تفہیم قرآن
کیوں اور کیسے؟
محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
اللہ وحدہ لا شریک کا ارشاد ہے: ﴿ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ١ؕ﴾ [سورۂ بقرة: 187]
یعنی تمھاری عورتیں تمھارا لباس ہیں، اور تم ان کا لباس ہو۔
یہ آیت مبارکہ سورۂ بقرہ کی ایک طویل آیت کا جز ہے، جس میں قرآن کریم نے میاں بیوی کے پاکیزہ رشتے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے مرد کو عورت کا اور عورت کو مرد کا لباس قرار دیا، اس تشبیہ کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں لباس کی حقیقت، اس کے طریقۂ استعمال اور اس کے اغراض و مقاصد پر غور کرنا ہوگا، تبھی اس تشبیہ کی معنویت سمجھ میں آئے گی، اور رشتۂ ازدواج کی حقیقت واضح ہوگی، تو آئیے ہم یہاں اس تشبیہ کے کچھ اسرار ونکات جاننے کی کوشش کرتے ہیں، سب سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ لباس کے حوالے سے چار چیزیں بڑی اہم اور توجہ طلب ہوتی ہیں۔
1- لباس کی ضرورت واہمیت -2- اچھے لباس کا انتخاب
3- لباس کا صحیح طریقۂ استعمال -4- لباس کے اغراض ومقاصد
ہم یہاں انھی چار نکات کی روشنی میں تشبیہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
1- لباس کی ضرورت واہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ لباس انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، لباس کے بغیر انسان ادھورا اور نا مکمل ہے، قرآن نے میاں بیوی کے رشتے کو لباس قرار دیا، تاکہ یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجائے کہ جس طرح لباس انسان کی بنیادی ضرورت ہے، بالکل اسی طرح ازدواجی تعلق بھی بنیادی ضرورت ہے، جس طرح لباس کے بغیر انسان ادھورا اور نا مکمل ہے بالکل اسی طرح نکاح کے بغیر زندگی ادھوری اور نا تمام ہے، اسی لیے قرآن کریم نے نکاح کو مشروع کیا، اور فرمایا:
﴿ فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ﴾ [سورۂ نساء: 3]
یعنی اپنے پسند کی دو دو، تین تین، اور چار چار عورتوں سے نکاح کرو، اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ تم انصاف نہیں کرسکوگے تو ایک ہی پر اکتفا کرو، یا اپنی باندیوں کے ساتھ رہو۔
اس آیت میں نکاح کی تعلیم دی گئی، بشرط انصاف چار کی اجازت دی گئی، بصورت دیگر ایک ہی پر اکتفا کرنے کا حکم دیا گیا، کیوں کہ نکاح انسان کی بنیادی ضرورت ہے، شاید اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کی خصوصی ترغیب دلائی، اور فرمایا:
يا مَعْشَرَ الشَّبابِ من استطاعَ منكم البَاءَةَ فليتزوَّجْ، فإنَّه أَغَضُّ للبَصَرِ، وأحصَنُ للفَرْجِ، ومَن لم يستطِعْ فعليه بالصَّومِ؛ فإنَّه له وِجَاءٌ .(صحیح بخاری)
اے جوانو! جو تم میں نکاح کی استطاعت رکھے وہ نکاح کر لے کیوں کہ اس سے نگاہیں محفوظ ہوں گی، اور جذبات قابو میں رہیں گے، اور جو نکاح کی استطاعت نہیں رکھتا وہ روزہ رکھے، کیوں کہ روزہ اس کے لیے ڈھال ہوگا۔
2- دنیا میں بہت سے لباس ہوتے ہیں، لیکن ہر لباس قابل استعمال نہیں ہوتا، اسی لیے لباس کے انتخاب میں بڑے احتیاط کی ضرورت ہے، قرآن نے رشتۂ ازدواج کو لباس سے تعبیر کیا، تاکہ ہر شخص بھر پور غور وفکر کے بعد اپنے لیے رفیق حیات کا انتخاب کرے، قرآن کریم نے رشتوں کے باب میں دو چیزوں کی خصوصی تعلیم دی، ایک یہ کہ مسلمان، مسلمان سے رشتہ کرے، دوسرے یہ کہ اچھے، اچھوں سے رشتہ قائم کرے، مسلمانوں سے رشتے کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:
﴿ وَ لَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ ؕ وَ لَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْكُمْ١ۚ وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا١ؕ وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكُمْ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ١ۖۚ وَ اللّٰهُ يَدْعُوْۤا اِلَى الْجَنَّةِ وَ الْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِهٖ١ۚ وَ يُبَيِّنُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ﴾ [سورۂ بقرہ: 221]
یعنی مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں، یقینا ًمومن باندی، مشرکہ سے زیادہ بہتر ہے، اگرچہ وہ تمھیں پسند آجائے، اور تم اپنی بچیوں کا نکاح مشرکوں سے نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں، اور یقیناًمومن غلام، مشرک سے زیادہ بہتر ہے، اگرچہ وہ تمھیں پسند آجائے، کیوں کہ وہ تمھیں جہنم کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ تمھیں جنت اور مغفرت کی دعوت دیتا ہے، اور اللہ اسی طرح تم سے اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
قرآن نے اچھے رشتے کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:
﴿اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَ الْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِۚ-وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ- اُولٰٓىٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ -لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ﴾ [سورۂ نور: 26]
بری عورتیں برے مردوں کے لیے، اور برے مرد بری عورتوں کے لیے ہیں، اچھے مرد اچھی عورتوں کے لیے، اور اچھی عورتیں اچھے مردوں کے لیے ہیں، اچھے، بروں کی باتوں سے بری ہیں، ان کے لیے مغفرت اور اچھا رزق ہے۔
قرآن کریم نے ان دونوں آیات میں مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ ایمان اور صالح فطرت کی بنیاد پر رفیق حیات کا انتخاب کریں، کیوں کہ کوئی کافر کسی مسلمان عورت کا رفیق حیات نہیں ہوسکتا، کوئی بد چلن کسی نیک سیرت خاتون کا شریک حیات نہیں بن سکتا۔
3- لباس کے انتخاب میں لوگوں کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں، لوگ اپنے طور پر عمدہ، آرام دہ، اور خوب صورت لباس پسند کرتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ یہی سب سے بہترین لباس ہے، جب کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
﴿ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى -ذٰلِكَ خَیْرٌ﴾ [سورۂ اعراف: 26]
اور سب سے بہترین لباس پرہیز گاری کا لباس ہے۔
جو صورت حال لباس کے انتخاب کی ہوتی ہے کچھ وہی صورت نکاح کے باب میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے، لوگ صرف حسب ونسب، حسن وجمال اور مال ودولت دیکھ کر نکاح کرلیتے ہیں، اور یہ بھول جاتے ہیں کہ سب سے بہترین رشتہ وہ ہے جس کی بنیاد تقوی اور پرہیز گاری پر استوار ہوتی ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شریک حیات کے انتخاب میں تقوی اور دین داری کو معیار بنانے کا حکم دیا، ارشاد گرامی ہے:
تنكح المرأة لأربع: لمالها ولحسبها ولجمالها ولدينها، فاظفر بذات الدين تربت يداك .(صحیح بخاری)
یعنی عورت سے اس کے مال ودولت، اس کے حسب ونسب، اس کے حسن وجمال اور اس کے دین ومذہب کی بنیاد پر نکاح کیا جاتا ہے، تم دین دار عورت کو پاکر کامیابی حاصل کرو۔
یعنی جس طرح پرہیزگاری کا لباس سب سے بہترین لباس ہے، بالکل اسی طرح دین دار عورت سب سے بہترین ساتھی ہے، اسی لیے دین دار اور پابند شرع رفیق حیات کا انتخاب کیا جائے۔
4- قرآن کریم نے میاں بیوی کے رشتے کو نعل نہیں کہا، جسے پیروں تلے روندا جائے، تاج نہیں کہا، جسے سر پر سجا کر رکھا جائے، زیور نہیں کہا، جس سے مخصوص طبقے کو زینت بخشی جائے، بلکہ لباس کہا، جو ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے، اور جو ہمہ وقت دل سے قریب اور جسم سے متصل ہوتا ہے، قرآن نے میاں بیوی کے رشتے کو لباس کہہ کر اس امر کی تعلیم دی کہ زوجین میں ایسے ہی قرب واتصال ہونا چاہیے جس طرح لباس اور صاحب لباس میں ہوتا ہے، جس طرح لباس اور صاحب لباس کے درمیان کوئی شے حائل نہیں ہوتی، میاں بیوی کے درمیان بھی کسی تیسرے فرد کو حائل نہیں ہونا چاہیے، دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے راز داں اور خیر خواہ بن کر رہیں، یہی اس رشتے کا حسن ہے، اور یہی اس رشتے کے دوام واستحکام کا ذریعہ ہے۔
5- لباس کے تین اہم اور بنیادی مقاصد ہوتے ہیں، ایک
ستر پوشی، دوسرے زینت، تیسرے موسمی اثرات سے حفاظت، قرآن کریم نے میاں بیوی کے رشتے کو لباس سے تعبیر کیا، تاکہ زوجین رشتۂ ازدواج سے منسلک ہونے کے بعد ایک دوسرے کے اسرار ومحارم کی حفاظت کریں، اور آپس کے عیوب کی پردہ پوشی کریں، قرآن کریم نے ان عورتوں کی ستائش کی جو اپنے شوہروں کے اسرار ومحارم کی حفاظت کرتی ہیں، ارشاد باری ہے:
﴿ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ﴾ [سورۂ نساء: 34]
یعنی نیک عورتیں وہ ہیں جو اللہ کی اطاعت کرتی ہیں، شوہروں کا حکم مانتی ہیں، اور شوہروں کی غیر موجودگی میں اپنی عزت کی حفاظت کرتی ہیں، اور شوہروں کے املاک کی نگہبانی کرتی ہیں۔
اسی طرح حدیث پاک میں اس شخص کی مذمت آئی ہے جو اپنے محارم کی حفاظت نہیں کرتا، ارشاد نبوی ہے:
إن شر الناس عند الله منزلة يوم القيامة الرجل يُفضي إلى امرأته وتُفضي إليه، ثم ينشر سرها .(صحیح مسلم)
یعنی قیامت کے دن اللہ کے حضور سب سے برا وہ شخص ہوگا جو اپنی بیوی کے ساتھ خلوت میں رہے، پھر اپنی زوجہ کا راز فاش کردے ۔
ان دونوں آیات واحادیث کے بموجب مرد پر ضروری ہے کہ وہ عورت کے اسرار ومحارم کی حفاظت کرے، اور عورت پر ضروری ہے کہ وہ مرد کے اسرار ومحارم کی حفاظت کرے، یہی رشتہ زوجیت کا تقاضا ہے، یہی لباس کا مقصد ہے، اور اسی سے ازدواجی تعلقات کو دوام واستحکام حاصل ہوتا ہے۔
لباس کا دوسرا اہم مقصد زینت ہے، قرآن نے رشتۂ ازدواج کو لباس سے تعبیر کیا جس سے اس امر کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ زوجین میں ہر ایک کی زینت دوسرے سے وابستہ ہے، جب عورت نیک سیرت، پاک طینت، امانت دار، وفا شعار، شکر گزار اور حیا دار ہوتی ہے تو شوہر کے لیے باعث سعادت ہوتی ہے، اور جب مرد نیک سیرت، پاک طینت، خوش اخلاق، کشادہ ظرف، دور اندیش، اور صاحب بصیرت ہوتا ہے تو بیوی کے لیے باعث افتخار ہوتا ہے، اس طرح دونوں کی عزت وآبرو ایک دوسرے سے وابستہ ہوتی ہے، دونوں ایک دوسرے کے لیے سامان زینت اور باعث عزت ہوتے ہیں۔
لباس کا تیسرا اور آخری مقصد موسمی اثرات سے حفاظت ہے، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
﴿وَّ جَعَلَ لَكُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْكُمُ الْحَرَّ وَ سَرَابِیْلَ تَقِیْكُمْ بَاْسَكُمْؕ﴾ [سورۂ نحل: 81]
اللہ نے تمھارے لیے کچھ لباس بنایے، جو تمھیں گرمی سے بچاتے ہیں، اور کچھ لباس بنایے جو لڑائی کے وقت تمھاری حفاظت کرتے ہیں۔
اس آیت کے مطابق لباس کا بنیادی مقصد گرمی اور سردی وغیرہ موسمی اثرات سے حفاظت کے علاوہ دشمنوں کے حملوں سے بچانا بھی ہے، قرآن نے رشتۂ ازدواج کو لباس سے تعبیر کیا، جس سے یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین ہوجاتی ہے کہ زوجین میں ہر ایک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے شریک حیات کا سہارا بن کر زندگی گزارے، ایک بیمار ہو تو دوسرا تیمار داری کرے، ایک کمزور ہو تو دوسرا سہارا بنے، کوئی آزمائش در پیش ہو تو دونوں مل کر مقابلہ کریں، بلکہ ہمیشہ دفاعی قوت بن کر ایک دوسرے کے لیے کھڑے رہیں، ہمیشہ خارجی طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر ڈٹے رہیں، ڈھال بن کر دشمنوں کے حملوں سے حفاظت کریں اور بیرونی سازشوں کو نا کام بنائیں۔
قرآن کریم کی ہدایات کے مطابق میاں بیوی لباس بن کر ساتھ رہیں، ڈھال بن کر اپنے شریک حیات کا دفاع کرتے رہیں تو کوئی بھی بیرونی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی، لیکن جب میاں بیوی ہی آپس میں مخلص نہیں ہوں گے، ایک دوسرے کے ہم درد اور خیر خواہ نہیں ہوں گے تو گھر جنت کیوں کر ہوسکتا ہے؟
مذکورہ بالا توضیح کے مطابق میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے لباس ہیں، لہذا ان کو چاہیے کہ لباس کی طرح ایک دوسرے سے قریب رہیں، ایک دوسرے کی پردہ پوشی کریں، ایک دوسرے کے اسرار ومحارم کی حفاظت کریں، ایک دوسرے کا دفاع اور تعاون کریں، تاکہ ایک کامیاب، پرسکون اور با مقصد زندگی گزار سکیں، واللہ تعالى أعلم۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org