30 July, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia July 2025 Download:Click Here Views: 587 Downloads: 120

(1)-بِن پانی سب سُون

اداریــــــــہ

... 

پانی کا بحران —          ایک بڑے تغیر کی ابتدائی داستان

مہتاب پیامی

زمین نام کا  یہ نیلا سبز کرہ، ہر آن ماورائی رقص میں مصروف ہے، اس کا محور، جو تقریباً 23.5 ڈگری پر جھکا ہوا ہے، مسلسل اپنے دائرے میں مگن ہے۔  اس کا ہر چکر، دن رات کی قوس قزح کو ترتیب دیتا ہے، ہر جھکاؤ موسموں کی موسیقی کو جنم دیتا ہے، اس کا یہ رقص  نظامِ کائنات کے ساتھ ایک لطیف ہم آہنگی کے دائرے میں  مدتِ مدید سے قائم ہے ۔ یہ جھکاؤ موسموں کی ترتیب، دنوں کی مدت، اور زندگی کی گردش کا محافظ ہے۔ مگرسوچیے تو ذرا کہ  اگر اس کی سمت یا شدت بدل جائے تو کیا ہوگا؟ اگر یہ رقاصہ اپنی چال میں لغزش کھا لے تو کیا ہو گا؟

اب تک تو ایسا نہیں ہوا  مگر لگتا ہے  اب اس کی  ہم آہنگی کی لے بگڑنے والی ہے،  اب زمین کا محور کچھ اس طرح تھرتھرا رہا ہے، جیسے کوئی تھکی ہوئی رقاصہ، جس کی پازیب کی جھنکار مدھم پڑ گئی ہو۔ ایسا ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان  میں زمینی پانی کی ضرورت سے زیادہ پانی نکالنے کے سبب کرۂ ارض کا توازن بگڑ رہا ہے اور ممکنہ طور پر زمین اپنے محور سے منتقل ہو رہی ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر اس کا مناسب سد باب نہ کیا گیا تو  تو یہ دن اور رات کے چکر میں خلل ڈال سکتا ہے اور دنیا بھر میں خوراک اور پانی کی شدید قلت جیسے متعدد بحرانوں کا باعث بن سکتا ہے۔ ناسا کی ایک  تحقیق سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ 1993 اور 2010 کے درمیان، بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان اور چین میں تقریباً 54 کھرب لیٹر زمینی پانی کے بڑے پیمانے پر اخراج نے زمین کے محور کو 78 سینٹی میٹر مشرق کی طرف منتقل کیا۔زمین کے محور پر یہ  زخم اُس پانی نے لگایا ہے جس کو انسان نے زمین کے شکم سے بے دردی  کے ساتھ کھینچ کر باہر نکال لیا اور ضائع کر دیا۔

پانی، ایک عظیم نعمت ہے جو زمین کے سینے سے پھوٹتی ہے، آسمان سے برستی ہے، اور زندگی کے ہر رنگ کو سیراب کرتی ہے۔ یہ محض ایک مادّی عنصر نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا وہ آئینہ ہے جس میں رحمت، حکمت اور عظمت کے رنگ جھلکتے ہیں۔ یہ وہ گوہرِ نایاب  ہے جو زندگی کا سرچشمہ ہے، زمین کے سینے میں موتیوں کی مانند چمکتا ہے اور آسمان سے رحمت بن کر برستا ہے۔ یہ وہ نعمتِ خداوندی ہے جو ہر جاندار کے وجود کو سیراب کرتی ہے، مگر افسوس کہ آج اسی پانی کی قدر و قیمت کو انسان نے اپنی بے پروائی سے گہنا دیا ہے۔وہ پانی جو کبھی زندگی کا استعارہ تھا، آج موت کا پیغام بن چکا ہے۔ بھارت، جو کبھی دریاؤں، ندیوں اور جھیلوں کی نغمہ سرا دھرتی کہلاتا تھا، آج ایک تشنہ لب قافلہ  کی صورت نظر آرہاہے  جو اپنی پیاس بجھانے کے لیے اپنی ہی زمین سے خراج مانگ رہا ہے۔ زیرِ زمین پانی کے خزانے جس تیزی سے نکالے جا رہے ہیں، وہ زمین کے توازن کو دھیرے دھیرے ڈگمگانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اور یہ معمولی تبدیلی، جو ہر سال صرف 10 سینٹی میٹر کروٹ بدلتی ہے، اپنے اندر انسانی تاریخ اور زمینی جغرافیے  کا دھارا موڑ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

بھارت میں ہر سال 250 سے 260 مکعب کلومیٹر پانی، زمین کے سینے سے نچوڑا جا رہا ہے۔ یہ وہ مقدار ہے جو امریکہ اور چین کے مجموعی استعمال سے بھی زیادہ ہے۔گو کہ چین اور امریکہ بھی پانی کے ان خزینوں کے خریدار ہیں، مگر ان کی پیاس ہندوستان کی بےتابی کا سامنا نہیں کر سکتی۔ سعودی عرب اور ایران کی زمینیں بھی اس تشنگی کی دوڑ میں شامل ہیں، مگر ان کے طلب و رسد کی میزان اب بھی ہمارے قدموں کے نشان سے چھوٹی ہے۔ بھارت میں اس بے رحمانہ استحصال  کی بنیادی وجہ وہ زرعی نظام ہے، جسے ہم ترقی کا تاج پہنا کر فطرت کی لاش پر جشن مناتے رہے ہیں۔ چاول، گنا، اور گندم جیسی فصلیں — جنھیں زندگی کی علامت کہا جاتا تھا — اب زمین کا شکم چیر کر اپنا وجود برقرار رکھنے کی جد وجہد کر رہی ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ یہ صرف پانی  کےبحران کی کہانی نہیں — یہ وقت، زمین، اور کائنات کی گہرائیوں میں پنہاں ایک بڑے تغیر کی ابتدائی داستان ہے۔

پنجاب، ہریانہ، راجستھان، اترپردیش، اور تمل ناڈو — یہ وہ ریاستیں ہیں جہاں  کی زمین کبھی نہ ختم ہونے والی تشنگی اور تباہی کی علامت بن چکی ہے ، یہاں کا کسان، جو کبھی بارش کے ایک بوند پر سجدہ ریز ہوتا تھا، اب موٹر اور بورویل کی گرج میں فطرت کی سرگوشیاں  سننے سے قاصر ہو چکا ہے اور دہلی، بنگلور، چنئی  جیسے شہر  جو کبھی تمدن کے سنگھاسن پر براجمان تھے اب پانی کی بوند بوند کو ترسنے لگے ہیں۔

جب انسان نے زمین سے اس کاوزن چھین لیا تو زمین بھی توازن کھونے لگی ۔ جیسا کہ ہم نے اوپر لکھا؛ تحقیقی اداروں کے مطابق 1993 سے 2010 تک، برصغیر سے 54 کھرب لیٹر پانی نکالے جانے کے سبب زمین کا قطب شمالی 78 سینٹی میٹر مشرق کی جانب سرک گیا۔ یہ کوئی معمولی چیز نہیں، یہ گویا زمین کی سانسوں کے بھٹک جانے کا عمل ہے، اگر یہ عمل اسی رفتار سے جاری رہا، تو زمین کے محور کی تبدیلی، شب و روز کے چکر میں بھی خلل ڈال سکتی ہے۔ تصور کیجیے — جب دن بے ترتیب ہو جائیں، راتیں بےمعنی ہو جائیں، اور وقت کا پہیہ بے رخ ہو جائے تو اس انسان کا کیا ہوگا؟؟؟

یاد رکھیے! محور کی یہ تبدیلی  مانسون کی آمد کو مزید  بے وقت بنا دے گی، قطبین پر سورج کی شعاعوں کا دائرۂ کار بڑھائے گی ، برف کی چادروں کو پگھلائے گی ،پھر کہیں قحط ہوگا، کہیں طوفان، کہیں خشک سالی ہوگی تو  کہیں بےموسم بارشیں اور انسان کی زندگی تہ و بالا ہو کر رہ جائے گی۔قطبی برف کا پگھلنا صرف شمال کی سنسان زمینوں کا مسئلہ نہیں ہےبلکہ یہ سمندری سطح کو بڑھا کر، ممبئی اور کولکاتا جیسے شہروں کو نگلنے کی دھمکی  بھی ہے۔ بنگلہ دیش کے ساحلی علاقے، جو پہلے ہی قدرتی آفات کی زد میں ہیں، سمندر کی آغوش میں سما سکتے ہیں۔ گلف اسٹریم جیسے بحری دھارے کمزور پڑ سکتے ہیں، اور یورپ کی سردیاں غیرمعمولی شدت اختیار کر سکتی ہیں۔

محور کی تبدیلی دن اور رات کی مدت کو بھی بدل سکتی ہے۔ قطب شمالی اور جنوبی پر مہینوں کی تاریکی یا روشنی کا راج ہو سکتا ہے۔ یہ تبدیلی فصلوں کے موسموں کو بگاڑ دے گی، اور گندم ، چاول جیسی بنیادی اجناس کی پیداوار کم ہو سکتی ہے۔

زمین کو  صرف ایک ٹھوس کرّہ نہ سمجھیے، اسے ایک زندہ جسم سمجھیے،اس زندہ جسم کے سینے میں جو آگ ہے، وہ تب تک پُرامن رہتی ہے جب تک ہم اس کے توازن کو نہ چھیڑیں۔ مگر جب محوری جھکاؤ زمین کے اندرونی دباؤ کو چھیڑتا ہے، تو وہی زمین زلزلوں اور آتش فشاں کے ذریعے احتجاج کرتی ہے۔ بحرالکاہل کے ”رِنگ آف فائر“ میں سرگرمیاں تیز ہوتی ہیں، اور طوفانوں کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔

یہ محض پانی کا بحران نہیں یہ انسان کی عاقبت نا اندیشیوں کے خلاف فطرت کا انتقام ہے، ایک ایسا انتقام  جو خاموشی سے سب کچھ بدل رہا ہے۔ زمین کی تہہ میں خالی جگہوں کے سبب "land subsidence" یعنی زمینی نشست کے آثار دہلی، کولکتہ اور ممبئی جیسے شہروں میں ظاہر ہو چکے ہیں۔ یہ شہر اب زمین میں دھنستے جا رہے ہیں، جیسے فطرت انھیں سزا کے طور پر، یا شاید پناہ کے طور پر واپس اپنی آغوش میں لے جانا چاہتی ہو ۔ندیوں کا بہاؤ کم ہوتا جا رہا ہے ۔ یمنا، گوداوری اور کرشنا کی آنکھیں خشک ہو چکی ہیں۔ کیوں کہ جب زمین کے نیچے پانی نہ ہو، تو اوپر کی روانی بھی تھمنے لگتی ہے ۔ یہ وہی دریا ہیں جو کبھی تہذیبوں کی نرسری کہلاتے تھے، اور آج اپنی زمین کے سینے سے بچھڑ کر سسک رہے ہیں۔یہ صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی بقا کا سوال ہے۔ اگر ہم نے اس پیاس کی گہرائی کو نہ سمجھا، تو کل یہ زمین ہمیں اپنے سینے میں جگہ دینے سے بھی گریزاں ہو جائے گی۔

وہ خوف ناک مسائل جو کسی اژدہے کی طرح انسان کے وجود کو نگلنے کے لیے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں ، ان کا حل کیا ہے؟ آج کی دنیا کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں ؛ ان مسائل کا حل اسلام کے درسِ اعتدال میں پوشیدہ ہے۔ اسلامی تعلیمات پر اگر خلوص نیت سے عمل کیا جائے تو یقیناً مکمل طور پر ان مسائل  کو حل کیا جا سکتا ہے۔قرآن مجید نے پانی کو حیات کا سرچشمہ قرار دیا اور اس کی قدر و منزلت کو بارہا بیان کیا ہے۔ آج، جب ساری دنیا پانی کے بحران سے دوچار ہے اور اس بحران کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نت نئے مسائل انسان کے لیے ہر لمحہ ایک نئی امتحان گاہ ترتیب دے رہے ہیں ، ایسے پر آشوب عہد میں قرآن و حدیث  کی روشنی میں اس نعمت کی اہمیت اور اسے بچانے کی ضرورت کو سمجھنا  اور اس پر عمل کرنا ازحد ضروری ہے۔

بے شک پانی اللہ تعالیٰ کی رحمت کی نشانیوں میں سے ایک ہے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

” اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا، کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتے؟“(الانبیاء:30)

غور تو کیجیے! اس  آیت مقدسہ میں  پانی کی عظمت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے جیسے وہ کائنات کی روح ہو۔ پانی نہ ہو تو زمین بنجر، دل ساکت، اور زندگی خاموش ہو جائے۔ یہ اللہ کی رحمت کا وہ گوہر ہے جو صحراؤں کو گلزار بناتا  اور خشک دلوں کو ایمان کے نور سے منور کرتا ہے۔

دیکھیے!ہمارے آقا رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم نے  بھی پانی کو نہ صرف زندگی کا ذریعہ قرار دیا بلکہ اسے پاکیزگی اور طہارت کا سب سے بڑا وسیلہ بھی بتایا۔ ارشاد ہے:”پانی پاک ہے، اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی، سوائے اس کے کہ اس کا رنگ، بو یا ذائقہ بدل جائے۔“(سنن ابی داؤد، کتاب الطہارۃ، حدیث نمبر 66)

یہ حدیث پانی کی فطری پاکیزگی کی گواہی دیتی ہے، جیسے کوئی روشن آئینہ جو اپنی شفافیت سے ہر پل اپنی پاکی کا اعلان کرتا ہے۔ لیکن جب ہم اس کو ضائع کرتے ہیں یا اسے آلودہ کرتے ہیں، تو گویا ہم اس رحمتِ الٰہی کی توہین کرتے ہیں جو ہمیں عطا کی گئی۔

سورۃ الشوریٰ آیت:28 میں ارشاد باری ہے:

”وہی ہے جو ناامیدی کے بعد بارش نازل کرتا ہے اور اپنی رحمت پھیلاتا ہے۔“

یقیناًبارش کی ہر بوند آسمان سے اترتا ہوا ایک نامۂ رحمت ہے۔ یہ بوندیں زمین کے سینے کو چیرتی ہیں، اسے سیراب کرتی ہیں اور اس سے سبزے، پھل پھول اور زندگی کے رنگ اگاتی ہیں۔ لیکن آج ہم اس نعمت کی قدر کھو رہے ہیں۔ ہمارے دریا سوکھ رہے ہیں، ہمارے تالاب گندلے ہو رہے ہیں، اور ہماری زمین پانی کے لیے ترس رہی ہے۔ یہ گویا ہمارے ہاتھوں اپنی ہی زندگی کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔آج جو ہم  پانی کے بحران کی لپیٹ میں ہے، دریا خشک ہو رہے ہیں، زیرِ زمین پانی کی سطح گر رہی ہے، اور آلودگی نے صاف پانی کو نایاب بنا دیا ہے،تو  یہ بحران محض مادی نہیں، بلکہ روحانی بھی ہے۔ جب ہم پانی کو ضائع کرتے ہیں، تو گویا ہم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری کرتے ہیں جسے قرآن نے حیات کا سرچشمہ قرار دیا۔

سورہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

”بھلا بتاؤ، جو پانی تم پیتے ہو، کیا تم نے اسے بادل سے اتارا یا ہم نے اتارا؟“(آیت:68، 69)

یہ آیات ہمیں پانی کی قدر کرنے اور اس کے تحفظ کی دعوت دیتی ہیں۔ پانی کو ضائع کرنا گویا اس رحمت کو ٹھکرانا ہے جو اللہ نے ہمیں عطا کی۔ قرآن نے ہمیں اعتدال کا سبق دیا ہے، یہ اعتدال ہر جگہ ہر مقام پر اور ہر حال میں ضروری ہے۔ سورۃ الاعراف میں ارشاد ہے:

”کھاؤ اور پیو، مگر اسراف نہ کرو، بے شک اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“(آیت:31)

یاد رکھیے پانی کا بے جا استعمال بھی  اسراف ہے، اور اسراف اللہ کو سخت ناپسند ۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اعتدال اور میانہ روی کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ آپ نے پانی کے استعمال میں بھی اسی اعتدال کی تلقین فرمائی۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو وضو کرتے ہوئے زیادہ پانی استعمال کرنے سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا:

”اسراف نہ کرو، چاہے تم بہتے دریا کے کنارے ہی وضو کر رہے ہو۔“(سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ، حدیث نمبر 425)

یہ الفاظ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ پانی، چاہے وہ دریا کی روانی ہو یا کنویں کی گہرائی، ہر حال میں اسے احتیاط سے استعمال کرنا ہماری دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ یہ گویا ایک امانت ہے جو ہمیں سونپی گئی، اور اس امانت میں خیانت ہمارے ایمان کی کمزوری کا مظہر ہے۔ہمیں اپنے گھروں، کھیتوں اور شہروں میں پانی کے استعمال میں احتیاط کرنی چاہیے، دریاؤں اور جھیلوں کو آلودگی سے بچانا، بارش کے پانی کو محفوظ کرنا، اور پانی کے تحفظ کے لیے اجتماعی کوششیں کرنا ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کی حفاظت اور اس کی منصفانہ تقسیم پر بھی زور دیا۔ ایک موقع پر فرمایا:

”مسلمانوں کے درمیان تین چیزیں مشترک ہیں: پانی، چراگاہ اور آگ۔“(سنن ابی داؤد، کتاب الاجارہ، حدیث نمبر 3477)

یعنی پانی کوئی نجی ملکیت نہیں بلکہ ایک اجتماعی نعمت ہے، جو ہر جان دار کا حق ہے۔ جب ہم پانی کو ضائع کرتے ہیں یا اسے آلودہ کرتے ہیں، تو ہم نہ صرف اپنی نسلوں کے حق کو غصب کرتے ہیں بلکہ اس رحمتِ الٰہی کو بھی داغ دار کرتے ہیں جو سب کے لیے عطا کی گئی ہے۔

پانی کو بچانا صرف ایک مادی عمل نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ جب ہم پانی کو بچاتے ہیں، تو گویا ہم اپنے ایمان کو جلا دیتے ہیں۔ جب ہم اسے آلودگی سے محفوظ رکھتے ہیں، تو گویا ہم اپنے دلوں کو پاکیزہ بناتے ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ پانی کی حفاظت ہمارا دینی فریضہ ہے، اور اس فریضے کی ادائیگی ہی ہمارے معاشرے کو سرسبز و شاداب بنا سکتی ہے۔

بے شک پانی ہی تو زمین کو جنت زار بناتا ہے، پانی ہی تو ہر سانس، ہر نبض، اور ہر لمحے کے ساتھ ہماری زندگی کو رواں رکھتاہے۔ آئیے، ہم عہد کریں کہ اس گوہرِ نایاب کی قدر کریں گے، اسے ضائع ہونے سے بچائیں گے اور اس کی پاکیزگی کو برقرار رکھیں گے، تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی اس رحمتِ الٰہی سے فیض یاب ہو سکیں

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved