انوار حیات
تیسری قسط
مجاهد جنگ آزادی
مولانا محمد شہاب الدین رضوی
مجاہدین نے مراد آباد پر دوبارہ قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کر لی، جس پر ہمدردان انگریز کو کافی تکلیف ہوئی، نواب یوسف علی خاں بھی بے بس نظر آئے، حکیم نجم الغنی خاں رام پوری لکھتے ہیں: ’’مراد آباد کا حال سنیے کہ ریاست کی فوج رام پور کو جاتے ہی مجو خان نے پھر اپنا سکہ جمانا شروع کر دیا تھا۔ نواب صاحب کی حکومت کے زمانے میں ان کی حکومت کی رونق جاتی رہی تھی، کچھ عیسائی لوگ اور ایک ڈپٹی کلکٹر جو انگریزی افسروں کے ساتھ بھاگنے سے رہ گئے تھے مولوی عالم علی صاحب کے ہاتھ پر مسلمان ہو کر جا نبر ہوئے۔ مولوی صاحب نے ان لوگوں کو آرام سے رکھا اور ان کے واسطے کچھ چندہ بھی کیا گیا۔ 14 جون کو بریلی کا برگیڈ بخت خان کی افسری میں مراد آباد داخل ہوا۔ مراد آباد کے باغیوں نے مولوی عالم علی صاحب کی نسبت بخت خان سے شکایت کی کہ انھوں نے عیسائیوں کو پناہ دی ہے، اس بات پر مولوی صاحب کا گھر لوٹا گیا۔ اور عیسائیوں کو پکڑ کر گاڑیوں سے باندھ کر باغیوں کے لشکر میں لے گئے۔مسٹر کیجن ڈپٹی مجسٹریٹ اور اُس کا سالا مسٹر کاربری اور اُس کا ایک لڑکا پندرہ برس کی عمر کا جوان ایک کایستھ کے گھر میں سے پکڑے گئے، یہ تینوں انگریز رات کے وقت نرپت گنج کے مغربی دروازے کے قریب مسجد کے سامنے قتل کیے گئے اور ان کی عورتیں بخت خاں کے سپرد ہوئیں، اور اُس کایستھ کو تمام دن توپ سے بندھا رکھا، شام کو کچھ رشوت لیکر آزاد کیا گیا اور ان باغیوں نے وہ تمام ظالم اور مفسد قیدی جو نواب سید یوسف علی خان بہادر کے نمک خواروں نے نہایت کوشش اور جانفشانی سے گرفتار کیے تھے چھوڑ دیے، اور لوٹ کا اسباب جو متفرق مقامات کے مفسدوں سے چھین کر جمع کیا تھا، اُس کو لوٹ لیا اور لٹوا دیا۔ مجوخان کو جو پیشتر سے نواب بن گئے تھے، دوبارہ اس باغی جماعت نے نواب بنایا اور تمام شہر میں منادی کرادی۔‘‘
’’مجو خان سے بخت خان نے بار برداری طلب کی، اُنھوں نے جواب دیا کہ: بار برداری بھیجتا ہوں اور جو سوار بار برداری طلب کرنے کو آئے تھے، اُن سے کہہ دیا کہ بغیر سید موسی رضا کو توال شہر کے بار برداری نہیں ملے گی ان کو پکڑ لے جاؤ ،کو توال باغیوں کے خوف سے روپوش تھے مگرمجو خان نے سراغ لگا کر گرفتار کرا دیا۔ سواروں نے بخت خان کے پاس پہونچا دیا، اُس نے بار برداری طلب کی، انھوں نے جواب دیا کہ: آپ کی آمد آمد کے خوف سے شہر والوں نے اپنی اپنی سواریاں مخفی کر دی ہیں مگر میں تلاش کر کے حاضر کرونگا، لیکن بدقت اور بدیر ملیں گی، اُس نے ان کے ساتھ چند سوار کر کے رخصت کیا۔ سید موسی رضا نے سواروں سے کہا کہ میری رائے میں تو مجوخان کے یہاں سے بار برداری بہ آسانی مل سکتی ہے کہ وہ رئیس قدیم ہیں اور ہر قسم کی بار برداری رکھتے ہیں اور جگہ سے ملنا معلوم نہیں ہوتا۔ میں بھی تمھارے ساتھ اُن کے گھر چلتا ہوں، گھر میں ہو آؤں، یہ کہہ کر چھپ گئے، سوار منتظر رہے، لا چار مجو خان کے پاس چلے گئے اور کل بار برداری اُن کے یہاں سے لے لی۔ 7ا جون 1857ء کو یہ فوج باغی مراد آباد سے دہلی کی جانب روانہ ہوئی، اس کے ہمراہ 29 نمبر پلٹن بھی مراد آباد سے دہلی کو چلدی۔ گرفتار شدہ عیسائیوں میں ایک مسٹر فلپ سرشتہ دار ججی اور ایک 60 نمبر کی پلٹن کے باجے کا افسر جس سے باغی لوگ مشکوک تھے مقام گجرولہ کے قریب مار ڈالے گئے۔ باقی چار عیسائی ایک مسٹر پاول ڈپٹی انسپکٹر ڈاکخا نہ، دوسرا مسٹر ہل سرشتہ دار کلکٹری، تیسرا مسٹر ڈارنگٹن محرر کلکٹری ،چوتھا مسٹر میک گایر محرر ججی باغیوں کی قید میں دہلی تک گئے ،وہاں پر ان کا پتہ نہیں معلوم ہوا کہ کیا ہوئے۔ شاید دہلی میں پہونچتے ہی وہاں کی باغی فوج نے اُن کو مار ڈالا۔ 18 جون کو مقام رجب پور گجر ولہ میں سند حکومت مرا دآباد کی مجو خان اور اسد علی خان کو بادشاہ کی طرف سے لکھ دی گئی۔ بخت خان کے جاتے ہی مجوخان پھر مراد آباد کے حاکم بن گئے اور شاہ دہلی کا نائب اپنے آپ کو مشہور کرنے لگے۔ عباس علی خان بخت خان کے ساتھ جا کر وہاں سے ایک سند اپنی نیابت ضلع مراد آباد حاصل کر لایا، اور حکومت مراد آباد کے لیے مجوخان اور عباس علی خان میں باہم ناچاقی ہونے لگی مگر چند ہی روز کے عرصے میں موضع بیجنا وغیرہ کے لوگوں نے مراد آباد کے لوٹنے کا ارادہ کیا، اس خوف سے عباس علی خان اور مجو خان نے آپس میں صفائی کر لی اور آخر کار رعایا نے مجوخان کو اپنا حاکم قبول کیا۔ مگر مجوخان کو اپنے عملے کے لوگوں کے واسطے خرچ کی ضرورت پڑی تو انھوں نے مستا پور کے ایک مہاجن پر دومن کشن کو بلاکر روپیہ طلب کیا۔ اُس نے روپیہ دینے سے انکار کیا۔ اس پرایوب خان اور حافظ علی احمد سرغنہ لوگ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ مہاجن مذکور کا گھر لوٹنے کوچڑ ھ گئے، اس خبر کو سن کر کٹگھر کے ٹھاکر اس کی مدد کو آگئے اور آخر کا روپیہ نہ لیے جانے پر مصالحت ہو گئی۔‘‘ (اخبار الصنادیداز حکیم نجم الغنی خاں رام پوری :، ج:2 ص 47،8 4)
فتویٰ جہاد کی اشاعت : جس وقت مراد آباد میں نواب رام پور کی بالادستی قائم ہو گئی، اس زمانہ میں مولانا کافیؔ نے انگریزوں کے خلاف ایک فتویٰ جہاد مرتب کیا اور اس کی نقول آپ نے دوسرے مقامات پر بھیجوائیں، بلکہ بعض مقامات پر خود تشریف لے گئے، آنولہ ضلع بریلی میں خاص اسی مقصد کے لیے ہفتہ عشرہ قیام کیا ،اپنے ہم درس اور ساتھی حکیم سعید اللہ ولد حکیم عظیم اللہ کے گھر ٹھہرے، تبلیغ جہاد کے سلسلے میں خاصی کامیابی حاصل ہوئی، حکیم سعید اللہ آنولہ کی تحریک آزادی کے خاص رکن تھے، آنولہ میں نواب کلن خاں (نبیرۂ بخشی سردار خاں) نواب خان بہادر خان کی طرف سے حاکم مقرر تھے، جن کے ساتھیوں میں مولانا محمد اسماعیل (شاگرد شاہ محمد اسحاق دہلوی) نواب جان محمد، نواب حسن، شیخ خیر اللہ اور حکیم سعید اللہ وغیرہ تھے، حکیم سعید اللہ اور مولانا کفایت علی کافیؔ میں بڑے خاص تعلقات تھے۔مولانا کافیؔ آنولہ سے بریلی پہنچے، وہاں نواب خان بہادر خان اور امام المجاہدین مولوی سرفراز علی اور مولانا مفتی رضا علی خاں نقشبندی (جد امجد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی) سے مشورے کیے۔ ایک مرتبہ نو محلہ مسجد بریلی میں جمعہ کے دن خطبہ دیا اور انگریزوں کے خلاف خوب ولولہ انگریز تقریر کی، ان دنوں نومحلہ مسجد بریلی مجاہدین کی سرگرمیوں کا مرکز تھی،مولانا رضا علی خان بریلوی (متوفی 20 جمادی الآخر 1286ھ) اکثر جمعہ کی امامت و خطابت کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ مولانا نے بطل حریت حضرت علامہ فضل خیرآبادی (متوفی 12 صفر المظفر 1278ھ) کا فتویٰ جہاد تمام نمازیوں کو سنا کر جذبہ بھر دیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں انگریز گورنر آپ کو سزا دینے پر آمادہ ہو گیا، مگر وہ اس میں ناکام رہا۔ جنرل بخت خاں کی ماتحتی میں بریلی سے جو فوج دہلی جا رہی تھی، اسی فوج کے ساتھ مولانا کافیؔ مراد آباد واپس پہنچے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے راقم کی تصنیف: مولانا رضا علی خاں بریلوی اور جنگ آزادی،مطبوعہ بریلی 2007ء)
مراد آباد پر انگریزوں کا قبضہ:
جب جنرل بخت خاں بریلوی کی افغانی فوج مراد آباد سے گزر گئی تو نواب رام پور نے پھر مراد آباد پر قبضہ کر لیا۔ لیکن جب شہزادہ فیروز شاہ کا گزر مراد آباد سے ہوا تو ریاست رام پور کی فوج کو سخت زک اٹھانی پڑی، لیکن جنرل جونس کی آمد کی خبر معلوم ہوتے ہی شہزادہ فیروز شاہ نے میدان چھوڑ دیا۔ 25 اپریل 1858ء کو اچانک جنرل جونس مراد آباد میں آگیا، ریاست رام پور کے اہلکاروں نے مراد آباد کا انتظام اس کے سپرد کر دیا۔ مسٹر جونس کے آتے ہی دار وگیر شروع ہوئی، کرنل کک نے شہر کی ناکہ بندی کر کے خانہ تلاشی اور گرفتاری شروع کی، ذرا ذرا سے شبہ پر مسلمان گرفتار ہوئے۔ (سہ ماہی العلم کراچی، مدیر سید الطاف علی بریلوی،بابت اپریل تاجون 1957ء)
خلاصۂ کلام- سرگذشت آزادی:
مولانا کافیؔ کے دل میں حب الوطنی کا جذبہ کافی حد تک موجود تھا۔ 11 مئی 1857ء کو جب ملک میں جنگ آزادی کا بگل بجا تو پورا ملک بیدار ہو گیا۔ ضلع مراد آباد میں بھی بیداری کی لہر دوڑ اٹھی۔ عوام و خواص سب وطن کی حفاظت اور انگریزوں کے ناپاک منصوبوں کے سد باب کے لیے میدان عمل میں اتر آئے۔ عوام نے اپنی روش پر کام شروع کیا اور علماء نے اپنی نہج پر۔ حریت پسند عوام نے مراد آباد کی جیل توڑ کر ہزاروں قیدیوں کو رہا کر دیا اور مقامی فوج نے بھی انگریزحکومت سے بغاوت کر کے اپنے وطن کی حفاظت کی جان توڑ کوششیں شروع کر دیں۔ اور طبقۂ علما میں خاص کر مولانا کافیؔ نے انگریزوں کے خلاف فتویٰ جہاد صادر فرما کر عوام و خواص سبھی کے دلوں میں جوش ایمانی پیدا فرمادیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے انگریز شکست کھا کر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اور مراد آباد شہر اصل باشندوں کے قبضے میں آگیا۔
نواب خان بہادر خان نے مرادآباد، بریلی شریف، امروہہ ، سنبھل، پیلی بھیت وغیرہ شہروں میں فتح و کامیابی پر مشتمل ایک مکتوب آخری مغل تاجدار بہادر شاہ محمد سراج الدین ظفر کو دہلی ارسال کیا، جس میں انگریزوں کی شکست اور اپنی فتح کی خوش خبری دی، نیز یہ بھی لکھا کہ: ایک جہاد نامہ جس پر مقامی علمائے کرام کے علاوہ مراد آباد کے مولوی سید کفایت علی کافیؔ کے بھی دستخط ہیں، بڑی مقدار میں علاقہ روہیل کھنڈ میں تقسیم کرایے گئے ہیں۔ مراد آباد پر قابض ہونے کے بعد مجاہدین نے نواب مجو خاں کے محل میں ایک’’ مجلس مشاورت‘‘ کا انعقاد کیا، جس میں مولانا کافیؔ کے علاوہ بہت سے معزز و ذمے دار حضرات نے شرکت کی۔ رات بارہ بجے تک محفل مشاورت گرم رہی اور آئندہ کے لیے بہتر سے بہتر تدابیر عمل میں لانے اور بہتر سے بہتر اقدام اٹھانے کا معاملہ زیر غور رہا۔
آخر میں مجلس میں موجود حضرات نے یہ طے کیا کہ: 29 نمبر باغی پلٹن سے مشورہ کیا جائے، وہ جو بھی مشورہ دیں، اسے قبول کیا جائے۔ بعدہٗ جب ان حضرات نے 29 پلٹن سے مشورہ کیا تو انہوں نے اور دیگر معززین نے باہم مشورہ سے نواب مجید الدین خاں عرف مجو خاں کو مراد آباد کا حاکم مقرر کیا، عباس علی خاں کو توپ خانہ کی افسری سپرد کی، اور مولانا کافیؔ کو اتفاق رائے سے صدر مفتی و قاضی و امیر شریعت تسلیم کیا گیا۔ آپ نے مکمل ذمہ داری اور نہایت ہی خوش اسلوبی سے اپنے منصب کے تحت تمام امور بخوبی انجام دیے۔ اور بڑی ہی جانفشانی سے شریعت کی پاس داری کرتے ہوئے وطن کی حفاظت کی خاطر دشمنوں کے سامنے سینہ سپر رہے۔
لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ مقامی غداروں نے انگریزوں سے ساز باز کر لی، جس کے نتیجے میں 24 اپریل 1858ء میں انگریز دوبارہ مراد آباد اور مضافات مراد آباد پر قابض ہو گئے۔ اپنوں کی غداری کے سبب انگریزوں کے ہاتھوں مجاہدین کو جس تباہی و بربادی کاسامنا کرنا پڑا ،اس کو بیان کرتے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ انگریزی خوشہ چیں غداروں نے اپنے آقا انگریز کو خوش کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ مجاہدین کی گرفتاری کو کار ثواب سمجھ کر جہاں جہاں بھی مجاہدین پناہ گزیں تھے، ان مقامات کی نشاندہی کر کے مجاہدین کو گرفتار کرا کے تختہ دار تک پہنچانے میں گندی ذہنیت اور مردہ دلی کا مکمل ثبوت پیش کیا۔ (سہ ماہی العلم کراچی، بابت اپریل تاجون 1957ء)
مولانا کافیؔ کی گرفتاری اور مقدمہ پھر پھانسی: مولانا کافیؔ چوں کہ مجاہدین میں سر فہرست تھے، اس لیے آپ کی گرفتاری کے لیے بھی انگریز کوشاں تھے۔ انگریزوں نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ: جو شخص بھی کسی مجاہد کو گرفتار کرائے گا ،اس کو اس مجاہد کی جائیداد میں سے بڑا حصہ دیا جائے گا۔ چوں کہ آپ ایک بڑی جائداد کے مالک بھی تھے، اس لیے آپ کی دولت پر قابض ہونے کے چکر میں ایک لالچی، غدار وطن، فخرالدین نامی شخص نے آپ کے گھر میں روپوش ہونے کی خبر انگریز کلکٹر کو اس شرط پر دے دی کہ مولانا کافیؔ کی پوری جائیداد اسے دے دی جائے۔ اس طرح مولانا کافیؔ بھی دیگر مجاہدین کی طرح مقامی غداروں کی عیاریوں کی زد میں آکر پابند زنداں ہو گئے۔
گرفتاری کے بعد انگریزی عدالت، جس کے انصاف کا عالم یہ تھا کہ اگر ملزم اپنے دفاع میں کچھ کہنا چاہتا تو کہنے دیا جاتا، لیکن لکھنے والا پیشکار اس ملزم کے بیان کو حاکم کی مرضی کی مطابق ہی ضبط تحریر میں لاتا۔ ملزم کو بیان دیکھنے یا وکیل کرنے کا بالکل حق نہیں تھا۔ اور ناہی ملزم صفائی پیش کرنے کا مجاز تھا۔ علاوہ ازیں جب وہ آپ کی جان کے درپے تھے، تو آپ کا وکیل کرنا، یا صفائی دینا بھی بقول فیض احمد فیض بے سود تھا:
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
4 مئی 1858ء کو انگریزی مجسٹریٹ کے روبرو آپ کا مقدمہ پیش ہوا۔ اور دو دن کے اندر یعنی 6 مئی کو فیصلہ سنادیا گیا۔ فیصلے میں آپ پر انگریزی حکومت سے بغاوت، عوام کو حکومت کے خلاف ورغلانے، اور شہر میں لوٹ مار کرنے کے جھوٹے الزام میں سزائے موت کا حکم سنادیا گیا۔ مقدمے کی روداد درج ذیل ہے۔ ’’یہ مقدمہ مسٹر جان انگلسن مجسٹریٹ کمیشن۔۔۔۔ واقع 4 مئی 1858ء۔
سرکار مدعی۔۔۔۔ بنام مولوی کفایت علی کافی۔
فیصلہ عدالت کمیشن کے الفاظ۔
چوں کہ اس مد عیٰ علیہ ملزم نے انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کی، اور عوام کو قانونی حکومت کے خلاف ورغلایا، اور شہر میں لوٹ مارکی، ملزم کا یہ فعل صریح بغاوت انگریزی سرکار ہوا، جس کی پاداش میں ملزم کو سزائے کامل دی جائے۔ حکم ہو۔ مدعیٰ علیہ پھانسی سے جان مارا جائے۔۔۔ فقط
دستخط انگریزی۔۔۔ جان انگلسن واقع 6 مئی 1858ء‘‘
عاشق رسول مولانا کفایت علی کافیؔ جب سوئے دار تشریف لے جارہے تھے تو کسی طرح کی کوئی گھبراہٹ چہرے سے ظاہر نہ تھی، بلکہ چہرے پر مسکراہٹ کے آثار نمایاں تھے۔ ہشاش بشاش پر سرور انداز میں خراماں خراماں چل رہے تھے، اور بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں نغمہ سنجی کرتے ہوئے اس طرح لب وا تھے:
کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا
ہم صفیر و باغ میں ہے کوئی دم کا چہچہا
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
(سوانح صدرالافاضل از مولانا ذوالفقار علی خاں نعیمی، ج: 1 ص:9091 ، مطبوعہ کاشی پور 1443ھ/ 2022ء)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی نے ’’الملفوظ‘‘ حصہ دوم میں اسی مذکورہ نعت شریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: میری پیدائش کے گیارہ ماہ بعد مولانا کافیؔ کو پھانسی دی گئی۔ (الملفوظ از مفتی اعظم ہند،مطبوعہ بریلی)
مولانا کفایت علی کافیؔ کو جیل مراد آباد کے پاس مجمع عام کے سامنے پھانسی دی گئی،اور وہیں تدفین عمل میں آئی، مولانا کے متعلق امام احمد رضا بریلوی کے’’ جملہ‘‘ پر ڈاکٹر محمد ایوب قادری نے اپنے ایک مضمون میں اس طرح تحریر کیا:
’’مولانا بریلوی مرحوم کا یہ بیان صحیح نہیں، اس لیے کہ مولانا کی تاریخ پیدائش 10 شوال 1272 ھ مطابق 14 جون 1856ء ہے، اس طرح گویا مولانا صاحب کے بیان کے مطابق مولانا کافیؔ کو 10 رمضان 1273 ھ مطابق 4 مئی 1857ء کے بعد کسی تاریخ کو پھانسی دیدی گئی۔ حالانکہ 19 مئی 1857ء مطابق 25 رمضان 1273 ھ کو مراد آباد میں جنگ آزادی کا آغاز ہوا، اور پھر ایک سال تک اس تحریک کا اثر رہا۔ 30اپریل 1858ء مطابق 16 رمضان 1274 ھ کو مراد آباد پر انگریزی حکومت کے تسلط ہونے کے بعد فخرالدین نامی شخص کی مخبری پر مولانا کافیؔ گرفتار ہوئے اور پھانسی دی گئی۔‘‘ (سہ ماہی العلم کراچی، بابت اپریل تا جون،مضمون از ڈاکٹر محمد ایوب قادری)
اس کی بہترین توضیح کی ہے جماعت اہل سنت کے نامورعالم دین مولانا محمود احمد قادری نے، وہ مذکورہ روایت کی تطبیق کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’امام اہل سنت مولانا احمد رضا خان کی محفل میں آپ (مولانا کافی) کا ذکر آیا، تو فرمایا کہ میری پیدائش کے گیارہ ماہ بعد مولانا کو پھانسی دی گئی، غالباً آپ نے ایک سال گیارہ ماہ کہا ہوگا، ایک سال ملفوظ نگار یا کاتب کے سہو قلم سے رہ گیا، اس حساب سے رمضان المبارک 1274 ھ کی دسویں تاریخ تھی۔‘‘ (پاکان امت از مولانا محمود احمد قادری، ج:2 ص:259،مطبوعہ مظفرپور)
مولانا کافیؔ کی شعر و شاعری:
مولانا کافیؔ کفایت علی کافیؔ شہید قدس سرہٗ کا نعتیہ شاعری میں ایک خاص مقام ہے، ملک الشعراء شیخ مہدی علی خان ذکیؔ مرادآبادی (بن شیخ کرامت علی مرادآبادی متوفی 1864ء)سے تلمذ حاصل تھا۔ صنف نظم میں نعت گوئی بڑا سخت میدان ہے، جہاں افراط و تفریط کی ذرہ برابر گنجائش نہیں، مولانا کافیؔ اس امتحان میں نہایت کامیاب اُترے، جیسا کہ امام احمد رضا فاضل بریلوی کی کتاب’’ الملفوظ‘‘ حصہ دوم سے اندازہ ہوتا ہے:
’’ایک صاحب شاہ نیاز احمد رحمۃ اللہ علیہ کے عرس میں بریلی تشریف لائے تھے، اعلیٰ حضرت کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے اور کچھ اشعار نعت شریف سنانے کی درخواست کی، استفسار فرمایا :کس کا کلام ہے، انھوں نے بتایا، اس پر ارشاد فرمایا: سوا دو کے کلام کے کسی کا کلام میں قصداً نہیں سنتا: مولانا کافیؔ اور حسن میاں مرحوم کا کلام اول سے آخر تک شریعت کے دائرہ میں ہے۔‘‘
آگے چل کر امام احمد رضا بریلوی مزید ارشاد فرماتے ہیں:
’’غرض ہندی نعت گویوں میں ان دو (مولانا کافیؔ اور حسنؔ بریلوی) کا کلام ایسا (افراط و تفریط سے پاک) ہے، باقی اکثر دیکھا گیا کہ قدم ڈگمگا جاتا ہے، اور حقیقتاً نعت شریف لکھنا نہایت مشکل ہے، جس کو لوگ آسان سمجھتے ہیں۔ اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے، اگر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہونچا جاتا ہے، اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے، البتہ حمد آسان ہے کہ اس میں راستہ صاف ہے، جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے، غرض حمد میں ایک جانب اصلاً حد نہیں اور نعت میں دونوں جانب سخت حد بندی ہے۔‘‘ (الملفوظ از مفتی اعظم ہند، ج:2 مطبوعہ قادری کتاب گھر بریلی)
نعت گوئی میں مولانا کافیؔ کو جو شہرت ملی وہ ہر ایک کے نصیب میں نہیں آئی، وہ بلند شاعر، بہترین عالم دین، محدث بے نظیر،اور عاشق رسول تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حسان الہند اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی نے آپ کو ’’سلطان نعت گویاں‘‘ سے ملقب کرتے ہوئے کیا خوب فرمایا:
مہکا ہے میرے بوئے دہن سے عالم
یاں نغمہِ شیریں نہیں تلخی سے بہم
کافیؔ سلطانِ نعت گویاں ہے رضاؔ
ان شاء اللہ میں وزیر ِ اعظم
(حدائق بخشش)
مولانا کافیؔ کی شعر و شاعری عشق رسالت کے جذبات سے بھرپور لبریز،راز ہائے مافی الضمیر کی مظہر اتم،اور درد قلب جگر کی ترجمانی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ان کی پروازۂ فکر رساں کو امام احمد رضا فاضل بریلوی کی زبانی سنئے، فرماتے ہیں:
پرواز میں جب مدحتِ شہ میں آؤں
تا عرش پروازِ فکرِ رسا میں جاؤں
مضمون کی بندش تو میسر ہے رضاؔ
کافیؔ کا دردِ دل کہاں سے لاؤں
آپ کی شعر و شاعری حشو و زوائد سے بالکل پاک، مبالغہ آرائی سے کوسوں دور، حدود شر ع سے غیر متجاوز ہوا کرتی تھی۔ آپ کی شاعرانہ عظمت کا اس سے اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے کہ امام احمد رضا فاضل بریلوی جنہیں بابائے اردو،عظیم استاد، شاعر مرزا داغؔ دہلوی نے ’’ملک سخن‘‘ کا بادشاہ تسلیم کیا ہے، وہ بادشاہ بھی آپ کی شاعری سے حد درجہ متاثر نظر آتے ہیں، اور آپ کی شاعرانہ عظمت اور بلندی فکر کے خوب معترف دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو دربار کافیؔ کا ’’وزیراعظم‘‘ تصور کرتے ہیں۔ امام احمد رضا بریلوی کا یہ اعتراف ہی اپنے آپ میں ایک زبردست سند کا درجہ رکھتا ہے۔
مولانا کافیؔ ایک بلند پایہ عالم ہیں، علم حدیث سے خاص شغف ہے، محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سرشار ہیں۔ مولانا کافیؔ کی شاعری تمام تر نعت و منقبت اور مداحیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عبارت ہے، جیسا کہ ان کی منظوم تصنیفات: بہار خلد،نسیم جنت اور خیابانِ فردوس وغیرہ سے اندازہ ہوتا ہے۔ مولانا کی زبان نہایت صاف اور شستہ ہے۔ زبان میں بڑا مٹھاس اور لوچ ہے، غرض کہ سلاست و روانی کافیؔ کی نظم کی خصوصیات ہیں، اور انداز بیان نہایت مؤثر ہوتا ہے۔ ایک مختصر سا اقتباس دیوانِ کافیؔ سے نقل کیا جاتا ہے تاکہ اندازہ ہو سکے:
طفیل سرور عالم ہوا سارا جہاں پیدا
زمین و آسماں پیدا مکیں پیدا مکاں پیدا
ایسی معراج بھلا کس کو ملی ہے کافیؔ
دلربایا نہ اک انداز تھا جانا آنا
ہے پیش نظر یہ جو فروغ مہ کامل
دریوزہ گر نور ہے اوصاف جبیں کا
وجد کے عالم میں جاتا لوٹتا آنکھوں کے بل
دیکھ کر میں گنبد خضریٰ مدینہ کے قریب
ایک دم کے دم میں گر چاہے خدائے روزگار
اُڑ کے پہنچے کافیؔ مضطر مدینہ کے قریب
السّلام اے چار یار با صفا ارکان دیں
مجمع جو دو حیا صدق و عدالت السلام
مقام فخر ہے کافیؔ کہ تو مداح کس کا ہے
ترا ممدوح کیسا ہے حبیب رب اکبر ہے
مجھے الفت ہے یاران نبی سے
ابو بکر و عمر و عثمان علی سے
محبت ان کی ہے ایمان میرا
میں انکا مدح خواں ہوں جان و جی سے
ثنا خوانِ نبی ہوں اور اصحاب نبی کافیؔ
ابو بکر و عمر عثمان علی سے مجھ کو الفت ہے
یا الٰہی حشر میں خیر الورٰی کا ساتھ ہو
رحمت عالم جناب مصطفیٰ کا ساتھ ہو
یا الٰہی ہے یہی دن رات میری التجا
روز محشر شافع روز جزا کا ساتھ ہو
یا الٰہی پل کے اوپر بھی بہنگام گذر
دستگیر بے کساں اس پیشوا کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب عمل میزان میں تلنے لگیں
سید ثقلین ختم الانبیا کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب قیامت میں صفیں بندھنے لگیں
اہل بیت مجتبیٰ آل عبا کا ساتھ ہو
یا الٰہی شغل نعت مصطفائی میں رہوں
جسم و جاں میں جب تلک میری وفا کا ساتھ ہو
بعد مرنے کے بھی ہے کافیؔ کی یہ یا رب دعا
دفتر اشعار نعت مصطفیٰ کا ساتھ ہو
(دیوان کافی، مطبوعہ و قلمی)
(جاری
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org