از: مفتی محمد نظام الدین رضوی
قربانی واجب ہونے کے باوجود اپنے بجاے مرحوم والد کے نام سے قربانی کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ سے متعلق کہ ایک لڑکا ہے جس پر قربانی واجب ہونے کے سارے شرائط پائے جاتے ہیں لیکن وہ قربانی اپنے فوت شدہ والد کے نام سے کرتا ہے اپنے نام کی نہیں کرتا۔اس شخص کا ایسا کرنا کہاں تک درست ہے؟
کیا اس کے ذمے کا وجوب اس طرح سے قربانی کرنے سے ساقط ہو جائے گا ؟ یا مذکورہ شخص گناہ گار ہوگا۔بینوا و توجروا
الجواب :ہاں مختار یہ ہے کہ قربانی اس لڑکے کی طرف سے ہوگی اور وہ قربانی کے وجوب سے سبک دوش ہو جائے گا ۔ والد کو صرف قربانی کا ثواب ملے گا ۔فتاوی قاضی خان میں ہے:
ولو ضحى عن ميت من مال نفسه بغير أمر الميت جاز، وله أن يتناول منه ولا يلزمه أن يتصدق به، لأنها لم تصر ملكا للميت، بل الذبح حصل على ملكه، ولهذا لو كان على الذابح أضحية سقطت عنه -وان ضحی عن میت من مال المیت بامر المیت، یلزمه التصدق بلحمه ولا یتناول منه ،لان الاضحية تقع عن المیت ... اذا ضحی رجل عن ابويه بغیر امرهما وتصدق به، جاز لان اللحم ملكه وانما للمیت ثواب الذبح والصدقة ۔
فتاوی شامی اخیر کتاب الاضحیۃ میں ہے :
وإن تبرع بہا عنہ لہ الأكل، لأنہ يقع علی ملك الذابح والثواب للميت، ولہذا لو كان علی الذابح واحدۃ سقطت عنہ أضحيۃ كما فی الأجناس، قال الشرنبلالی: لكن فی سقوط الأضحيۃ عنہ تأمل، أقول صرح فی فتح القدير فی الحج عن الغير بلا أمر أنہ يقع عن الفاعل فيسقط بہ الفرض عنہ وللآخر الثواب فراجعہ. (رد المحتار، كتاب الأضحيۃ)
فتاوی تاتار خانیہ میں ہے :سئل عمن يضحی عن الميت، قال: يصنع بہ كما يصنع بأضحيتہ يريد بہ أنہ يتناول من لحمہ كما يتناول من لحم أضحيتہ، فقيل لہ أتصير عن الميت؟ قال: الأجر للميت، والملك للمضحی، وبہ قال سلمۃ وابن مقاتل وأبو مطيع، وقال عصام، يتصدق بالكل، وفى الكبری، المختار أنہ لا يلزمہ. (الفتاوى التاتارخانيۃ، كتاب الأضحيۃ، الفصل السابع فى التضحيۃ عن الغير وفى التضحيۃ بشاۃ الغير عن نفسہ-)
بزازیہ میں ہے : وأجاز نصير بن يحيی ومحمد بن سلمی ومحمد بن مقاتل فيمن يضحی عن الميت أنہ يصنع بہ مثل ما يصنع بأضحيۃ نفسہ من التصدق والأكل والأجر للميت والملك للذابح (بزازية علی ہامش الہنديۃ-6\295)
فتح المعین میں ہے : تبرع بالأضحيۃ عن ميت، جاز لہ الأكل منہا والہديۃ والصدقۃ، لأن الأجر للميت والملك للمضحی، وہو المختار، بخلاف ما لو كان بأمر الميت، حيث لا يأكل فی المختار. (فتح المعين، كتاب الأضحيۃ)
علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ کو اس بارے میں تامل ہے کہ یہ قربانی ذابح کی طرف سے ہوگی ۔یعنی اس کا واجب ادا ہوجائے گا ،تامل کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ قربانی ہورہی ہے میت کی طرف سے یعنی میت کی نیت سے تو وہ ذابح کی طرف سے کیوں ادا ہوگی ۔مگر یہ بے مایہ یہ سمجھتا ہے کہ کسی کی طرف سے قربانی صحیح ہونے کے لیے دو باتیں ضروری ہیں ۔ایک یہ کہ وہ جانور کا مالک ہو دوسرے یہ کہ اس کی طرف سے قربانی کی نیت ہو اور یہاں یہ تو بہت ہی واضح ہے کہ میت جانور کا مالک نہیں، نہ پہلے سے مالک تھا نہ اب ہے ۔اور اس کی طرف سے قربانی کی نیت بھی نہیں کیوں کہ مرحوم ہونے کے بعد وہ نیت کر نہیں سکتا اور زندگی میں اس نے قربانی کے لیے وصیت نہیں کی ۔جب میت کی طرف سے نہ قربانی کی نیت پائی گئی نہ ہی وہ جانور کا مالک ہے تو یہ واضح ہوگیا کہ قربانی اس کی طرف سے نہیں ہوگی البتہ وارث نے قربانی میت کی طرف سے کی ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ میت کو قربانی کا ثواب پہنچے۔
انما للمیت ثواب الذبح والصدقۃ (خانیہ )
میت کو صرف قربانی اور گوشت وغیرہ صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا ۔اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ قربانی ذابح کی طرف سے ہو کیوں کہ وہ جانور کا مالک ہے ساتھ ہی اس نے قربانی کی نیت سے ذبح کیا ہے ۔اور "تقبل عن فلاں" کا مطلب "تقبل ثواب الأضحیۃ عن فلاں" ہے ۔
اس کے برخلاف اگر میت نے کوئی جانور چھوڑا جس کا وہ مالک تھا اور اس نے اپنے وارث کو اپنی طرف سے قربانی کا حکم بھی دیا تھا تو یہ قربانی میت کی طرف سے ہوگی ۔کیوں کہ اس نے قربانی کے لیے جانور خاص کر دیا تھا یا مال چھوڑا تھا جس سے جانور خریدا جا سکتا تھا تو قربانی کی صحت کی حد تک اس کی ملک حکما باقی رہے گی۔ ساتھ ہی اس کی طرف سے وصیت کے ضمن میں قربانی کی نیت بھی پائی گئی۔اس لیے یہاں قربانی میت کی طرف سے ہوگی نہ کہ وارث کی طرف سے فتاوی قاضی خان کا یہ جزئیہ بھی اسی کی تائید کرتا ہے :رجل اشتری اضحیۃ ثم مات، ان کان المیت اوجبھا علی نفسہ بلسانہ یجبرالورثۃ علی ان یضحوا عنہ .
ان سب کے باوجود علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ کا تامل قابل لحاظ ہے ۔اس بے مایہ کے ذہن میں جو توجیہ آئی اس کے پیش نظر میں نے یہی فتوی دینا پسند کیا۔والعلم بالحق عند اللہ وہو تعالٰ أعلم
الیکٹرک چھری سے جانور ذبح کرنے کا حکم
سوال:الیکٹریکل چھری کے ذریعے ذبح کرنا کیسا ہے؟ اس چھری میں بیٹری لگی ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس میں زبردست پاور ہوتی ہے، اس کے ذریعے سے جانور کو تیزی کے ساتھ ذبح کیا جاسکتا ہے اور گوشت وغیرہ بھی کاٹا جاتا ہے، اور بہت آسانی کے ساتھ یہ کام ہوجاتا ہے، یہ چھری اس طرح نہیں کہ خودبخود کام کرتی ہو بلکہ انسان کو خود اسے پکڑنا پڑتا ہے اور زور بھی لگانا پڑتا ہے بس اس سے زیادہ قوت نہیں لگانی پڑتی ۔
الجواب:الیکٹرانک چھری میں جب بیٹری لگی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس میں زبردست پاور آجاتا ہے تو وہ چھری خود ایک ذابح کے قائم مقام ہے۔ جو غیر عاقل ،غیر مسلم اور غیر کتابی ہے۔ اور ایک ذابح انسان ہے ،جو عاقل و مسلم ہے۔ اور یہ ذبح کے وقت بسم اللہ، اللہ اکبر پڑھے گا ۔جب کہ دوسرا ذابح بسم اللہ پڑھنے کااہل نہیں ساتھ ہی وہ کئی ضروری شرطوں سے بھی عاری ہے ۔ اس لیے یہ ذبیحہ جائز نہیں۔جن چیزوں میں اصل حرمت ہوتی ہے ان میں شبہہ بھی معتبر ہوتا ہے۔ھذا ما عندی واللہ تعالیٰ أعلم
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org