4 June, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Sept 2024 Download:Click Here Views: 68273 Downloads: 1356

(8)-سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما

ذکرِ جمیل

حبر الامۃ راس المفسرین

مفتی محمد اعظم مصباحی مبارک پوری

نام و نسب:نام عبد اللہ، ابوالعباس کنیت تھی۔ والد کا نام عباس بن عبدالمطلب اور والدہ کا نام ام الفضل لبابہ تھا۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس کا شجرہِ نسب کچھ اس طرح ہے:حضرت عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی قرشی ہاشمی۔

آپ کے والدحضرت  عباس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سگے چچا تھے۔ اس طرح آپ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور اُم المومنین میمونہ بنت حارث کے بھانجے تھے کیونکہ آپ کی والدہ اُم الفضل اور میمونہ بنت حارث حقیقی بہنیں تھیں۔

ولادت باسعادت: حضرت عبدااللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ولادت ہجرتِ مدینہ سے 3سال قبل شعبِ ابی طالب میں ہوئی۔جہاں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے خاندان اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ محصور  تھے اور اہلِ مکہ نے اسلام کی تبلیغ کی وجہ سے مکمل بائیکاٹ کررکھا تھا۔

بچپن کےکچھ حالات:حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :   جب میں پیدا ہوا تو مجھے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک کپڑے میں لپیٹ کر لایا گیا تو حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے لُعاب مبارک  سے مجھے گھٹی دی۔

 جب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  چھوٹے تھے تو اکثر و بیشتر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر رہا کرتے تھے ، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا چوں کہ آپ کی خالہ تھیں اور آپ سے بہت محبت فرماتی تھیں ، آپ بسا اوقات انہی کے پاس بیٹھتے اور کبھی کبھی حجرہ میمونہ رضی اللہ عنہا میں سو بھی جایا کرتے تھے ۔ جب آپ سن شعور کو پہنچے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہو گئے ، سفر و حضر ہر جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے ، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم وضو کا ارادہ فرماتے تو آپ پانی کا انتظام کرتے ، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سفر کا ارادہ فرماتے تو آپ حضور کے ہم سفر ہوتے اور سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھتے ، یہاں تک کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سائے کی طرح ہو گئے تھے کہ جہاں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم جاتے آپ ساتھ ساتھ ہوتے۔

حضرت عبدااللہ بن عباس ایک بار میں رات کو اپنی خالہ حضرت میمونہ  رضی اللہ عنہا کے گھر اس لئے رکا کہ نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رات کی نماز دیکھوں گا ، حُضورِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سو گئے یہاں تک کہ آدھی رات یا اس سے کچھ آگے پیچھے بیدار ہوئے ، اپنے چہرے کو اپنے ہاتھ سے ملتے ہوئے بیٹھ گئے اور پھر سورۂ اٰلِ عمران کی آخری آیتیں پڑھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایک لٹکی ہوئی مَشک کی طرف گئے ، اس سے اچھی طرح وُضو کیا اور نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں کہ میں بھی اٹھا اور جس طرح حُضورِ انور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کیا تھا میں نے بھی اسی طرح کیا اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہوگیا ، نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دایاں ہاتھ میرے سَر پر رکھا اور مجھے سیدھے کان سےپکڑکراپنی دائیں جانب کرلیا۔ نماز کے بعد حضور آرام فرما ہوئے یہاں تک کہ مؤذن آپ کے پاس آیا تو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں اور پھر نمازِ فجر کے لیے چلے گئے۔

قبول اسلام اور مدینہ طیبہ میں قیام:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہجرت کے وقت تین سال کے تھے۔ ان کے خاندان نے ہجرت نہیں کی تھی ۔

ذوالقعدہ7ھ میں عمرہٴ قضا کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مکہ سے دور”سَرِف“ کے مقام پر ان کی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تھا۔اس نکاح کے انتظامات میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ او ران کی اہلیہ حضرت ام الفضل  پیش پیش تھے۔عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس وقت دس برس کے تھے۔اگلے سال فتح مکہ کے بعد 8ھ کے اواخر میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ اپنے خاندان سمیت مدینہ منورہ منتقل ہو گئے۔ اس وقت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہ کی عمر گیارہ سال تھی۔

جذبۂ تحصیلِ علم:کبھی کبھی اپنی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رات کو بھی ٹھہر جاتے، تاکہ معمولات نبویہ کا مشاہدہ کریں۔ اس دوران ہرممکن خدمات بھی انجام دیتے اورحضور سے  دعائیں لیتے۔ایک بار اسی طرح بیت ِنبوی میں ٹھہرے ہوئے تھے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے لیے ایک برتن میں پانی ڈال کر رکھ دیا۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو دریافت فرمایا:” پانی کس نے رکھا ہے؟“حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:” عبد اللہ بن عباس نے۔“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:”اللھم فقھہ في الدین وعلمہ التاویل․“

اے اللہ! اسے فقہ ِ دین اور علم تفسیر عطا فرما۔

ایک بار خالہ کے گھر رُکے اورتہجد کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی اٹھ گئے۔ حضو راکرم صلی اللہ علیہ وسلم نوافل کے لیے کھڑے ہوئے تو یہ اقتدا کے لیے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھینچ کر اپنے برابر کھڑا کر دیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کی تو یہ پھر ذرا سا پیچھے ہٹ گئے۔جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:” یہ کیا کیا؟“انہو ں نے عرض کیا:”أو ینبغي لأحد أن یصلي حذائک وأنت رسول اللہ؟“(کسی کو کہاں زیب دیتا ہے کہ آپ کے برابر کھڑے ہو کر نماز پڑھے، جب کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ )

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ذہانت اور فہم سے خوش ہو کر دعادی : ”اے اللہ! ان کے علم اور سمجھ میں اضافہ فرمایا۔“

 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ کرنے کے وقت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تیرہ  یا پندرہ برس کے تھے۔ اس لیے انہیں پوری طرح استفادے کا موقع نہیں ملا تھا، مگر علوم نبوت کی جستجو دل میں جاگ چکی تھی۔ اس لیے ایک ایک صحابی کے پاس جا کر احادیث یاد کرنا شروع کیں۔ خود فرماتے تھے۔جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا تو میں نے ایک انصاری ساتھی سے کہا:”آؤ! صحابہ سے احادیث سیکھیں، آج وہ بڑی تعداد میں موجودہیں۔“ساتھی نے کہا:” تعجب ہے کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ لوگوں کو مستقبل میں تمہاری ضرورت پڑے گی اور لوگ تمہارے پاس احادیث اورمسائل معلوم کرنے آئیں گے؟“

اس ساتھی نے اس کام کو کوئی اہمیت نہ دی اور میں اس دھن میں لگ گیا ، صحابہ کرام سے احادیث معلوم کرتا رہتاتھا۔ بعض اوقات کسی صحابی کے بارے میں مجھے معلوم ہوتا کہ ان کے پاس کوئی حدیث ہے میں ان کے دروازے پر جاتا، وہ سو رہے ہوتے تو میں دروازے پر بیٹھ جاتا یا چادر سر کے نیچے رکھ کر لیٹ جاتا ، جب وہ باہر نکلتے تو کہتے:”اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد! آپ کس ضرورت کے تحت یہاں تشریف لائے؟ مجھے بلوا کیوں نہیں لیا؟“ میں کہتا:” حاضر ہونا میری ذمہ داری ہے۔“ پھر حدیث معلوم کرتا۔

آخر وہ زمانہ آیا کہ اس انصاری ساتھی نے دیکھا کہ لوگ میرے ارد گرد جمع ہیں او رمجھ سے احادیث ومسائل دریافت کر رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر اس ساتھی نے کہا:”یہ نوجوان زیادہ سمجھ دار ثابت ہوا۔“ (الاصابۃ:4/125،ط:العلمیۃ)

جن صحابی سے کچھ سیکھتے ان کا ویسا ہی ادب کرتے جیسا کوئی اپنے اساتذہ کا کیا کرتا ہے۔ ایک بار حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سواری کی لگا م تھام لی۔ انہوں نے فرمایا:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد! ایسا نہ کریں۔“

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”ھکذا أمرنا أن نفعل بعلمائنا“․

”ہمیں اپنے علما کا ایسا ہی احترام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔“

حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اسی وقت حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں کو چوم کر فرمایا:

”ھکذا أمرنا أن نفعل بأھل بیت نبینا․“”ہمیں خاندان ِ نبوت کے ساتھ ایسی ہی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے۔“

فضل و کمال اور روایتِ حدیث: حضرت عبد اللہ ابن عباس اس عہدِ مبارک کے ممتاز ترین علما میں تھے ، قرآن، تفسیر ، حدیث، فقہ، ادب، شاعری، وغیرہ کوئی ایسا علم نہ تھا جس میں ان کو یدِطولیٰ حاصل نہ رہا ہو۔عموماً کثیر الروایت راویوں کے متعلق یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ وہ روایت کرنے میں محتاط نہیں ہوتے اور رطب و یابس کا امتیاز نہیں رکھتے ، لیکن عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ذات اس سے مستثنی اور اس قسم کے شکوک و شبہات سے ارفع و اعلیٰ تھی، وہ حدیث بیان کرتے وقت اس کا پورا پورا لحاظ رکھتے تھے کہ کوئی غلط روایت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب نہ منسوب ہونے پائے، جہاں اس قسم کا کوئی خفیف سا بھی خطرہ ہوتا، وہ بیان نہ کرتے تھے، چنانچہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہم اس وقت تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے تھے، جب تک جھوٹ کا خطرہ نہ تھا، لیکن جب سے لوگوں نے ہر قسم کی رطب ویابس حدیثیں بیان کرنا شروع کر دیں، اس وقت سے ہم نے روایت ہی کرنا چھوڑ دیا، لوگوں سے کہتے کہ تم کو قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے وقت یہ خوف نہیں معلوم ہوتا کہ تم پر عذاب نازل ہو جائے یا زمین شق ہوجائے اور تم اس میں سما جاؤ، اسی احتیاط کی بنا پر فتویٰ دیتے تو حضور ﷺ کا نام نہ لیتے تھے،کہ آپ کی طرف نسبت کرنے کا بار نہ اٹھانا ، حضرت عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ نے رسولِ کریم صلی  اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی 1660احادیث بیان کی ہیں جو صحاح ستہ اور دیگر کتب حدیث میں مذکور ہیں۔

وصال پُرملال  اور مزار مبارک:سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ طائف گئے، سات روز بیمار رہنے کے بعد 71 سال کی عمر میں 68ھ میں وفات پائی، نماز جنازہ حضرت محمد بن حنفیہ نے پڑھائی ۔(بخاری شریف، اسد الغابۃ، اصابہ)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved