گوشۂ ادب
طفیل احمد مصباحی
غوث العالم،تارک السلطنت، محبوبِ یزدانی حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس (متوفیٰ : ۸۰۸ ھ ) کی تہہ دار فکر و شخصیت میں بڑی کشش اور جامعیت پائی جاتی ہے ۔ آپ کی ذاتِ گرامی مجمع البحرین کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ اپنے وقت کے جید عالمِ دین ، مایۂ ناز فقیہ ، ممتاز محدث و مفسر، مرجعِ انام شیخ اور درجنوں خانوادۂ طریقت سے اکتسابِ فیض کرنے والے صوفیِ کامل تھے ۔ چودہ سال کی عمر شریف میں مروجہ علوم و فنون میں مہارت و حذاقت حاصل کرنے والے آپ وہ یگانۂ روزگار فاضل ہیں جن کے علم کا ڈنکا عراق و ایران اور سمنان و توران میں بجا ۔ تذکرہ نگاروں نے آپ کی ولایت و روحانیت کو زیادہ اہمیت دی ہے اور علومِ باطنی میں آپ کی شہنشاہی و سرفرازی کو نمایاں طور پر بیان کیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ علومِ ظاہری میں آپ کے مقامِ امتیاز و انفراد کا پہلو دب کر رہ گیا ہے ۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ آپ بیک وقت علومِ ظاہری و باطنی کے مسلم الثبوت امام تھے ۔ حضرت علامہ عبد الرحمٰن چشتی ( مصنف مرأۃ الاسرار ) اور محقق علیٰ الاطلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی ( مصنف اخبار الاخیار ) نے آپ کی علمی جلالت کا اعتراف کیا ہے ۔ مصنفِ ” بحرِ زخار “ شیخ وجیہ الدین اشرف لکھنوی نے ظاہری و باطنی علوم کی آپ کے تبحّر و تفوّق کو ان الفاظ میں اجاگر کیا ہے :
محب و محبوبِ خدا ، تارکِ تاج و سریر ، کلیدِ فتحِ مہمات کارخانۂ تقدیر ، خلاصۂ خاندانِ بشر بآیتِ انما ، نقاه و دودمان متصف بكريمہ هل اتیٰ ، تفسیرِ ان الله على كل شیئ قدير ، غوثِ اکبر حضرت سلطان میر سید اشرف جہانگیر بن سید ابراہیم ........... حق سبحانہ و تعالی نے آپ کو اتنی برکتیں اور سعادتیں عطا فرمائی تھیں کہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ سلطان المشائخ نظام الدین احمد بدایونی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد آپ ہی نے ہدایت و مشیخت کی مسند کو زندہ رکھا ۔ حقائق و معارف ، احادیثِ مصطفویہ اور اقوالِ مرتضوی کے بیان میں اپنے زمانے میں بے نظیر تھے۔ تواجد ، سماع ، عشق ، صفا ، بذل ، ایثار اور انکسار میں یکتاے عصر تھے ۔ آپ کی شان شاہان زمانہ کی شان سے بڑھ کر ہے ۔ آپ کا کمال کُملانِ کامل کے کمال سے اکمل ہے ۔ آپ مہرِ سپہرِ سروری ، ماہِ آسمان رہبری ، مملکتِ حق الیقین کے صدر نشیں اور عین الیقین کی مملکت کے بادشاہ ، اللہ کے علاوہ ہر چیز کو چھوڑنے والے ، ” لی مع الله “ فرمانے والے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے فرزند ، درختِ احسان کے پھل ، بلند شان واصلینِ حق کی جماعت کے سردار ، حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علوم کے وارث ، حضرت علی مرتضیٰ کے خوارق کے مظہر اور کربلا کے شہیدِ شاہد کے فرزند اور فرزندِ شاہدِ شہید کربلا ہیں ۔ رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سمندر کا ایک قطرۂ آب ، دین و دنیا کے مہمات کی فتح کرنے کی کنجی ، کلام کے بوڑھے لنگڑے گھوڑے کی کیا مجال کہ آپ کی منزل قرب کے میدانِ نا پیدا کنار میں قدم رکھے ........... حضرت سید اشرف جہانگیر مادر زاد ولی تھے ۔ علم لدُنّی کے دروازے ان پر کھلے ہوئے تھے ۔ سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا ۔ بارہ سال کی عمر میں تمام علوم سے فراغت حاصل کی ۔
) بحرِ زخار مترجم ، جلد اول ، ص : 509 ، 511 ، ناشر : جمیع طلبہ و طالبات جامعہ شمس العلوم ، گھوسی ، ضلع مئو (
اسلامیات کے علاوہ ادبیات میں بھی آپ کا پایۂ عظمت مسلّم و مستحکم ہے ۔ ایک بلند پایہ مصنف ، مترجمِ قرآن ، قادر الکلام شاعر اور عربی و فارسی زبان کے ممتاز ادیب کی حیثیت سے بھی آپ کی ایک منفرد شناخت ہے ۔ مقامِ شکر و اطمینان ہے کہ عصری دانش گاہوں سے تعلق رکھنے والے اربابِ علم و تحقیق ( ادبا و محققین اور پروفیسر حضرات ) بھی اب اس بات کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ اردو کے پہلے مصنف ہیں اور زبان و ادب کے فروغ و استحکام میں دیگر صوفیا و مشائخ کی طرح حضرت مخدوم اشرف نے بھی اہم کردار کیا ہے ۔ راقم الحروف کی نظر میں اس قسم کے نصف درجن شواہد موجود ہیں ۔ ماضی قریب کے مشہور محقق و ناقد پروفیسر اختر اورینوی ( صدر شعبۂ اردو پٹنہ یونیورسٹی ، پٹنہ ، بہار ) اپنے تحقیقی مضمون " بولیوں کا سنگم " میں لکھتے ہیں :
دہلی اور بہار اسکول میں مماثلت ضرور ہے ۔ لیکن ہر دو نے ایک دوسرے پر اثر ڈالتے ہوئے انفرادی طور پر ترقی کی ہے اور دونوں اسکول از خود پیدا ہوئے ۔ میر حسن کے استاد میر ضیاؔ دہلی سے عظیم آباد چلے آئے ۔ اشکؔی اور جمالؔی نے خواجہ میر دردؔ سے اصلاحیں لیں ، مگر اس کو کیا کیجیے کہ خود میر تقی میرؔ ، جعفرؔ عظیم آبادی کے شاگرد تھے ۔ راسخؔ عظیم آبادی اور جوششؔ عظیم آبادی کی شاعری میرؔ و سوزؔ کی شاعری کا جواب ہے۔ غالبؔ نے بیدلؔ عظیم آبادی کے کلام کو سامنے رکھ کر مشقِ سخن کی ۔ موجودہ تحقیقات کی بنا پر تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ امیر خسروؔ اور حضرت خواجہ سید اشرف جہانگیر سمنانی کے بعد دہلی اور صوبۂ متحدہ میں اُردو کو اُس وقت تک فروغ نہ ہوا ، جب تک ولؔی دکنی نے دہلی کے تخیل کو آ کر نہ چھیڑا ۔ ( تحقیق و تنقید ، ص : ۳۰ ، ناشر : کتابستان ، الہٰ آباد )
محتاط اندازے کے مطابق حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ نے مختلف دینی و علمی موضوعات پر دو درجن سے زائد کتب و رسائل تحریر کیے ۔ آپ کی گراں قدر تصانیف ، ملفوظاتِ عالیہ اور مکتوباتِ شریفہ سے آپ کی علمی جلالت اور علومِ دینیہ میں آپ کے رسوخ و مہارت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ بالخصوص ”لطائفِ اشرفی “ اور ”مکتوباتِ اشرفی ؔ دو ایسے بیش قیمت علمی و روحانی تصنیف ہے ، جس کی سطر سطر سے آپ کی وسعتِ علم اور مہارتِ فن مترشح ہوتی ہے ۔ ان دونوں کتابوں کو علوم و معارف کا گنجینہ اور حقائق و دقائق کا خزانہ سمجھنا چاہیے ۔ راقم الحروف پوری ذمہ داری کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ لطائفِ اشرفی اور مکتوباتِ اشرفی سے مختلف موضوعات پر دو درجن کتب و رسائل وجود میں آ سکتے ہیں ۔ صوفیائے کرام اور مشائخِ امت کو علمی افلاس کا طعنہ دینے والے بنظرِ انصاف و دیانت ان دو کتابوں کا مطالعہ کریں اور حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کی جلالتِ علمی کی داد دیں ۔ آپ کے علمی مقام و مرتبہ کی بلندی اور تصانیفِ عالیہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر سید وحید اشرف کچھوچھوی ( ایم اے، پی ایچ ڈی ) لکھتے ہیں :
حضرت سید اشرف جہانگیر رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے وقت کے بیشتر مروّجہ علوم و فنوں میں دستگاہ تھی ۔ قرآن مجید ، حدیث اور فقہ پر گہری نظر رکھتے تھے ۔ علم تصوف میں کامل درک تھا ۔ قوتِ حافظہ ایسی تھی کہ ایک سال کی مدت میں ہفت قرأت کے ساتھ قرآن شریف حفظ کر لیا ۔ آپ کی تصانیف میں " فتاویٰ اشرفیہ " کا بھی ذکر ملتا ہے ۔ ایک طرف اگر آپ کی عملی زندگی ترکِ دنیا کا مفہوم پیش کرتی ہے تو دوسری طرف آپ کا تفقہ یہ بتاتا ہے کہ راہِ طریقت کے رہبر علمِ دین میں کسی سے کم نہیں ہوتے ۔ آپ کے ملفوظات ، تصانیت اور خطوط آپ کی علمی قابلیت پر شاہد عادل ہیں ۔ ” لطائفِ اشرفی “ خود آپ کی وسعتِ علم اور علمی بصیرت کا پتہ دیتی ہے ۔ یہ کتاب تصوفِ اسلامی کی تمام بنیاد بنیادی کتابوں کا نچوڑ ہے ۔ اس میں تصوف کے مختلف مسائل کو عالمانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے اور حکایات و واقعات اور مثالوں کے ذریعے ان کی مزید تشریح کی گئی ہے ۔ فارسی ادب سے بھی آپ کو گہری دلچسپی تھی ۔ لطائفِ اشرفی میں سینکڑوں اشعار مختلف شعرا کے موجود ہیں ۔)حیاتِ سید اشرف جہانگیر سمنانی ، ص : 201 ، مطبوعہ : سرفراز قومی پریس ، لکھنؤ (
”لطافِ اشرفی “کی طرح ”مکتوباتِ اشرفی “آپ کے رُشحاتِ فکر و قلم کا وہ خوب صورت اور بیش بہا مجموعہ ہے ، جو علوم و معارف ، حقائق و دقائق، صوفیانہ احوال و مقامات اور متصوفانہ مسائل و مباحث پر مشتمل ہے ۔ آپ نے یہ مکتوبات اپنے تلامذہ و خلفا ، مریدین و مسترشدین ، امرائے عصر اور سلاطینِ وقت کے نام ارسال کیے ہیں ۔ اس مجموعہ میں شامل ہر مکتوب علم و روحانیت کا گراں قدر خزانہ ہے ۔ مقامِ افسوس ہے کہ ملفوظات کی طرح آپ کے مکتوباب پر خاطر خواہ کام نہیں ہوا ، یہی وجہ ہے کہ آپ کی مکتوب نگاری اور آپ کے بیش بہا خطوط و مکاتیب کا حال لوگوں پر کما حقہ اجاگر نہ ہو سکا ۔ چند سال پیشتر پڑوسی ملک پاکستان سے آپ کے مکاتیب کا ترجمہ شائع ہوا ہے ، جو خوش آئند اقدام ہے ۔آپ کے مکتوبات کے مطالعہ سے فکر و نظر کی گرہیں کھُلتی ہیں اور شعور و بصیرت کا چراغ روشن ہوتا ہے ۔ دورِ حاضر کے علما و مشائخ اور اساتذہ و طلبہ کو ان مکتوبات کا ضروری مطالعہ کرنا چاہیے ۔ حضرت مخدوم پاک نے اپنے خطوط میں سلوک و تصوف اور معرفت و طریقت کے بہت سارے مخفی گوشوں کا اجاگر کیا ہے اور وہ اسلامی موضوعات جو صوفیائے کرام کے یہاں کافی اہمیت کے حامل ہیں ، ان پر شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے ۔ آپ کے مکتوبات کی اہمیت و جامعیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر سید محمد اشرف جیلانی (پاکستان ) لکھتے ہیں :
مکتوباتِ اشرفی ، حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے ان مکتوبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے مختلف اوقات میں مریدین و معتقدین اور باشاہانِ وقت کو تحریر فرمائے ۔ ان مکتوبات میں آپ نے اللہ عز و جل کی وحدانیت ، الوہیت ، نبوت و رسالت ، نظریۂ وحدت الوجود ، عقائدِ صوفیا ، صوفیاے کرام کے مقامات و مراتب ، خلفائے راشدین کے مناقب ، شیخ سے حسنِ عقیدت ، مراتبِ توحید ، صوفیا کی صحبت کے اثرات ، خواب کی حقیقت ، ارادتِ پیر کی شرائط ، نمازِ تہجد ، شب بیداری کی فضیلت ، قبورِ اکابرین کی زیارت کے فوائد ، ذکرِ نفی و اثبات ، ذکر میں استغراق کی کیفیت ، راہِ سلوک کی مشکلات ، اصطلاحات صوفیا ، فرعون کی موت اور اس کے ایمان کا مسئلہ ، منصبِ قضا اور اس کے آداب ، سلوک کی ترغیب و تحریص ، ساداتِ ہندوستان کے نسب کا بیان ، اطوارِ ثلاثہ ، حدیث قدسی کا ترجمہ و تشریح ، رجال الغیب ، حضرت خضر علیہ السلام کے احوال ، راہ سلوک میں صبر ، عشق کے دلائل و مراتب مع چند نکات ، توحید و معرفت کے مراتب ، سلاسلِ اربعہ ، فقر و غنا ، حضرت مولیٰ علی اور اہل بیت ، عشرۂ مبشرہ ، مشائخِ معمریہ کے تبرکات ، ارباب تصوف کے لطائف اور بزرگانِ دین کے حالات و واقعات بیان فرمائے ہیں ۔ آپ نے بادشاہانِ وقت کو جو خطوط لکھے ہیں ، ان میں انہیں عدل و انصاف سے حکومت کرنے اور شربت و سنت کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے ۔ سلاطین کو نصیحتیں کیں اور انہیں استحکامِ سلطنت کے طریقے بتائے ۔ آپ کے یہ خطوط عصرِ حاضر کے سلاطین اور اربابِ اقتدار کے لیے آج بھی مشعلِ راہ ہیں اور طالبانِ راهِ سلوک و مشائخینِ طریقت کے لیے رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ چشمِ بینا سے دیکھا جائے تو ہر مکتوب اپنے اندر علم و معرفت و روحانیت کا ایک سمندر لیے ہوئے ہے ۔(سید اشرف جہانگیر سمنانی کی دینی ، علمی اور روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ، ص : 189 ، ناشر : کلیہ معارفِ اسلامیہ جامعہ کراچی ، پاکستان )
ثانیِ بو حنیفہ حضرت شیخ صفی الدین حنفی ردولوی :
حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے نامور خلفا میں علمی لحاظ سے ملک العلما قاضی شہاب الدین دولت آبادی اور ثانیِ بو حنیفہ حضرت شیخ صفی الدین حنفی ردولوی علیہما الرحمہ نہایت بلند اور ممتاز مقام کے حامل گذرے ہیں ۔ شیخ صفی الدین ردولوی ، قاضی شہاب الدین دولت آبادی کے سگے نواسے اور سلسلہ چشتیہ صابریہ کے نامور بزرگ حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی کے سگے دادا تھے ۔ شیخ صفی الدین مروجہ علوم و فنون میں اجتہادی بصیرت کے مالک تھے ۔ لطائفِ اشرفی اور مرأۃ الاسرار کے بیان کے مطابق خود حضور مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنے اس لائق و فائق مرید و خلیفہ کی علمی لیاقت اور فنی بصیرت کا اعتراف کیا ہے ۔ درسِ نظامی کی متعدد کتابوں کے شروح و حواشی آپ نے تحریر کیے ہیں ۔ ” الثقافۃ الاسلامیۃ فی الہند“ میں علمِ نحو میں ” غایۃ التحقیق “ نامی آپ کی کتاب کا ذکر موجود ہے۔ مولانا ابو الحسین عرف حسین علی چشتی صابری نے ” انوار الصّفی “ میں آپ کے علمی و تدریسی احوال ان الفاظ میں بیان کیے ہیں :
حضرت شیخ مخدوم صفی الدین ردولوی رحمۃ اللہ علیہ ظاہری علوم حاصل کرنے کے بعد تدریس کے مشاغل میں مصروف ہوئے ۔ آپ کی علمی عظمت کا شہرہ سن کر بیشمار طلبہ جمع ہو گئے ۔ آپ کے علم و فضل کی آواز چار دانگ عالم میں پھیل گئی ۔ دور دراز شہروں اور ملکوں سے طالب علم جوق در جوق آپ کے پاس چلے آئے اور تھوڑی مدت میں علم و عرفان میں کمال حاصل کر کے اپنے شہروں اور ملکوں کی طرف لوٹ گئے اور اپنے اپنے علاقوں میں علم و عرفان کی شمع روشن کی۔ مرأۃ الاسرار کے مصنف لکھتے ہیں کہ حضرت مخدوم شیخ صفی الدین رحمۃ اللہ علیہ اگرچہ امام ہمام حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی اولاد ہیں ، لیکن باعتبارِ علم و فضل ، زہد و تقویٰ اور کمالاتِ معنوی ”ثانیِ ابو حنیفہ “کے نام سے موسوم تھے ۔ آپ نے درس و تدریس کے زمانے میں بہت سی عربی و فارسی کتابیں تصنیف فرمائیں ۔ فقہ اور اصول فقہ کے متون اور معتبر کتابوں کی شرحیں لکھیں ۔ مثلاً : دستور المبتدی ، حلِّ ترکیبِ کافیہ ، شرحِ کافیہ جو ” شرحِ صفی “ کے نام سے موسوم ہے اور ” غایہ التحقیق “ وغیرہ ۔ صاحبِ لطائفِ اشرفی فرماتے ہیں کہ بارہا حضرت سلطان الاتقیا ، برہان الاصفیا اور قدوة الكبرىٰ مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے بلادِ ہند میں ایک شخص کو نادر علوم و فنون اور عجائبِ احوال کا پیکر پایا ہے ، وہ میرے بھائی صفی الدین حنفی علیہ الرحمہ ہیں ۔ الغرض موصوف علم و فضل اور زہد و تقویٰ کے احوال میں دُرّ یکتا اور یگانۂ روزگار تھے ۔ ) انوار الصفی فی اظہار اسرار الجلی و الخفی ، ص : 19 ، 20 ، ناشر : شعبۂ نشر و اشاعت جامعہ چشتیہ خانقاہ حضور شیخ العالم ، ردولی شریف ، فیض آباد )
حضور مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سے آپ کے مرید ہونے کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے ۔ چنانچہ شیخ محمد اکرم قدوسی ( مصنف اقتباس الانوار ) لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی قدس سرہ کے جدِّ امجد حضرت مخدوم شیخ صفی الدین حنفی ( اشرفی ) ردولوی تھے ، جو حضرت شیخ اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے اکابر خلفا میں سے تھے ۔ اگر چہ شیخ صفی الدین امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کی اولاد میں سے تھے ، لیکن علم و ثقاہت اور کمالات معنوی کے اعتبار سے آپ " ابو حنیفہ ثانی " تھے ۔ چنانچہ آپ کے کمالات کا مشاہدہ آپ کی تصانیف میں کیا جا سکتا ہے ۔ حضرت میر سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ ” ملکِ ہندوستان میں اگر میں نے کسی کو فنونِ غرائب اور فنونِ عجائب سے مزیّن دیکھا ہے تو وہ برادرم شیخ صفی الدین حنفی ہیں ۔ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ سے آپ کے مرید ہونے کا واقعہ یہ ہے کہ ایک رات حضرت خضر علیہ السلام نے آپ کی ایک کتاب کو دیکھ کر فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ تم نے بہت ورق سیاہ کیے ہیں ، اب ورق سفید کرنے کا وقت آ گیا ہے ۔ جاؤ اور صحیفۂ دل کو انوارِ جاوید سے روشن کرو ۔ اس بات نے آپ کے دل میں گھر کر لیا اور ایسی حالت طاری ہوئی کہ بے اختیار ہو کر بیعت کی درخواست کی ۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا : میں تجھے بشارت دیتا ہوں کہ ایک ایسا جوان مرد کہ جس کے انوارِ ولایت اور آثارِ ہدایت سے سارا جہاں پُر ( منوّر ) ہے ، آج کل تمہارے اسی قصبہ ( ردولی ) میں آنے والا ہے ۔ چنانچہ چند ایام میں میر سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ قصبہ ردولی میں تشریف لائے اور جامع مسجد میں قیام فرمایا ۔ حضرت شیخ صفی الدین جو اس سعادت کے منتظر تھے ، حاضرِ خدمت ہوئے ۔ ان کو دیکھ کر حضرت شیخ مخدوم اشرف نے فرمایا : برادر صفی الدین ! تم صفائے قلب لائے ہو ، اب آؤ اور نعمت حاصل کرو ۔ اس کے بعد فرمایا کہ جب حق تعالیٰ کسی کو اپنے قرب سے سرفراز فرمانا چاہتا ہے تو حضرت خضر علیہ السلام کے ذریعے اس کو اشارہ کر دیتا ہے ۔ یہ بات سن کر حضرت شیخ صفی الدین کے دل میں ان کے متعلق اعتقاد اور بھی زیادہ قوی ہو گیا اور اسی وقت مرید ہو گئے ۔ حضرت شیخ ( مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی ) نے تھوڑی مصری اٹھا کر ان کے منہ میں ڈالی اور فرمایا : نور الانوار ( باطنی فیض ) کا حصول مبارک ہو۔ میں نے حق تعالیٰ سے درخواست کی ہے کہ تمہاری اولاد سے علم نہ جائے ۔ حضرت شیخ مخدوم اشرف نے ان کی تکمیل و تربیت کے لیے چالیسں دن وہاں قیام فرمایا ۔ اس سے ان کو حضرت شیخ کے سامنے ایک چلّہ کرنے کا موقع بھی مل گیا ۔ اس دوران آپ نے ان کو سلوک الی اللہ کے حقائق و معارف سے بھی آگاہ فرمایا اور آخر میں خرقۂ خلافت سے مشرّف فرما کر دولت ازلی و ابدی سے مالا مال کیا ۔ اس وقت حضرت شیخ صفی الدین کے فرزند شیخ اسماعیل کی عمر چالیس دن تھی ۔ شیخ صفی الدین نے بچے کو اٹھا کر حضرت شیخ اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے قدموں میں ڈال دیا ۔ حضرت شیخ نے فرمایا : میں نے اس کو بھی قبول کیا اور یہ ہمارا مرید ہے ۔ اس کے بعد حضرت شیخ اشرف جہانگیر سمنانی ، حضرت شیخ صفی الدین کو ردولی شریف میں مسند خلافت پر بٹھا کر اودھ تشریف لے گئے ۔ غرض کہہ حضرت شیخ صفی الدین قدس سرہ بڑے با کمال بزرگ تھے ۔ اپنے بیٹے حضرت شیخ اسماعیل کو مسندِ خلافت پر متمکن کر کے عالمِ بقا کی طرف رحلت کر گئے اور قصبہ ردولی میں دفن ہوئے ۔ رحمۃ اللہ علیہ )اقتباس الانوار ، ص : 604 ، 605 ، ناشر : ضیاء القرآن پبلیکیشنز ، گنج بخش روڈ ، لاہور(
”بحرِ زخار “ سے بھی مذکورہ اقتباس کی تائید ہوتی ہے ۔ شیخ وجیہ الدین اشرف لکھنوی لکھتے ہیں : واقفِ اسرار خفی و جلی ، حضرت شیخ صفی حنفی رحمۃ اللہ علیہ ، ردولی میں سکونت اختیار کی تھی ۔ احسن القصص میں لکھا ہے کہ امام اعظم کی نسل سے تھے ، نیز حضرت سید سلطان اشرف جہانگیر کے خلیفہ ہیں ۔ حضرت خضر علیہ السلام نے آپ کو بشارت دی تھی کہ ایک سید ایسے ایسے انوار و تجلیات کے ساتھ آنے والے ہیں ، ان سے بیعت ہو جانا ۔ چند دنوں کے بعد میر سید اشرف جہانگیر قصبہ ردولی میں تشریف لائے ، شیخ صفی تو اس سعادت کے منتظر ہی تھے ، خدمت میں حاضر ہو کر بیعت سے مشرف ہوئے ۔ (بحرِ زخار ، 1 / 528 )
مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کے مختصر تعارف کے بعد ذیل میں حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے وہ دو گراں مکتوب پیش کیے جاتے ہیں جو انھوں نے اپنے وقت کے دقّاق عالم ،متبحّر فاضل اور اپنے نامور مرید و خلیفہ حضرت شیخ صفی الدین حنفی ردولوی علیہ الرحمہ کو تحریر فرمایا تھا ۔ یہ دونوں مکتوب خالص اصلاحی اور دعوتی نوعیت کے ہیں ۔ شیخ صفی الدین ردولوی کے سوانح نگار حضرت مولانا ابو الحسین عرف حسین علی چشتی صابری ( مرید و خلیفہ مولانا شیخ عبد الرحمٰن لکھنوی ) نے یہ دونوں مکتوب اپنی کتاب ” انوار الصّفی فی اظہار اسرار الجلی و الخفی “ میں نقل فرمایا ہے ، جس میں توحید ، وحدۃ الوجود ، وقت پر اوراد و وظائف کی پابندی ، وظائف ترک نہ کرنے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی تاکید اور بزرگانِ دین کے آثار و تبرکات سے فیوضِ باطنی حاصل کرنے پر زور دیا گیا ہے ۔ صوفیائے کرام ، بزرگانِ دین اور مشائخِ امت کی زبانِ فیض ترجمان اور ان کے قلمِ اعجاز رقم سے ادا ہونے والا ایک ایک جملہ اصلاح و ہدایت اور دلوں کی دنیا فتح کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ ایک علمی تحفہ اور روحانی تبرک سمجھ کر آپ حضرات ان دونوں مکتوب کا مطالعہ فرمائیں اور بزرگانِ دین کے آثارِ طیبات اور باقیاتِ صالحات کی تجلیوں سے اپنے اذہان و قلوب کو منور و مجلیٰ فرمائیں ۔
مکتوبِ اوّل:حضرت شیخ صفی الدین ( ردولوی ) علیہ الرحمہ کو مرید کرنے کے بعد حضرت قدوۃ الکبریٰ علیہ الرحمہ ( مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی ) نے چند روز ردولی میں قیام فرمایا اور حضرت شیخ صفی الدین علیہ الرحمہ کو اپنے خلیفہ مولانا شیخ سماء الدین علیہ الرحمہ کے گھر چِلّہ کے لیے بٹھایا۔ اربعین ( چلّہ ) کے پورے ہونے کے بعد حضرت قدوۃ الکبریٰ کچھوچھہ تشریف لے گئے ۔ وہاں سے ایک مکتوب بنام حضرت صفی الدین علیہ الرحمہ لکھ کر ارسال فرمایا ۔ مکتوب یہ ہے :
”اے بھائی ! ہم نشینوں میں عزیز تر اور احباب میں یکتا مولانا صفی الدین ، اللہ تعالیٰ موصوف کو اوصاف الٰہیہ اور کمالات سے نوازے ۔ مشتاقوں جیسی دعا اور مخصوص لوگوں جیسی صفا اشرف درویش کی طرف سے قبول فرمائیں ۔ کسی قدر مبارک دولت ہے وہ جو کسی کو علوم شرعیہ حاصل کرنے کے بعد راہ الٰہی میں سلوک کی تمنا دامن گیر ہوا ۔ کس قدر بلند مرتبہ ہے وہ شخص جسے ظاہری علوم حاصل کرنے کے بعد درگاہِ نامتناہی کی سیر کا سودا دماغ میں سما جائے ۔ ایسے معصومانہ ، علوم عربیہ کے مدرسہ سے تشنہ کمالات کے درس لینا ، علومِ عجیبہ کے کھیتوں سے نقدِ ثمرات حاصل کرنا ، معلومات کے صحیفوں کے مطالعہ سے مراد اور موجودات کے غریب و نادر مشاہدہ سے اور ان لامتناہی مقامات کی تعلیم و تدریس سے بارگاہ الٰہی میں رسائی ہو جائے تو ( ایسا شخص دینی نقطۂ نظر سے ) بادشاہ ہے ۔
اے برادر گر کسے در راہ فضل
شد امام و مقتدائے روزگار
گر نباشد در سرش سودائے دوست
سود ازیں نہ باشد روزگار
اے بھائی ! اگر کوئی شخص فضیلت کے لحاظ سے زمانہ میں امام و رہنما بن جائے اور اس کے سر میں محبوب کی محبت کا سودا نہیں ہے تو اسے زمانے کی تجارت کا فائدہ حاصل نہ ہو گا ۔
اگر کسی شخص نے سات سمندروں میں شناوری و تیرائی کی ہے ، لیکن اس کے ہاتھ میں گوہر نہیں آیا تو کیا فائدہ ! اگر کسی شخص نے صحرائے مثلث ( جزیرہ نما عرب ) کی جادہ پیمائی کی ہے ، لیکن کعبہ شریف تک رہنمائی نہیں ہوئی تو اس نے کیا پایا ؟ اے برادر ! ایک دفعہ ” سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَ فِي أَنْفُسِهِمْ “کے آئینہ میں اپنے احوال کے رخسار کا معائنہ کر تاکہ تجھے اصل رخسار نظر آئے ۔ اور ” وَ هُوَ مَعَكُمْ أَيْنَمَا كُنْتُمْ “ کے حجلۂ معیت کی عروس کا نظارہ کر تاکہ وہ تجھے منظرِ عروسی کا جلوہ دکھائے ۔
بیا از صیقل تعریف مرآست
یکے از رندهٔ توحید بزدای
برآید تا خیال دوست دروی
فرو گیرد جمالش تا سر و پای
آ ، اپنے معرفت کے آئینہ کو صیقل کر توحید کے رندہ سے ایک دفعہ ضرب لگا ۔ تب اس میں خیالِ دوست آئے گا اور اس کا جمال تیرے وجود کو گھیر لے گا ۔
مقررِ اصحابِ ولایت اور مصورِ اربابِ ہدایت اس طرح بتاتے ہیں کہ ترکِ دنیا اور تجرید سالک کے ابتدائی حال میں عروسِ حجلۂ روزگار کے جلوہ کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ اسی طرح تفرید سالک کے ابتدائی حال میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے آفتابوں تک رسائی کا ذریعہ ہے ۔ سالک جب تک یہ شرط پوری نہیں کرے گا ، وہ رنگ خلافت کی راہ میں قدم نہ رکھ سکے گا ۔ جب تک علم کو اپنے سر تا پا سے مربوط نہیں کرے گا ، تجھ کو رنگ و خیال و لقا رنگین نہیں کرے گا ۔نظم:
قدم نہ بر سر ہستی کہ ایں پایۂ ادنیٰ
ورائی ایں مکاں جائے ست عالی جائی تست آنجا
رہا کن جنس ہستی را بترک خود فروشی کن
کہ در بازار دیں خواہند زو بریت ایں کاملا
منطق الطير طاؤسی ملک زمیست می گوید
تو وقتے سرّ آں دانی کہ خوانی باز عنقا
عروسِ نَحْنُ أَقْرَبْ را یکے در حجلۂ صورت
ببیں تا جلوهٔ معنی چہ صورت می کند پیدا
جمالِ و هو معكم را بہر رخسارهٔ صورت
اگر چشم خدا بینی تو داری بنگری معنیٰ
ترجمہ : اپنی ہستی ( دنیاوی زندگی ) کے سر پر قدم رکھ ۔ یہ معمولی قسم کا سامان ہے کہ اس مکان سے پرے بلند و عالی مقام بھی ہے اور وہی تیری قیام گاہ ہے ۔ ترکِ ہستی سے جنسِ ہستی کو چھوڑ اور خود فروشی کر کہ دین کے بازار میں اس کے سر پر خاشاک ڈالیں گے ۔ منطق الطیر طاؤسی ملک اشارہ ہے ، کہتا ہے کہ تجھے اس سِر کے جاننے کے لیے باز عنقا کی طرح چاہیے ۔ نَحْنُ أَقْرَب کی عروس کو ایک دفعہ حجلۂ صورت میں دیکھ تاکہ حقیقت کا جلوہ کسی صورت میں ظاہر ہو ۔ وَ هُوَ مَعَكُمْ کا جمال ہر رخسارے کی صورت میں ، اگر اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے لائق آنکھ بنائے گا تو پھر حقیقت کا جلوہ دیکھے گا ۔
پہلی بار اس بھائی صاحب سے قصبہ ردولی میں ملاقات ہوئی تھی ۔ معارف کا استفادہ کیا اور تھوڑا سا کتاب المعارف سے فیضیاب ہوئے ۔ جذبۂ باطنی و شوقِ روحانی اس نادر الوجود کا حد سے بڑھ گیا ہے اور جسمانی رابطہ اس کمیاب بھائی سے بہت دامن گیر ہے ۔ مناسب یہ ہے کہ چند روز دیگر بھی ہم نشینی و صحبت واقع ہو جائے تو مطلوبِ کلی میسر آئے گا اور مقصودِ اصلی پر مخصوص گفتگو ہو سکے گی ۔
بہ توفیقِ دارائے دور زماں
کہ تقدیر کرد از عنایت خدا کے
اگر رو نماید ترا صحبتے
مواعید تعریف آرم بجائے
اگر اللہ تعالیٰ کی عنایت سے زمانے کو چلانے والے فرشتے نے مقدر کر دیا تو تیری صحبت نصیب ہوگی اور میں آپ کو معرفت و عرفان کے مواعید و مطالب بجا لاؤں گا ۔ خصوصاً ان متبرک ایام یعنی ماہِ صیام میں صوفی بھائیوں کی محبت کا جذبہ و شوق زیادہ ہو گیا ہے ۔ اگر اتفاق سے ان علاقوں کا سفر رو پذیر ہوا تو احتمال ہے کہ معزز بھائی سماء الدین کو خاص ہم نشینی اور مخلصانہ ملاقات میں ساتھ رکھیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر درویشوں کے بعض اسرار اور کشف کے اسرار سامنے لائیں گے جو فائدہ سے خالی نہ ہوں گے ۔ کچھ ایک دوسرے سے جستجو اور کچھ گفتگو ایک دوسرے کے سامنے لائیں گے تو بہتر ہو گا ۔ سلوک کے بارے میں سوال و جواب اور گہرے انکشافات رونما ہوں گے ، یہ خوش تر ہوگا ۔
زہے دولت کہ در یارانِ محرم
بہم باشد ز عرفاں جستجوئی
در اسرار ولایت خوشتر آنست
کہ با یک دیگر آمد گفت گوئی
)اچھی دولت وہ ہے جو محرمِ راز دوستوں کے ساتھ ہو اور اس سے عرفان کی جستجو ہو ۔ اسرارِ ولایت میں وہ چیزیں خوشتر ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ زیرِ گفتگو آئی)
وہ مقام جہاں ولیوں نے عمریں گزاری ہیں ، وہاں ان کے پورے اثرات و مقاصد موجود ہیں اور اربابِ نہایت نے ان کو بہم دیگر سراہا ہے اور یہی اصلی قدر دانی ہے ۔رباعی:
اگر اصحابِ عرفاں را زمانی
بہم صحبت فتد در خوش تریں جائے
امام سجده گاه خویش سازد
کہ صاحب دولتی سود است پائے
(اگر اصحابِ عرفان سے کچھ وقت ہم نشینی کیا تو خوب ہے وہ خوشگوار مقام ، زمانہ اس جگہ کو سجدہ گاہ بناتا ہے ۔ کیوں کہ صاحبِ دولت کو ان کے قدم سے فائدہ ہے)۔
مناسب ہے کہ کبھی کبھی دریائے توحید کے موتی اور تفرید کے معادن کے گوہر حضرت خواجہ گنج شکر فرید رحمۃ اللہ علیہ کے حجرۂ مبارک اور نورانی محل میں جا کر راز دارانہ ہم نشینی حاصل کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ ماحول میں گفتگو کریں کہ وہ جگہ فیض سے آباد ہے اور عنایاتِ الہٰی کی توجہ کا مرکز ہے اور انوارِ لا منتہیٰ کے نزول کی جگہ ہے ۔ ہرگز ہرگز اس دولت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔ حضرت شیخ داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت اور ان کے مقبرہ کا طواف کرنے سے کبھی کبھی بہرہ ور ہوا کریں جو قریب ہے ۔ وہاں دو دولت کدے ہیں ۔ ایک حضرت داؤد کا مقبرہ جہاں فیوضاتِ الہٰی کے آثار ، اطوار اور ارادات لامتناہی زیادہ سے زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں ۔ دوسرا دولت کدہ حضرت گنج شکر کی مسجد جو روضۂ مبارک کے پہلو میں ہے جہاں آپ تشریف فرما ہوتے تھے ۔
ہر کجا روی گیتی پائی مرد
افتاده کعبہ آباد شد
گر تو آں کعبہ نیاری طوف کرد
طوف ایں کعبہ کن کز ادا شد
جہاں جہاں روئے زمین پر اللہ کے بندوں کے قدم ثبت ہوئے ہیں ، وہاں کعبہ آباد ہو گیا ہے ۔ اگر تو اس اصلی کعبہ تک رسائی نہیں رکھتا تو اس کعبہ کا طواف کر ، اس سے تیرا فرض ادا ہو جائے گا ۔
حضرت شیخ صلاح الدین عرف شیخ سیاح سہروردی علیہ الرحمہ کا مقبرہ اور شیخ صلاح صوفی علیہ الرحمہ اور دوسرے شہدا کے مقبرے جو قصبہ ردولی کے قرب و جوار میں واقع ہیں ، ان کا بھی طواف کرنا چاہیے ۔ ان سے روحانی فیض نصیب ہو گا ۔ مروی ہے کہ جب حضرت ابو سعید ابو الخیر کو روحانی فیض نصیب ہوا تو وہ حضرت پیر ابو الفضل کے مزار مبارک اور نورانی مرقد شریف پر گئے ، محض طوافِ قبر شریف کرنے سے فیض دوگنا ہوگیا اور اس فقیر کو بھی اس عمل سے فائدہ ہوا ہے ۔ جس قدر بھی ہو اوقاتِ شریفہ اور لطیف ساعتیں اصول و قواعد سے فائدہ حاصل کرنے میں گزاریں اور اوقاتِ طریقت اور باکردار زندگی متبرک اور برکت والے احباب کے مطابق ڈھالیں کہ صبح و شام اور دن رات کے اوراد کو لازم قرار دیں ۔ وہ اذکار و مشاغل اور مراقبۂ مبارک جو بتائے گئے ہیں ، ان کو عملی طور دائمی طریق پر انجام دیں کہ یہ اکابرینِ مشائخِ چشتیہ کا معمول ہے اور مآثرینِ بہشتیہ سے منقول چلا آیا ہے ۔ تجربہ میں آیا ہے کہ اس سے جلدی فائدہ ہوتا ہے اور جلدی قرار آتا ہے اور دائمی حیات ملتی ہے ۔ چنانچہ یہ حقیقت خود معائنہ کریں گے ۔ابیات:
ہر کہ اینہا دور راه طلب
راه باید رفت ہر دم ز التزام
ہر کہ بنہاد از سر اخلاص پای
در رہ ذکر خدائے خاص و عام
دولت مذکور خواید یافت او
ز التزام شکر ذاکر شاد کام
بہتر از اذکار روز و شب بود
از ہمہ اذکار ذکر صبح و شام
ترجمہ: جو شخص اس دور دراز راہ ( سلوک و معرفت ) کو طلب کرنا چاہتا ہے ، اسے ہر دم و ہر آن لزوم و دوام پر گامزن رہنا چاہیے ۔ جو شخص اخلاص کے طریقے پر قدم زن ہے ، اللہ تعالیٰ کے ذکر کے طریقے کو ہر خاص و عام جاری رکھے ، تب وہ مذکورہ دولت پائے گا ۔ وہی شخص کامیاب ہوگا جو دوام کے ساتھ شکر و ذکر کی راہ پر خوش رہے گا ۔ رات اور دن کے اذکار میں بہترین اذکار صبح و شام کے ذکر ہیں ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ملاقات کے وقت دوسرے معاملات زیرِ بحث آئیں گے ۔ الصلوٰة و السلام على النبي و آله الامجاد .
) انوار الصفی فی اظہار اسرار الجلی و الخفی ، ص : 25 تا 31 ، ناشر: شعبۂ نشر و اشاعت جامعہ چشتیہ خانقاہ حضور شیخ العالم علیہ الرحمہ ، ردولی شریف ، ضلع فیض آباد )
مکتوبِ دوم:بسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ
ای باد ! گر بہ گلشنِ احباب بگذری
تو زنہار عرضہ ده بر جاناں پیغام ما
اے بادِ صبا ! اگر تیرا گلشن احباب پر گزر ہو تو ہمارا پیغامِ محبت لازماً احباب ( محبوب ) تک پہنچا دے ۔
ثنا ہے اللہ تعالیٰ کے لیے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اس کے لیے حمد و ثنا ہے دنیا و آخرت میں اور اسی کے لیے حاکمیت ہے اور اسی کی طرف تم لوٹنے والے ہو ۔ صلوٰۃِ دائمی ، ابدی اور ازلی جو پہنچنے والی ہے عارفین کے اعلیٰ درجات والوں کو جو مالک و صاحبِ قدر کریم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں صدق کی قیام گاہ میں موجود ہیں ۔
برادرِ دین ، یقین کے پیکر ، کونین کے نور ، فوقیت رکھنے والوں میں عزیز تر اور اہل اللہ کے رہبر صفی الدین ، اللہ تعالیٰ آپ کے قلب کو اپنی معرفت کے انواع و اقسام سے منوّر کرے ۔ فقیر اشرفؔ کی طرف سے درد مندانہ سلام اور محرم راز والا پیغام قبول فرماؤ ۔ اے بھائی ! جب شہر میں آؤ ، سب سے پہلے اکابرینِ شہر جو اعلیٰ مراتب کے حامل ہیں ، ان کی پا بوسی کا شرف حاصل کیا کرو ۔ اس کے بعد اکابرین کے قبور کی زیارت کرو ۔ اگر تیرے شہر میں کوئی قبر ہے تو پہلے اس کی زیارت کرو ، اگر نہیں تو پھر اکا برینِ کی زیارت کرو ۔ ضروری ہے کہ وہ مرد ہوں ۔ محبت و دلبری کی خصلت کو اپنا وطیرہ بناؤ اور نا محرموں کی جستجو شرم وننگ کے اسرار کو پیدا کرتی ہے ۔
ز اقتضائی گردشِ گردوں دوں
سروراں را آمده است سرہا بپائے
رو مگرداں از جفا و جور دوست
دوستاں بر سر برند جور و جفات
آسمانِ کم ظرف کی گردش کے تقاضے سے بڑے بڑے سرداروں کو سر کے بل آنا پڑا ہے ۔ تو مخلص دوست کے ظلم و بے وفائی سے نفرت نہ کر ۔ مخلص دوست تیرے ظلم و بے وفائی کوسر آنکھوں پر رکھتے ہیں ۔اے بھائی ! رات دن ذکر کے طریقے نہ چھوڑ ـ هو المقصود کے دھیان سے اور هو الموجود کے معائنہ سے منہ نہ موڑ ۔ میدانِ ارادت میں ” لا موجود الااللہ “ اور آوارۂ صحرا میں ” لا معبود الا اللہ “ کا اسپِ ہمت اتنا دوڑاؤ کہ گرد اٹھنے لگے ۔
چناں تازد ز دیں رہ بتر انجام
کہ گرد از اسپ و از میدان بر آید
سوار و اسپ و میداں را بہم زن
کہ گرد از موکب سلطان بر آید
بد انجام راہ رو دین سے ایسے بھاگتا ہے کہ غبار گھوڑے اور میدان سے اُٹھتا ہے ۔ سوار ، گھوڑا اور میدان کو ایک دوسرے سے اس طرح مار کہ غبار بادشاہ کے لشکر سے اُٹھنے لگے ۔ بھائیوں اور وفا دار دوستوں کی ہم نشینی کلی طور پر فائدہ مند ہے ۔ دانش وروں نے اسے اصلی سرمایہ قرار دیا ہے ۔ اس کے بر عکس فرمانِ رسالت مآب علیہ الصلوٰۃ و السلام ہے کہ ” الشَّيْطَانُ مَعَ الْوَاحِدِ “ شیطان اکیلے کے ساتھ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی : كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ صادق شعار لوگوں کی معیت اختیار کرو ۔) انوار الصفی فی اظہار اسرار الجلی و الخفی ، ص : 37 ، 38 ، ناشر شعبۂ نشر و اشاعت جامعہ چشتیہ خانقاہ حضور شیخ العالم ، ردولی شریف
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org