انوار حیات
علامہ محمد حسین فاروقی صابری الٰہ آبادی علیہ الرحمہ
نام و نسب:نام : عبدالقادر، کنیت ابومحمد لقب محی الدین غوث اعظم ، غوث صمدانی محبوب سبحانی، شیخ کبیر ۔
نسب شریف آپ کا والد ماجد کی طرف سے یہ ہے:
شیخ عبدالقادر ابن ابی موسیٰ جنگی دوست ابن عبداللہ بن یحییٰ زاہد بن امام محمدبن امام داؤدبن امام موسیٰ بن امام عبد اللہ بن موسیٰ الجون بن امام عبد اللہ المحض بن امام حسن بن علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہم ۔
اور ماں کی طرف سے نسب شریف آپ کا یوں ہے:
شیخ عبد القادر بن سیده فاطمہ ام الخیر الجبار بنت ابی عبداللہ صومعی بن جمال الدین بن محمد بن محمود الجواد الرضا بن موسیٰ کاظم بن جعفر صادق بن محمد بن علی زین العابدین بن حسین بن علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہم۔
یہ نسب نامہ آپ کا وہ ہے کہ جس پر اہل سیر کے بڑے بڑے اکابر نے اتفاق کیا ہے، اگر کوئی نادان شیعی نے اس پر کلام کیا تو جہالت اور تعصب اُس کا منشا ہے آپ من حیث الاب سید حسنی اور مین حیث الام سید حسینی ہیں ۔
بچپن: لڑکپن ہی سے آپ پر آثار ولایت ظاہر ہونے لگے آپ کی والدہ ماجدہ کا ۶۰ برس کا سن تھا جب آپ پیدا ہوئے ۔ عادۃً اس سن میں عورتوں کی اولاد نہیں ہوتی ،جس سال آپ پیدا ہوئے رمضان کے مہینے میں دودھ نہیں پیا۔ بدلی تھی چاند نظر نہیں آیا، یہ بات مشہور ہوئی کہ شہر کے کسی خاندان میں ایک لڑکا پیدا ہوا جو رمضان میں دودھ نہیں پیتا ،آپ کی والدہ سے اُن لوگوں نے پوچھا کہ لڑکے نے دودھ پیا ہے یا نہیں؟ معلوم ہوا کہ نہیں پیا اس وجہ سے یقین ہوا کہ وہ دن رمضان کا ہے۔
آپ 470ھ میں پیدا ہوئے اور بعضوں نے 471ھ لکھا ہے اس بناپر” عشق“ یا” عاشق “ آپ کی تاریخ ولادت ہے۔ 91 برس کا سن پایا۔ 33 برس درس اور فتویٰ نویسی میں بسر کیا 18 برس کا سن تھا جب گیلان سے بغداد تشریف لائے اور بڑے بڑے محدثین اور مشائخ سے سماعت حدیث کی۔ جميع علوم و فنون میں بڑی مہارت حاصل کی،خلق اور خالق کی نظر میں بڑے معظم اور محترم رہے۔
سفر بغداد اور رہزنوں کی اصلاح:آپ فرماتے ہیں کہ ایام طفولیت میں ایک شہر کے اطراف میں تفریحاً گیا وہ دن عرفہ کا تھا۔ ایک گائے بھاگی اُس کے پیچھے میں دوڑا ،گائے نے منھ پھیر کر مجھ سے کہا کہ اے عبد القادر تم اس واسطے پیدا نہیں کیے گئے ہو، میں ڈر کر بھاگا اور اپنے مکان کی چھت پر چڑھ گیا ۔دیکھا عرفات والے لوگ وہاں وقوف کے لیے جمع ہیں۔ میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ مجھے دنیا کے کاروبار سے معاف کیجیے اور اجازت دیجیے کہ بغداد میں جا کر علم سیکھوں اور بزرگوں کی صحبت میں رہوں۔ انھوں نے اس کا سبب پوچھا ،میں نے جو کچھ دیکھا تھا بیان کر دیا۔ وہ اس حال کو سُن کر رونے لگیں اور جا کر اسّی (80) دینار لائیں جو میرے والد نے ترکہ میں چھوڑے تھے۔ اُس میں سے چالیس (40) میرے کپڑے میں سی دیے اور مجھے رخصت فرمایا اور چلتے وقت مجھ سے عہد لیا کہ کسی حال میں جھوٹ نہ بولوں اور مجھے دُعا ئیں دے کر رخصت کیا۔
ایک چھوٹا سا قافلہ بغداد کو جاتا تھا میں اُس کے ہمراہ ہو لیا جب ہمدان سے ہم آگے بڑھےتو نا گہاں ساٹھ سواروں نے آکر قافلہ کو گھیر لیا اور خوب لوٹا مگر مجھے فقیر جان کر چھوڑ دیا اور کچھ نہ پوچھا ۔ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ اے فقیر تیرے پاس کیا ہے؟ میں نے کہا کہ چالیس دینار ہیں۔ اس نے کہا کہ کہاں ہیں؟ میں نے کہا کہ میرے کپڑے میں بغل کے نیچے سلے ہوئے ہیں۔ اُس نے مذاق سمجھ کر مجھے چھوڑ دیا ۔پھر دوسرا شخص آیا اُس نے بھی مجھ سے وہی پوچھا ،میں نے وہی جواب دیا اور وہ دونوں جب اپنے سردار کے پاس گئے تو میرا حال بیان کیا ۔اُس نے مجھے پکڑ بلوایا اور اس نے بھی وہی سوال کیا کہ تیرے پاس کیا ہے؟ میں نے بے تکلف کہہ دیا کہ چالیس دینار ہیں جو میرے کپڑے میں بغل کے نیچے سلے ہیں۔ اُس نے سیون تو ڑ کر دیکھا تو واقعی چالیس دینا رتھے۔ اُس نے متعجب ہو کر مجھ سے کہا کہ ٹھگوں سے کوئی شخص اپنا مال ظاہر نہیں کرتا تم نے اپنا مال کیوں ظاہر کر دیا؟ میں نے کہا کہ چلتے وقت میری والدہ نے مجھ سے عہد لیا تھا کہ کبھی جھوٹ نہ بولوں میں اُسی عہد پر قائم ہوں اس لیے میں نے کہہ دیا۔ اس کہنے کا اُس پر ایسا اثر ہوا کہ رونے لگا اور کہا کہ تم ابھی کمسن ہو اور اپنی والدہ کے ساتھ جو عہد کیا ہے اس میں یہ خیال ہے کہ خلاف نہ ہونے پاوے اور ہم کو اتنا زمانہ دراز گذرا کہ خدا کے خلاف کرتے ہیں اور شرم نہیں کرتے اس نے میرے ہاتھ پر تو بہ کی یہ دیکھ کر اس کے ساتھیوں نے بھی تو بہ کی اور کہنے لگے کہ تو چوری میں بھی ہمارا سردارتھا آج تو بہ میں بھی ہمارا سردار ہے اور قافلہ والوں کا سارا مال جو لیا تھا واپس کر دیا۔
حکایت: آپ فرماتے ہیں کہ میں لڑکپن میں جب قصد کرتا تو سنتا کہ کوئی کہنے والا کہتا ہے، الی یا مبارک ۔یعنی میری طرف آ اے مبارک! یہ سن کر میں اپنے ہم سن لڑکوں کی جماعت سے الگ ہو کر اپنی ماں کی گود میں چھپ جاتا۔
حکایت: لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ آپ نے اپنے کو کب سے ولی جانا کہا؟ جب میرا دس برس کا سن تھا اور میں اپنے گھر سے مکتب کو جاتا تھا تو اپنے ساتھ جماعت فرشتوں کی دیکھتا ،جب مکتب میں پہنچتا اپنے کانوں سے سنتا ،کہتے تھے: اصفحوا الی اللہ ۔ ایک دن اس طرف سے ایک شخص کا گذر ہوا اور وہ صاحب بصیرت تھا اُس نے جو یہ حال دیکھا تو لوگوں سے پوچھا کہ یہ لڑکا کون ہے؟ انھوں نے کہا کہ سادات کے خاندان سے ہے۔ کہا اس شخص کا بہت بڑا مرتبہ ہونے والا ہے اُس شخص کو چالیس برس کے بعد پہنچانا ،وہ ابدال میں سے تھا۔
زمانہ طالب علمی کی مشقتیں:
حکایت: شیخ طلحہ بن قر تحریر فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ ابتداءً مجھے بغداد میں کسی قدر تکلیف تھی ،ایک مرتبہ بیس فاقے گذرے میرے پاس کھانے پینے کا سامان کچھ نہ تھا۔ ایوان کسریٰ کی طرف گیا کہ کچھ مل جائے تو کھانے کا سامان ہو وہاں میں نے ستّر اولیا کو پایا کہ وہ سب کے سب اسی حالت وکیفیت میں مبتلا تھے جس میں میں تھا۔ وہاں سے واپس آیا تو ایک شخص نے ایک ٹکڑا چاندی کا دے کر کہا کہ یہ تمھاری والدہ نے بھیجا ہے اس میں سے کچھ اپنے پاس رکھا اور کچھ فقرا کو دیا ۔جو اپنے لیے رکھ لیا تھا اُس کا کھانا خرید لیا اور فقرا کے ساتھ مل کر کھایا ۔ایک مرتبہ ایسا ہی اور اتفاق ہوا کہ بغداد میں گرانی تھی اور مجھے کھانے پینے کی طرف سے تنگی تھی، کئی دن سے مجھے کچھ میسر نہ آیا تھا۔ جنگل میں جاتا تو گٹھلیاں یا بقولات کی پتی جو کچھ مل جاتی کھاتا ۔ ایک دن اسی خیال سے دریا کے کنارے گیا وہاں اور بھی فقرا کو دیکھا کہ وہ بھی اس تلاش میں ہیں ،شہر میں بھی بہت کچھ جستجو کی مگر کچھ میسر نہ آیا۔ نا گاہ ایک مسجد میں پہنچا جو بازار ریحا میں واقع تھی، بھوک کی شدت اور نا توانی کے سبب ہل نہ سکتا تھا۔ ایک جوان عجمی مسجد کے گوشہ میں بیٹھ کر روٹی کھانے لگا۔ میرے نفس نے کئی بار چاہا کہ شریک ہو جاؤں مگر میں نے روکا۔ اُس جوان نے مجھے دیکھا اور کھانے کے لیے اصرار کیا۔ اثناے گفتگو میں میرا حال پوچھنا شروع کیا کہ کون ہو اور کیا شغل رکھتے ہو اور کہاں کے رہنے والے ہو؟ میں نے نام بتایا اور کہا کہ طالب علم ہوں جیلان کا رہنے والا ہوں، اُس نے کہا میں بھی وہیں کا رہنے والا ہوں ۔ تب اُس نے پوچھا تم پہچانتے ہو کہ ایک نوجوان طالب علم جیلان کا رہنے والا عبد القادر نامی فلاں خاندان کا یہاں ہے؟ میں نے کہا وہ میں ہوں۔ اُس کا چہرہ متغیر ہو گیا اور کہا کہ اتنے روز بغداد میں آئے ہوئے مجھے ہوئے تمہارا حال دریافت کیا ،کسی نے نہ بتایا۔ خرچ میرا چک گیا میرے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ تھا بجز تمھاری امانت کے، جب تین دن گذر گئے تمھاری امانت میں سے میں نے روٹی خریدی جسے میں نے اور تم نے شریک ہو کر کھایا۔ مجھے تعجب ہوا کہ یہ کیا کہتا ہے، جب اُس نے کہا کہ تمھاری والدہ نے آٹھ دینار دیے تھے ان میں سے میں نے بہ مجبوری یہ روٹی خریدی اور جو کچھ باقی تھا اس کو دے دیا اور کچھ ا اپنی طرف سے اور دے دیا ۔
دور مجاہدہ اور شیخ حماد کی صحبت:آپ فرماتے ہیں کہ میں عراق کے جنگل اور ویرانوں میں پچیس برس تنہا پھرتا رہا،نہ مخلوق مجھے جانتی نہ میں مخلوق کو پہچا نتا ۔ رجال الغیب اور جنات کی قو میں مجھ سے ملتی تھیں میں ان کو اللہ کا راستہ بتا تا تھا ۔ اولاً جب میں عراق میں داخل ہوا تو حضر میرے رفیق تھے، میں ان کو پہچانتا نہ تھا۔ انھوں نے مجھ سے شرط کی کہ میں اُن کے خلاف نہ کروں، مجھے وہ ایک جگہ بیٹھا گئے میں تین برس بیٹھارہا وہ سال میں ایک مرتبہ مجھ سے ملتے اور دُنیا عجائب وغرائب کی صورتوں میں میرے سامنے آتی میں اس کو دفع کرتا۔ شیطان مختلف پیرایہ میں میرے سامنے آتا اور بہکا نا چاہتا ،اللہ کی عنایت سے میں بچارہا، حتیٰ کہ کوئی طریقہ مجاہدہ کا باقی نہیں رہا۔
میں نے برسوں جنگل کی پتیاں کھا ئیں اور پانی نہیں پیا اور برسوں کھایا اور پیا کچھ نہیں اور برسوں نہ کچھ کھایا نہ پیانہ سویا ۔ایک مرتبہ چاہا کہ بغداد سے نکل کر کہیں چلا جاؤں اس لیے کہ بغداد میں بڑے فتنے تھے۔ قرآن بغل میں دبایا اور باب حدیبیہ کے جانب سے چاہا کہ کسی جنگل کو نکل جاؤں لیکن ایک آواز سنی کہ کہاں جاتے ہو لوگوں کو تم سے نفع پہنچے گا۔ میں نے کہا کہ خلق سے مجھے کیا مطلب مجھے اپنے دین کا بچانا منظور ہے۔ تو اس نے کہا کہ دین تمھارا محفوظ ہے اور کہنے والے کو میں دیکھتا نہ تھا پھر مجھ پر ایسے احوال جاری ہوئے کہ خُدا سے دعا کرنے لگا کہ کوئی ایسا ہے جس سے میری مشکل آسان ہو؟ جب دوسرے دن مراقبہ میں گیا تو ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اپنا دروازہ زور سے کھولا اور کہا کہ اے عبد القادر آؤ ۔میں گیا اور تھوڑی دیر ٹھہرا، اس نے کہا کہ تم نے رات کو خدا سے کیا دعا کی تھی؟ میں چُپ رہا اور تامل میں تھا کہ کیا جواب دوں! اس کو غصہ آیا اور زور سے دروازہ بند کر لیا کہ غبار اڑ کر میرے منھ پر گرا۔ تھوڑی دور چلا تب مجھے خیال آیا کہ یہ شخص کوئی بڑا بزرگ ہے، لوٹ کر دروازہ ڈھونڈھنے لگا تو نہ ملا، نہایت پریشان ہوا۔ وہ شیخ حماد تھے بعد میں ان کو میں نے پہچانا اور اُن کی صحبت میں رہا ،ان کے فیضان صحبت سے میری ساری مشکلیں آسان ہو گئیں وہ بعض وقت مجھ سے سختی سے پیش آتے اور امتحاناً سخت کلامی کرتے تو میں بنظر ادب سکوت کرتا۔
بارگاہ رسالت سے وعظ نصیحت کرنے کا حکم: ابتداءً جب میں بغداد میں آیا تو میرے دل میں حقائق اور معارف کی باتیں جوش زن ہوئیں اور میرے دل میں یہ بات ڈال دی گئی تھی کہ بغداد جاؤ اور لوگوں کو اللہ کا راستہ بتاؤ۔ میں اس خیال سے کہ مجھے خلق سے کیا نسبت؟ مطلب بیان کرنے میں تامل کرتا رہا اور یہ خیال کرتا رہا کہ میں عجمی ہوں فصحاے بغداد کے سامنے اپنی زبان کیسے کھولوں ،اتنے میں ظہر کے وقت دیکھتا کیا ہوں کہ انوار میری طرف متوجہ ہیں ،تعجب ہوا کہ یہ کیا حالت ہے۔ مجھ سے کسی نے کہا کہ حضرت سرور کائنات کے فتوحات جو خدا کی جانب سے تمھیں حاصل ہیں، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تمھیں مبارکباد دیتے ہیں۔ میں نے نظر اٹھائی تو منبر کے سامنے ہوا میں حضرت کا جمال با کمال دیکھا۔ آپ نے فرمایا کہ اے عبد القادر! تم لوگوں کو وعظ ونصیحت کیوں نہیں کرتے ؟میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں عجمی ہوں، فصحاے عرب کے سامنے کیسے زبان کھولوں ؟ آپ نے سات بار اپنا لعاب دہن میرے منھ میں ڈال دیا اور تشریف لے گئے، پھر حضرت علی نے تین بار لعاب دہن میرے منھ میں ڈالا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ نے حضرت کی طرح کیوں نہیں کیا؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے بلحاظ ادب حضرت کے برابری نہیں کی، پھر حضرت نے مجھے خلعت پہنایا اور یہ فرمایا کہ یہ خلعت ولایت اور قطبیت کی ہے۔ اُسک ے بعد قلب پر علوم حقائق فیض کیے گئے، پھر تو آپ کے بیان میں اس قدر مجمع ہونے لگا کہ جگہ نہ ملتی تھی، حتیٰ کہ شہر کے باہر عیدگاہ میں بیان فرمانے لگے ،لوگ سواریوں پر سوار ہو کر آتے اور رات سے شمع اور مشتعل جلا کر چلتے کہ پہلے سے جگہ لے رکھیں، ستر ہزار آدمی جمعہ میں ہوتے۔ ایک روز آپ وعظ فرمارہے تھے اور دفعتاً چند قدم ہوا میں اُڑے اور یہ فرمایا کہ یا اسرائیلی قف فاسمع کلام محمدی انت اسرائیلی وانا محمدی، جب اپنی جگہ پر آئے تو لوگوں نے اس کا سبب پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت موسیٰ کو ہوا میں دیکھا اور اُن سے یہ باتیں ہوئیں جو تم نے سنیں۔
ارشاد:آپ فرماتے ہیں کہ کسی شیخ کو جائز نہیں کہ سجادہ ارشاد پر بیٹھے جب تک اُس میں بارہ خصلتیں پوری نہ ہوں۔ دو خصلتیں اللہ کی، دورسول کی، دو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی، دو عمر رضی اللہ عنہ کی، دو عثمان رضی اللہ عنہ کی اور دوعلی رضی اللہ عنہ کی ۔ اللہ کی دو خصلتیں تو یہ ہیں کہ ستار و غفار ہو اور رسول کی دو خصلتیں یہ ہیں کہ شفیق ورفیق، اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی دو خصلتیں یہ ہیں کہ آمرونا ہی ہو اور عمر کی خصلتیں یہ ہیں کہ عادل و بے باک ہو اور عثمان رضی اللہ عنہ کی دو خصلتیں یہ ہیں کہ مساکین کو کھانا کھلائے اور رات کو نماز پڑھے جب لوگ سوتے ہوں، اور علی رضی اللہ عنہ کی دو خصلتیں یہ ہیں کہ عالم ہو اور شجاع و دلیر ہو۔
شان رفیع:آپ کے زمانہ کے مشائخ کبار آپ کا بڑا ادب کرتے اور نہایت تعظیم سے پیش آتے، عبد اللہ حیای کہتے ہیں کہ حضرت شیخ کا ایک خادم تھا عمر حلاوی نام کا وہ بغداد سے کہیں چلا گیا اور کئی برس تک کہیں غائب رہا ،جب لوٹ کر آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ کہاں تھا ؟ اس نے کہا کہ بلا د شام و مصر و مغرب و عجم میں پھرتارہا اور قریب قریب ۳۶۰ اولیا سے ملا مگر ہر ایک کو یہی کہتے سنا کہ ہمارے شیخ و مرشد شیخ عبدالقادر ہیں۔ شیخ ابوالنجیب سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں بغداد میں شیخ حماد د باس کے پاس 523 ہجری میں تھا اس وقت شیخ عبدالقادر اُن کے پاس تھے، ایک بات انھوں نے بہت جرأت کی کہی۔ شیخ حماد نے کہا کہ عبدالقادر ایسی بات نہ کہا کر و،اللہ سے ڈرو، مبادا ان معاملات میں کوئی مکر پوشیدہ ہو۔ حضرت شیخ عبد القادر نے اپنا ہاتھ شیخ حماد کے سینہ پر رکھا اور کہا کہ دل کی آنکھ سے دیکھیے میرے سینہ میں کیا تحریر ہے؟ اُن پر حال طاری ہو گیا جب میں نے اُن کے سینہ سے ہتھیلی اٹھائی تو فرمایا کہ میں نے آپ کے ہتھیلی میں یہ تحر یر لکھی ہوئی دیکھی کہ عبد القادر نے اللہ سے ستر بار عہد لیا ہے کہ اُن کے ساتھ مکر نہ کیا جائے گا۔ شیخ حماد نے کہا کہ تمھیں اب کچھ ڈر نہیں ہے جو چاہے سو کہو ۔ذ لک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔
حضرت ابو مسعود عبد اللہ اور محمد عوانی اور عمر بزاز فرماتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر نے اپنے مُریدوں کے لیے اللہ سے عہد لے لیا ہے کہ کوئی ان میں سے بے تو بہ نہ مرے۔ اللہ نے اُن سے وعدہ کر لیا ہے کہ ان کے مریدوں کو جنت میں داخل کرے گا۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں اپنے مریداور مرید کے مریدوں کے لیے ستر درجہ تک کفیل ہوں کہ وہ مغرب میں ہوں یا مشرق میں تو میں وہیں سے اُس کی حفاظت کر سکتا ہوں۔
فائدہ: اللہ سے مریدوں کے لیے عہد و پیمان لے لینا بظاہر تو مستبعد معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں یہ ہے کہ معاملہ خاص اہل اللہ کا اللہ کے ساتھ ہے۔ مرید حقیقت میں وہ ہوتا ہے جو عادت وسیرت میں پیر کا قدم بقدم ہو اور کم سے کم یہ ہے کہ پیر کے ساتھ اخلاق و محبت پوری طور سے رکھتا ہو۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اَلَا اِنَّ اَوْلِيَاءَ الله لَا خَوفٌ عَلَيْهِم وَلَا هُم يَحْزَنُونَ۔
اس آیت کا مقتضی یہ ہے کہ اولیا اللہ کونہ کسی طرح کا غم وخوف نہ کسی قسم کا رنج و ملال اور اپنے خالص و مخلص کا مبتلاے عذاب دیکھنا یہ بھی من جملہ حزن و ملال کے ہے جو اولیاء اللہ کے لیے بہ نص قرآنی منفی ہے۔
دوسرے یہ کہ مرید جو پیر کا قدم بقدم پیرو ہو وہ بمنزلہ اولاد کے ہے اور اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتُهُم ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِم ذُرِّيَّتَهُم ۔
اوراسی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ المرءُ مَع مَنْ أَحَبَّهُ آدمی اُس کے ساتھ ہے جسے چاہے۔ احب الصالحین ولست منہم لعل يرزقنی صلاحاً.
شیخ عمر بزاز فرماتے ہیں کہ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ حسین حلاج سے لغزش ہو گئی، افسوس اُن کے زمانہ میں کوئی ایسا نہ تھا جو ان کا ہاتھ پکڑ کر ترقی کرا دیتا۔ میں ہوتا تو اُن کو اُن کے مقام سے کھینچ لاتا اور میں قیامت تک اپنے مریدوں اور دوستوں اور ارادت مندوں میں سے جس سے لغزش ہو دستگیری کروں گا۔
صاحب تحفۃ الراغبین لکھتے ہیں کہ مطلب اس کا یہ ہے کہ منصور مرتبۂ اطلاق میں جا کر پابند ہو گئے تھے اور وہاں سے ترقی نہیں کر سکتے تھے ،اگر میں ہوتا تو مرتبہ صحومحمدی میں اور مقام عبدیت خالصہ میں پہنچا دیتا۔
ابراہیم ابن سعد لکھتے ہیں کہ شیخ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ سے منصور حلاج کا کسی نے حال پوچھا، تو آپ نے فرمایا کہ اُن کے دعوے بڑھ گئے تھے اس لیے مقراض شریعت سے کتر دیے گئے۔
حضرت شیخ عبدالوہاب آپ کے صاحب زادے فرماتے ہیں کہ میرے والد ہفتہ میں تین باروعظ فرماتے ۔ مدرسہ میں جمعہ کی صبح اور منگل کی شام کو اور رباط میں اتوار کی صبح کو۔ بڑے بڑے علما، فقہا اور مشائخ حاضر ہوتے، چالیس برس تک وعظ فرمایا جس کی ابتدا 521ھ اور انتہا 561ھ میں ہوئی، 13 برس تک درس و فتوی دیتے رہے۔ اکثر ان کی مجالس میں ایسی حالت لوگوں پر طاری ہوتی کہ ایک دو ہلاک ہو جاتے اور قریب قریب 400 آدمی لکھنے بیٹھتے مگر لکھ نہ سکتے اور کوئی مجلس آپ کی ایسی نہ تھی جس میں کچھ یہود و نصاریٰ مسلمان نہ ہوتے اور دو ایک قطاع الطریق اور چور مشرف بہ توبہ نہ ہوتے۔ ایک بار ایک راہب آپ کے ہاتھ پر اسلام لایا اور کہنے لگا میں یمن کا رہنے والا ہوں اسلام کی محبت میرے دل میں پیدا ہوئی مگر یہ ارادہ ہوا کہ ایسے شخص کے ہاتھ پر اسلام لاؤں جو زمانہ میں سب سے بڑا ہو، چناں چہ خواب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا ،فرماتے ہیں ؛بغداد جا اور شیخ عبد القادر کے ہاتھ پر اسلام لا ،اس لیے کہ اس زمانہ میں اُن سے بہتر اور برتر کوئی نہیں۔
ایک روز 528ھ میں خود منبر پر فرمایا کہ میں نے پچیس برس تک عراق کے جنگلوں اور ویرانوں میں تنہا پھر کر بسر کی اور چالیس برس تک عشا کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی۔ ایک پیر پر کھڑے ہو کر قرآن شروع کرتا اور دیوار میں ایک میخ گڑی ہوئی تھی اس کو پکڑ کر صبح تک کھڑے کھڑے قرآن ختم کرتا ،میں برج عجمی میں گیارہ برس تک رہا ہوں۔
میں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ کچھ نہ کھاؤں گا جب تک نہ کھلایا جاؤں اور نہ پیوں گا جب تک نہ پلایا جاؤں ۔40 دن تک برابر بے آب و دانہ بسر کی، 40 دن کے بعد ایک شخص میرے پاس آیا اور کچھ کھانا میرے سامنے دھر کے چلا گیا نفس نے تو بہت چاہا کہ کچھ کھا لینا چاہیے مگر میں نے
کہا کہ چاہے کچھ ہو عہد کے خلاف ہر گز نہ کروں گا۔ اتنے میں ابو سعید مخزومی میرے پاس آئے اور مجھ سے پوچھنے لگے ۔ میں نے کہا کہ نفس کو بھوک کے سبب سے بہت قلق واضطراب ہے مگر خدا کی عنایت سے روح کو پورا پورا اطمینان ہے۔ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ باب امزج میں آؤ اور یہ کہہ کے چلے گئے۔ میں نے جانے میں تامل کیا اور اپنے دل میں کہا کہ اپنی جگہ سے کیسے عہد کے خلاف جنبش کروں اتنے میں خضر میرے پاس تشریف لائے اور کہا کہ اٹھو اور ابوسعید کے پاس جاؤ میں شیخ ابوسعید کی خدمت میں آیا تو دیکھا کہ وہ میرے منتظر دروازے پر کھڑے ہیں۔ مجھ سے کہا کہ تم نے میری بات کا اعتبار نہ کیا ،اچھا آؤ میرے ساتھ چلو ۔مجھے لے گئے اور اپنے ہاتھ سے خرقہ پہنایا۔ مدت تک آپ کی خدمت میں اذکارواشغال میں رہا۔
روحانی تصرفات:ابراہیم داری کہتے ہیں کہ شیخ کواللہ کی بارگاہ میں ایسی مقبولیت تھی کہ جب آپ جمعہ کی نماز کے لیے جامع مسجد تشریف لے جاتے تو لوگ پہلے سے سڑکوں اور راہوں پر منتظر کھڑے رہتے کہ آپ نکلیں تو آپ سے اپنے مقاصد کے لیے ایک بار دعائیں کرائیں۔ ایک بار جمعہ کے دن مسجد میں چھینک آئی لوگوں نے جواب دیا، یر حمک اللہ ۔اس قدر شور ہوا کہ تمام مسجد گونج اُٹھی۔ مستنجد باللہ خلیفۂ وقت کمرہ میں بیٹھا تھا شور سن کر گھبرایا اور لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا شور ہے؟ لوگوں نےجواب دیا کہ شیخ عبد القادر صاحب کو چھینک آئی ہے۔
ایک دن آپ ممبر پر بیٹھے ابھی کچھ فرمایا نہیں اور نہ کوئی آیت پڑھی مگر دفعتاً لوگوں پر وجد کی ایک کیفیت نہایت شدت سے طاری ہوئی، سب کو حیرت تھی کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ا ایک شخص بیت المقدس سے میرے ہاتھ پر تو بہ کرنے کو ایک قدم میں یہاں آیا اور یہ سب حاضرین اس کی ضیافت میں ہیں۔ بعضوں کو یہ خیال گذرا کہ جس شخص میں یہ قوت و قدرت ہو کہ ایک قدم میں بیت المقدس سے یہاں آئے اُس کو توبہ کی کیا ضرورت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ جو شخص ہوا میں اُڑتا ہو اس کو بھی حاجت ہے کہ محبت کا راستہ کسی شیخ سے سیکھے۔
شیخ عدی ابن مسافر فرماتے ہیں کہ ایک دن آپ کے وعظ فرماتے ہی دفعتاً پانی برسنے لگا۔ حاضرین مجلس پریشان ہو کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا کہ میں تو لوگوں کو جمع کرتا ہوں اور تو اُن کو متفرق کرتا ہے۔ یہ فرمانا ہی تھا کہ مینہ رک گیا ،مدرسہ کے باہر برستا مگر مدرسہ کے اندر نہ برستا۔ اسی طرح ایک روز وعظ میں آپ قضا و قدر کا بیان فرمار ہے تھے کہ دفعتاً ایک کالا سانپ آیا اور آپ کے بدن سے لپٹ گیا۔ مجلس والوں کو کسی قدر خوف ہوا مگر آپ کو ذرا بھی تغیر نہ ہوا ۔جب مجلس برخاست ہوئی اور لوگ چلے تو سانپ بھی چلا اور آپ سے اس نے کچھ باتیں کیں جب وہ چلا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس نے مجھ سے کہا کہ آپ مجھ سے کیوں نہ ڈرے اور مجھ سے پر ہیز کیوں نہ کیا؟ میں نے کہا کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ سارے کام قضا و قدر سے ہوتے ہیں، میں تقدیر کا بیان کر رہا تھا، اگر ذرا بھی مجھ میں تغیر ہوتا تو علماے بے عمل میں داخل کر دیا جاتا۔ سانپ نے کہا کہ میں نے کتنوں کو آزمایا گر تقدیر پر بھروسا کرنے والا تم ہی کوٹھیک پایا۔
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں ایام جوانی میں علم کلام میں مشغول رہتا تھا اور بہت سی کتابیں علم کلام اور منطق کی یاد بھی کر لی تھیں اور میرے چچا مجھے ان علوم کو پڑھنے سے روکتے تھے ۔ ایک دن وہ مجھے شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں لے آئے اور عرض کیا کہ یہ میرا بھتیجا علم کلام میں بہت مشغول رہتا ہے ہر چند روکتا ہوں مگر باز نہیں آتا۔ آپ نے فرمایا کہ کون کون سی کتابیں علم کلام کی حفظ کی ہیں ؟میں نے عرض کی فلاں فلاں ۔ آپ نے اُسی وقت اپنا دست مبارک میرے سینہ پر پھیرا ہنوز ہاتھ اُٹھایا نہ تھا کہ وہ سب کتابیں مجھے بھول گئیں ،نہ کوئی حرف مجھے یاد رہا نہ کوئی مسئلہ، اور پھر اُسی وقت میرے سینہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسے علوم بھر دیے کہ عقل و فہم کے احاطہ سے باہر ہیں پھر مجھے آپ نے دعا دی کہ تو آخر عمر میں عراق کے صوفیہ کا سردار ہوگا۔
حیائی کہتے ہیں کہ میں حضرت کی کتاب حلیۃ الاولیا مطالعہ کیا کرتا، اُس کے دیکھنے سے دل میں شوق پیدا ہوا اور یہ خیال پیدا ہوا کہ خلق سے علیحدہ ہو کر کسی گوشہ میں جا کر بیٹھوں اور عبادت میں مشغول ہوں، اتفاقاً عصر کی نماز آپ کے پیچھے ادا کی، نماز کے بعد آپ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا کہ خلق سے علیحدگی کا ارادہ ہے تو پہلے فقہ حاصل کر لو اور کسی شیخ کی خدمت میں کچھ روز حاضر رہو، بعدہ تم میں صلاحیت علیحدگی کی ہو جائے گی ورنہ شمع کی مانند ہو جاؤ گے کہ اور تو اس کی روشنی سے بہر یاب ہیں اور وہ خود بے بہرہ۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org