از: مفتی محمد نظام الدین رضوی
ہاف شرٹ پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہے؟
سوال : ہاف شرٹ پہن کر نماز ہوتی ہے یا نہیں ؟
جواب: نماز تو ہو جاتی ہے مگر ہاف ہونے کی وجہ سے مکروہ تنزیہی ہوتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہاف شرٹ میں نماز تو ہو جائے گی مگر فل آستین کی شرٹ پہن کر نماز پڑھنا اولیٰ و اچھا ہے ۔ مگر جس کے پاس ہاف شرٹ ہی ہے تو وہ نماز نہ چھوڑے، اس کو پہن کر نمازپڑھے کہ نماز چھوڑ دینا حرام و گناہ کبیرہ ہے جس سے بچنا فرض ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں پینٹ شرٹ کے متعلق ہمارے بزرگ علما نے یہ فتویٰ دیا تھا۔ کہ اسے پہن کے نماز پڑھنا گناہ اور مکروہ تحریمی ہے اور اسے پہن کر جو نماز پڑھی جائے گی اسےدہر انا لازم ہو گا۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 3 باب مکروہات الصلوٰۃ ،ص:422)
اس کی وجہ یہ تھی کہ:اس زمانہ میں یہ لباس صرف انگریز قوم کا لباس تھا اور دوسری کسی قوم کے لوگ یہ لباس نہیں پہنتے تھے۔ وہ انگریزوں سے سخت نفرت کرتے تھے ، اس وجہ سے حکم تھا کہ نا جائز ہے ۔ بعد میں دوسری قوموں نے اس لباس کو اپنا لیا ہےاور مسلمانوں نے بھی اس لباس کو اپنا لیا، تو اب یہ لباس کسی قوم کی اور خاص طور سے انگریزوں کی پہچان نہیں رہ گیا اور شریعت کا حکم زمانے کے بدلنے کی وجہ سے بدلتا رہتا ہے، یہ مسئلہ بھی اسی قسم کا ہے۔ لہٰذا اب یہ لباس پہننا مباح ہےاور اس کو پہن کر نماز پڑھی جائے گی تو ہو جائے گی۔
لیکن اگر کوئی آدمی کرتا پہن کر۔ جو ہمارے عالموں، حافظوں ، قاریوں کا لباس ہے۔ نماز پڑھے تو کیا پوچھنا، یہ سب سے اچھی بات ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
شرٹ میں کالر کی وجہ سے نماز ہو جائے گی یا نہیں؟
سوال: شرٹ میں جو کالر لگا ہوتا ہے یہ شرعاً جائز ہے یا نہیں ، اس کو پہن کر نماز پڑھیں تو اس کا کیا حکم ہوگا؟
جواب: کالر کی وجہ سے نماز پر کوئی اثر نہیں کیوں کہ شرٹ اور قمیص میں کالر عادت کے مطابق ہوتی ہے اور اس کو پہن کر بڑے لوگوں کے دربار میں جانا بے ادبی نہیں سمجھا جاتا۔ اور اصل یہ ہے کہ جس طریقے کا لباس پہن کر بڑوں ، حاکموں اور افسروں کے دربار میں جانا صحیح ہو اور بے ادبی تصور نہ کیا جاتا ہو اس طرح کے لباس میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری ہو سکتی ہے ، لہذا کالر دار کرتا، قمیص، یا شرٹ پہن کر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ بہتر تو یہی ہے کہ پوری آستین ہو، لیکن اگر پوری آستین نہیں ہے تو بھی نماز ہو جائے گی ۔ ہاں خلاف اولیٰ ہوگی۔ کالر،اپنی وضع کے لحاظ سے موڑی ہوئی ہوتی ہے جو کف ثوب ہے یعنی کپڑے کو موڑنا۔ مگر کف ثوب وہ مکروہ تحریمی ہے جو عادتِ ناس کے خلاف ہو، اور اس طور پر موڑ کر حاکموں کے دربار میں جانا بے ادبی سمجھا جاتا ہو، اور یہ کف ثوب جو کالر میں ہوتا ہے عادتِ ناس کے مطابق ہے اور کالر دار قمیص یا شرٹ پہن کر حاکموں کے دربار میں جانا قطعاً بے ادبی نہیں سمجھا جاتا اس لیے یہ مکروہ نہیں ، بلا کراہت جائز و مباح ہے۔ اور آستین میں دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ آستین پوری ہے مگر او پر چڑھا کر پڑھ رہا ہے اس صورت میں نماز مکروہ تحریمی ہے۔ اور اگر ہاف آستین سلی ہی گئی ہے تو اب اس کپڑے کی وضع اور بناوٹ وہی ہے اور اس کپڑے کے پہنے کا طریقہ اور عادت وہی ہے، تو جو چیز طریقہ اور عادت بن جائے اس سے نماز مکروہ تحریمی نہیں ہوتی اور عادت کے خلاف جو کپڑا پہنا جائے اس سے نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے، تو آستین کو آدھی کلائی تک چڑھا کر نماز پڑھنا خلاف عادت ہے اس وجہ سے نماز مکروہ تحریمی ہوگی اور اگر ہاف آستین کی شرٹ پہن کر نماز پڑھتے ہیں تو مکروہ تحریمی نہ ہو گی مگر خلاف اولیٰ ضرور ہوگی۔
واللہ تعالی اعلم
جس مسجد میں فجر کی نماز نہ ہوتی ہو اس میں نمازِ جمعہ ہو سکتی ہے یا نہیں؟
سوال : ایک ایسی مسجد جس میں فجر کی نماز نہیں ہوتی ہے اس میں نمازجمعہ درست ہے یا نہیں ؟
جواب: نماز جمعہ اس مسجد میں بھی درست ہے ، جمعہ صحیح ہونے کے لیے کتب شریعت میں جو شرائط بیان کیے گئے ہیں ان میں یہ شرط کہیں اور کسی مذہب میں نہیں کہ اس مسجد میں فجر کی نماز بھی ہوتی ہو ، جہاں جمعہ صحیح ہے وہاں ضرورت ہو تو کشادہ میدان میں بھی جمعہ کی نماز پڑھی جاسکتی ہے اگر چہ وہاں بھی فجر کی ، یا کوئی بھی نماز نہ پڑھی گئی ہو۔ ہاں جو بھی مسجد محلہ میں ہو اس کو آباد کرنا اہل محلہ پر لازم ہے کہ فجر کی نماز یا دیگر اوقات کی نماز اس میں ضرورپڑھیں تاکہ مسجد آباد رہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسْجِدَ اللّٰهِ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ.(سورۃ التوبۃ، آیت:9)
مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم
پیر اگر یہ کہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں مریدوں کو پڑھنے کی ضرورت نہیں، تو کیا حکم ہے؟
سوال : کچھ پیر یہ کہتے ہیں کہ ہم تو نماز پڑھتے ہیں، مریدوں کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے ؟
جواب : یہ بہت بڑی نادانی کی بات ہے اور اس بکو اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ آدمی یہ کہہ رہا ہے کہ مریدوں پر نماز فرض نہیں ہے، ہمارا ہی پڑھ لینا کافی ہے۔ اگر یہ مراد ہے جیسا کہ لفظ ”ضرورت “ کا تقاضا یہی ہے تو ایسی صورت میں وہ ایمان سے خارج ہو گیا، کیوں کہ نماز کی فرضیت کا منکر کافر ہوا کرتا ہے۔ جس نے بھی ایسا کہا جب تک ہم اس کے قول و معنی مراد کی تحقیق نہ کر لیں اس پر ابھی کھلا ہوا حکم تو نہیں لگا سکتے لیکن اس کا ظاہر کفر ہے، ایسے شخص کو حکم دیا جاتا ہے کہ علانیہ مسلمانوں کے مجمع میں تو بہ کرے اور وعدہ کرے کہ آئندہ ایسی بات نہیں کہے گا اور ساتھ ہی ساتھ کلمہ پڑھ کر تجدید اسلام کرے، اگر بیوی والا ہو تو بیوی سے نکاح بھی کرے ، اور اگر ایسا نہیں کرتا تو مسلمان اس کا بائیکاٹ کریں۔ واللہ تعالیٰ اعلم
کیا جو خطبہ نہ سن سکا اس کی نماز درست ہوگی؟
سوال : مسجد میں خطبۂ جمعہ یا خطبۂ عیدین کے وقت چوں کہ ازدحام بہت ہوتا ہے، اس وجہ سے جن لوگوں نے باہر صفیں قائم کر رکھی ہیں خطبہ کی آواز ان تک نہیں پہنچ پاتی، تو کیا ان کی نماز درست ہوگی؟
جواب: خطبۂ جمعہ تو ضروری ہے کہ جمعہ صحیح ہونے کے لیے شرط ہے مگر خطبے کے کلمات سارے نمازیوں کا سننا ضروری نہیں ہے۔ اور یہ جو حکم ہے کہ جب خطبہ پڑھا جائے تو لوگ غور سے سنیں اور خاموش رہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خطیب سے قریب ہیں تو غور سے سنیں اور خاموش بھی رہیں اور اگر خطبہ کی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے تو لازم ہے کہ خاموش رہیں، لہذا نماز سب کی ہو جائے گی نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم
ہاتھ میں عصا یا لکڑی کی چھڑی لے کر خطبہ دینا کیسا ہے؟
سوال : خطبے کے وقت ہاتھ میں عصا یا لکڑی کی چھڑی لے کر کھڑا ہوناسنت ہے یا نہیں ؟
جواب: عام حالات میں سنت نہیں، اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہاتھ میں عصا لے کر خطبہ نہیں دیتے تھے بعد میں جب عمر زیادہ ہو گئی، بدن کمزور ہو گیا اور ضعف بڑھ گیا تو سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام کمزوری کی وجہ سے ہاتھ میں عصا لے کر خطبہ دیا کرتے تھے۔ تو جو لوگ بوڑھے اور کمزور ہوں ان کے لیے لاٹھی لے کر خطبہ پڑھنا سنت ہے اور جو لوگ قوی، توانا ہیں اور عصا کے بغیر ان کو قیام میں کوئی دشواری نہیں ہوگی ان کے لیے سنت نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم
سعودی میں رہنے والا سنی صحیح العقیدہ نماز کیسے پڑھے؟
سوال : حضور ایک مسئلہ علماے کرام کی بارگاہ اقدس میں ہے کہ ہم سنیوں کا عقیدہ ہے کہ وہابی دیوبندی کے پیچھے سنیوں کی نماز نہیں ہوتی ہے اب کوئی سنی صحیح العقیدہ مسلمان سعودی عربیہ مسجد کی صاف صفائی کے کام میں گیا تو وہ آدمی کیا کرے گا اگر اس کے پیچھے نماز پڑھتا ہے تو ہوتی نہیں اور نہیں پڑھتا ہے تو گناہ گار ہوتا ہے ایسی صورت میں اب وہ کیا کرے۔ اور اس آدمی کا وہاں دو یا تین سال رہنا ہے۔
جواب: یہ شخص تنہا نماز پڑھے اور اس کے لیے جو صورت ممکن ہو وہ اپنائے ہاں اگر تحقیق سے معلوم ہو جائے کہ اس مسجد کا امام سنی ہے تو اس کی اقتدا میں جماعت سے نماز پڑھے۔ واللہ تعالی اعلم
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org