فکر امروز
جدید تقاضوں کی روشنی میں
خطاب بموقع (دو روہ ورکشاپ برائے نصاب مدارس و قومی تعلیمی پالیسی 2020ء)
منعقدہ 10-11 اگست 2024ء مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
مفتی بدر عالم مصباحی
کنونشن میں تشریف فرما حضرات بخوبی واقف ہیں کہ خالق کائنات نے نوع انسانی کی تخلیق فرمائی تو انہیں فرش زمین پر خوش گوار لمحات حیات گزارنے کے لیے تمام تر میدان عمل میں کار آمد نصاب و نظام زندگی بھی عطا فرمائے جس کا دائرہ اثر بہت ہی جامع، عظیم اور وسیع ہے ۔ پیدائش کے پہلے سے لے کر مرنے کے بعد تک زندگی کے تمام تر گوشوں مثلاً ایمانیات، عبادات، اخلاقیات ،معاشرت ، معاملات اور امور ریاست و غیرہ سینکڑوں شعبۂ حیات کا اجمالی اور تفصیلی طور پر ہر اعتبار سے احاطہ کیےہوئے ہے۔ خداے وحدہ لاشریک نے اہل ایمان کے حق میں تعلیم کا منہج،مقصد اور نصاب متعین فرماتے ہوئے اپنی منشا کا اظہار اس انداز میں فرمایا:
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةًؕ- فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ. ( القرآن الكريم ،سورةالتوبة، رقم الآيه 122 )
اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہو ا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں۔
اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ نوع انسانی سے کچھ ایسے افراد ضرور ہونے چاہیے جو تفقہ فی الدین حاصل کریں اور خدائے وحدہ لا شریک کے آخری پیغام دین اسلام کے اسرار و رموز، حکمت و مصالح کی گہری سمجھ رکھتے ہوں، پھر اپنی قوم کی اصلاح و دعوت رشد و ہدایت ،امامت و قیادت جیسا پاکیزہ اہم اور بنیادی فریضہ انجام دیں۔
حضرت آدم سے لے کر سید الانبیا و المرسلین صلوات اللہ تعالیٰ وسلامہ علیہم اجمعین۔ تک سب اسی منہج پر منصب نبوت و رسالت کے فرائض انجام دیتے رہے ۔
اس اہم مقصد کے لیے پیغمبر اسلام محمد عربی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے تمام تر انسانیت کے لیے مفید اسلامی علوم سیکھنے سکھانے کی خاطر مدینہ طیبہ میں سب سے پہلی عظیم الشان درسگاہ دینی جامعہ مدرسہ صفہ قائم فرماکر پوری دنیا کو یہ عملی پیغام دیا کہ کہ انسانیت کے حق میں مفید اور صالح افکار ونظریات سپلائی کرنےکامضبوط ومحکم پلیٹ فارم دینی ماحول میں چلنے والے ادارے ،جامعات تعلیمی مراکز اور مدارس ہی ہیں ۔
یہیں سے اسلام کے عقائد حقہ احکام و مسائل دینیہ کی ترویج واشاعت کے بنیادی فریضہ کی ادائیگی عمل میں آتی ہے ۔ اور زندگی کے مختلف شعبوں میں دینی تعلیمات کے مطابق کام کرنے والے افراد کی تیاری میں فیکٹری کاکام بھی مدارس ہی کرتے ہیں، گویا مدارس افراد سازی کا ایسا بہترین کارخانہ ہیں جہاں سے ملک اور قوم و ملت کے حق میں مفید اور صالح افراد کی تشکیل اور تعلیم و تربیت کا بنیادی قومی و ملی اور وطنی فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔
اس لیے مدارس اسلامیہ کو بہتر سے بہتر بنانے کی ہر کوشش کو سراہنا اوراس کارخیر میں دامے درمے قدمے سخنےجد وجہد کرنے والی ٹیم کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کی کوشش کرنا ہر دردمند دل رکھنے والے ذمہ دار فرد کے دل کی صدا اور قومی و ملی دینی و دنیاوی ذمہ داری ہے
امام ترمذی ابن ماجہ وغیرہ متعدد محدثین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے مختلف سندوں کے ساتھ روایت فرمایا کہ رسول اعظم خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ فَحَيْثُ وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا.‘‘
حکمت و دانائی کی باتیں اہل ایمان کی گمشدہ دولت ہیں وہ اسے جہاں بھی پائیں انہیں حاصل کرنے کا حق زیادہ پہنچتا ہے(الترمذى (5/ 51) و ابن ماجه (2/ 1395) و القضاعى فى مسند الشهاب (1/ 65)
مشرق سے نہ بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا تقاضا ہے کہ ہر شام سحر کر
اس بات سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتاکہ بیش تر اسلامیات کی بقا وتحفظ کا سینٹر مدارس اسلامیہ ہی ہیں اور یہ حقیقت بھی تسلیم کیا جا ناچاہیے کہ ہردور میں اسلام سے متعلق اعتقادی آوارگی پر قدغن لگانے کی اہم ذمہ داری بھی مدارس اسلامیہ کے پروڈکٹس (PRODUCTS) افراد ہی کماحقہ نبھاتے رہے اور یہی افراد ،اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے پر قادر رہے اس لیے مدارس کے قدیم بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ آج اسلام اور اسلام کے بہت سے بنیادی مسائل پرغیروں بلکہ کچھ اپنے ماڈرن(MODERN) برادران اسلام کی جانب سےبھی سوشل میڈیاپر یلغار ہوتی رہتی ہے پھر میڈیائی پلیٹ فارم پر ڈیبیٹ. (DEBATE) کے لیے ایسے افراد اسلام کےدفاعی وکیل بن کر پہنچ جاتے جنھیں علوم اسلامیہ کیA, B, C, D بھی نہیں معلوم ۔ ایسے حالات میں سوائے جگ ہنسائی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا -
جن بنیادی مقاصد کے لیےمدارس قائم کیے گئے ان مقاصد کوضرب پہنچائے بغیرجدید تقاضوں کی رعایت بھی ضروری ہے ۔ اس لیے مدارس کے نصاب تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش قابل ستائش توہے لیکن یہ خیال ضرور رہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے نام پر مدارس سے علوم اسلامیہ ہی کا جنازہ نہ نکل جائے ۔
کتاب وسنت اسلامیات کے بنیادی مآ خذ اور مصادر ہیں ، اس لیے مدارس اسلامیہ کے نصاب کی تجدیدکاری کے وقت کتاب وسنت کی تفہیم وتسہیل سے متعلق جتنے فنون درکار ہیں انھیں نظر انداز کرنا ہرگز روا ، نہ ہوگا ۔ اس لیے اسلامیات کی بقا وتحفظ کے ہرمخلص دعوی دار اور اسلامیات کے محبین سے عرض گزار ہوں کہ ہم باقی رہیں نہ رہیں ، علوم اسلامیہ کی شایان شان بقا آنے والی مسلم نسلوں کے لیے بہت ضروری ہے ۔ اور علوم اسلامیہ کی کماحقہ بقا وتحفظ مدارس اسلامیہ کے بنیادی نصاب تعلیم کے بغیر ناممکن ہے ۔
ہاں اسی بنیادی نصاب تعلیم سے حاصل علوم اسلامیہ کی تفہیم و ترسیل کے لیے ذرائع ابلاغ کی نئی راہیں تلاش کرنے اور انھیں مدارس میں نافذ کرنے میں حرج نہیں بلکہ وقت کا جبری تقاضا ہےاور اس سلسلے میں کی جانے والی ہر مثبت کوشش قابل عمل اور لائق تعریف و تحسین ہے
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org