کو۔ اس لیے جہاں دیگر عہدہ دار ہوتے ہیں، ایک عہدہ ’’ قانونی مشیر ‘‘ کا ہونا چاہیے۔
◘شر پسند عناصر مدارس کو بدنام کر نے کے لیے کسی بھی حد تك جا سکتے ہیں ، ایسے میں تحفظ کے لیے ہر طرح اقدامات کی سخت ضرورت ہے ،لہذا ضروری ہے مدرسہ کیمپس میں مضبوط چہار دیواری ہو اور کم از کم کہ مدرسہ کیمپس کے اہم مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے لازمی طور پر لگائے جائیں تاکہ شرارت پسند افراد کوئی بھی حرکت کر نے سے باز رہیں اور کوئی حادثہ رو نما ہو جائے تو بطور شہادت سی سی ٹی فوٹیج پولیس محکمہ کو پیش کیا جا سکے ۔
◘دینی اور قانونی دونوں اعتبار سے مدارس کے آمدات واخراجات کے ریکارڈ میں شفافیت ہو نی چاہیے ، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی ہدایت کے مطابق حساب لکھنا ضروری ہے ،سال بہ سال اس کا آڈیٹ بھی کرا لینا چاہیے تاکہ حکومتی ضابطے کے مطابق اس میں شفافیت رہے اور کسی قانونی داؤں پیچ کا شکار نہ ہوں ۔
◘اقامتی ہاسٹل والے مدارس کے لیے ایک نگراں براے ہاسٹل کا انتظام ضروری جو غیر تعلیمی اوقات میں طلبہ کی سر گر میوں پر نظر رکھ سکے اور ان کے تحفظ کا بھی پورا پورا خیال رکھے، بعض مدارس میں ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ آپسی تنازعات کی وجہ سے ایسی حرکتیں کر بیٹھتے ہیں کہ معاملہ خون خرابہ اور قتل تک پہنچ جاتا ہے ، گزشتہ ایک سال کے اندرملک کے متعدد مدارس میں اس طرح کے حادثات رو نما ہو ئے ، جن کو میڈیا نے خوب اچھا لا اور لوگوں کو مدارس سے متنفر کرنے کی مکمل کوشش کی ، یاد رکھیں اس طرح کے واقعات سے جہاں غیروں کو مدارس پر کیچڑ اچھالنے کا موقع مل جاتا ہے ، وہیں اپنے بھی مدارس سے بد ظن ہو تے ہیں اور اپنے بچوں کو مدارس کے اقامتی ہاسٹل میں رکھنے سے خوف کھاتے ہیں ۔ عام طور پر ہمارے مدارس میں وارڈن کا کام بھی اساتذہ سے ہی لیا جاتا ہے ، بے چارہ مدرس دن بھر آٹھ گھنٹیاں پڑھانے کے بعد یوں ہی ذہنی اور جسمانی طور پر تھکا ماندہ ہو تا ہے ، پھر وہ کس طرح بارہ ایک بجے شب تک ہاسٹل کی نگرانی کر سکے گا ۔
◘ قرب وجوار اور دُور دراز کے طلبہ مدارس میں تعلیم حاصل کر نے کے لیے آتے ہیں ، ان کا داخلہ ان کی رہائش ، اہل خانہ اور فیملی بیک گراؤنڈ کی تفتیش کے بغیر یوں ہی کر لیا جاتا ہے ، بعض مدارس میں ان کے دستاویزات بھی صحیح طریقے سے جمع نہیں کرائے جاتے ، کیریکٹر سر ٹیفیکٹ لینے اور خارجہ سر ٹیفیکٹ دینے کا بھی ہماری یہاں کوئی خاص نظم نہیں ہوتا ، داخلہ رجسٹر حکومتی معیار کے مطابق نہیں ہو تا ۔ ہاسٹل میں قیا م کر نے والے طلبہ کا الگ سے ہاسٹل رجسٹر بھی نہیں ہوتا ، گیٹ پر کوئی دربان نہیں ہوتا جو ان کے مدرسہ کیمپس سے باہر جانے اور واپس آنے کے اوقات رجسٹر پر درج کر سکے ۔ ایسے میں جب کبھی کوئی حادثہ ہو تا ہے اور پولیس تحقیقات کر نا چاہتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ مدارس کے یہ ہاسٹل یوں ہی بغیر کسی نظم وضبط کے چلتے ہیں ان کے پاس بتانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا ۔ وقت رہتے ان امور پر توجہ دے کر نظام میں شفافیت لانے کی سخت ضرورت ہے ۔
حالات کا جبری تقاضا ہے کہ اہل مدارس پوری مضبو طی اور استحکام کے ساتھ مدارس کے نظام کو باقی رکھیں ، مدراس اسلامیہ سے مسلم سماج کی کم ہو تی دل چسپی کا ازالہ کریں ، اسلامی بچے بچیوں کو عمدہ تعلیم وتر بیت کے زیور سے آراستہ کریں ، مدارس کو تجارتی نقطۂ نظر سے نہ دیکھیں بلکہ ان کے قیام کے اعلیٰ مقاصد پر ہمیشہ نظر رکھیں اور ماضی میں مدارس اسلامیہ کی شان دار تاریخ کو سامنے رکھ کر عظمت رفتہ کی بحالی کی کوششیں تیز کردیں ۔
یقین محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org