”جشن تحفظ ختمِ نبوت“طرحی نعتیہ مشاعرہ
مبارک پور، اعظم گڑھ ۔بزمِ فروغِ نعت مبارک پور کی 44 ویں ماہانہ نعتیہ طرحی نشست بعنوان "جشن تحفظ ختمِ نبوت" بحسن وخوبی اختتام پزیر ہوئی، واضح ہوکہ 7 ستمبر 1974 کو پاکستانی پارلیمنٹ نے تحفظ ختمِ نبوت قانون پاس کیا جس کے نفاذ کے لیے بے پناہ علماے کرام نے قربانیاں دیں، ہزاروں کی تعداد میں مسلمان شہید ہوئے، یہ قربانیاں بالآخر رنگ لائیں اور پاکستانی منشور میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا، 7/ ستمبر کا دن دنیا بھر میں جشن تحفظ ختمِ نبوت کے طور پر منایا جاتا ہے۔پروگرام کا آغاز حافظ نورالزماں کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، صدارت مولانا حافظ ارشاد احمد شیدا ؔ (مقیم حال برطانیہ)اور نظامت ماسٹر عبدالعزیز مبارکپوری نے کی مہمان خصوصی کی حیثیت سے ماسٹر عبدالرؤف عباسی چریاکوٹی نے شرکت فرمائی۔ اس کے بعد مصرع طرح ”کوئی نبی نہ آئے گا میرے نبی کے بعد“ کے تحت شعراءنے اپنے کلام پیش کیے، چنندہ اشعار نذر قارئین ہیں:
عیسیٰ مسیح مصرع بعثت میں ہیں روی
اور ہے ردیف لفظ محمد ”روی“ کے بعد (مہتاب پیامی)
اول نبی بھی آپ ہیں آخر نبی بھی آپ
جلوہ گری ہے آپ کی لاکھوں نبی کے بعد (ماسٹر زبیر)
قطرہ کسی نے مانگا تو دریا عطا کیا
دیکھی نہ ایسی شان تری سروری کے بعد (ارحم بلیاوی)
اک آخری رسول کا بے سود آسرا
اک قوم لیکے جیتی ہے ہر آگہی کے بعد (ساقی ادیبی )
اوج و کمال ختم ہیں سب تیری ذات پر
منصب نہیں ہے کوئی تری برتری کے بعد (ثاقب مبارکپوری )
مجھکو کسی طبیب کی حاجت نہیں رہی
محبوب ذوالجلال کی چارہ گری کے بعد (حسان اعظمی )
فرما دیا خدا نے یہ ہیں آخری نبی
پھر کسکی ہے تلاش تمھیں آخری کے بعد (ارشاد مبارکپوری )
آتے رہے ہیں اول و آخر کے درمیاں
پر آنا جانا ختم ہوا آخری کے بعد (گھائل مبارکپوری )
نور خدا کے نور سے روشن ہے کائنات
چمکا کہیں بھی کوئی نہ نور نبی کے بعد (دانش مبارکپوری )
محبوب کردگار نبی بنکے آخری
گھر آمنہ کے آئے ہیں عیسیٰ نبی کے بعد (امیر اشرف )
پہلے نبی نے جس کو کہا آخری نبی
آئے گا حشر تک نہ کوئی اس نبی کے بعد (فراز ادیبی)
آئی ہے کائنات کی ہر شئے وجود میں
نور نبی کے نور کی جلوہ گری کے بعد (فیضان مبارکپوری )
انکار جس نے ختم رسالت سے ہے کیا
نار سقر میں جائے گا اس زندگی کے بعد (سفر اعظمی)
چمکے گا اب نہ چرخ رسالت پہ کوئی چاند
خورشید آمنہ تری جلوہ گری کے بعد (اسد مبارکپوری )
پروگرام کا اختتام صلواۃ و سلام و مولانا ارشاد احمدشیداؔ کے دعائیہ کلمات پر ہوا، آخر میں کنوینر مشاعرہ ارشاؔد مبارکپوری و مہتاب پیامی نے جملہ شعرا و سامعین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آئندہ ماہ کے لیے مصرع طرح "کون ہے جس پر نہیں احسان میلادالنبی" کا اعلان کیا، اس موقع پر الحاج اظہار احمد، ساحل ادیبی، نفیس احمد، عبدالحق، حامد رضا، رئیس احمد، شفیق احمد، شمس الدین، حاجی شمیم بابا، حاجی فضل حق صراف، حافظ زین العابدین و محمد ابدال کے علاوہ کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے۔ از: شمس الدین ساقی دیبی
کتابوں میں تاریخی حقائق سے چھیڑ چھاڑ پر کانگریسیوں کا اظہار ناراضگی
کانگریس پارٹی کے کارکنان نے این سی ای آرٹی کی جانب سے نصاب میں تبدیلی کے نام پر تاریخی حقائق کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا ہے مرکزی وزیر تعلیم کے نام ایک میمورنڈم اے سی ایم سیکنڈ سنجے مشرا کود یا اور کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ کانگریس پارٹی کے کارکنان نے کلکٹریٹ میں میمورنڈم دینے کے بعد کہا ہے کہ درجہ تین کی ہندی انگریزی اور دیگر کتابوں مں تمہید شامل نہیں ہے، تمہید آئین کی مختصر شکل ہے،قومی ترانہ، قومی نغمہ یا بنیادی حقوق و فرائض اس کی جگہ نہیں لے سکتے۔ درجہ 12 کی پولیٹیکل سائنس کی کتاب سے لفظ بابری مسجد ہٹا کر اسے تین گنبد ڈھانچہ کہا گیا ہے۔جب کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صرف بابری مسجد کہا ہے۔کانگریسیوں نے مذکورہ ترمیم پر وزیر تعلیم سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
میمورنڈم دینے والوں میں سوشل میڈیا کے ریاستی جنرل سکریٹری رام گوپال رینا، ضلع نائب صدر ساگر سنگھ تومر، اقلیتی سیل کے ریاستی جنرل سکریٹری ونسنٹ جوئل، عظمت خان انور عقیل، کیلاش گوتم، مبشر علی، ڈاکٹر جمیل احمد ، وصی احمد ، گڈو ڈنگہ وغیرہ موجود تھے۔
کولکا تا جیسا واقعہ اتراکھنڈ میں بھی ہوامگر ہر طرف خاموشی
نئی دہلی (احمد اللہ صدیقی) ۔ایک طرف کو لکاتا کے ہسپتال میں ایک خاتون ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل کے واقعہ پر ملک بھر میں غم و غصہ کا اظہار کیا جارہا ہے اور انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کی اپیل پر ڈاکٹروں نے ملک گیر ہڑتال بھی کی، اس معاملہ کا سپریم کورٹ بھی از خود نوٹس لے چکی ہے، وہیں بی جے پی کی حکمرانی والی ریاست اتراکھنڈ میں ایک نرس تسلیم جہاں کی عصمت دری اور اس کے قتل کے بہیمانہ واقعہ پر ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ کولکاتہ کی ڈاکٹر کی طرح تسلیم جہاں بھی میڈیکل کے پیشہ سے وابستہ تھی تا ہم اس کو انصاف دلانے کے لیے کسی سمت سے آواز نہیں اٹھائی جارہی ہے۔
تسلیم جہاں کے بھائی رفیع احمد نے اتراکھنڈ کے غدر پور سے نمائندہ انقلاب سے خصوصی گفتگو میں اتراکھنڈ پولیس اورانتظامیہ پر سنگین الزامات عائد کیے۔ رفیع احمد نے بتایا کہ ان کی ہمشیرہ اتراکھنڈ کے رودر پور کے موٹیراہسپتال میں کام کرتی تھیں۔ اس کے لاپتہ ہونے کے بعد پولیس میں رپورٹ درج کرائی گئی، پولیس تسلیم جہاں کو برآمد کرنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی تھی لیکن جب اس کی عصمت دری ہوئی اور بہیمانہ طور پر اس کو قتل کیا گیا تو پولیس نے ایک نشہ کے عادی شخص کو پہلے چور کے طور پر گرفتار کیا اور اس کے بعد اسے اس واقعہ کے قاتل کے طور پر پیش کر کے معاملہ کو حل کرنے کا دعویٰ کیا۔ رفیع نے اپنی ہمشیرہ کی عصمت دری اور بہیمانہ قتل میں کئی افراد کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پولیس تفتیش کے رخ کو موڑ رہی ہے اور اصل ملزمین کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے کیوں کہ تسلیم جہاں کی نہ صرف اجتماعی عصمت دری کی گئی بلکہ اس کے سر کےبال کاٹ کر اس کے جسم سے اعضا تک نکال لیے گئے۔ شناخت مٹانے کے لیے اس کے چہرے پر کیمیکل ڈالا گیا۔ رفیع احمد نے اس کو منصوبہ بند اور منظم اجتماعی عصمت دری اور قتل کا واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کا بہیمانہ کام کوئی ایک شخص انجام نہیں دے سکتا۔
رفیع احمد نے موٹیرا ہسپتال پر بھی شک کا اظہار کیا جہاں ان کی ہمشیرہ کام کرتی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ تسلیم جہاں کے لاپتہ ہونے کے بعد ہسپتال انتظامیہ نے ان کی کوئی خیر خبر نہیں لی۔ تسلیم جہاں کے بارے میں ان کے اہل خانہ سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ تسلیم جہاں مطلقہ تھی اور اس کی 11سال کی بیٹی ہےجس کے ساتھ وہ رودر پور کے وسندھرا انکلیو میں رہ رہی تھی۔ محمد رفیع نے مطالبہ کیا کہ ان کی بہن کے اصل قاتلوں اور زانیوں کو عبرت ناک سزادی جائے۔ انھوں نے شکوہ کیا کہ اس معاملہ میں کسی طرف سے انھیں کوئی تعاون نہیں مل رہا ہے، بلکہ اس معاملہ کو رفع دفع کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی سیکڑوں لوگ تسلیم جہاں کو انصاف دلانے کے لیے آواز اٹھارہے ہیں۔ کئی دائیں بازو کے اکاؤنٹس ایسے بھی ہیں جو تسلیم جہاں کی اجتماعی عصمت دری اور قتل پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لوگوں کا سوال ہے کہ آیا کولکاتا کی ڈاکٹر مومتا کی طرح تسلیم جہاں اس ملک کی بیٹی نہیں؟ کیا میڈیا اور سیاسی جماعتوں میں اس لیے خاموشی ہے کیوں کہ وہ ایک مسلمان ہے اور یہ واقعہ بی جے پی کی حکمرانی والی ریاست اتراکھنڈ میں پیش آیا ؟
تسلیم جہاں 30 جولائی کو رودر پور کے موٹیر اسپتال میں ڈیوٹی کے بعد گھر نہیں لوٹی۔ اس کی بہن نے پولیس میں گمشدگی کی شکایت درج کرائی۔ پولیس نے یکم اگست کو تسلیم جہاں کی لاش اتر پردیش کی سرحد پر واقع گاؤں دبدبہ کی جھاڑیوں سے برآمد کی۔ پولیس نے مبینہ ملزم دھرمیندر کو راجستھان سے گرفتار کیا۔ وہ اتر پردیش کے بریلی کا رہنے والا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اکیلے اس جرم کو انجام دیا تاہم اب اہل خانہ کےافراد پولیس پر سنگین الزامات عائد کر رہے ہیں۔
راجستھان میں مسلمانوں کو قتل کرنے کی دھمکی
نئی دہلی ۔ نفرت انگیز تقاریر کے خلاف سپریم کورٹ کے سخت احکامات کے باوجود ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد بھڑکانے کی کوششیں جاری ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کرنے والوں کو کسی بھی طرح قانون کا خوف نہیں، کیوں کہ انھیں سیاسی سر پرستی حاصل ہے۔ بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے، تاہم پولیس اس سلسلہ میں کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے۔ بی جے پی کی حکمرانی والی ریاست راجستھان میں کئی مقامات سے سخت نفرت انگیزی اور بھیڑ کو مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اکسانے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ نفرت انگیزی کے واقعات کی رپورٹ کرنے والے ہینڈل ہیٹ ڈیکٹر نے کئی ویڈیوز شیئر کیے ہیں جن میں دائیں بازو کے انتہا پسند مسلمانوں کو کھلے عام قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
ایک ایسا ہی ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں ایک بھگوا دھاری ایک بڑے اجتماع کے سامنے نفرت انگیزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف تشدد کے لیے مذہبی کتاب مہا بھارت کا حوالہ دے رہا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ اگر ایک مسلمان ہمارے ایک ہندو کو مارے گا، ہم 100 مسلمانوں کو ماریں گے، جب تک ہم انھیں ماریں گے نہیں، یہ راکشش نہیں سدھریں گے۔ اس نے بھگود گیتا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شری کرشن نے بھی جنگ کا حکم دیا لیکن جب ارجن نے کہا کہ یہ میرے اپنے ہیں، میں انھیں نہیں مار سکتا تو شری کرشن نے کہا کہ مذہب کی حفاظت کرنا ہی سب سے بڑا دھرم ہے۔ اگر مذہب کے لیے تشدد کیا جائے تو اس سے بڑا کوئی دھرم نہیں۔ ان آدم خوروں کو مارنا سب سے بڑا دھرم ہے۔ ان آدم خوروں کو سبق سکھانا پڑے گا۔ نفرت انگیزی کر رہے شخص نے دعویٰ کیا کہ مسلمانوں کی مساجد سے بلند ہونے والی پانچ وقت کی اذان ایک وارنگ ہے ، وہ ہمیں اللہ اکبر کہہ کر آگاہ کرتے ہیں لیکن ہم پھر بھی آگاہ نہیں ہوتے۔ ان کا ایک ہی نعرہ ہے کہ ہم ہندو کو مار دیں گے۔ وہ تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے درمیان مزید کہتا ہے کہ ایک ہندو کو 100 مسلمانوں پر بھاری پڑنا چاہیے۔ اگر یہ نہیں مانیں گے تو ہم گھر میں گھس کر ماریں گے۔ تم ایک مارو گے اور ہم 100 ماریں گے۔
گستاخ رسول کے خلاف زبردست مظاہرہ
بریلی (مستفیض علی خان)درگاہ اعلیٰ حضرت کی جانب سے جماعت رضاے مصطفیٰ کے قومی نائب صدر سلمان میاں کی ہدایت پر جماعت کے وفد نے پی آر او معین خاں اور جماعت کے سابق میڈیا انچارج عمران خان کی قیادت میں علماے کرام کی موجودگی میں پولیس اسٹیشن کر پہلے سی او سے ملاقات کی اور گری مہاراج کے خلاف توہین رسالت کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ مولانا راحت نے بتایا کہ ریاست مہاراشٹر کے ضلع چرک کی تحصیل کنور میں جاری ہفتہ وار ہرینام پانچاے پروگرام کے دوران حاضرین سے لائیو خطاب کرتے ہوئے گری مہاراج نے ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کی ہے، جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ پی آراو حسین خان نے گری مہاراج کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتےہوئے اس کی سزاے موت کا مطالبہ کیا۔
جماعت رضاے مصطفی کے سابق میڈیا انچارج ثمران خان نے کہا کہ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن اپنے نبی کی تو ہین برداشت نہیں کر سکتا۔ ایسے لوگوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے اور انھیں جیل بھیجا جائے ۔ ایسے لوگ آزاد گھوم رہے ہیں اور ملک کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مفتی زاہد نے کہا کہ ایسے لوگ صرف عوامی شہرت حاصل کرنے کے لیے گھٹیا حرکتیں کر کے ہندوؤں اور مسلمانوں کےدلوں میں نفرت پیدا کرنے کا کام کرتے ہیں۔ جماعت کے قومی نائب صدر رضا سلمان میاں نے کہا کہ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ شرعی ایک نا تھ شندے کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ وزیر اعلیٰ کا کام اپنی ریاست میں تمام مذاہب اور ذاتوں کے لوگوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ وہ خود اس پروگرام میں موجود تھے۔ ہمارے نبی کی شان میں کھلم کھلا تو ہین ہو رہی تھی اور اس گری مہاراج کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ایسے میں وزیر اعلیٰ کو فوری طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے۔ سی اونے یقین دلایا کہ اپنی حکام سے بات کر کے جلد از جلد مقدمہ درج کیا جائے گا۔ اگر پولیس انتظامیہ نے ایسا نہیں کیا۔ تو جلد از جلد بریلوی علما کے ساتھ میٹنگ کر کے مزید حکمت عملی تیار کی جائے گی۔ گری مہاراج کے اس اقدام سے ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں ۔ جماعت رضا کے وفد میں معین خان اور ثمران خان کے علاوہ عبد اللہ رضا خان، ایڈووکیٹ ز بیر، نور جہاں، ریٹائرڈ جیلر سید رفعت علی، مفتی زید مرکزی، مفتی محمد اعظم، مفتی توحید، مفتی رہبر، مفتی توصیف، مولانا عزیز، مولانا عارف، مولانا آفتاب، مولانا مجاہد، مولانا زبیر، حافظ جاوید ،حافظ اشتیاق، بلال خوئی، مستقیم گھوسی ، عرفان گھوسی وغیرہ موجود تھے۔
نماز پڑھنے جار ہے مدرسہ کے ٹیچر کی سرعام پٹائی
لکھنؤ (ایجنسی) پارا تھانہ علاقہ میں نماز پڑھنے جا رہے مدرسے کے ٹیچر کی اکثریتی فرقہ کے نوجوان نے راستہ روک کر پٹائی کر دی۔ شرپسند نوجوان نے گالیاں اور جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہوئے دھاردار ہتھیار سے حملہ کرنے کی کوشش بھی کی۔ مدرسہ کے ٹیچر کی چیخ پکار پر جمع بھیڑ کو دیکھ کر نوجوان بھاگ کر اپنے گھر میں چھپ گیا۔ مدرسہ کے ٹیچر کے ساتھ مار پیٹ کا یہ پورا واقعہ محلے میں لگے سی سی ٹی وی میں قید ہو گیا۔ اطلاع ملنے پر پولیس موقع پر پہنچی اور شکایت پر مقدمہ درج کر لیا گیا۔ نیز حملہ کرنے والے ملزم کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے اس واقعہ کا ویڈیو وائرل ہو رہا ہے۔ اطلاع کے مطابق محمد یونس ولد محمد یوسف موہان روڈ کا کوری کے رہنے والے ہیں ۔ پارا کے ایک مدرسہ میں ٹیچر ہیں۔ اتوار کو بچوں کو پڑھانے کے بعد وہ نماز پڑھنے جارہے تھے۔ تبھی راستے میں فتح گنج کے رہنے والے جتیندر ولد ننکھے نے انھیں روک لیا۔ اس نے یونس کو گالیاں دیں اور کہا تم لوگ شور کیوں مچاتے ہوئے؟ میں نے شکایت کی ہے اور جلد ہی کارروائی ہوگی۔ متاثرہ یونس نے بتایا کہ شور مچانے پر ملزم نے گالیاں دینا شروع کر دیں۔ اس نے منع کیا تو وہ مزید غصے میں آگیا۔ اس کی باتوں کو نظر انداز کر کے وہ آگے بڑھنے لگا، تبھی ملزم نے اس کا گلا پکڑ لیا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے لگا، پہلے پتھر سے حملہ کرنے کی کوشش کی پھر گھر سے تیز دھار ہتھیار لے آیا۔ یونس نے جان بچانے کے لیے شور مچایا تو وہاں بھیڑ جمع ہوگئی۔ لوگوں کو جمع ہوتے دیکھ کر جیتندر بھاگ کر اپنے گھر میں گھس گیا اور دروازہ بند کر لیا۔ تاہم یہ سارا واقعہ علاقے میں نصب سی سی ٹی وی میں قید ہو گیا۔
اطلاع ملنے پر پولیس موقع پر پہنچ گئی اور متاثرہ کی شکایت پر ایف آئی آر درج کر کے ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس واقعہ کے سلسلہ میں علاقے میں طرح طرح کے چہ می گوئیاں جاری ہیں۔
وقف املاک کی حفاظت امت مسلمہ پر فرض ہے۔
(مولانا سید معین میاں)
ممبئی : مرین لائن اسلام جمخانہ ممبئی میں پیرطریقت حضرت علامہ مولانا سید معین الدین اشرف اشرفی جیلانی صاحب سجادہ خانقاہ عالیہ، کچھوچہ مقدسہ و صدر آل انڈیا سنی جمعیۃالعلما نے علماے اہل سنت، دانشوران قوم ملت اور بانی رضااکیڈمی الحاج محمد سعید نوری کے ہمراہ وقف ترمیمی بل کے خلاف ایک میمورنڈم جے پی سی کے چیر مین جگد مبیکا پال کو پیش کیا ۔ کثیرتعداد میں علما اور ائمہ وہاں موجود تھے ، جے پی سی کے چیرمین جگدمبیکا پال نے میمورنڈم قبول کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ آپ کے مطالبات میں کمیٹی کے سامنے رکھوں گا، میری کوشش ہوگی کہ وقف کے املاک کو نقصان نہ پہنچے اور کمیونٹی کے افرادا، زیادہ سے زیادہ اس کا فائدہ اٹھائیں ، انھوں نے مزید کہا کہ اس بل میں جو اعتراضات کیے گئے ہیں اس کو دور کرنے کی کوشش کروں گا اورمزید افہام و تفہیم کے لیے میں آپ کو دہلی بلاؤں گا ، اس بل میں جو جو اعتراضات کیے گئے ہیں اس کو دور کرنے کی کوشش کروں گا اور مزید افہام و تفہیم کے لیے میں آپ کو دہلی بلاؤں گا ۔
اس بل میں جو باتیں قابل اعتراض ہے اس کو کمیٹی کے افراد غور کریں گے، عوام الناس میں جو بے چینی پائی جارہی ہے اس کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ معین المشائخ نے کہا وقف املاک کا تحفظ امت مسلمہ پر فرض ہے یہ ہماری پرکھوں کی امانت ہے۔ آپ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی طریقے سے وقف کی کافی جائیدادیں خرد برد کی گئی ہیں لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جو جائیدادیں بچی ہیں اس کا تحفظ یقینی بنائی جائے ۔ حکومت ایسا قانون نافذ نہ کرے جس سے وقف املاک کو خطرہ لاحق ہو، آپ نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ کمیٹی غور و خوض کے بعد جوفیصلہ کرے گی وہ مسلمانوں اور وقف کے حق میں بہتر ہوگا ۔
الحاج محمد سعید نوری نے کہا کہ ایسا کوئی قانون قابل قبول نہیں جو وقف کے مقاصد کےمنافی ہو۔ آپ نے کہا کہ وقف کی جائداد مسلمانوں کے آبا واجدادنے وقف کی ہیں ۔ یہ حکومت کی دی ہوئی جائداد نہیں ہے ، وقف میں مداخلت ، شریعت میں مداخلت ہے کیوں کہ اس کے قانون اسلامی کتابوں میں موجود ہیں۔ اسلام نے اس کے استعمال ، اس کےتحفظ ، اس کی نگرانی کے بارے میں واضح الفاظ میں بیان کیا ہے لہذا ، اسی کے مطابق اس کا حکم نافذ کیا جائے ۔ نئے بل سے پتہ چلتا ہے حکومت کی نیت اس میں شفافیت لانا نہیں ہے بلکہ مالی اعتبار سے اقلیت کو کمزور کرنا ہےہم کمیٹی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس نئے بل کو کالعدم قرار دے، وقف املاک کا تحفظ یقینی بنائے۔
مشہور ایڈوکیٹ جناب رضوان مرچنٹ نے کہا کہ جو وقف کی جائدادیں چلی گئی ہیں وہ تو واپس نہیں آسکتی، مگر ایسا قانون بنایا جائے کہ ذرائع آمدنی وقف کے مقصد کے لیے استعمال ہو، اور وقف کی آمدنی کو اقلیت کے میڈیکل اور تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے ۔ جالنہ سے سید جمیل صاحب سابق ممبر وقف بورڈ نے چیئرمین کے سامنے معروضات گزارشات ، اور اعتراضات پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقف بورڈ کے سی او کے اختیارات کو کلکٹر کو دیے جانے پر کہا کہ اس سے وقف بورڈ کے مسائل بڑھ جائیں گے ، اور وقف بورڈ کا دائرہ اختیارات محدود ہو کر رہ جائے گا، جو تشویش ناک ہے، آخر میں جے پی سی کے چیر مین جگد مبیکا پال نے بھروسا دلایا کہ میں آپ کے تمام مطالبات کو کمیٹی کے سامنے رکھوں گا
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org