نقد و نظر
ایک غلام کا عقیدت مندانہ مطالعہ
از: مبارک حسین مصباحی
اس وقت ہمارے سامنے ” ملفوظات غریب نواز کا تحقیقی جائزہ“ہے ۔ اس کے مولف ہیں فاضل و محقق حضرت حافظ و قاری مفتی محمد منظر مصطفیٰ ناز صدیقی اشرفی دام ظلہ العالی ۔ موصوف قرآن عظیم ، تفاسیر اور احادیث پر بڑی حد تک گہری نگاہ رکھنے والے عربی استاذ اور فتویٰ نویس ہیں ،آپ کے تلامذہ اور مستفیدین کی تعداد بھی قابل ذکر ہے ۔ آپ نے اپنے ملک کی متعدد درس گاہوں اور کچھ عرصہ ساؤتھ افریقہ ماریشش میں تدریسی، فتویٰ نویسی اور دعوتی خدمات انجام دیں ، ان علاقوں میں دور دور تک آپ کے اثرات آج بھی قائم اور تازہ ہیں ۔ ان درس گاہوں کو چھوڑنے کے بعد بھی اہل محبت اور ضرورت مند حضرات آپ کی رہنمائی کے محتاج نظر آتے ہیں۔ انسان کی مقبولیت میں اس کے علم کےساتھ اخلاق اور دیانت داری کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ موصوف بلند پایہ عالم ربانی ہیں، نامور مفتی اور مؤثر داعی ہیں، آپ فطری طور پر انتہائی ملنسار، متواضع اور منکسر المزاج ہیں، عوام و خواص سے مل جل کر رہنے کا مزاج رکھتے ہیں ۔ ماشاء اللہ آپ اچھے خطیب اور مصلح اہل سنت بھی ہیں۔ دور دور تک پروگراموں میں مدعو کیے جاتے ہیں آپ کے خطابات حقائق کی روشنی میں مدلل ہوتے ہیں۔ محقق اور مفتی ہیں اس لیے ہر دعویٰ شریعت کے دائرے میں فرماتے ہیں۔ آپ کے خطابات میں اصلاحی پہلو پورے طور پر روشن ہوتا ہے۔ ہر بات اپنے موثر لہجے میں ارشاد فرماتے ہیں۔ آپ کی انفرادی خصوصیت یہ ہے کہ تقریباً ہر بات اپنے سامعین کے فکر و مزاج اور وسعت علمی کے مطابق پیش کرتے ہیں۔ ہر دور میں بلاغت اسی کا نام رہا ہے، اس رخ سے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوب نوازا ہے۔
موصوف اپنے علم و عمل اور فکر وفن میں اپنے ہم عمر معاصرین میں ممتاز اور قابل رشک ہیں ۔ آپ ایک ذمہ دار قلم کار ہیں، متعدد موضوعات پر آپ کی چھوٹی بڑی متعدد کتابیں منصۂ شہود پر آچکی ہیں۔ چند کتابیں حسب ذیل ہیں:
(1)-سید الاولیا حضرت سید احمد کبیر رفاعی کے ملفوظات
(2)-شانِ علی قرآن و حدیث کی روشنی میں
(3)-کونڈوں کی نیاز کا شرعی حکم
(4)-آیتیں بولتی ہیں
(5)-مکتوبات خواجہ غریب نواز
وغیر ہ قلمی سرمایہ قابلِ ذکر اور لائقِ استفادہ ہے۔
آپ کی نگارشات کی انفرادیت یہ ہے کہ ہر دعوے پر دلائل کے انبار لگا دیتے ہیں ،زبان وبیان آسان اور شیریں ہے، عام طور پر آپ کی باتیں قارئین کے ذہنوں میں اتر جاتی ہیں ۔ آپ کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ ہر سفر کو اور ہر مجلس کو بامقصد بنا لیتے ہیں، وقت ضائع نہیں فرماتے بلکہ اپنے اکا براور معاصرین کی باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی کاوش فرماتے ہیں۔ آپ اپنے اکا بر کے ارشادات کو بڑی حد تک قلم بند فرما لیتے ہیں۔ آپ سرکار غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی کے دربار میں بھی حاضری کی سعادت حاصل کر چکے ہیں ،وہاں درگاہوں اور تاریخی مقامات کے زیارتیں فرمائیں آپ کے استاذ گرامی حضرت مولانا مفتی محمد نور الحق نوری دامت بر کا تہم العالیہ تحریر فرماتے ہیں :
” بغداد شریف میں حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی مسجد کے شاہی امام صاحب جو وہاں کے مفتی بھی ہیں ان سے ایسے ملے کہ انہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ اسی طرح حضرت سیدنا شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے آستانہ کے خادم اور سیدنا امام غزالی علیہ الرحمہ کے اہل خاندان سے شناسائی حاصل کر لی۔ حضرت سید نا بشر حافی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے آستانے کے قریب جو مسجد ہے ماشاء اللہ وہاں کے امام صاحب کا کیا کہنا، بڑی پر نور شخصیت کے مالک ہیں ان سے بھی قربت حاصل کر لی۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہمیشہ یوں ہی فیضانِ اولیا ئے کرام سے مالا مال فرمائے ۔“(ص:16)
ملفوظات، بزرگان دین کی مجلسی گفتگو کے نتائج ہوتے ہیں۔ ان روحانی نشست گاہوں میں ایک سے ایک سالکانِ طریقت ہوتے ہیں اور بعض خدمت گزار بھی۔ چند سامعین و حاضرین اپنی اپنی یاد داشتوں کے مطابق ملفوظات نقل کرتے ہیں۔ اگر ایک ہی ملفوظ کو متعدد افراد نے نقل کیا تو ان میں معنیٰ ومراد کی یکسانیت کے ساتھ الفاظ کی تعبیر میں قدرےفرق ہو جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ جو مکتوبات مشائخ ہوتے ہیں ان کو یا تو مشائخ اپنے قلم سے نوٹ فرماتے ہیں یا بول کر اپنے کسی معتمد سے املا کراتے ہیں ۔ بہر صورت ملفوظات ہوں یا مکتوبات دونوں کی علمی اور روحانی اہمیت مسلم ہے۔ مشائخ جتنے بڑے ہوتے ہیں اتنے ہی بڑے علم و عمل کے پیکر ہوتے ہیں، ہر روحانی شخصیت کا کسی در س گاہ میں پڑھنا ضروری نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے انھیں علم لدنی عطا فرما دیتا ہے ۔ کتنے ہی مشائخ کے سچے واقعات ہیں کہ بہ ظاہر قرآن عظیم کی تلاوت تجوید کے مطابق نہیں کر پاتے، علم ظاہرکے ماہر علما نے ان کی ادائیگی پر اعتراضات کیے مگر جب روحانیت کے حیرت انگیز کارنامے سامنے آئے تو علما کے سر ان اولیاے کرام کے قدموں میں پڑے تھے اور ظاہری علوم کی دستاریں اٹھا کر اولیا و مشائخ کی دہلیزوں پر جبیں سائی کرتے نظر آئے۔
آپ نے ” خواجہ غریب نواز کے ملفوظا ت کا تحقیقی جائزہ“ کے عنوان سے 368 صفحات کی علمی اور روحانی دستاویز مرتب فرمائی ہے، واقعہ یہ ہے کہ آپ نے بڑی حد تک لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے ۔ آپ نے کتاب کے آغاز میں” مختصر احوال زندگی“ کے موضوع پر طویل تحریر رقم فرمائی ہے ۔ حق اور سچ یہ ہے کہ آپ نے اپنی دانست کے اعتبار سے بڑی جامعیت کے ساتھ خواجۂ خواجگان سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز سید معین الدین حسن سنجری چشتی اجمیری قدس سرہ کے احوال رقم فرمائے ہیں، بارگاہ خواجہ غریب نواز خاک ہند کی عظیم درگاہ ہے اس درگاہ میں دنیا بھر سے عشاق حاضری کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور ان کے طفیل زائرین کو اللہ تعالیٰ بے پناہ نوازتا ہے ۔ علما اور مشائخ تو اس درپاک کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتے ہیں، عوام کا عالم یہ ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو، سکھ اور عیسائی وغیرہ بھی ان کی چوکھٹ پر آآ کر روتے ہیں، اور اپنے دل کی مرا دیں پاتے ہیں۔ بڑے بڑے سلاطین بھی اس مقدس دربار میں آنکھیں ملتے رہے ہیں ،یہ تاریخی آثار آج بھی دربار معلیٰ کے ارد گرد دیکھے جا سکتے ہیں ۔ آپ کی شخصیت پر کثیر کتب لکھی جا چکی ہیں ۔ مغل بادشاہوں نے تو اپنی عقیدتوں کی انتہا کردی تھی۔ دارا شکوہ نے ”سفینۃ الاولیا“میں جس عقیدت کا اظہا ر کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغلوں کو اس بابرکت بارگاہ سے کتنی عقید ت و محبت تھی۔ شاہ جہاں کی بیٹی جہاں آرا بیگم نے اپنی معروف کتاب ”مونس الارواح“میں اپنی وارفتگی اور شیفتگی کا حق ادا کر دیا ہے۔ آپ کی کتاب غریب نواز کے احوال و آثار پر معتبر ماخذ سے ہے۔ آپ نے ملفوظات اور ارشادات بھی جمع فرمائے ہیں ،ان میں سے43 ملفوظات ہمارے مفتی موصوف نے بھی نقل فرمائے ہیں ۔ ان میں چند ملفوظات ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں۔
(1) -عاشق کا دل محبت کا آتش کدہ ہے۔ جو کچھ اس میں آتا ہے نا چیز (فنا اور نا پید )ہوجاتا اور جل جاتا ہے۔ کیوں کہ کوئی آگ آتش محبت سے بالا تر نہیں ہے۔
(2)- تم ندیوں اور نہروں کے آب رواں کی شورش اور آوازیں سنتے ہو ، مگر جیسے ہی دریا میں بہتی ہیں ، وہ خاموش ہو جاتی ہیں اور سکون پا جاتی ہیں ۔ اسی طرح جب کوئی طالب حق واصل الی اللہ ہو جاتا ہے تو محبت کا جوش و خروش اور آہ وزاری ختم ہو جاتی ہے، سکون ہو جاتا ہے۔
(3)- جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہوں حق تعالیٰ اس کو دوست رکھتا ہے۔ اول : دریا کی سی سخاوت۔ دوسری سورج کی سی شفقت۔ تیسری : زمین کی سی عاجزی و تواضع ۔
(4) -نیکوں کی صحبت نیک کام سے بہتر ہے اور بدوں کی صحبت بدکاری سےزیادہ بری ہے۔
(5) -مرید تو بہ میں اس وقت ثابت قدم بنتا ہے کہ بائیں کاندھے کا فرشتہ بیس سال تک اس پر کوئی گناہ نہ لکھے۔
(6) -چار چیزیں مردِ خدا کے نفس کا گوہر ہیں ۔ اول : درویش جو اظہارِتو نگری کرے ۔ دوسرا : بھوکا جو سیری دکھائے ۔ تیسرا: اندوہ گیں ( رنج و غم کا مارا ) جوخوشی کا ظہار کرے۔ چوتھا : جو دشمن سے دوستی برتے ۔
(7)- مومن کامل وہ ہے جو تین چیزیں رکھتا ہو ۔ اول : درویشی ، دوم : بیماری ، سوم : موت۔ اور جو یہ تین چیزیں رکھتا ہو، خدائے تعالیٰ اور فرشتے اس کو دوست رکھتے ہیں اور اس کا بدلہ بہشت ہے۔
(8)- درویشی یہ ہے کہ جو بھی مومن بندہ اس کے پاس حاجت لے کر آئےاُسے محروم واپس نہ لوٹائے۔
(9) -راہ محبت میں عارف وہ ہے کہ اپنے دل کو کونین سے اٹھا لے ۔ حقیقت میں متوکل وہ شخص ہے جو مخلوق سے رنج و تکلیف اٹھائے ، لیکن کسی سے شکایت نہ کرے اور نہ کسی سے اس کا ذکر کرے۔
(10)- عارف کی پہچان موت کو عزیز رکھنا ہے،راحت کا ترک کرنا ہے اوراللہ کے ذکر سے محبت رکھنا ہے۔
(11) -عارف وہ ہے جب صبح کو اٹھے تو اُسے رات یاد نہ آئے ۔ درویش اور عارف کا بہترین وقت وہ ہے جب اس پر وساوس ( شیطانی خیالات ) کادروازہ بند ہو۔
(10)- علم ایک گہرا سمندر ہے، جو ہر شے کا احاطہ کیے ہوئے ہے اورمعرفت اس سمندر کی ایک نہر ہے ۔ پس خدا کہاں اور بندہ کہاں ۔ علم خدا کے لیے سزاوار ( لائق ) ہے اور معرفت بندے کے لیے۔
(13) -عرفا آفتاب کی مانند ہیں کہ ہر چیز پر چمکتا ہے، ان حضرات کےانوار سے تمام عالم روشن ہے۔
(14) -میں نے مدتوں خانۂ کعبہ کے گرد طواف کیا ہے، مگر جب حق تعالیٰ تک پہنچا، کعبہ میرے گرد طواف کرتا ہے ( یعنی میں بقا باللہ سے متصف ہوں )۔
(15) -میں نے ”ریاحین“ میں لکھا ہوا دیکھا ہے کہ ایک بار حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسی جماعت سے گزرے جو ہنس رہی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں سلام کیا۔ سب نے اٹھ کر جواب دیا اور ادب کا سرزمین پر رکھا۔ حضرت سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو ! کیا تم قبر سے گزر گئے ہو؟ عرض کیا : نہیں۔ فرمایا : حساب سے چھوٹ گئے ہو؟ عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: دوزخ سے نجات پا گئے ہو؟ عرض کیا : جی نہیں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پس تمھیں کس چیز نے اس پر آمادہ کیا کہ ہنستے ہو۔ اس کے بعد ان کو کبھی بھی کسی نے ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔
(16)- عارف اس شخص کو کہتے ہیں کہ اگر ہر روز لاکھوں اسرار تجلی اس پرنازل ہوں تو ان کا ایک شمہ ( ذرہ برابر) بھی ظاہر نہ کرے۔
(17)- عارف وہ ہے کہ اگر تمام علوم جانے اور ان کے لاکھوں معنی ظاہرکرے اور ہر وقت معنی کے سمندر میں شناوری کرے تا کہ اسرار و انوار الٰہی کا کوئی موتی باہر لائے ، پھر بھی یہ جاننے کے لیے کہ وہ واقعی عارف ہے، اس موتی کو معرفت کے کسی دیدہ ور جو ہری پر پیش کرے۔
(18)- اہل محبت کی تو بہ تین قسم کی ہوتی ہے : اول : ندامت ، دوم : ترک معصیت، سوم :ظلم سے پاک وصاف رہنا۔
(19)- حق سبحانہ و تعالیٰ کے دوست تین صفات سے متصف ہوتے ہیں۔ اول : روزہ دار کی سی غذا۔ دوم : دوام نماز ۔ سوم : استقامت ذکر ۔
(20) -محبت میں سچا وہ ہے کہ جب اس کو کوئی بلا پہنچے خوشی خوشی اس کو قبول کرے ۔ میں نے ”اسرار الاولیاء“ میں لکھا ہوا دیکھا ہے کہ جس وقت رابعہ بصری، مالک دینار اور شیخ شقیق بلخی ایک ساتھ بیٹھے تھے اور صدق اخلاص و دوستی مولیٰ تعالی کی بات ہو رہی تھی اور ہر ایک اپنی بات کہہ رہا تھا۔ جب حضرت رابعہ کی باری آئی تو فرمایا: مولیٰ کی دوستی میں سچا وہ ہے کہ جب کوئی درد و الم اس کو پہنچے تو دوست کےمشاہدے میں اس کو بھلا دے۔
(21) -ایک بار میں ایک صاحب حال بزرگ کے ساتھ ایک قبر کے سرہانے بیٹھا تھا اور فرشتے صاحب قبر کو عذاب دے رہے تھے ۔ اس بزرگ نے جب اس حال کا مشاہدہ کیا تو ایک نعرہ لگایا اور جان دے دی ۔ ایک ساعت بھی نہ گزری تھی کہ وہ پگھل کر پانی ہو گئے اور نا پید ہو گئے۔
(22)- اے عزیزو! زیر خاک سوئے ہوؤں کے حال کو جو کہ قبر کی قید میں کیڑوں، سانپوں، بچھوؤں کے عذاب میں گرفتار ہیں ۔ (اگر تم ) ذرہ برابر جان لو کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہورہا ہے تو اس کی ہیبت سے نمک کی طرح پگھل جاؤ۔
(23)-نماز میں جس قدر اطمینان، حضوری قلب و مشغولی ہوتی ہے، اسی قدر قرب الٰہی کی دولت حاصل ہوتی ہے۔
ملفوظات کا یہ سلسلہ اتنا مفید اور کارآمد ہے کہ ہمیں انتخاب کرنا مشکل ہو گیا اس لیے کچھ زیادہ ہی پیش کر دیے، ہو سکتا ہے کسی قاری کی زندگی میں ان کے اثرات مرتب ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
”دلیل العارفین“ حضرت خواجہ غریب نواز کے ملفوظات کا معروف مجمو عہ ہے،ہمارے مفتی صاحب نے اس کے علاوہ دیگر ماخذ سے بھی ملفوظات جمع فرمائے ، آپ کی توضیح اور تشریح کا انداز یہ ہے کہ پہلے قرآن اور احادیث نبویہ کی روشنی میں سیر حاصل بحث فرماتے ہیں، ذیل میں وضاحت بھی رقم فرماتے ہیں۔ پھر صوفیانہ اقوال کی وضاحت سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور پھردیگر بزرگوں کے ارشادات نقل فرماتے ہیں۔ آپ بذات خود فقہ حنفی کے مفتی ہیں اس لیے عام طور یہ فقہی جزئیات بھی پیش فرماتے ہیں۔
حاصل گفتگو یہ کہ آپ نے ملفوظات سے علوم و معارف کے خزانے حاصل کیے ہیں ،بزرگوں کے اقوال و ملوظات مختصر اور جامع ہوتے ہیں ۔آپ نے اپنے تحقیقی جائزے میں انھیں سمجھنے اور سمجھانے کی بھرپورشش فرمائی ہے۔ ہم ذیل میں ایک ملفوظ پیش کرتے ہیں:
” پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”لا ایمان لمن لا صلوۃ لہ “ ۔ یعنی جس کی نماز نہیں ، اس کا ایمان نہیں ۔ میں نے شیخ الاسلام خواجہ عثمان ہارونی رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ امام زاہد کی تفسیر میں لکھا ہے : ” فَوَيْلٌ لِلمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلوتِهِمْ سَاهُون “۔ ”ویل“ دوزخ میں ایک کنواں ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ دوزخ کی ایک وادی ہے، جس میں سخت سے سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو نماز میں غفلت کرتے ہیں۔( دلیل العارفین ،ص: ۱۳ )
اس مقدس ملفوظ کے ذیل جائزہ نگار کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:
اللہ رب العزت ہمیں پنج وقتہ نماز با جماعت پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ! نماز چھوڑ نا کافرانہ عمل اور مشرکا نہ فعل ہے ۔ اس سے بندے کا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں ہمیں نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے متصل یہ وعید بھی سنائی گئی ہے کہ کافروں اور مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ۔ چوں کہ کفار و مشرکین نماز نہیں پڑھتے ہیں، اس لیے جان بوجھ کر نماز نہ پڑھنا گو یا کافروں جیسا عمل ہے۔ چنانچہ اللہ رب ذوالجلال کا فرمان ہے:۔
وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ “
ترجمہ: اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہو جاؤ۔ (پارہ 21 ، الروم، آیت: 30)
یہ وعید سن کر ہر تارک صلوٰۃ کولرز جانا چاہیے اور صدق دل سے تو بہ واستغفار کر کے آج ہی نماز کی پابندی شروع کر دینی چاہیے۔ قرآن مجید میں مذکور ہے کہ کل قیامت کے دن جب اہلِ جہنم ، دوزخ میں ڈال دیے جائیں گے تو ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کو جہنم میں کس چیز نے ڈالا تو وہ بڑی حسرت اور افسوس کے ساتھ جواب دیں گے کہ ہم دنیا میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اللہ اکبر ،نعوذ باللہ منہ۔ چنانچہ سورہ مدثر میں ہے:
”مَا سَلَكُكُمْ فِي سَقَرَ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ “
( اور لوگ اہلِ جہنم سے کہیں گے کہ) تمھیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی ۔ وہ کہیں گے : ہم نماز پڑھنے والوں میں نہ تھے۔
(پاره 29 ، سورۃ المدثر ، آیت نمبر : -42، 43)
طویل گفتگو میں سے کچھ ہم نے پیش کر دیا، اب نماز اور جماعت چھوڑنے پر وعیدیں احادیث نبویہ کی روشنی میں پیش کی ہیں، ہم صرف ایک حدیث پر اکتفا کرتے ہیں:
(1) عن أبي هريرة رضى الله عنه أَنَّ رَسُولُ الله صلى الله عليه و آله و سلم قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَمُرَ بِحَطَبٍ فَيُعْطَبَ ثُمَّ أَمُرَ بِالصَّلَاةِ فَيُؤَذِّنَ لَهَا ، ثُمَّ آمُرَ رَجُلاً فَيَؤُمَّ النَّاسَ ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ فَأُحَزِقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ . وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لَو يَعْلَمُ أَحَدُهُمْ أَنَّهُ يَجِدُ عَرْقًا سَمِينًا أَوْ مِرْمَاتَيْنِ حَسَنَتَيْنِ لَشَهِدَ الْعِشَاءَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! میرے دل میں خیال آیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کا حکم دوں تو اس کے لیے اذان کہی جائے۔ پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ لوگوں کی امامت کرے، پھر میں ایسے لوگوں کی طرف نکل جاؤں ( جو بغیر کسی عذر شرعی کے نماز با جماعت میں حاضر نہیں ہوتے ) اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر ان میں سے کوئی جانتا کہ اسے ہڈی والا گوشت یا دوعمدہ پائے ملیں گے تو وہ ضرور نماز عشا میں شامل ہوتا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ ( بخاری 231/1، رقم الحدیث : 618 ، مسلم ، 451/1، رقم الحدیث :651)
ایمان اور کفر کے درمیان حد فاصل نماز ہے :عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيِّ صلى الله عليه و آله و سلم يَقُولُ : إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ.
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بیشک انسان اور (اس کے ) کفر و شرک کے درمیان(فرق) نماز کا چھوڑنا ہے۔(مسلم1/87 رقم الحدیث : 134)
عن عبد اللہ بن شقیق قال: کان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لا یرون شیئا من الاعمال ترکہ کفر غیر الصلاۃ.
حضرت عبد اللہ بن شقیق العقیلی فرماتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نماز کے سوا کسی دوسرے عمل کے ترک کو کفر نہیں گردانتے تھے۔ یعنی نماز اس قدر مہتم بالشان فرض اور دین کا جزوِ اعظم ہے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہ وسلم اجمعین نماز چھوڑنے کو کفر سمجھتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ قصداً نماز ترک کرنے والا مومن کیسے ہو سکتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، حدیث نمبر :579)
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی اللہ عنہ قَالَ : أَوْصَانِي خَلِيلِی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : أَنْ لَا تُشْرِكَ بِاللہِ شَيْئًا وَإِنْ قُطِعْتَ وَحُرِّقْتَ ، وَلَا تَتْرُكَ صَلَاۃٌ مَكْتُوبَۃٌ مُتَعَمِّدًا ، فَمَنْ تَرَكَہَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ الذِّمَّۃُ ، وَلَا تَشْرَبٍ الْخَيْرَ ، فَإِنَّہَا مِفْتَاحُ كُلِّ شَرٍ .
ترجمہ : حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی : تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ، چاہے تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں اور تجھے جلا دیا جائے اور جان بوجھ کر کوئی فرض نماز نہ چھوڑنا کیوں کہ جو جان بوجھ کر نماز چھوڑتا ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کا ذمہ ختم ہو جاتا ہے اور شراب نہ پینا، کیوں کہ شراب تمام برائیوں کی کنجی ہے۔
(مشکوۃ المصابیح، کتاب الصلوة، رقم الحدیث :580)
بلا شبہ پیش نظر کتاب علم و عرفان کا بیش قیمت گنجینہ ہے ، مصنف بذات خود عالمِ باعمل اور سالکِ راہِ طریقت ہیں، بزرگوں کےملفوظات اپنے اندر شریعت کے ساتھ طریقت کے رموز و اسرار بھی رکھتے ہیں، انھیں قرآن اور احادیث نبویہ کی روشنی میں سمجھنا اور پھر شریعتِ طاہرہ کے تیز اجالوں میں ان کی تفہیم و توضیح بڑی سعادت مندی کی بات ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک عارف باللہ کے اقوال اور ملفوظات کی فہم و تفہیم انتہائی مشکل کام ہے۔ ایک شعر اگر عام شاعر کا ہو اور اسی طرح کا شعر ایک اللہ تعالیٰ کے ولی کا ہو اور دونوں میں بہ ظاہر کوئی خلافِ شرع نظر آئے تو دونوں کے مفہوم و مراد میں فرق ہوگا ، یہ فرق و امتیاز وہی کر سکتا ہے جو شریعت کے ساتھ طریقت کی باریک نزاکتوں سے بھی باخبر ہو۔ ہم نے یہ اجمالی گفتگو بڑی احتیاط سے کی ہے۔ ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ محب گرامی وقار حضرت مولانا مفتی منظر مصطفیٰ ناز صدیقی اشرفی دام ظلہ العالی کم عمری میں طریقت کی راہ پر گام زن ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں برکتیں اور مزیدروحانی نعمتیں عطا فرمائے۔ آمین
ہماری دعا ہے مولا تو اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے طفیل ان ہی کے خانوادے کے چشم و چراغ سلطان الہند خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ملفوظات کو قبول عام عطا فرمائے اور حضرت مفتی مصنف کی بے کراں محنت کو دارین کی سعادتوں سے شادکام فرمائے، آمین۔ بجاہ سید المرسلین، علیہ الصلوٰۃ والتسلیم۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org