فکر و نظر
*اکتوبر 2024 کا عنوان—ہندوستان میں مدارس کا مستقبل
امت اور نبی کے درمیان کا مضبوط واسطہ صحابۂ کرام ہیں
مفتی محمد منظر مصطفیٰ نازؔ صدیقی اشرفی
اس جہانِ فانی میں لوگ آ رہے ہیں اور اسے چھوڑ کر دار البقا کی طرف جا رہے ہیں ۔ یہ سلسلہ ابتداےا ٓفرینش سے جاری ہے اور صبح قیامت تک جاری رہے گا ۔ دنیاوی اعتبار سےبڑے بڑے ناموروں کی آنکھیں بند ہوئیں تو وہ تھوڑے ہی عرصے میں شہرت سے گوشۂ گمنامی کی آغوش میں میں چلے گئے ، مگر دنیا میں دین کے کچھ ایسےخدام بھی آئے کہ وہ یہاں علم کی روشنی ، روحانیت کی خوشبو ، شعور و آگہی کے اجالے اور محبت کے ایسےنقوش چھوڑ گئے کہ اُن کے إس دنیا سے جانے کے بعد بھی اُن کا ذکرِ خیر باقی ہے ۔ ایسے ہی سراپا خیر لوگوں میں ایک ایسی جماعت بھی وجود میں آئی ، جسے صحابۂ کرام کی جماعت کہا جاتا ہے ۔
حضرات صحابۂ کرام سے عقیدت و محبت اور ان کا ادب و احترام ایک مسلمان کے لیے لازم و ضروری ہے ۔ اس روئے زمین پر حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد مقدس ترین جماعت صحابۂ کرام ہی کی ہے ، جن کی عظمت و فضیلت میں قرآن کی آیتیں نازل ہوئیں اور جن کے مقامِ بلند کو بتانے اور ان کے حقوق سے امت کو آگاہ کرنے کے لیے امام الانبیا حضور سرورِ کائنات ﷺ نے گراں قدر ارشادات سے نوازا ۔ صحابۂ کرام وہ مقدس ترین طبقہ ہے جس نے براہِ راست شمعِ رسالت ﷺ سے روشنی پائی اور منبعِ علم و عرفان ﷺ سے فیض یاب ہوئے۔ ان کی زندگی کا بڑا مقصد نبی کے اشارۂ ابرو پر جان و تن کو لٹانا اور خود کو نبی کے قدموں پر نثار کرنا تھا ۔ کٹھن منزلیں ، سخت مرحلے اور مسلسل آزمائشوں نے بھی ان کے جذبۂ اطاعت و فرماں برداری میں کمی آنے نہیں دی اور نہ ان کے پائے استقامت میں کوئی جنبش آئی ۔ وہ اپنے نبی سے دیوانہ وار محبت کرتے تھے اور فدائیت و فنائیت کا حیرت انگیز نمونہ پیش کرتے تھے ۔ اس مقدس جماعت نے رہتی دنیا تک کے انسانوں کو بتادیا کہ نبی کے عاشق، دینِ حق کے متوالے اور محمد رسول اللہ ﷺکے سپاہی کیسے ہوتے ہیں ۔ ان کی و فاداری و جاں سپاری اور خلوص و جاں نثاری کے واقعات آج بھی ہمارے اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے ایمان کو تازہ کرنے اور جذبۂ وفا کو برانگیختہ کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ انھوں نے حضور نبی کریم ﷺ کے اشارۂ ابرو پر مال و دولت کو نچھاور کیا، اسلام کی اشاعت اور دین کی تبلیغ کے لیے ناقابلِ فراموش قربانیاں دیں اور ہرطرح کی مشقتوں کو برداشت کیا ۔ امت اور نبی کے درمیان کا مضبوط واسطہ اور اہم ذریعہ یہی صحابۂ کرام ہیں ۔ صحابۂ کرام کی عظمت اور فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان سے اپنی رضا مندی کا اعلان فرما دیا :
ترجمہ: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو(پیروی کرنے والے) ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔
(پارہ 11، سورۂ توبہ، آیت100)
یہی وہ جماعت ہے جس سے اللہ رب العزت نے’’ حُسنیٰ ‘‘ یعنی خیر اور بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے:
ترجمہ: اور ان سب سے اللہ نے سب سے اچھی چیز کا وعدہ فرمالیا ہے۔ (پارہ 27، سورۂ حدید، آیت29)
جس جماعت کی پیروی کو خود حضور اکرم ﷺ نے ذریعۂ ہدایت بتایا ۔ جن کی محبت کو آپ نے ایمان کا حصہ قرار دیا ۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ، محاسن و کمالات پر مشتمل بہت سی آیتیں اور احادیث ہیں جن کا تذکرہ یہاں طوالت کا باعث ہو گا ، یہاں صرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔ صحابۂ کرام کی بے ادبی اور گستاخی ایک نا قابلِ معافی جرم ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے جہاں اپنے تربیت یافتہ صحابۂ کرام کے مقام و مرتبہ کو اجاگر فرمایا ، وہیں امت کو آگاہ کیا کہ وہ کسی بھی طرح ان کی شان میں گستاخی نہ کرے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے جن خوش بخت صحابۂ کرام کو دین کی نصرت و تائید اور اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے تیار کیا اور جن کو سجا سنوار کر امت کے سامنے پیش کیا ، اب کسی کی مجال نہیں کہ وہ ان کے خلاف زہر اگلے ، ان کی شان میں بے ادبی کرے اور نازیبا کلمات کہے ۔ آپ ﷺ نے صحابہ کی محبت کو اپنی محبت کے مترادف قرار دیا اور ان سے بغض کو اپنے بغض کے مثل بتایا ۔ جس طرح حضور نبی اکرم ﷺ کو جملہ انبیا و رسل پر فضیلت حاصل ہے ، اسی طرح آپ کے جانثار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو دیگر انبیا کے اصحاب پر فضیلت حاصل ہے ۔
اللہ کے رسول ﷺ اپنے جان نثار صحابۂ کرام کے بارے میں فرماتے ہیں :
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مغفل کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، میرے بعد تم انھیں نشانۂ ملامت نہ بناؤ ۔ اس لیے کہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی رکھی تو میری دشمنی کی وجہ سے ان سے دشمنی رکھی ، جس نے انھیں اذیت پہنچائی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی گویا اس نے اللہ کو اذیت پہنچائی اور جس نے اللہ کو اذیت دی تو اس کے لیے اللہ کی گرفت قریب ہے ۔ ( مشکاۃ المصابیح: 2 ؍ 554 )
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا :
’’لا تسبوا أصحابي ، فوالذی نفسي بيدِه لو أنفقَ أحدُكم مثلَ أُحُدٍ ذهبًا ما بلغَ مدَّ أحدِهم ولا نَصِيفَه . ‘‘
ترجمہ : میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو ، اس ذات کی قسم ! جس کے قبضے میں میری جان ہے ، اگر تم میں سے کوئی شخص اُحد ( پہاڑ ) کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ ان کے ایک مُد یا نصف مُد کے برابر بھی نہیں پہنچے گا ۔
حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے : ’’لعَنَ اللهُ مَنْ سبَّ أصحابِي ‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس شخص پر جو میرے صحابہ کو بُرا بھلا کہے ۔
صحابۂ کرام کی عظمت کا انکاری اسلام سے بہت دور ہے ۔ بہت سارے سیہ بخت ایسے بھی ہیں جنہیں صحابۂ کرام کے فضائل سننے ، دیکھنے ، پڑھنے میں کافی تکلیف ہوتی ہے ، حالانکہ انہیں غور و فکر کرنی چاہیے کہ جن کی عظمت قرآن و حدیث سے ثابت ہے، اس کے مقابل میں تاریخ کو پیش کرنا کم علمی و کج فہمی نہیں تو اور کیا ہے ۔ قرآن و حدیث کے مقابل میں تاریخ بالکل تاریک ہے ۔ بخاری و مسلم سمیت دیگر صحاحِ ستہ و کتبِ احادیث میں ’’ کتاب المناقب ‘‘کے عنوان سے ایک مستقل باب ہے ، جس میں مناقبِ صحابہ سے متعلق کثیر احادیث و روایات موجود ہیں ۔ تفصیل کے لیے صحیحین و مشکوٰۃ شریف، کتاب المناقب و ملاحظہ فرمائیں ۔
اسی جماعت میں ایک ایسے صحابی رسول کا نام نامی ، اسم گرامی چودہویں کے چاند کے مثل چمکتا اور دمکتا ہے جنھیں حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے نام سے جانا ، پہچانا اور مانا جاتا ہے۔ آپ اسلام کے سچے شیدائی ، بہت صبر کرنے والے ، ہر حال میں ثابت قدم رہنے والے ، بہت ہی نیک ، عقل مند ، ماہر عالم دین اور اسلام کے پرچم کو بلند کرنے والے خوش بخت انسان ہیں ۔ آپ حضور اکرم ﷺ کے ممتاز صحابۂ کرام میں سے ہیں ۔ فارس( یعنی ایران ) کے رہنے والوں میں سب سے پہلے آپ نے ہی اسلام قبول فرمایا ۔ حضرت سلمان فارسی نے کافی لمبی عمر پائی ، روایات کے مطابق آپ نے 250 سال سے زائد کا عرصہ دنیا میں تشریف فرما رہے ، آپ کے حوالے سے یہ بھی مشہور ہے کہ آپ نے حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے حواری( یعنی اصحاب ) سے بھی ملاقات فرمائی ہے ۔ ( الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ ، جلد سوم ، ص : 120 )
آپ نے سالہا سال حق کی تلاش میں گزارے ۔ کیونکہ آپ اپنے آباء و اجداد کے باطل دین سے بیزار تھے ۔ طبقات ابن سعد میں ہے کہ آپ اسی تلاش میں ایک راہب کے پاس پہنچے تو اس راہب نے آپ سے کہا : بیٹا ! میری معلومات کے مطابق اب دنیا میں کوئی ایسا راہب نہیں ہے جو درست دینی تعلیم پر کار بند ہو ، عنقریب اللہ تعالی کے آخری نبی ظہور فرمائیں گے ، تم ان کی خدمت میں حاضر ہو جانا ۔ اس راہب نے چند علامات بتائیں ، آپ اسی نیت سے ایک قافلے کے ساتھ شریک ہو گئے اور سفر مدینہ شروع کیا ۔ قافلے والوں کی نیت خراب ہو گئی اور انہوں نے آپ کو تنہا دیکھ کر ایک کافر کے ہاتھ فروخت کر دیا ۔(طبقات ابن سعد، جلد چہارم ، صفحہ 56)
روایات کے مطابق آپ تقریباََ دس بار بیچے گئے اور آخر کار مدینہ منورہ پہنچ گئے اور یہاں رہ کر سرکار اقدس ﷺ کا انتظار فرمانے لگے ۔ (بخاری )
آپ کا قبول اسلام : آخر کار انتظار ختم ہوا ۔ ایک سہانا دن تھا، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ اپنے دنیوی مالک کے باغ میں کھجوریں توڑ رہے تھے ، آپ نے خبر سُنی کہ نبی آخر الزماں ، شاہ کون و مکاں ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مقام قبا میں تشریف لا چکے ہیں ۔ اس خبر نے عشق کی شمع مزید روشن کر دی ، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ کا دل بے قرار ہو گیا ، برسوں جس آقا کا انتظار کیا ، جن کے دیدار کی خاطر میلوں سفر کیا ، وہی آقا ، دو عالم کے داتا ﷺ تشریف لا رہے ہیں ۔ اللہ ! اللہ ! دل بے قرار ہے ، مزید صبر دُشوار ہے ، حضرت سلمان فارسی گن گن کر گھڑیاں گزار رہے ہیں ۔ آخر وہ وقت بھی آہی گیا کہ دلوں کے چین سلطان کونین ﷺ مدینہ منورہ تشریف لے آئے ، مدینہ پاک کی گلیوں میں عید کا سماں ہے ، ہر طرف نور ہی نور ہے، خوشیاں ہی خوشیاں ہیں ، موقع پا کر حضرت سلمان فارسی بھی حاضر خدمت ہو گئے ۔ راہب نے جو نشانیاں بتائی تھیں ، وہ دیکھیں ، سب نشانیاں موجود تھیں ، چنانچہ کلمہ پڑھ کر محبوبِ رَبِّ ، سلطانِ عرب ﷺ کی غلامی اختیار فرمالی ۔ (طبقات ابن سعد، جلد چہارم ، صفحہ 58)
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اس کے بعد سے آخر تک حضور جان کائنات ، فخر موجودات ﷺ کی خدمت میں حاضر رہے ، مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں آپ کو مدائن کا گورنر مقرر فرمایا تھا ۔
اللہ کے محبوب بندے: اللہ کے محبوب بندے : آپ کی ذات مقدسہ وہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے آپ کو اللہ تعالی کا محبوب بندہ قرار دیا ،جیسا کہ روایت میں ہے کہ:
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک نے مجھے چار لوگوں سے محبت کا حکم دیا اور مجھےخبر دی کہ اللہ پاک بھی اُن چار لوگوں سے محبت فرماتا ہے ۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ! وہ چار کون ہیں ؟ فرمایا : علی ، سلمان ، ابو ذر اور مقداد ۔ ( سنن ابن ماجہ ، ص : 37 )
ایک روایت میں یوں ہے:
حُضُورِ اکرم نور مجسم ﷺنے فرمایا : جنت ،علی بن ابو طالب، عمار بن یاسر، سلمان فارسی اور مقداد بن اسود کی مشتاق ہے ۔
(معجم کبیر ، جلد ششم ص : 215 )
آپ کا علم : حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے قبل بھی معرفت حق کی تلاش میں کئی راہبوں کے پاس تشریف لے گئے تھے اور ان سے تعلیم حاصل فرمائی تھی ، یہاں تک کہ آپ توریت و انجیل کے بھی عالم تھے ۔ جیسا کہ ایک روایت میں یوں ہے کہ:
حضرت زاذان کندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک دن ہم مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے ، حضرت علی المرتضی ، شیر خُدا رَضِ اللہ عنہ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے فرمایا : سلمان فارسی جیسا تم میں کون ہو سکتا ہے ؟ وہ اہلِ بیت میں سے ہیں ، انھوں نے پہلے اور آخری علوم حاصل کیے ، حضرت سلمان فارسی کتب سابقہ کے بھی عالم تھے بلکہ سلمان تو علم کانہ ختم ہونے والا سمندر تھے ۔ (معجم کبیر جلد ششم صفحہ 213)
آپ کی خصوصی فضلیت:حضرت سلمان فارسی رکی الفقہ کے فضائل و خصائص میں سے ایک بڑی اہم فضیلت اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ پیارے آقا، مکی مدنی مصطفی ﷺ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو اپنے اہلِ بیت اطہار میں شامل فرمایا، چنانچہ حدیث پاک میں ہے: پیارے آقا، مکی مدنی مصطفی ﷺنے حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کو فرمایا: سَلْمَانَ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ سلمان ہمارے اہلِ بیت میں سے ہے۔فَاتَّخِذْہ صَاحِبًا لہٰذا انہیں اپنا ساتھی بنالو ۔ (مسند بزار جلد 13صفحہ 139)
اس حوالے سےمیر عبد الواحد بالگرامی رَحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
اہلِ بیت کی تین قسمیں ہیں :( 1 ) اصل اہل بیت ( 2 ) داخل اہلِ بیت ( 3 ) لا حق اہلِ بیت ۔
اصل اہلِ بیت 13 نفوس ہیں ۔ 9 ازواج مطہرات اور پیارے آقا، مکی مدنی مصطفیٰ ﷺ کی چار شہزادیاں ۔ داخل اہلِ بیت تین نفوس ہیں : حضرت علی المرتضیٰ ، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور لاحقِ اہلِ بیت وہ لوگ ہیں جن کو اللہ پاک نے ناپاکیوں اور گناہوں سے بالکل پاک کر دیا اور انہیں کمال تقویٰ و پاکیزگی عطا فرمائی ۔ جیسا کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہ آپ سید نہیں ہیں لیکن ناپاکی سے کمال طہارت کی وجہ سے اہل بیت سے لاحق ( یعنی ملے ہوئے ) ہیں ۔ (سبع سنابل مترجم ص : 94 )
تقویٰ و پرہیزگاری : آج کل معاشرے کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ناحق سوال کا وبال دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔ اچھے خاصے نوجوان سستی کرتے ہیں ، محنت سے جی چراتے ہیں اور ناحق ذلت اٹھاتے ہوئے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے رہتے ہیں ۔ ایسے معاملے میں حضرت سیدنا سلمان فارسی کی سیرت کی اس ایک جھلک کو بھی ملاحظہ فرمائیں اور اپنے اندر سے سستی کو ختم کریں اور اپنے اندر خود داری پیدا کرنے کی مکمل کوشش کریں ۔
حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کبھی کسی سے کچھ سوال نہیں کرتے تھے بلکہ جب آپ کو 30 ہزار مسلمانوں کا امیر بنا دیا گیا تب بھی آپ نے اپنا گذارا کرنے کے لیے وہی ماہانہ مقررہ وظیفہ پر ہی قناعت فرمایا بلکہ اس کو بھی ضرورت مند لوگوں کے درمیان تقسیم فرما دیتے ۔ دنیا سے ایسی بے رغبتی تھی کہ آپ کے پاس صرف ایک چادر تھی، آپ اسی کو اوڑھ کر لوگوں کو خطبہ دیتے اور اسی چادرکوبچھاکر اور اوڑھ سو بھی جاتے تھے۔اپنا خرچ نکالنے کے لئے امیر وقت ہوتے ہوئے بھی کھجور کی ٹوکریاں اپنے ہاتھوں سے بناتے اور اسی کو فروخت کرکے اپنا گذارا فرماتے۔ ایک موقع پر آپ نے خود فرمایا :
میں اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھانا پسند کرتا ہوں ۔ (اللہ والوں کی باتیں ، جلد اول ، ص : 372 )
اللہ کے اس برگزیدہ بندے کے اندر اتنی سادگی اور خشیت الہی تھی کہ جب آپ مرض الموت میں مبتلا تھے ، لوگ عیادت کرنے آئے ،تو دیکھا کہ آپ رو رہے ہیں ۔ پوچھا گیا : کس چیز نے آپ کو رلایا؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے دنیا کے چھوٹنے نے یا موت کے ڈر نے نہیں رلایا بلکہ میں تو اس لیے رو رہا ہوں کہ میرے ارد گرد اتنے سامان ہیں۔ حالاں کہ حضور اکرم ﷺ نے ہم سے وعدہ لیا تھا کہ تمہارے پاس دنیاوی سامان اتنا ہی ہو جتنا کہ مسافر کے پاس ہو ۔ جبکہ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پاس اس وقت صرف ایک برتن تھا جس سے آپ وضو و غسل فرماتے تھے ۔ (شعب الایمان جلد 7 ،ص : 306 )
حضرت سید نا عطیہ بن عامر رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں : میں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تکلفا کھانا تناول کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں ۔ مجھے یہ کھانا کافی ہے ، مجھے یہ کھانا کافی ہے۔ کیونکہ میں نے رسول اکرم ، نُورِ مجسم ﷺکو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو دنیامیں پیٹ بھر کر کھاتے ہیں وہ قیامت میں زیادہ بھوکے ہوں گے ۔ اے سلمان ! بیشک دنیا مومن کے لیے قید خانہ اورکافر کے لیے جنت ہے ۔( سنن ابن ماجہ ص : 3315 )
حضرت سید نا ابو قِلَابَہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت سید نا سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس نے آپ رَضِی اللہ تعالی عنہ کو آٹا گوندھتے دیکھا تو حیرت زدہ ہوکر اس کی وجہ دریافت کی ۔ آپ نے فرمایا : میں نےخادم کو کسی کام سے بھیجا ہے اور مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس پر دو کام جمع کروں ۔ ( کتاب الزھد لامام احمد بن حنبل ،ص : 177 )
حضرت سید نا جعفر بن بُرْقَان رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضرت سید نا سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: مجھے 3چیزیں ہنساتی اور 3چیزیں رلاتی ہیں ۔ہنسانے والی 3چیزیں یہ ہیں : تعجب ہے اس شخص پر جو دنیا سے اُمید میں باندھتا ہے حالانکہ موت اس کی تلاش میں ہے ، اور حیرت ہے اس غافل انسان پر جو غفلت سے بیدارنہیں ہوتا اوراس پر بھی تعجب ہے جو منہ کھول کر ہنستا ہے حالانکہ اسے نہیں معلوم کہ اس کا رب عَزَّ وَ جَلَّ اس سے راضی ہے یا نا راض ، اور رلانے والی 3چیزیں یہ ہیں: حضور نبی رحمت ، شفیع امت ﷺ اور صحابہ کرام کی جدائی ، نزع کی تکالیف کا پیش آنا اور بارگاہ الہی میں حاضر ہونا جبکہ مجھے معلوم نہیں کہ میں جہنم کی طرف ہانکا جاؤں گا یا جنت میں جگہ پاؤں گا ۔ ( کتاب الزھد لامام احمد بن حنبل ص : 176 )
وصال پر ملال : آپ ۱۰ / رَجَبُ الْمُرَجَب 33 یا 36 ہجری کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ، آپ کا مزار مبارک عراق کے شہر مدائن میں ہے ۔ آپ ہی کی نسبت سے مدائن کو سلمان پاک بھی کہا جاتا ہے ۔ ( تاریخ ابن عساکر ، جلد ۲۱، ص : ۳۷۶ )
سلمان وہ کہ جن کا ہے جنت کو اشتیاق
محمد مبشر رضا ازہرمصباحی
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بڑے چہیتے اورجانباز صحابی ہیں، آپ کا نام ’’سلمان‘‘ہے جب کہ آپ کو بارگاہِ نبوت سے ’’سلمان الخیر‘‘کا لقب ملاتھا اور آپ کی کنیت :’’ابوعبداللہ‘‘تھی،وطنی نسبت کے سبب ’’فارسی ‘‘کہلاتے تھے۔
آپ ملک فارس کےشہر اصفہان کےایک ’’جے‘‘نامی بستی کے باشندہ اورایک امیر کبیراور جاگیردار باپ کے فرزند تھے ،آپ کے آباواجداد مجوسی یعنی آتش پرست تھے ،اولاً آپ نے بھی اپنے آبائی دین مجوسیت میں خوب کمانڈ حاصل کیا مگر بہت جلد آپ نے اپنے آبائی دین سے کنارہ کش ہوکر عیسائیت اختیارکی اورعیسائی راہبوں کی صحبت میں رہنے لگے،اللہ تعالیٰ نے آپ کو لمبی عمر عطافرمائی تھی کم وبیش ڈھائی سو برس اس خاک دان گیتی پر رہے ،دین عیسائیت اختیارکرنے کے بعد جب کسی پادری کی صحبت میں پناہ لیتے،رات میں ان کی خدمت کرتے اوردن میں محنت ومزدوری کرکے گزربسر کرتے ،پھرجب اس کی موت کا وقت قریب آتاوہ کسی دوسرے راہب کا پتہ دیتااورآپ کو اس راہب کے پاس جانے کی تلقین کرتا اسی طرح مختلف راہبوں کے پاس جاتے رہے اورتوریت شریف کا علم حاصل کرتے رہے۔
سب سے آخری راہب جس کے پاس آپ نے توریت شریف کی تعلیم لی جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے کہا:بیٹے سلمان !میری معلومات کے مطابق دنیامیں اب کوئی ایسا راہب نہیں جو عیسائیت پر مکمل طورپر قائم ہو اورمیں تمہیں اس کے پاس بھیجوں اورتم اس کی صحبت اختیارکرسکو،میرے علم کے مطابق نبی آخر الزماں کے ظہورکا وقت قریب ہے یعنی بہت جلد آخری زمانے کے پیغمبر ظاہر ہونے والے ہیں ،جب تم ان کا زمانہ پاؤ تو ان کی صحبت اختیارکرنا۔ اس راہب نے نبی آخرالزماں کی جائے سکونت (ہجرت گاہ)کے متعلق کھجوروں والی جگہ یعنی ملک عرب کے شہر مدینہ منورہ کی طرف اشارہ کیا اورمزید کچھ نشانیاں بیان کیں ،اس وصیت کے بعد اس کی وفات ہوگئی اورحضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر دم اسی فکر میں رہنے لگے کہ آپ کس طرح ملک عرب پہنچیں گے اورنبی آخرالزماں کے قدموں تک پہونچ کر ان کی صحبت سے مشرف ہوں گے،چوں کہ ملک شام میں اہل عرب کے قافلےبکثرت آتے جاتے رہتے تھے چناں چہ بعض قافلہ کے متعلق معلوم ہواکہ عرب شریف جانے والاہے تو آپ ان کے ساتھ ہولیے اورآپ خوش وخرم ملک عرب کے لیے نکل پڑے ،راستے میں اہل قافلہ کی نیت خراب ہوگئی اورانہوں نے حضرت سلمان فارسی کو کچھ راہ گیروں کے ہاتھ فروخت کردیا ،معتبر روایات کے مطابق کم وبیش 10سے زائد بار آپ بیچے گئے۔ [بخاری شریف ،باب اسلام سلمان فارسی ،جلد اول،ص 562:،مجلس برکات ]
باربار بکتے رہے مگراپنی مراد کی طلب جاری رکھی یہاں تک کہ ملک عرب خاص شہر مدینہ منورہ پہونچ چکے اورایک یہودی کے ہاتھ فروخت کیے گئے،ایک روزاپنے یہودی مالک کے باغ میں کام کررہے تھے کہ اسی دوران اپنے مالک کوکسی سے کہتے ہوئے سنا کہ ایک شخص شہر مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ ا ٓئے ہیں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ آخری زمانے کے نبی ہیں اورعام لوگ قبا کے مقام پر اس کے پاس جمع ہورہے ہیں ،اتنا سنتے ہی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل دکی دنیا ہی بدل گئی ،آپ نے اپنے یہودی مالک سے فرمایا :کیا کہا؟ایک باراورکہیں ۔مالک نے ایک طمانچہ رسید کیا اورکہا:خاموش رہو تم اپنا کام کرو،یہ ہمارا معاملہ ہے مگر آپ نے دل ہی دل میں کہا: مالک توجس عظیم ہستی کی بات کررہاہےوہ کوئی اورنہیں ہوں گے وہ وہی ہوں گے جن کے بارے میں مجھے میرے عیسائی راہب نے تعلیم وتلقین کی ہے ،جن کی ملاقات کےلیے ہم بار بار بکتے رہےہیں اورمدتوں کا سفر طے کیا ہے اور ہزاروں کلفتوں کا سامنا کیا ہےلہذا اب سلمان جب تک ان کی خدمت میں پہنچ کر اپنے عیسائی مربی کی باتوں اوربتائی ہوئی نشانیوں کی جانچ نہ کرلے اس وقت تک سکون کی سانس نہیں لے سکتا،چناں چہ ایساہی ہوا آپ نے مزدوری سے چھوٹتے ہی کچھ کھجورلے کر حضور کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور کہاکہ یہ صدقہ کے کھجورہیں، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبول فرمایا مگراسے اپنے حاضر باشوں میں تقسیم فرمادیا اور خود اس میں سے کچھ نہ کھایا ،پھر دوسرے روز بھی کچھ کھجور لےکر حاضر ہوئے، بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں پیش کیا اورکہا یہ ہدیہ کے کھجورہیں ،حضور نے اسے بھی قبول فرمایا اورآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسے قبول فرماکراس میں سے کچھ تناول فرمایا اورباقی اپنے صحابہ میں تقسیم فرمادیا ،دونوں باتیں دیکھ کر حضرت سلمان فارسی مچل اٹھے کہ دونشانیاں توپوری ہوگئیں اب انہیں صرف تیسری اورآخری نشانی پوری ہونے کا انتظار تھا اوروہ نشانی تھی’’حضورکے دونوں مبارک مونڈھوں کے درمیان مہرنبوت کا ہونا‘‘ چناں چہ ایک جنازہ کے موقع پر وہ نشانی بھی پوری ہوئی جوں ہی آپ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دونوں مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت دیکھی مسرت وخوشی کی انتہانہ رہی ،حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ کا دل جھوم جھوم اٹھا کہ مقصود ومطلوب حاصل ہوگیا چناں چہ فوراً اپنے پرانے دین سے توبہ کی اور اسلام کا کلمہ پڑھ کر ہمیشہ ہمیش کے لیے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی غلامی اختیارکرلی ،حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ تفصیلی داستان متعددمحدثین اور معتمد سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے ،تفصیل کے لیے سیرت کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جاسکتاہے۔
درس عمل:دین حق کی تلاش میں حضرت سلمان فارسی نے جس قدر طویل سفر طے کیا اورطویل سفرمیں ایک سے بڑھ کر ایک صبر آزماحالات سے دوچارہوئے مگر تلاش حق کی آگ کبھی سرد نہیں ہونے دی اورجستجوحق کی لو کبھی ماندنہ پڑنے دی، بلکہ دن بدن تلاش حق کا شوق وذوق پروان چڑھتارہا حتی کہ عرب کے شہر مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدم نازمیں پہنچ کر اپنی طلب پوری کری اورشرف صحابیت سے مشرف ہوئے ۔
تلاش حق میں آپ نے جس قدر طویل اورلمباسفر طے کیا اوراس لمبی مدت میں راہ حق میں درپیش مصائب ومشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا وہ تاریخ کا ایک سنہرہ باب ہے ،ایسی مشکل گھڑی میں اگر زمانے کا رستم بھی ہوتاتو شاید اس کے پائے ثبات میں تزلزل پیدا ہو جاتا اورتھک ہارکر اپنا راستہ بدل لیتا،ہوااپنا رخ بدل لیتی ، پہاڑ اور چٹان اپنی جگہ سے ہٹ جاتےمگر راہ حق کے اس مسافر کی کیا نرانی شان ہے؟ جرأت وہمت اورصبر واستقلال کیسی عظیم اورمثالی ہے ؟ تاریخ شاہدہے کہ جوں جوں مصائب وآلام اورہموم واوہام نے آپ کی راہ میں رکاٹ ڈالی توں توں آپ نے عزم وحوصلہ کو مہمیز لگایا اورتمام رکاوٹوں کو پیچھے چھوڑکر آگے بڑھتے رہےیہاں تک کہ لقائے حبیب کی دولت لازوال سے لطف اندوز ہوئے ۔
حضرت سلمان فارسی کی پاکیزہ داستان پڑھ کر ہرصاحب ایمان کا دل جھوم جھوم اٹھتاہے اورمومنوں کوروحانی وایمانی غذا حاصل ہوتی ہے۔بلا شک وارتیاب آپ نے راہ حق میں جس جرات و ہمت کا مظاہرہ کیاہےاورصبرواستقلال کا دامن مضبوطی سے تھاماہے وہ صبح قیامت تک کے مومنوں کے لیے نادر نمونہ اوربے مثال اسوۂ حسنہ ہے ۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہونے سے پہلے ایک یہودی کے غلام تھے جب حضور کی غلامی میں آگئے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے آقاسے مکاتبت کرلو،حسب ارشاد نبوی ایساہی ہوااوربدل کتابت اداکر کے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہودی آقاکی غلامی سےآزاد ہوگئے ۔گویا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ زبان حال سے گویاہوئے یارسول اللہ علیک الصلوۃ والسلام !
جب تک بکا نہ تھا کوئی پوچھتا نہ تھا
تو نے خرید کر مجھے انمول کر دیا
پھرجب حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دولت ایمان سے مشرف ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر ہمیشہ کے لیے قربان ہوگئے حتی کہ آپ کا شمار رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقربین بارگاہ میں ہونےلگے اورہمہ دم سرکاردوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی رحمت وعنایت سے سرشارہونے لگے ، حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اہم امور میں آپ سے مشورہ فرماتے اور سرکاردوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان کے مشورے کوقبول بھی فرماتے،ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے مروی ہے کہ رات کا ایک وقت خاص ہوتاجس میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت سلمان فارسی سے مشورہ فرماتے اوراس مجلس میں ہمیں بھی شرکت کی اجازت نہیں ہوتی۔
سنہ 5ہجری کی سب سے مشہوراورفیصلہ کن جنگ جو غزوۂ احزاب کے نام سے مشہورومعروف ہے اورجس میں دشمنوں سے حفاظت کے لیے شہر مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی وہ خاص حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورہ سےہی تھا جسے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبول فرمایا اوراس پر عمل کرنا مسلمانوں کے حق میں کامیاب اورموثر ثابت ہوا ۔[مدارج النبوہ دوم،ص :120مکتبہ مٹیا محل دہلی]
حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نےحضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حضرت ابودرداء رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ سے ’’مواخاۃ‘‘ قائم فرمایا،آپ دونوں آپس میں اس درجہ محبت فرماتے کہ ایسی محبت دو سگے اورحقیقی بھائیوں میں نظر نہیں آتی ۔
آپ وہ عظیم صحابی ہیں جنہیں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ عالم پناہ سے کئی خصوصیات وامتیازات حاصل تھے پہلی خصوصیت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ کا رشک جناں ہونا چناں چہ ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’جنت چار لوگوں کی مشتاق ہے [1].علی بن ابی طالب[2]عماربن یاسر[3]سلمان فارسی [4]مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہم‘‘ ۔[معجم کبیر للطبرانی ،حدیث :6045]
دوسری خصوصیت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اہل بیت میں شامل ہونا۔چناں چہ حدیث شریف میں وارد ہواہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجھہ الکریم سے ارشاد فرمایا :’’سلمان منا اھل البیت فاتخذہ صاحبا“ یعنی سلمان فارسی ہمارے اہل بیت سے ہے تو اسے اپنا ساتھی بنالو‘‘۔[البحرالزخارالمعروب بمسند بزار،13:،ص 139:،حدیث 6534]
اسی لیے حضرت زاذان کندی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ،وہ بیان کرتے ہیں :
’’ ایک بارہم شیر خدا حیدر کرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے ،اتنے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سلمان فارسی کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا:سلمان فارسی جیساتم میں کون ہوسکتاہے ؟وہ اہل بیت میں سے ہیں ،انہوں نے پہلے اورآخری علوم حاصل کیے،حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلی کتاب یعنی توریت شریف کے بھی عالم تھے اورآخری کتاب یعنی قرآن حکیم کے بھی عالم تھے بلکہ سلمان تو علم کا نہ ختم ہونے والا سمندر تھے۔‘‘ [معجم کبیر ،حدیث :6042]
یاد رہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کااہل بیت سے ہونا اس طرح کا نہیں جس طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، اس حوالہ سےمشہورومعروف بزرگ عالم وعارف میر سید عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ وضاحت پڑھیں ،آپ اپنی کتاب مستطاب ’’سبع سنابل شریف ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں :
’’اہل بیت کی تین قسمیں ہیں [1]اصلِ اہل بیت [2]داخلِ اہل بیت [3]لاحقِ اہل بیت ۔اصلِ اہل بیت 13نفوس قدسیہ ہیں 9ازواج مطہرات ،ایک حضور رحمت دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اورچار شہزادیاں رضی اللہ تعالیٰ عنہن ،داخلِ اہل بیت 3نفوس ہیں : حضرت مولائے کائنات سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اورلاحقِ اہل بیت وہ خوش نصیب افراد ورجال ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ناپاکیوں اورگناہوں سے بالکل پاک وصاف کردیا اور کمال تقویٰ وپاکیزگی عطافرمائی جیساکہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ آپ سید تونہیں ہیں لیکن ناپاکی سے کمال طہارت کی وجہ سے اہل بیت سے لاحق اورملے ہوئے ہیں ۔‘‘[سبع سنابل شریف مترجم ،ص :94]
سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نےاپنے دورخلافت میں آپ 656ء میں مدائن کا گورنر مقرر کیا مگر وہاں کی آب وہواآپ کو راس نہ آئی اورمحض چند ہفتوں بعد ۱۰؍ رجب المرجب ۳۳ھ کو آپ کا وصال باکمال ہوگیا ،آپ کا مزارشہر ’’ مدائن ‘‘میں زیارت گاہ عوام وخواص ہے اورخلق خدامیں نوار وتجلیات لٹارہاہے ۔
تعلیمات :صحابی رسول حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مبارک زندگی مومنوں کے لیے بہترین اسوہ اوراعلیٰ نمونہ ہے ،آپ کی طرز زندگی اورآپ کے اقوال وارشادات میں ہمارے لیے وہ عملی نمونہ ہے جس پر ہماراکاربنداور گامزن ہونا دنیا وآخرت میں سرخروئی اورکامیابی وکامرانی سے عبارت ہے ،ذیل میں آپ کی سیرت طیبہ اورآپ کے فرموادات قیمہ سے چند نصیحت آموز نکات پیش کیے جاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نقوش وخطوط پر عمل پیراہونے کی توفیق عطافرمائے۔
صبر واستقلال :معزز قارئین! آغاز مضمون میں آپ نے حضرت سلمان فارسی کے طلب حق کی پاکیزہ تفصیلی داستان مطالعہ فرمائی جس سے ظاہر وعیاں ہوتاہے کہ صبر واستقلال آپ کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو ہے ،اسی صبر واستقلال اورہمت وحوصلہ نے انہیں سرکاردوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی قدموں تک پہنچایا اورآپ شرفِ صحابیت سے ہمکنارہوئے اوراہل دنیاکے لیے نمونۂ عمل بن گئے ،ہمیں بھی چاہیے کہ ہم مصائب وآلام کی گھڑی میں صبراوربلند ہمتی سے کام لیں ،ناشکری اورگلہ وشکوہ سے بچیں ۔
اپنے ہاتھ کی کمائی کھانا :حضرت ابو عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ،انہوں نے بیان کیا کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :’’لا أحب أن آکل إلا من عمل یدی‘‘یعنی میں اپنے ہاتھ کی کمائی کھانا پسند کرتاہوں ۔
یہ قول بظاہر بہت مختصراورچند کلمات کا مجموعہ ہے مگر تمام اچھائیوں اورنیکیوں کی اصل وجان ہے ،کہاجاتاہے کہ جب انسان حلال کھاتاہے تو اس کے رگوں میں حلال خون گردش کرتاہے جس سے نیک کاموں میں اس کا دل لگتاہے اوراس کانفس برائی سے دور رہتاہے، اورجب حرام رزق کھاتاہے تو اس کے رگوں میں حرام خون دوڑتاہے جس سے انسان طرح طرح کی برائیوں میں ملوث ہو جاتا ہے اورنیکیوں میں اس کا دل نہیں لگتا،انسان کا اپنے ہاتھ کی کمائی کھانے کی عادت اسے حرام روزی سے دورکردیتی ہے،اس کا واضح مطلب یہی ہواکہ جب کوئی مومن محنت ومزوری کرکے اپنے ہاتھ کی کمائی کھانا پسند کرنے لگ جائے تو یقیناً وہ حرام روزی سے دورہوکر تمام نیکیوں اورجملہ بھلائیوں کا خوگر بن جائے گا ۔
یاد رہے جنہیں حلال کھانے اورحلال کمانے کی فکر نہیں ہوتی ایسے لوگ ہمیشہ حرام روزی اوردنیاوی عیش وعشرت میں ڈوبے رہتے ہیں بظاہران کی زندگی بڑی خوش وخرم ہوتی ہے مگر حقیقت میں یہی دنیاوی ٹیپ ٹاپ نارجہنم کا سبب اوراخروی زندگی کی تباہی وبربادی کا پیش خیمہ ہے ۔حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذکورہ فرمان سے ہمیں یہ درس ملتاہے کہ ہمیں زرق حلال تلاش کرناچاہیے اورحرام روزی سے دورونفوررہنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ ہمیں کسب حلال کی توفیق عطافرمائے اورحرام روزی سے بچائے۔
توکل اورراضی برضائے مولیٰ رہنا : توکل یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت کاملہ پر مکمل بھروسہ رکھنا اوراللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا ایک عظیم مومنانہ وصف ہے جس کے فوائد ونتائج دوررس اوردیرپاہیں، بلکہ دنیامیں بے نیازی اورآخرت میں نجات وسرخروئی اسی میں مضمر وپوشیدہ ہے ،حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت طیبہ میں اس کا بھی عظیم درس پایاجاتاہے چناںچہ حضرت مغیرہ بن عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن سلام سے فرمایا:اگر تم مجھ سے پہلے انتقال کرجاؤتو پیش آنے والے حالات سے مجھے آگاہ کرنا اوراگر میں تم سے پہلے فوت ہوگیا تو میں تمہیں آگاہ کروں گا،چناں چہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال پہلے ہوگیا ،ایک روز حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خواب میں دیکھ کر پوچھا :اے ابوعبداللہ!کیسے ہیں؟ فرمایا: میں خیریت سے ہوں ،حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا :آپ نے کون سا عمل افضل پایا؟فرمایا:میں توکل کو بہت عمدہ پایا،ایک روایت میں یوں ہےکہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا:تم توکل کو اپنے اوپر لازم کرلو،یہ کتنا عمدہ عمل ہے۔[طبقات ابن سعد ،ج:4،ص:246،حافظی بکڈپو]
بخوف طوالت سردست انہیں تین نکات پر اپنی بات سمیٹتا ہوں اوراخیر میں دعاگوہوں کہ مولیٰ تعالیٰ جملہ صحابہ وتابعین، صلحا و اولیائے کاملین بالخصوص حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تربت انورپر رحم وکرم کی موسلادھاربارش نازل فرمائے، ان کے درجات روز افزوں بلندفرمائے اورہمیں ان کے نقوش حیات اوراسوۂ حسنہ پر عمل پیراہونے کی توفیق ارزانی نصیب کرے ۔آمین یا رب العالمین۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org